فارغینِ مدارس تجارت کے ذریعہ معاش پیدا کریں!

نقی احمد ندوی
ریاض ، سعودی عرب
تجارت یوں تو امت مسلمہ دنیا کے ہر شعبے میں پچھڑی ہوئی ہے مگر تجارت کے میدان میں امت مسلمہ کی پسماندگی ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ دنیا کے ارب پتیوں کی لسٹ پر طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تجارت کے میدان میں بھی مسلمان سب سے پیچھے ہیں۔ 57 ممالک، ایک ارب سے زائد آبادی، دنیا کے ایک تہائی تیل کے مالک، ان کے نبی تاجر، صحابہ تاجر، مگر تجارت کے میدان میں مسلمان پیچھے! آخر اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہوگی۔
ایک مفکر کا قول ہے کہ آپ دنیا کوجو پیش کرتے ہیں دنیا اسی کا معاوضہ آپ کو دیتی ہے۔ بیل گیٹس نے دنیا کے ہر گھر اور ہر آفس میں کمپیوٹر پہنچادیا، لہٰذا وہ ارب پتی بن گئے، اسٹیو جابز نے اسمارٹ فون دنیا کے ہر آدمی کے ہاتھ میں تھما دیا لہٰذا ان کی کمپنی دنیا کی سب سے مالدار کمپنی بن گئی۔ مارک ذکر برگ نے فیس بک کے ذریعے ہم سب کو مربوط کردیا اسی لئے وہ بھی ارب پتیوں میں شامل ہوگئے۔ امازون کے مالک جیف بینروس نے خریدوفروخت کا ایسا عظیم الشان پلیٹ فارم دے دیا جس پر پوری دنیا اپنا بزنس کرتی ہے۔ لہٰذا وہ بھی ارب پتیوں کی لسٹ میں شامل ہوگئے۔ کوئی مسلمان دنیا کو کچھ دے گا تبھی تو وہ بھی ارب پتیوں کے کلب میں شامل ہوگا۔
بزنس حضور پاک ﷺ کی سنت ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم صرف انہیں سنتوں پر عمل کرتے ہیں جن میں سہولت، آرام اور تن آسانی ہو، جن میں محنت، قربانی، دماغ سوزی اور جانفشانی ہو ان سے ہم حتی الامکان بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ میں نے کسی عالم یا کسی خطیب کو تجارت کی سنت پر کبھی خطبہ دیتے ہوئے نہیں سنا ہے۔ تو کیسے ہمارے یہاں بل گیٹس اور وارن بفٹ پیدا ہوں گے۔ ہم نے کبھی کسی مولوی یا مولانا کو انجینئرنگ اور میڈیکل کی اہمیت پر تقریر کرتے نہیں سنا ہے تو پھر کیسے ہمارے یہاں تھوماس ایڈیسن اور آئن اسٹائن پیدا ہوں گے۔ بزنس اور تجارت کی اہمیت جو قرآن و حدیث میں آئی ہے اس پر غور کرنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یقیناً تجارت ایک ایسا عمل ہے جو اگر ایک طرف خود کفیلی، معاشی استحکام اور خوشحالی کا ضامن ہے تو دوسری طرف وہ انسان کے اندر خود اعتمادی، بھروسہ اور کنفیڈنس پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے اور شاید یہی وجہ تھی کہ آنحضور نے نبوت سے پہلے بزنس کیا تھا۔
”اسی نے زمین کو تمہارے لےے ہموار بنادیا ہے پس تم اس کے اطراف و جوانب میں چلو پھرو اور اللہ کی روزی میں سے کھاؤ اور تمہیں دوبارہ زندہ ہوکر اسی کے پاس جانا ہے۔“
ظاہر ہے اللہ نے اس آیت میں ہمیں پوری دنیا میں گھوم گھوم کر رزق حاصل کرنے اور تجارت کرنے کی ہدایت کی ہے۔ صرف اپنے علاقے اور ملک میں نہیں بلکہ پوری زمین پر خواہ وہ کسی مشرک یا ملحد کا ملک ہی کیوں نہ ہو وہاں جاکر اللہ کے رزق کو تلاش کرو۔ اور لفظ رزق کھانے پینے سے لے کر ٹیکنالوجی اور سائنس سبھی پر بھی مشتمل ہے۔ شاید ہی دنیا میں کوئی آسمانی کتاب ہوگی جو اس طرح بزنس اور تجارت پر اپنی امت کو ابھارتی ہوگی۔ دوسری جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”زمین میں پھیل جاؤ اور اللّٰہ کے رزق کو تلاش کرو۔“
اللہ نے کہیں بھی یہ نہیں فرمایا کہ زمین میں پھیل جاؤ اور نوکری کرو۔ تجارت کی فضیلت پر غورکریں کہ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف تاجروں کو مجاہدین کے برابر لاکھڑا کیا ہے۔ لہٰذا ارشاد ہے:
”…. کچھ دوسرے لوگ اللّٰہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں، اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں۔ “
ابنِ کثیر اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ: اس آیت میں وہ مسافر مراد ہیں جو اللہ کے فضل کو اپنی کسب معاش اور تجارت میں ڈھونڈتے ہیں اور سیوطی نے کہا کہ یہ آیت اصل میں تجارت کے بارے میں ہے۔ اس آیت میں اللہ نے مجاہدین اور تجار دونوں کو ایک درجے میں لاکھڑا کیا ہے۔ اور یقیناً تجارت بھی ایک اقتصادی جہاد ہے جس کے بغیر کسی امت کی ترقی و عروج ممکن نہیں۔ حضرت امام احمد بن حنبل نے رافع بن خدیج سے روایت کی ہے کہ حضور سے پوچھا گیا کہ کون سی کمائی سب سے زیادہ پاکیزہ ہے آپ نے فرمایا کہ ” عمل الرجل بیدہ و کل بیع مبرور۔“ (1) (رواہ البزار و صححہ الحاکم)
امام بخاری نے زبیر بن عوامؓ کی حدیث نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:
لأن یاخذ احدکم حبلہ فیاتی بحزمة حطب علی ظہرہ ینبعہاہ فیکف اللّٰہ بہا وجہہ، خیر لہ من أن یسأل الناس اعطوہ او منعوہ۔ (1)
”تم میں سے کوئی شخص رسی لے اور اپنی پیٹھ پر لکڑی کا گٹھہ اٹھا کر لے جائے اور اسے بیچے تو اللہ اسے شرمندگی سے محفوظ رکھے گا اور وہ لوگوں کے سامنے دست سوال پھیلانے سے بہتر ہے پتہ نہیں وہ لوگ دین یا منع کردیں۔“
جب حضور نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی حضرت سعدؓ سے مواخات کرائی تو حضرت سعد نے کہا کہ میری پوری جائداد میں سے آپ آدھی آدھی لے لیں۔ اور میری دو بیویاں ہیں ان میں سے جو پسند ہیں ان سے شادی کرلیں۔ حضرت عبدالرحمنؓ نے تشکر آمیز نظروں سے دیکھا اور فرمایا میرے بھائی سعد آپ مجھے بازار کا راستہ بتادیجےے۔ پھر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے بزنس شروع کیا اور اپنی محنت اور ایمانداری سے اتنی دولت کمائی کہ مدینہ کے سب سے بڑے ارب پتی بن گئے، جب ان کا انتقال ہوا تو انھوں نے اپنے ورثے میں ایک ہزار اونٹ 200 گھوڑے اور تین ہزار بکریاں چھوڑیں اور جو سونا چاندی چھوڑا اس کو کلہاڑیوں سے ٹکڑے کرکے آپ کے ورثاءمیں تقسیم کیا گیا، آپ کی 4 بیویاں تھیں صرف انھیں خواتین کا حصہ اسّی اسّی ہزار دینار بنا تھا۔
اس طرح حضرت عثمان بن عفانؓ نے مدینہ کے ایک نامور بزنس مین کی حیثیت سے شہرت پائی اور اپنی محنت، جانفشانی اور لگن سے اتنی دولت کمائی کہ اس وقت جب بھی اسلامی لشکر کو امداد و تعاون کی ضرورت پڑتی حضرت عثمانؓ کی فراخ دلی سب سے پہلے سامنے آتی۔ حضرت حذیفہ بن الیمان سے مروی ہے کہ حضور پاک نے جیش عسرہ میں امداد کے لےے حضرت عثمانؓ کے پاس پیغام بھیجا تھا تو حضرت عثمانؓ نے آپ کے قدموں میں دس ہزار دینار لاکر ڈال دےے اس کے بعد مزید ایک ہزار اونٹ، ستر گھوڑے اور ایک ہزار دینارآپ کی خدمت میں پیش کےے۔ اسی طرح جنگ تبوک کے موقع پر 650 اونٹ اور پچاس گھوڑے آپ کی خدمت میں پیش کیے ۔
تجارت اور بزنس مہاجرین کا پیشہ تھا، انھوں نے اسلام کی اشاعت، حضورﷺ سے تعلیم و تربیت کے حصول اور مسلسل جہاد میں مشغول ہونے کے باوجود تجارت کی، کیونکہ انھیں معلوم تھا کہ سارے امور کے ساتھ ساتھ اقتصادی استحکام نہ صرف ان کے لےے بلکہ امت کی ترقی و عروج کے لےے ضروری ہے۔ تجارت کا پیشہ سنت نبوی بھی ہے اور معاشی استحکام کا ضامن بھی، لہٰذا یہ شعبہ بھی ذریعۂ معاش بن سکتا ہے۔
آج کے دور میں فارغین مدارس کے لےے حلال بزنس کے اندر بے شمار مواقع موجود ہیں جن میں وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بخوبی مظاہرہ کرسکتے ہیں۔ جیسے اسلامک میرج بیورو، اسلامی طرز پر نرسری اسکولوں کا قیام، اسلامک میرج کونسلر، حجاب شاپ، حلال ٹریویل ایجنسی، حج اور عمرہ سروسیز، اسلامی فیشن ڈیزائنر، اسلامک ویڈیو گیم، انٹرنیٹ کی مختلف ویب سائٹ پر مختلف پروڈکٹ کی خریدوفروخت ، مختلف واقع کے لئے فوٹو گرافی اور حضور کی سنت حجامہ سروسیز وغیرہ اس کے علاوہ دوسری قسم کے اور بھی بہت سارے بزنس ہوسکتے ہیں جو آپ کی صلاحیت، قابلیت اور رجحانات سے میل کھاتے ہوں اور جن کے کرنے میں آپ کو اطمینان ہو۔ غرض یہ کہ تجارت کے اندر فارغینِ مدارس اگر چاہیں تو بہت سارے مواقع تلاش کرسکتے ہیں۔ اور بلاشبہ تجارت سے بہتر کوئی بھی ذریعۂ معاش نہیں، کیوں کہ یہ ہمارے محبوب محمد عربی ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔
Naqinadwi2@gmail.com