صدقہ قیامت کے دن سائبان ہوگا

وقار احمد
اور پھر لوگ اس بات کا اقرار کر ہی بیٹھے کہ انہیں جو بھی مال ودولت نصیب ہوئی ہے، اس کا حقیقی مالک وہی رب کریم ہی ہے، جس کی دونوں جہاں میں بادشاہی ہے : “اللہ اکبر کبیرا”۔ جب وہی اس کا مالک ہے اور اسی کی قدرت سے یہ مال ودولت کی نعمت میسر ہوئی ہے، تو اگر وہ چاہتا کہ پورے مال کو خرچ کرنے کا حکم دے دے، تو دے سکتا تھا؛ لیکن اس نے اپنے فضل وکرم سے پورا مال نہیں؛ بلکہ کچھ خرچ کرنا ضروری قرار دیا، جسے شریعت کی اصطلاح میں “زکوة” کہا جاتا ہے اور ویسے بھی قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی “انفاق في سبیل اللہ” کا حکم دیا گیا ہے، وہاں “من” تبعیضیہ لا کر یہ اشارہ کردیا گیا ہے کہ سارا مال خرچ کرنا مطلوب نہیں؛ بلکہ کچھ حصہ دے دینا کافی ہے۔
زکوة: زکوة ایک طرح کا انکم ٹیکس ہے، جو اسلام نے ہر اس شخص پر عائد کیا ہے، جس نے سال کے بارہ مہینوں میں کھا پی کر ایک خاص متعینہ رقم جمع کرلی ہو، جس کی مقدار: “ساڑھے باون تولہ چاندی (612 گرام 360 ملی گرام)، یا اس کے مساوی نقدی یا کچھ سونا اور کچھ چاندی (خلط ملط)، جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی ہو، یا ضرورت سے زائد اتنا سامان ہو، جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے مساوی ہو، یا صرف ساڑھے سات تولہ (87 گرام 480 ملی گرام) سونا ہو، تو وہ ان کی قیمت یا ان رقم کا ڈھائی فیصد ٹیکس داخل کرے۔ حکومت بھی ٹیکس لیتی ہے؛ مگر اسلام کا ٹیکس کچھ الگ ہے۔ حکومت ٹیکس لے کر اپنے کاموں میں خرچ کرتی ہے؛ لیکن اسلام ٹیکس لے کر غرباء ومساکین اور محتاجوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے، اسلام نے ٹیکس کی رقموں کو تقسیم کرنے کے لیے آٹھ حلقے بنائے ہیں، جو غرباء ومحتاجوں کے حلقے ہیں۔

جن آٹھ مصارف میں زکوۃ خرچ کرنا واجب ہے، انہیں اللہ تبارک و تعالی نے بالکل واضح لفظوں میں بیان فرما دیا ہے اور یہ بھی کہہ دیا ہے کہ انہی مصارف میں زکوۃ خرچ کرنا واجب ہے اور یہ علم و حکمت پر مبنی فیصلہ ہے؛ چنانچہ فرمان باری تعالی ہے: “إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللہ عَلِيمٌ حَكِيمٌ”، ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں، مسکینوں، [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)؛ یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا کمال حکمت والا ہے۔ [التوبة:60]

قرآن کریم میں زکوة کے اس صاف وصریح حکم کے باوجود بعض لوگ زکوة نہیں دیتے اور جو دیتے بھی ہیں، ان میں اکثر فردا زکوة دے کر اسلامی احکام کی منشاء کے خلاف عمل کرتے ہیں؛ گرچہ یہ طریقہ جائز ہے؛ لیکن اسلام زکوة کو اجتماعی طور پر خرچ کرنے کی راہنمائی فرماتا ہے۔ خلفائے بنو امیہ کے ابتدائی دور میں صحابہ کرام سے سوال ہوا: “موجودہ خلیفہ فاسق وفاجر ہے، پھر زکوة کی رقم کیوں کر بیت المال بھیجی جائے”؟ تمام صحابہ کرام نے اتفاق کیا کہ “خلیفہ کے فسق وفجور سے زکوة کی ادائے گی میں کوئی خلل نہیں آتا، زکوة کی رقمیں اسی خلیفہ کو بھیجی جائیں”؛ چناں چہ یہی ہوا۔ یہاں پر یہ اشکال کیا جاسکتا ہے کہ یہ تو اسلامی ملک کی بات ہے؟ لیکن یہ کام کہ اجتماعی طور پر زکوة کی ادائےگی ہو، کسی تنظیم کے تحت بھی تو کیا جاسکتا ہے۔

بعض لوگ زکوة کو لے کر یہ خیال کرتے ہیں کہ اس تعلق سے اسلام اور سوشلزم واشتراکیت ایک ہے۔ ایسا کہنے والے نہ صرف غلط کہتے ہیں؛ بلکہ دیانتداری کے خلاف کہتے ہیں۔ سوشلزم مقدار مساوات تسلیم کرتا ہے اور اسلام حق مساوات تسلیم کرتا ہے؛ مقدار مساوات نہیں؛ کیوں کہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے صاف صاف بیان کردیا ہے کہ ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ آج اگر پوری دنیا میں اسلامی اصول اختیار کرلیے جائیں، تو سوشلزم اور اشتراکیت کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی؛ صرف اسلامی اصول ہی دنیا کی پیاس وتشنگی کو دور کرسکتے ہیں۔

عموما لوگوں کے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ صدقہ وخیرات سے مال میں کمی آجاتی ہے؛ لیکن قرآن وحدیث کی صراحت یہ ہے کہ اس سے مال میں کمی نہیں؛ بلکہ زیادتی ہوتی ہے؛ گرچہ بظاہر کمی نظر آتی ہے؛ لیکن من جانب خداوندی ایک ایسی برکت ہوتی ہے، جو کبھی کاروبار میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے یا کبھی نقصان وبلیات سے حفاظت کی صورت میں۔

بہر کیف! اسلام میں زکوة کا خاص حکم ہے، مشکوة میں ہے: “جو شخص صدقہ وزکوة ادا کرنے والا ہوگا، اس کو جنت کے خاص دروازے “باب الصدقہ” سے داخل کیا جائے گا”، (مشکوة المصابیح، 1/ 167)
بخاری میں ہے: “سات قسم کے حضرات میدان محشر میں عرش خداوندی کے سایے میں ہوں گے، انہی میں سے ایک وہ شخص ہوگا، جو اللہ کی راہ میں خفیہ خرچ کرتا ہوگا: اس طرح کی داہنے ہاتھ سے دے، تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو”، (صحیح البخاری، 1/91)
مسند احمد میں ہے: “یہ صدقہ قیامت کے دن ہمارے لیے سائبان ہوگا”، (مسند احمد 5/411)
اسی طرح کثیر روایات زکوة وصدقات کی فضیلت کے باب میں وارد ہوئی ہیں؛ چناں چہ ہر صاحب نصاب کے لیے ضروری ہے کہ وہ زکوة دیں اور غرباء ومساکین کا خیال خود پر لازم سمجھیں۔ اللہ اس امر کی توفیق دے، آمین۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں