کمسن بیٹے نے ماں کی نمازِ جنازہ پڑھائی

معصوم مرادآبادی
موت زندگی کی سب سے کڑوی حقیقت ہے۔ ہر ذی روح کو اس کا ذائقہ چکھنا ہے۔لیکن بعض موتیں ایسی ضرور ہوتی ہیں جو اپنے پیچھے غم والم کا ایک پہاڑ چھوڑ جاتی ہیں۔گزشتہ ہفتے مجھے ایسے ہی ایک غم سے گذرنا پڑا۔عام طور پر میں اپنی ذاتی زندگی اور اس سے متعلق باتوں کو ضابطہ تحریر میں نہیں لاتا، کیونکہ انسان کے ذاتی غم اور خوشیوں کا دائرہ اس کی اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے۔ لیکن زندگی کے کچھ غم ایسے ہوتے ہیں جن میں دوسروں کو شریک کرکے ان کی شدت کو ضرورکم کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایسا ہی ایک صدمہ ہے، جس میں آپ شریک ہورہے ہیں۔
گزشتہ ہفتہ میری جواں سال بھتیجی جسے میں نے بچپن میں اپنی گود میں کھلایا تھا، ہم سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی سے جاملی۔یہ میرے سب سے بڑے بھائی کی پہلی اولاد تھی اور میرے شعور کے دنوں میں ہمارے گھر میں پیدا ہونے والا پہلا بچہ بھی۔ سبھی کو اس سے بہت لگاؤ تھا۔اس کی شادی بھی میری بڑی بہن کے بیٹے کے ساتھ ہوئی تھی۔ اس لئے وہ رخصت ہونے کے باوجود ہمارے ہی گھر آنگن میں رہی۔ پچھلے ہفتے سرطان جیسے موذی مرض نے اس کی جان لے لی۔ وہ اپنے پیچھے اپنی تین کمسن نشانیاں چھوڑ گئی ہے۔ ان تینوں کمسن اور حقیقت میں معصوم بچوں کے غم زدہ چہرے دیکھ کرخود میری برداشت بھی جوا ب دے گئی تھی اور مجھے اپنے آپ کو سنبھالنے میں ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت لگا ہے۔
میرے لئے سب سے دردناک منظر وہ تھا،جب میری اس چہیتی بھتیجی کے کمسن بیٹے حافظ اریب نے اپنی ماں کی نماز جنازہ پڑھائی اور ہم سب نے خاموشی کے ساتھ اللہ اکبر کی تین صداؤں پر لبیک کہا۔حافظ اریب کی عمر ابھی 18سال سے بھی کم ہے۔اپنی ماں کی نماز جنازہ پڑھاتے اور اسے قبر میں اتارتے وقت اس بچے پر کیا بیتی ہوگی، یہ سوچ کر میرے رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں۔اریب اور اس کے دوچھوٹے بھائی اپنی ماں کے بغیر زندگی کا سفر کیسے طے کریں گے، یہ سوچ کربھی میں پریشان ہواٹھتا ہوں۔کمسنی میں ماں کی ممتا اور اس کے سائے سے محروم ہوجانا ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔حالانکہ ان بچوں سے بے پناہ محبت کرنے والی دادی اور نانی نے ان کی پرورش کا بار اپنے ناتواں کاندھوں پر لے لیا ہے، لیکن انھیں تاعمر اپنی ماں کی کمی محسوس ہوتی رہے گی اور جیسے جیسے وہ بڑے ہوں گے اس کمی کا احساس شدید تر ہوتا چلا جائے گا۔
بلاشبہ ماں اس دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس کا اندازہ ان لوگوں کو ہی ہوگا ، جو اس غیر معمولی نعمت سے محروم ہوچکے ہیں۔ میں بھی 16برس پہلے اس نعمت سے محروم ہوا تھا اور اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود مجھے آج بھی یہ غم تازہ ہی لگتا ہے۔ یوں تو ہرماں عظیم ہوتی ہے اور اس کی عظمت ان قربانیوں سے عبارت ہے، جو وہ اپنی اولاد کی پرورش کے دوران دیتی ہے۔ لیکن بعض مائیں جس نرالے انداز میں اپنے بچوں کی پرورش وپرداخت کرتی ہیں، وہ واقعی قابل دید ہوتا ہے۔میری تربیت میں میری بہت پیاری اور دلاری ماں کا جو کردار ہے، اسے میں ساری زندگی فراموش نہیں کرسکتا۔یہ سطریں لکھتے وقت جانے کیوں میری آنکھوں سے آنسوؤں کا قافلہ رواں ہوگیا ہے۔مجھے اکثر اپنی ماں کو یاد کرتے وقت اپنے مشفق ومحترم نشتر خانقاہی مرحوم کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
صبحیں جس کی مناجاتوں سے تھیں، راتیں تہجد سے
میں اس کی پاک صحبت میں مسلماں ہونے لگتا تھا
میری بھتیجی ایک انتہائی دین دار اور خاموش طبع بیٹی تھی۔وہ حالات پر قناعت کرنے اور صبر وشکر کی زندگی گزارنے میں بھی یکتا تھی۔کچھ عرصے سے پیٹ میں درد کی شکایت تھی اور مسلسل اس کا علاج چل رہا تھا، لیکن کسی حکیم یا ڈاکٹر نے یہ نہیں بتایا کہ سرطان جیسا موذی مرض اندر ہی اندر اسے کھوکھلا کررہا ہے۔میڈیکل سائنس کی ہوش ربا ترقی کے باوجود ابھی تک اس موذی اور جان لیوا مرض کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوسکا ہے۔ یہ خطرناک مرض انسان کو اندر ہی اندر چاٹ جاتا ہے اور جب اس کی تشخیص ہوتی ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔میری بھتیجی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ بہرحال میں نے یہ چند سطریں آپ سے یہ گزارش کرنے کے لئے لکھی ہیں کہ آپ مرحومہ کی مغفرت اوردرجات کی بلندی اور اس کے کمسن بچوں اور دیگر پسماندگان کے لئے دعا فرمائیں۔ حافظ اریب مدرسہ شاہی، مرادآباد میں درس نظامی کا طالب علم ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں