مفتی عبدالرزاق بنگلوری
دینی مدارس درحقیقت اسلام کےقلعے، ہدایت کے سر چشمے، دین کی پناہ گاہیں، اور اشاعت دین کا بہت بڑا ذریعہ ہیں، انہیں دینی مدارس نے ہر دور میں تمام تر مصائب و مشکلات، پابندیوں اور مخالفتوں کے باوجود کسی نہ کسی صورت اور شکل میں اپنا وجود اور مقام برقرار رکھتے ہوئے اسلام کے تحفظ اور اس کی بقا میں اہم کردار ادا کیا ہے، انگریز نے برصغیر میں اپنے تسلط اور قبضہ کے لئے دینی اقدار اور شعائر اسلام کو مٹانے کی ہر ممکن سازش کی، لیکن ان کی یہ سازش کارگر نہ ہوسکتی، کیونکہ دینی مدارس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی اسلام کی ہے، دینی مدارس عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک اپنے ایک مخصوص انداز سے چلے آرہے ہیں، دینی مدارس کا اپنا ایک مخصوص نصاب ہوتا ہے، جو انتہائی پاکیزہ اور نورانی ماحول میں پڑھایا جاتا ہے، جس میں قرآن و حدیث تفسیر و فقہ کے علاوہ دیگر کئی علوم کو زیرتعلیم رکھا جاتا ہے، اور یہ سب کا سب ہمارے پاکباز، پاک طینت، اور خاصان خدا اکابر علمائے کرام کی جہد مسلسل اور دعائے سحر گاہی کا ثمرہ ہے، اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں اسلام کے مضبوط قلعوں کی تا دم آخر حفاظت کریں، اس میں خالص دینی تعلیم کے علاوہ مغربی تہذیب سے اس کو محفوظ رکھنا ہمارا فرض منصبی ہے، لہذا دور موجود میں دنیا بھر کے اکثر ممالک میں لاک ڈاؤن نافذ ہے، اب لاک ڈون کے پیش نظر مدارس، اسکول، کالج، یونیورسٹی وغیرہ میں تعلیمی سلسلہ منقطع کردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے مدارس میں آن لائن درس وتدریس کا مقدمہ علماء کرام کے مابین زیرغور ہیں، اور بندہ خاکسار کا غالب گمان یہ ہے کہ آن لائن درس و تدریس میں فوائد کم مضرات زیادہ رونما ہونے کا غالب خدشہ ہے، کیونکہ مدارس تعلیم گاہوں کے ساتھ ساتھ تربیت گاہیں بھی ہیں، اور تربیت انسان کے ابتدائی مراحل (ایک عمر کو پہنچنے کی حد) تک کی جاتی ہے، ان مراحل تربیت نہیں کیونکہ تربیت میں سختی اور اصلاح میں نرمی کا معاملہ ہوتا ہے، اور انسان ایک حد تک تربیت (سختی) کو برداشت کرنے اور ہدایات پر عمل کرنے کی طاقت رکھتا ہے، اور طلباء مدارس تربیت کے دور سے گزرتے ہیں، اور تربیت کے لیے استاد شاگرد کا تعلق ضروری ہوتا ہے، اور یہ تعلق آن لائن اور انٹرنیٹ کے ذریعے حاصل نہیں ہوتا، مزید برآں یہ کہ سبق تو انٹرنیٹ پر صرف چند گھنٹوں کا ہوتا ہے، مگر طلباء کے ہاتھوں میں انٹر نیٹ 24گھنٹے ہوتا ہے، اور یہ انٹرنیٹ مخرب اخلاق کا ذریعہ ہے، اور جو طالب علم بننے کے دور میں بگڑ جائے زندگی بھر اس کا بننا اور سدھرنا دشوار ہوجاتا ہے، جو چیز سانچے میں بگڑ جائے باہر نکلنے کے بعد اس کو سیدھا کرنا نا ممکن اور دشوار ہو جاتا ہے، اور اب تک جن مدارس نے طلباء کیلئے موبائل کو مخرب اخلاق کا بنیادی حصہ بناکر مدارس میں اس کو ناجائز قرار دیا ہے، آج وہی مدارس اس کی اجازت دینے کیلئے بے تاب ہیں، اور ملٹی میڈیا موبائل کے مضر اثرات و نقصانات کی طرف دیکھتے ہوئے نقصان کا پہلو غالب ہے، اور فقہ کا ایک اصول ہے امید ہے کہ یہاں اس پر عمل کرنا زیادہ بہتر ثابت ہوسکتا ہے، قاعدہ یہ ہے کہ جب حلت وحرمت میں تعارض ہو جائے تو ترجیح حرمت کو حاصل ہوگی، اسی قاعدے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آن لائن درس وتدریس کے فوائد و نقصانات میں جب تعارض ہوگیا ہے تو نقصان کو ترجیح دے کر آن لائن درس و تدریس کے سلسلے سے اجتناب کرنا ہی زیادہ انسب معلوم ہوگا-
حرف آخر
مضمون خاکسار کی ایک ادنی سی رائے ہی ہوسکتی ہے، ہرگز ہرگز اس سے کسی کی مذمت تو کسی کی تائید ومدح ثرائی کرنا بالکل بھی مقصود نہیں ہے، کیونکہ اکابر علماء کرام کے زرہ نوازیِ خاکِ پا سے ہم نے قلم پکڑنا سیکھا ہے، ورنہ …
کہاں میں اور کہاں یہ نکہتِ گل
نسیم صبح یہ تیری مہربانی ہے
ای میل:
abdurrazzaq825@gmail.com






