مولانا کبیر الدین فاران مظاہری
ہندوستان کے پورب اتر میں سے بہار جو 94163 ورگ کیلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے جس کی آبادی تقریباً 10.15 کروڑ اور 38 اضلاع پر مشتمل ہے۔ یہاں کی مادری زبان اردو ، ہندی ، میتھلی اور بھوجپوری ہے اور کچھ حصے میں سنتھالی زبان بھی بولی جاتی ہے جس کا وقوع اتر نیپال ، دکھن بنگال، پورب آسام اور پچھم اتر پردیش ہے۔
ہندوستان کے نقشے پر خطہ بہار وہ مردم خیز زمین ہے جس نے ایسے رجال کار کو جنم دیا ہے جنہوں نے علمی، تحقیقی ، دینی اور روحانی اعتبار سے اےسے کار ہائے تاباں انجام دئے ہیں جو نیل گوں آسمان پر آفتاب و ماہتاب کی طرح رہتی دنیا تک روشن رہیں گے۔ تو دوسری طرف اتحاد و اتفاق ،قومی یکجہتی ، گنگا جمنی تہذیب کے بے مثال اور بے نظیر کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں جو یقیناً حب الوطنی کی ،مسلم اور غیر مسلم کے درمیان بھائی چارے کے جیتی جاگتی مثال ہے ۔
تقسیم ملک سے قبل تحریک آزادی کے دو اہم مرکز تھے ایک دہلی جس کی امارت سرخیل اتقیاء حضرت حاجی امداد اللہ صاحب فرما رہے تھے اور دوسرا سب سے بڑا مرکز صادق پور پٹنہ تھا جس کی باگ ڈور حضرت مولانا ظفر احمد صدیقی اور مولانا عبد الحمید خسرو پوری کے ہاتھوں تھی ۔ اس مرد م خیز سرزمین نے صاحب آثار السنن علامہ حضرت ظہیر الدین شوق نیموی، سیرت نگار حضرت سید سلیمان ندوی ، انشاء پرداز حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی ، حضرت ابو المحاسن سجاد حسین بہاری ، مجاہد ملت حضرت مولاناسید محمد علی مونگیری ، حضرت مولانا عبد الوہاب آروی ، امیر شریعت مولانا سید منت اللہ رحمانی ، قطب عالم مولانا عبد الرشید رانی ساگری ، امام النحو مولانا محمد ادریس صاحب لوکانوی پورنوی ، حضرت مولانا منور حسین صاحب پورنوی ، صاحب سلم العلوم قاضی القضاة علامہ محب اللہ بہاری ، مرتب فتویٰ ازہر ہند دار العلوم دیوبند حضرت مفتی ظفیر الدین صاحب ، عدالت اسلامیہ کے چیف جسٹس قاضی مجاہد الاسلام ، فقیہ النفس حضرت مولانا مفتی یحیٰ صاحب دربھنگوی، علامہ بہاری حضرت مولانا محمد حسین صاحب ، حضرت مولانا امام الدین صاحب کشنگجوی، حضرت مولانا ابوبکر صاحب ارریاوی اور قابل قدر علمی و سیاسی رہنما حضرت مولانا اسرار الحق قاسمی رحمہم اللہ جیسے صاحب علم وفضل شخصیتوں اور صاحب خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹنہ اور علماء صادق پور جیسی روحانی ہستیوںکو جنم دیا ان روحانی ہستیوں اور ان کے تربیت یافتہ تلامذہ ، مرکز علم وفضل دار العلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور اور ندوة العلماء لکھنؤ کے علماء اور فضلاء نے دینی و علمی اور جگہ جگہ مدار س ومکاتب اور خانقاہیں قائم کیں جن کی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہےں۔
آج بھارت میں روپئے اور سکوں اور سرکاری دستاویزوں پر نظر کریں تو آپ دیکھیں گے کہ تین شیر والا نشان وہ اشوک سمراٹ نے دیا تھا جس نے اکھنڈ بھارت بنایا تھا وہ پٹنہ یعنی پاٹلی پتر جو اس کی راجدھانی تھی وہ بہار کا تھا ۔
گوتم بدھ جن کو گیان پراپتی ہوئی وہ بودھ گیا بہار میں ہے ” جین دھرم “کے بتیسویں ترشنکھر بھگوان مہاویر کا جنم ویشالی میں ہوا وہ بہار میں ہے، اورسکھوں کے دسویں گرو گرو گوند سنگھ جن کے والد تیگ بہادر اور گرو تیگ بہادر کی سسرال پٹنہ تھا اور یہ پٹنہ ہی میں پیدا ہوئے اور گرو گوند سنگھ نے ہی گرو گرنتھ کو سکھوں کے سامنے رکھا اور سکھ سماج کہتا ہے کہ گرو گوند سنگھ ہی ہمارے آخری گرو ہیں اور گرو گوند سنگھ کو دسواں گرو مانتے ہیں اور یہ بھی بہار ہی کے تھے۔ دنیا کو سیاست اور سفارتکاری کا درس پاٹھ پڑھانے والے ” چانکیہ “ بہار کے رہنے والے تھے۔ بالمیکی راماین لکھنے والے بہار کی مٹی سے ہی اُپجے ، دنیا کو سرجری کا علم دینے والے سوشروت بھی بہار کے ہی تھی، دنیا کو حساب کا علم دینے والے آریہ بھٹ بھی بہار کے تھے۔
1857عیسوی میں آزادی کی لڑائی شروع ہوئی اس وقت بیر گرو سنگھ نے آزادی کی لڑائی لڑی تھی وہ بہار کے تھے اور ہم اس سے آگے بڑھتے ہیں مہاتما گاندھی جی نے چمپارن سے ستیا گرہ آندولن شروع کیا، مگد کا راجہ جراسندھ اور انگراج کرن یہ بہار کے تھے جن کو ستر پتر کہا گیا ، شری رام جی کی پتنی سیتا جس نے سیتامڑھی میں جنم لیا تو یہ بھی بہار کی تھیں اور ہندوستان میں پہلی یونیورسٹی نالندہ (بہار) میں قائم ہوئی ۔
ٍ قابل صد شکر ہے کہ ہندوستان کی سب سے عظیم اسلامی عدالت” دار القضا “ امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ جو بہار ، جھار کھنڈ اور اڑیسہ کا احاطہ کرتی ہے وہ بھی بہار میں ہے۔
اسی طرح اس خطہ نے سیاست ،نظم و انصرام کے مرد جلیل پیدا کئے اول ملک کے صدر ” راجیندر پرساد صاحب“ اسی سرزمین کی دین ہے ۔ فی زماننا (آئی،اے،ایس) IAS اور (آئی.پی.ایس.) IPS ڈاکٹر، انجینئر سے لیکر کھیت کھلیان اور فیکٹریوں کی مشینوں کو جان دینے والے مضبوط اور مردآہن اسی سر زمین کی دین ہے ۔ آج بھی حکومت کا دربار ہو یا سیاست کی گیلری، شعبۂ زندگی کے ہر موڑ پر بہاری نژاد سر گرم عمل ہیں۔
بہار نے ملک کو ہونہار سپوت اور ماہر سیاست داں کی طرح علمی و روحانی ادبی و سماجی، قومی اور سیاسی سطح پر کثیر تعداد میں افراد جنم دیے۔ اس لئے ہمیں اپنے خطہ کی شخصیات سے عقیدت مندانہ سلوک، نیاز مندانہ برتاؤ ، سیاسی پائداری اور زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں جو شب وروز ملک و ملت کی خدمات میں سرگرم عمل ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ہم کسی صاحب فکروکمال سے محروم ہوجاتے ہیں جن کے برگ وبارکا سایہ سر پر رہنا ازبس کہ ضروری تھا اور جب وہ لحد میں سوجاتے ہیں تو ہم سر نوچتے ہیں اور نوحہ خوانی کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔مشعلیں گل ہوتی جارہی ہیں ۔ راستہ گم ہوگیا۔ منزلیں اوجھل ہوگئیں۔ رہبر ہمیشہ کےلئے سوگئے۔ تارے ٹوٹ رہے ہیں ۔ ظلمت کی تہیں اور دبیز ہوتی جارہی ہیں ۔ اک دیا اور بجھا اور بڑھی تاریکی۔ جیسے کلمات حسرت و یاس محفلوں میں بکھیرتے اور اخباروں کی سرخیاں اس سے جڑَے ہوتے ہیں ۔
اپنی معلومات کی حد تک بطور قسط اول ان شخصیات کا اسم گرامی پیش ہے جو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ انہیں شخصیات میں حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی ، حضرت مولانا خالد سیف اللہ، حضرت مولانا انیس الرحمان قاسمی ، حضرت مولانا ثناء الھدیٰ قاسمی مدظلہ اور ضلع ارریہ کے حضرت مولانا مفتی نظام الدین صاحب سیدپوری، حضرت مولانا عبد الوہاب مظاہری ، حضرت مولانا نبی حسن مظاہری ، حضرت مولانا مفتی علیم مظاہری ، حضرت مولانا مفتی غفران حیدر مظاہری، حضرت مولانا زبیر احمد مظاہری اور حضرت مولانا جمیل احمد قاسمی ، حضرت مفتی خالد حبیب ، حضرت مولانا نور عالم قاسمی، حضرت مولانا شاکر انور قاسمی، اسی طرح عظیم انشاء پرداز اور صاحب قلم جناب مولانا ڈاکٹر عبد القادر شمش اور قابل قدر صحافیوں میں جناب مولانا عبد الواحد قاسمی، جناب مولانا عبد الحق حقانی القاسمی، جناب مولانا مظہر مظاہری ہند سماچار گروپ ، جناب احرار الھدیٰ مدظلہم العالی اورضلع پورنیہ کے حضرت مولانا مفتی ولی اللہ قاسمی ، حضرت مولانا محمد قربان مظاہری ، حضرت مولانا ایاز مظاہری ، جناب ماسٹر فیاض احمد، حضرت مولانا محمد مبارک ، حضرت مولانا ابو صالح قاسمی، ضلع کشن گنج سے حضرت مولانا محمد انوار عالم مظاہری حضرت مفتی غیاث الدین قاسمی ، حضرت مولانا مطیع الرحمان سلفی اور ضلع کٹیہار کے جناب قاضی محمد اسرار الحق قاسمی و جناب مولانا رضوان احمد قاسمی ضلع سیتا مڑھی سے حضرت مولانا عبد المنان قاسمی اور بے باک صحافی حضرت مولانا شمش تبریز قاسمی ایڈیٹر ملت ٹائمز ، ضلع مظفر پور سے حضرت مولانامحمد اشتیاق قاسمی ،ضلع دربھنگہ سے حضرت مولانا شمش الھدی نقشبندی ، حضرت مولانا عریف الرحمان مظاہری ، حضرت قاری شبیر احمد (نابینہ ) اور حکیم حاذق حضرت مولانا ڈاکٹر سید افضل حسین قاسمی جیسی شخصیات ہمارے درمیان جلوہ افروز ہیں۔
اسی طرح سیاسی استحکام کےلئے ارریہ کے نامور سپوت جناب سہارا شری سبرت رائے ، جناب مہنت نانودا، جناب ڈاکٹر ایس ۔ آر ۔جھا، اور بہار کی نامور ہستی جناب ڈاکٹر جگنناتھ مشرا ، جناب للت نارائن مشرا ، جناب شترو گھن یادو ، جناب علی اشرف فاطمی، جناب سرفراز عالم سابق رونیو منسٹر ، جناب ڈاکٹر احمد اشفاق کریم ، جناب اختر الایمان ، جناب پپو یادو، جناب کنہیا کمار، پروفیسرجناب الحاج محمد عرفان ، جناب مفتی خالد انور ، جناب ڈاکٹر شکیل احمد ، جناب طارق انور ، جناب شترو گھن سنہا، جناب شہاب الدین سیوانی ، جناب پرشانت کشور ، جناب پربھات چودھری ، محترمہ میرا کمار، محترمہ نویدتا جھا ، جناب مرتن جھا،جناب سرویز تواری، جناب ادے نارائن چودھری، جناب کرشن نندن ورما ، جناب سید شاہنواز عالم، این۔ ڈی، ٹی وی۔نیوز چینل کے اینکر جناب روش کمار ، جناب عابد الرحمان ، جناب شاہنواز عالم ، ڈاکٹر محمد جاوید، جناب عبد القیوم انصاری، محترمہ رنجیتارنجن یادو، رٹائرڈ جج زبیر الحسن غافل ، جناب تجسوی یادو ، ہرکشن ٹھاکر عرف کشن دیو ٹھاکر، جناب الیاس عرف سونو بابو اور جناب حاجی عبد الجلیل مستان ، جیسے حضرات سے رہنمائی حاصل کرنی چاہئے ۔
سچ تو یہ ہے کہ بہار اور بہاری مانس اس کے بغیر نہ سماج زندہ رہ سکتا ہے اور نہ سیاست کی گلیاری، اقتدار کی کرسی سے سڑک اور فٹ پاتھ کی رونق اس کے بغیر نا مکمل ہے ان کی صلاحیتوں اور ہر مقام پر اس کی موجودگی نے انہیں تنگ نظری اور تعصب کا لقمہ بنانا شروع کردیا اور ان کی حوصلہ شکنی کےلئے طرح طرح کے حربے شروع ہوگئے۔
حاسد زمانہ نے فیصلہ کیا کہ اگر اس کے خلاف جنتر منتر کا استعمال نہیں ہوا تو ایک دن ہوگا کہ یہ ہر جگہ متمکن ہوں گے ہماری ضرورت اور قدر گھٹ جائے گی اوران کی حیثیت اور حقیقت کو مٹانے کےلئے بہار اور بہاریوں کا استحصال کرنا شروع کر دیا، ان کے حقوق کو چھینے گئے ، تعلیمی سیاسی اور سماجی ماحول میں ا ن کو پست کرنے اور ان کے حقوق کو ملیا میٹ کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی اور ایسا دور آیا کہ شہروں ، بازاروں ، سیاست کے میدانوں اور علمی مراکز میں بھی ان کے واجبی حقوق سے محرو م کیا گیا اور بہار کی تذلیل کےلئے بہاری لفظ کو بطور استہزاء اور مذاق کا لفظ بنایا گیا لیکن اسے جتنا دبایا گیا اور اس کے مرد م ساز، باحوصلہ اور با کردار اشخاص اتنے ہی ابھرنے اور اپنی صلاحیت کو اجاگر کرنے میں وہ کامیاب رہے ۔ الحمد اللہ ! بہار کے مردم ساز با حوصلہ اور با کردا ر اشخاص نے سمجھا کہ ان پتھر مارنے والوں سے بھڑنے کے بجائے اپنے آپ کو اس قدر بلند کرو کہ مارنے والوں کا پتھر ہمارے سروں تک نہ پہونچ سکے اور یہاں کے با شعور افراد نے اپنی قوم کو باور کرایا کہ اندھیروں کو کوسنے کے بجائے چراغ جلانے کی مہم شروع کی جائے چنانچہ مذہبی اور روحانی میدان ہو یا علمی اور تحقیقی سیاسی ہو یا سماجی ، دینی علوم ہو یا عصری، بہار کے ہونہاروں نے زمینی سطح سے محنت شروع کی آج یہاں کے جفاکش علماء کی محنتوں نے دینی اداروں کو کچا مال اور ہر درجہ کے طالبان علوم نبوت مہیا کرائے۔ ہر عصری درسگاہ کو خاطر خواہ اسٹوڈینٹ کی کھیپ دی اور ایوان اقتدار کا قلمدان ہو یا سیاست کی رہنما اور رہبر اس سر زمین نے مہیا کرائے ۔ بنصرت باری آج بہار با صلاحیت اور با وقار لوگوں کا خطہ بن گیا اور ہر محاذ پر انہوں نے اپنا لوہا منوایا اور یہ سچ کر دکھلایا کہ ہندوستان میں بہاری کے بغیر کہیں بہار نہیں اور اس فقرے کو بھی سچ ثابت کردیا کہ ایک بہاری سو پر بھاری ۔
بہار کی کامیابی کےلئے بس یہی کافی ہے کہ اس عظیم خطہ نے علمی روحانی اور سیاسی طور پر ہندوستان کو ان گنت سپوت دئے۔ اس وقت کی حکمرانی کی ایک جیتی جاگتی مثال عالیجناب نتیش کمار وزیر اعلیٰ بہار سرکار کی ہے ۔ جناب نتیش کمار جی جیسی سیکولر ذہنیت اور منصف لیڈر اللہ نے باشندگان بہار کو ایک نادر تحفہ دیا ہے جو رات و دن بہار کی ترقی اور وہاں کے باشندوں کی سربلند ی ، اجڑوں کو بسانے اور بچھڑوں کو آباد کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔ جب سے انہوں نے اقتدار کی کرسی سنبھالی ہے لوگوں کی رات کا آرام، دن کاچین، رہن سہن کی آزادی اور کاروباری سہولیات نے ہر سمت خوشحالی کا دریا بہادیا ۔ اسی فرقہ واریت کی عفریت جس نے ہندوستان جیسے عظیم ملک کے سروں کو نوچنے اس کی ملکیت اور ہمہ جہت ترقی کےلئے ناسور بنا ہوا تھا اس بھوت کا پاؤں تلے روندنے اور گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھنے کےلئے بہار میں جناب لالو پرساد یادو کی بڑ ی دین ہے اس مر د مجاہد نے اپنی زندگی کا اہم حصہ نفرت کی آگ کو بجھانے اور سرے سے اسے بہار سے اکھیڑ پھینکنے میں بے مثال کارنامہ انجام دیا ۔
قابل ذکر ہیں سیمانچل کا گاندھی اور سابق ڈپٹی ہوم منسٹر الحاج تسلیم الدین صاحبؒ ارریاوی زندگی بھر لالو جی کے ہمراہ فرقہ واریت کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ۱ور سیمانچل کی ترقیاتی منصوبوں کو عمل جامہ پہنانے میں زندگی بتادی۔
باشندگان بہار کےلئے ایک زمانہ تھا جب لوگوں کا شام ڈھلنے کے بعد گھروں سے نکلنا مشکل تھا ، مالدار اور کسان کی نیند چوروں اور ڈکیتوں کی وجہ سے دو بھر ہوگئی تھی اس پر جناب نتیش کمار نے اس طرح انکش لگایا کہ رات دن میں کوئی فرق نہیں رہ گیا لوگ بے فکر پیدل ہو یا سوارکسی بھی وقت اپنی زندگی کی گاڑی کو خوش و خرم اور نڈر ہوکر شہر سے گاؤں تک محلے اور پڑوسوں تک چلانے میں کوئی ڈرنہیں محسوس کرتے ۔
ایک دور تھا جب بہار میں برسات کے زمانے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آنا جانا مسدود ہوجاتا تھا بیمار گھروں میں پڑے سڑ جاتے تھے اور عورت ذات درد زہ سے تڑپ کر بلا علاج جان جان آفریں کے حوالہ کر دیتی تھیں اب یہ دور ہے کہ نیشنل ہائی وے جیسی فور لائن سڑکیں گلی اور کوچوں تک پکے راستوں کا نظم ہے ۔ آنے جانے کی ساری سہولیات مہیا ہیں۔ ایک دور تھا کہ بہار میں اسکول ، کالج کا خال خال نظم تھا اب ہر گاؤں میں دو منزلہ عمارتیں بھر پور اسٹاف اور پڑھنے والوں کےلئے عمدہ کھانے کا نظم ہے ۔ ایک صدی تک بہا ر کے لوگوں نے ٹمٹماتے دئے کے تلے زندگی بسر کی او ر اب چوبیس گھنٹ بجلی کی روشنیوں سے چکاچوند ہے ۔
ہر موسم میں دیہات میں آنا جانا آسان ہوگیا چوری، ڈکیتی، غنڈہ گردی، کی تاریکی چھٹ گئی اور ہر گاؤں میں علم کا دیا روشن ہوگیانتیش جی نے غریبوں کی خوشحالی کےلئے طرح طرح کی اسکیمیں تیار کیں اور یہ صرف کاغذوں پر نہیں بلکہ وہ اسکیمیں گھر گھر تک پہنچائیں۔ اسی پر بس نہیں سر شام بہو بیٹیوں کا عزت لٹ جایا کرتی تھی، شراب سے مسحور اپنی بیوی پر ظلم و زیادتی کا پہاڑ توڑتا تھا، طلاقیں واقع ہوتی تھیں، ایک غریب صوبے کے وزیر اعلیٰ نے پرواہ کئے بغیر شراب کی بندش کی اور نشہ خوروں پر زبردست لگام لگایا، یہ بھی نتیش جی کا عظیم کارنامہ ہے ۔ جن کو بہو بیٹی اور پردہ نشین عورتیں یاد رکھیں گی۔
کیا ہی اچھا ہوتا کہ عالیجناب نتیش کمار جی کی توجہ بہار میں فیکٹری لگانے کی بھی ہوتی، تاکہ ترقی کا جو سنہرہ خواب وہ دیکھتے چلے آرہے ہیں وہ شرمندۂ تعبیر ہوسکے اور بہاریوں کا پلائن رک سکے جس کےلئے آج تک بہار کے راج نیتا ناکام رہے ۔ جس کی وجہ سے یہاں کے مزدور اور کامگاروں کے بچے بلکتے اور ماں باپ کےلئے سسکیاں لےتے رہتے ہیں ۔
ان کے بار ے میں مشہور ہے کہ وہ ” دل بدلاکرتے ہیں لیکن اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ اگر کسی پارٹی سے سمجھوتہ کر لیا جائے تاکہ اس کی وجہ سے حکومت چلانا آسان ہوجائے اور صوبہ کے لوگوں کی ہمہ جہت ترقی اور راحت کی راہیں کھلی رہیں یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی بر سر اقتدار حکومت سے سمجھوتہ اور ہاتھ ملانا اپنی کرسی کی سلامتی اور عزت کےلئے نہیں بلکہ بہار کے عوام کی سہولت اور ترقی کےلئے ہوتارہاہے اور مرکزی سرکار سے ہی صوبہ کے عوام کےلئے فنڈ کا حصول اور مرکزی سرکار سے صوبا ئی عوام کےلئے اپنے واجبی حقو ق کےلئے یہ عمدہ حکمت اور بہترین تدبیر ہے جسے اپنانا گناہ اور عوام سے دھوکا نہیں ۔
اسی کیساتھ وہ بہار کی عوام کی راحت کےلئے وہ ہر شکل اپناتے ہیں جن سے ےہاں کے لوگوں کی خوشحالی اور ترقی وابستہ ہوں مثلاً ”کسان یوجنا “جسکے تحت ہر کسان کو ہر فصل پر دو ہزار روپئے ملتے ہیں ۔ اگر فصل متأثر ہوجائے تو اس کا بھی عوض دیا جاتا ہے ۔” آپدا تتکال سیوا “ اس کے تحت بہار کے ہر باشندہ کو کورونا مہاماری COVID-19 کے پیش نظر جہاں کہیں وہ تھے ایک ایک ہزار روپئے بھےجے گئے اور ہر راشن کار ڈپر مزید ایک ہزار روپئے اور تین مہینے کا اناج مفت دیا گیا اور تین مہینوں تک گیس سلینڈر بانٹے گئے اور اسکول میں پڑھنے والے ہر بچے کےلئے یونیفارم فیس کتابوں کی خریداری کی رقم اور سائکل کا نظم اوربیچولیوں سے رقم محفوظ ہر ہاتھ تک پہونچ جائے اور مڈڈے میل کےلئے اکاؤنٹ میں براہ راست پےسے پہونچ جائیں اس کے لئے براہ راست اکاؤنٹ میں رقم بھیجی جارہی ہے۔ ایک اور عدیم المثال فیصلہ ہے کہ بہار کا وہ باشندہ جسے مکان بنانے کےلئے زمین نہیں ہے اسے پانچ ڈسمل زمین بہار سرکار کی اراضی میں سے دی جائےگی اور اگر اس خطہ میں بہار سرکار کی زمین نہیں ہے تو ڈی۔ایم۔ اس شخص کو پانچ ڈسمل زمین خرید کر حوالہ کرےگا۔
نتیش جی نے ہر وہ مصیبت جو قدرتی ہو اس کی تلافی کےلئے وہ ہر موقع پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں ۔ یہ وہ خدمات ہیں جو نتیش جی کی اپنے میں ایک مثال ہے۔
مجھے بھی ایک بار گوہاٹی دہلی راجدھانی میں کٹیہار سے پٹنہ کے درمیان فرسٹ اے۔ سی ۔ کیبن میں ان سے ملنے کا موقع ملا میں نے کھجور پیش کی جسے وہ بے تکلف کھاتے رہے اور مجھے بھی پپیتا پیش کیا اور کہا کہ یہ میرا فیوریٹ فروٹ ہے میں نے اپنا اور مدرسہ کا تعارف کرایا اور وہ توجہ سے سنتے رہے۔
ملک کی خوشحالی امن و سلامتی کے قدر دانوں کیساتھ باشندگان بہار کو ایسے رہنما کی دل و جان سے سلامتی کی دعا اور ان کے منصوبوں پر عمل کرنا چاہئے ۔ لوگوں کی رائے ہے کہ بہار نتیش کا ہے اور نتیش بہار کا۔
بلا شبہ عالیجناب نتیش کمار جی کی حکومت بہار واسیوں کےلئے ایک مسیحا اور ہندوستان کے حکمرانوں کےلئے ایک نمونۂ عمل بھی ہیں۔
(مضمون نگار اکھل بھارتیہ سماج سدھار سمیتی کے چیرمین اور مدرسہ قادریہ مسروالا ضلع سرمور ہماچل پردیش کے ناظم ہیں)
E-mail: faran78699@gmail.com






