یہ دستورِ زباں بندی ….!

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

کس کس موضوع پر بات کریں!

صفورا زرگر اور کئی ایسے نوجوان جنہوں نے سیاہ قوانین کے خلاف مظاہرے کئے تھے۔ رمضان کے مبارک مہینہ میں جیل میں بند ہیں۔ ان کے خلاف ملک سے غداری کے مقدمے درج کئے گئے ہیں۔ اب دہلی مائناریٹی کمیشن کے چیرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے خلاف بھی ملک سے غداری کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔ ہندوستان آج جس بدترین آزمائشی دور سے گذر رہا ہے شاید ایمرجنسی کے دور میں بھی نہ گذرا ہوا۔ جس نے ارباب اقتدار کے خلاف زبان کھولی‘ دیش کا غدار۔ جس نے اس کی کارکردگی سے متعلق سوال پوچھا‘ وطن دشمن! جس نے اپنے دستوری حق کے تحفظ کے لئے آواز بلند کی‘ وہ پاکستانی ایجنٹ! اور جو علی الاعلان ہندوستان کی عالمی برادری میں شرمندگی کے ذمہ دار ہیں‘ جنہوں نے اس ملک کے کردار کو پامال کردیا، جنہوں نے پولیس کی موجودگی میں ہتھیاروں کا استعمال کیا، ایک مخصوص فرقہ پر حملے کئے، قتل عام کیا، چن چن کر مسلمانوں کے کاروبار کو تباہ و برباد کیا وہ دیش کے وفادار! جن کے لئے کوئی قانون نہیں۔ زبان کھولنے والے سلاخوں کے پیچھے اور ریوالور سے فائرنگ کرنے والے‘ حملوں کیلئے اُکسانے والے، سڑکوں پر دندناتے پھررہے ہیں۔ مسلم ممالک نے آواز اٹھائی، احتجاج کیا، اپنے ملک سے ہندو شہریوں کو واپس کردینے کی دھمکی دی۔ اور صرف مسلم ممالک میں ہی نہیں‘ امریکہ اور یوروپ نے بھی تو ہندوستانی حکومت کے خلاف اپنے ریکارڈس میں شدید سخت الفاظ میں ریمارکس کئے۔ اور یہ کوئی نئی بات نہیں! جب جنوبی افریقہ نے سیاہ فام عوام کے ساتھ نسلی تعصب کا مظاہرہ کیا تو ایک طویل عرصہ تک اس کا عالمی برادری نے بائیکاٹ کیا۔ جب اس نے اپنی پالیسی تبدیل کی تو پھر اسے عالمی دھارے میں واپس لایا گیا۔ گاندھی جی نے انگریزوں کے خلاف اعلان بغاوت کب کیا تھا؟ جب چمپارن کے کسانوں کے ساتھ ان کا برتاؤ غیر انسانی تھا اور خود انہیں چلتی ٹرین سے محض اس لئے باہر پھینک دیا گیا تھا کہ انہوں نے فرسٹ کلاس کمپاٹمنٹ میں سفر  کیا تھا جس میں سفر کا حق صرف گورے انگریزوں کو تھا۔ مذہبی، لسانی اور نسلی بنیادوں پر جب کبھی دنیا میں تعصب اور امتیاز برتا جاتا ہے‘ تو کچھ عرصہ تک چل جاتا ہے‘ مگر ایک وقت آتا ہے جب ساری دنیا اس کے خلاف ہوجاتی ہے۔ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان کے درمیان نفرت کی دیوار انگریزوں نے تعمیر کی۔ جن سنگھ، سنگھ پریوار، انگریزوں کے غلام بھی رہے۔ اور آلہ کار بھی۔ انہوں نے وہی پالیسی اختیار کی جو انگریزوں کی رہی۔ انگریز ہندوستان سے واپس ہوکر سدھر گئے۔ مگر جس طرح جاتے جاتے انہوں نے ہندوستانیوں کو چائے کا عادی بنادیا اُسی طرح ہندوستانی عوام کے مزاج میں فرقہ پرستی کا زہر بھی گھول دیا۔ ہندوستان میں فرقہ پرستی ہر دور میں رہی‘ آزادی کے بعد سے آج تک فرقہ وارانہ فسادات ہوتے رہے مگر یہ فسادات سیاسی نوعیت کے ہوا کرتے تھے۔ فسادات ہوتے تھے ایک دوسرے پر شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا۔ کچھ دن بعد سب کچھ بھلاکر سب ہندوستانی بن جاتے۔

سنگھ پریوار نے ہندو راشٹر بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس میں 90فیصد کامیاب ہوئے ہیں‘ کیوں کہ آج ہندؤوں کی اکثریت نہ چاہتے ہوئے بھی بی جے پی کو اس لئے اقتدار میں لانا چاہتی ہے کہ اس نے مسلمانوں کو اس کی اوقات دکھائی۔ ان کے لئے مودی واحد لیڈر ہیں‘ جس نے ہر وہ قانون بنایا یا ختم کیا جو مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کے سبب بنے۔ 2014ء کے بعد جو شدت پسندی ہندوستان میں نظر آنے لگی ہے‘ وہ سنگھ پریوار کی ایک سو سالہ منظم سازش اور کوشش کا نتیجہ ہے۔ جس طرح سے انہوں نے کروڑ اسکولی طلبہ، کالج اسٹوڈنٹس، گریجویٹس، اسکالرس، وکلاء، بیوروکریٹس، آئی ٹی پروفیشنلس اور خاص طور پر خواتین کی ذہنی اور فکری تربیت کی اس کی وجہ سے آج کے حالات ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہندو راشٹر بنانا اتنا آسان بھی نہیں کیوں کہ جس دن ہندو راشٹر بن جائے گا اس دن بی جے پی ختم ہوجائے گی۔ کیوں کہ مقصد کی تکمیل کے بعد اس کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ جب کم مسلمان اس ملک میں ہے بی جے پی کو بھی الیکشن لڑنے کا موضوع ملے گا۔ سنگھ پریوار کو ملک ا ور بیرون ملک سے فنڈس اکٹھا کرنے کا بہانہ رہے گا۔ ایک ہندو راشٹر سے کونسا ملک سفارتی تعلقات قائم رکھنا چاہے گا۔ 50سے زائد مسلم ممالک اب خواب غفلت سے کسی حد تک جاگے ہیں کرونا وائرس نے ایک بار پھر زمین دیکھ کر چلنے کیلئے مجبور کیا ہے۔ اپنے اپنے ملک کو اور زیادہ دولت مند بنانے کیلئے ان مسلم ممالک نے مذہبی شعائر سے سمجھوتہ کیا ہے۔ کیسینوز، سنیما گھر، نائٹ کلبس، آزادیئ نسواں کے نام پر بے پردگی کو متعارف کروایا۔ دولت تو کیا آتی‘ رہی سہی دولت بھی ہاتھ سے نکل گئی۔ اللہ کا شکر ہے کہ انہیں یہ احساس ہوا کہ دنیا میں ان کے علاوہ بھی دوسرے ممالک میں مسلمان بستے ہیں‘ اور دنیا کے تمام مسلمانوں میں لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا رشتہ ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے، یہاں کی مساجد شہید کی جاتی ہے تب بھی شاید اسی ممالک خاموشی اختیار کرتے مگر سنگھ پریوار کے احمقوں نے اپنے لیڈرس کو خوش کرنے کیلئے سوشیل میڈیا پر مسلم ممالک کے مسلمانوں اور اسلام کیخلاف ریمارکس کئے جس کی وجہ سے مسلم ممالک انکے خلاف کاروائی کرنے کیلئے مجبور ہوگئے۔ بی آر شیٹی کے فراڈ نے آگ پر تیل کا کام کیا۔ یواے ای کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کو یہ احساس ہوا کہ لااعتبار کرکے انہوں نے اچھا نہیں کیا۔ڈاکٹر ظفرالاسلام خان نے جو ٹوئیٹ کیا، جس پر وہ قائم ہیں‘ ان کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو شاید اسکے احساسات بھی وہی ہوتے، اسے بہانہ بناکر ملک سے غداری کا الزام اور مقدمہ مسلمانوں کی آزادی اور حقوق کو سلب کرنے کی کوشش ہے۔عالمی برادری اس پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے‘ اور اس سے ہمارے ملک کی ساکھ اور زیادہ متاثر ہوگی۔

یہ المیہ ہے کہ قانون اور انصاف کے رکھوالے اور ادارے بھی اب قابل اعتبار نہیں رہے۔ پہلے ان کا احترام کیا جاتا تھا‘ آج انہیں اقتدار کے ایوانوں کا دلال کہا جارہا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اعلیٰ عہدوں کی لالچ میں اپنے ملک اور اس کے دستور اور قانون کو جس طرح سے ان کے ہاتھوں پامالی ہورہی ہے‘ اس کے بعد شریف گھرانوں کے نوجوان اس پیشہ سے وابستہ ہونا نہیں چاہینگے۔ ویسے بھی بہت کم مسلم ہیں‘ جو پیشہ قانون کو اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ہماری ناکامی پسپائی کی ایک وجہ یہی بھی ہے۔ ظفرالاسلام خان مائناریٹی کمیشن کے چیرمین ہیں‘ یوں تو مسلمانوں سے متعلق اداروں کے ذمہ داروں کے عہدوں پر حالیہ عرصہ کے دوران ایسے عناصر کے تقررات ہوئے ہیں‘ جو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بکواس کرتے ہیں۔ جن کے نام مسلمانوں جیسے ہیں مگر ان کی کئی پشتوں کااسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ان میں سے بیشتر وہ ہیں جنہوں نے ہر دور میں اسلام میں تفرقہ پیدا کیا۔ اپنے مفاد کیلئے مسلم قوم کو بیچ دیا۔ ظفرالاسلام خان ایک سچے مسلمان ہیں۔اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ایک صحافی کی حیثیت سے قدر اور منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ قوت ایمانی سے سرشار ہیں۔ اسی لئے وہ اس مقدمہ سے پریشان نہیں ہیں۔ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ باطل طاقتیں وقتی طور پر کامیاب ضرور ہوتی ہے مگر ہمیشہ کیلئے ختم ہوجاتی ہے۔یہ وقت افسوس، گلے اور شکوے کا نہیں۔ بلکہ ہر اُس فرد کی ہمت بندھانے، اس کے ساتھ یگانگت کے اظہار کا ہے جو ملی مفادات کیلئے اپنے آپ کو داؤ پر لگادیتا ہے۔ اچھے وکلاء کی خدمات حاصل کی جانی چاہئے۔ ہمارے پاس فیضان مصطفےٰ جیسے بہترین ماہرین قانون موجود ہیں‘ جو رہنمائی کرسکتے ہیں۔ جس طرح سے وہ این ڈی ٹی وی پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں‘ جس طرح سے وہ اپنے یوٹیوب چیانل پر حوصلہ افزاء باتیں کرتے ہیں اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اپنے مستقبل کی پرواہ نہیں ہے‘ انہیں اپنے قوم کا مفاد زیادہ عزیز ہے۔جس طرح سے جسے چاہے سلاخوں کے پیچھے پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے‘ جس طرح سے مقدمات دائر کرکے زبان بندی کی جارہی ہے کیا اسے روکا نہیں جاسکتا؟ وہ قوانین جس کا مقصد حق اور انصاف کی آواز کو دبانا ہے کیا انہیں‘ چیالنج نہیں کیا جاسکتا؟ بہت ساری باتوں پر سنجیدگی سے‘ ایمانداری سے غور کرنے اور پھر جو نتیجہ اخذ کیا جائے اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔

صفورا زرگر جیسی حاملہ خاتون اسکالر، عشرت جہاں، گلفشاں کے علاوہ میران حیدر، شفاء الرحمن کو جیل میں ڈال دینا اس سے زیادہ قانون کی پامالی کیا ہوسکتی ہے۔ 1100 خاتون جہدکاروں نے اس کیخلاف آواز اٹھائی ہے ان میں میناکنداسوامی، گیتا ہری ہرے، میدھا پاٹھیکرفرح نقوی، شبنم ہاشمی، صدف جعفر قابل ذکر ہیں۔ کپل مشرا، پرویش شرما، انوراگ ٹھاکر جیسے نفرت کے سوداگروں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں۔ اندھیر نگری چوپٹ راج ہے۔ بکاؤ میڈیا کا زوال شروع ہوچکا ہے‘ اور وہ دن دور نہیں جب یہ گلے پھاڑ پھاڑ کر مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والے اینکرس سڑکوں پر نظر آئیں گے تو انہیں عام ہندوستانی برہنہ کرکے مارینگے۔ کیونکہ ان حرامی اینکرس نے مسلمانوں کو نہیں بلکہ ہندوستان کے وقار کو ملیا میٹ کردیا۔ اپنی ٹی آر پی بڑھانے کی کوشش میں یہ چیانلس لاکھوں سبسکرائبرس سے محروم ہوگئے ہیں اور حق بات کیلئے مشہور رویش کمار اور این ڈی ٹی وی رینکنگ کے اعتبار سے دنیا کے Top-10 چیانل میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس سے سبق حاصل کیا جاسکتا ہے‘ مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے جن طاقتوں نے کوشش کی اور کررہے ہیں آج وہ طاقتیں عالمی برادرس میں رسوا ہوچکی ہیں۔ عوام ان سے کس حد تک ناراض ہیں‘ اس کا اندازہ موجودہ حالات سے ہونے لگا ہے۔ بہت سارے مناظر تو آپ کی نظروں سے پوشیدہ رکھے گئے ہیں۔ بہرحال! خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ جس پر پڑتی ہے اسے ہی اس کی آواز بھی سنائی دیتی ہے اور اس کی شدت بھی محسوس ہوتی ہے۔

٭ ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔

 فون: 9395381226

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں