معصوم مرادآبادی
”ان سے ملئے یہ عبدالقادرشمس ہیں۔ روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ میں کام کرتے ہیں۔“
برادرم مزمل حسینی نے دونوں جملے ایک ساتھ ادا کرتے ہوئے میرا رخ ایک مسکراتے ہوئے نوجوان کی طرف موڑدیا۔اس نوجوان کی جس خوبی نے مجھے حددرجہ متاثر کیا‘ وہ اس کی عاجزی اور انکساری کا انداز تھا۔ یہ برسوں پہلے کی بات ہے۔ ’راشٹریہ سہارا‘ اپنے عروج پر تھا اور وہاں کام کرنے والے بیشتر لوگ بہت لئے دئیے رہتے تھے، مگر عبدالقادرشمس کی جس ادا نے مجھے اپنا گرویدہ بنایا، وہ ان کا اخلاص اور اپناپن تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں ایک اچھے انسان سے مل رہا ہوں اور اس طرح ان سے میری دوستی ہوگئی۔یہ میری کمزوری ہے کہ جہاں کوئی اچھا انسان مجھے نظرآتا ہے تو میں اسے اپنا دوست بنالیتا ہوں تاکہ اپنی خامیوں کی پردہ پوشی کرسکوں۔
عبدالقادر شمس سے یہ پہلی ملاقات نئی دہلی کے ذاکر نگر میں واقع تنظیم ابنائے قدیم دارالعلوم دیوبندکے دفتر میں ہوئی تھی۔عبدالقادر شمس عالم دین تھے اور انھوں نے دارالعلوم سے فراغت پائی تھی۔ اس تاریخ ساز ادارے کی کئی خوبیاں انھیں ورثے میں ملی تھیں۔ بعد کو انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ مطالعات اسلامی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کرلی تھی، لیکن ان کے مزاج میں کوئی فرق نہیں آیا۔ وہ ’راشٹریہ سہارا‘ اور ’عالمی سہارا‘ میں سنجیدہ مضامین لکھ کر شہرت اور عزت بھی کمارہے تھے، لیکن اس کا کوئی منفی اثر ان کے مزاج پر نہیں پڑا تھا۔آج کے نئے صحافی دوچار مضمون یاخبریں لکھ کر اپنی گردنیں ٹیڑھی کرلیتے ہیں، لیکن عبدالقادر شمس کو میں نے کبھی پٹری سے اترتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اردو کے مین اسٹریم اخبار میں کام کرنے کے باوجود انھوں نے خندہ پیشانی اور انکسار کوہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال کی خبرعام ہوتے ہی سوشل میڈیا پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔
مجھے جب فیس بک پر ان کی دردناک موت کی اطلاع ملی تو میری نظروں میں عبدالقادرشمس کا وہی برسوں پرانا معصوم سا چہرہ گھوم گیا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ یہ دنیا اچھے انسانوں سے خالی کیوں ہوتی جارہی ہے۔ کورونا کی موذی وبانے کیسے کیسے قیمتی انسان ہم سے چھین لئے ہیں۔ شمس بھی پچھلے دوہفتوں سے اس کی زد میں آنے کے بعد اس کا مقابلہ بڑی جواں مردی کے ساتھ کررہے تھے۔ وہ کئی روز سے مجیدیہ اسپتال کے آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر تھے اور انھیں پلازمہ کی بھی ضرورت تھی، مگر وہ جانبر نہ ہوسکے۔ آج دوپہر انھوں نے اپنی جان‘ جان آفریں کے سپرد کردی۔
میرے لئے ان کی موت ایک حادثہ جانکاہ سے کم نہیں ہے اور اسی غم کو غلط کرنے کے لئے میں یہ ٹوٹی پھوٹی سطریں لکھنے بیٹھا ہوں۔ عبدالقادرشمس کا حادثوں سے بہت پرانا رشتہ تھا۔ وہ کئی برس پہلے دہلی ہائی کورٹ کی بلڈنگ میں ہوئے بم دھماکے میں زخمی ہوگئے تھے اور برسوں ان زخموں کا علاج کراتے رہے۔ اس کے بعد ایک سڑک حادثے میں ان کی بائیں ٹانگ میں فریکچر ہوگیا۔ وہ ایک حوصلہ مند نوجوان تھے اور حادثوں کوخاطر میں نہیں لاتے تھے۔ پچھلے دنوں لودھی روڈ پر واقع ماہنامہ’آج کل‘ کے دفتر میں ان سے تفصیلی ملاقات ہوئی تو ڈھیر ساری باتیں ہوئی تھیں۔ اسی ملاقات میں انھوں نے بتایا تھا کہ ایک ٹانگ میں لوہے کی راڈ پڑی ہونے کے سبب انھیں چلنے پھرنے میں تکلیف ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی سرگرمیاں جاری تھیں اور وہ پابندی کے ساتھ دفتر جایا کرتے تھے۔ اسی ملاقات میں انھوں نے میری نئی کتاب’نوائے خاموش‘ کی فرمائش کی۔ کتاب اتفاق سے موجود تھی اور میں نے انہیں پیش کی تو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ اس پر تفصیلی تبصرہ کروں گا۔مگر اس کی نوبت آنے سے پہلے ہی وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ’نوائے خاموش‘ ہمارے عہد کے اہم شاعروں اور ادیبوں کو خراج عقیدت کے طور پر لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے۔اس بات کا اندازہ قطعی اندازہ نہیں تھا کہ مجھے اس کے دوسرے ایڈیشن کے لئے خود عبدالقادرشمس پر مضمون لکھنا پڑے گا۔
کورونا کی وبا کے ابتدائی دنوں میں جب طنزومزاح کے شاعر اسرار جامعی اسپتال میں داخل ہوئے تو شمس اور ان کے سعادت مند بچوں نے ان کی خبر گیری کی اور جب ان کا انتقال ہوا تو ان ہی لوگوں نے ان کی تجہیز وتکفین کا بندوبست کیا۔عبدالقادر شمس کم عمری میں داغ مفارقت دے گئے۔مقدرت کو یہی منظور تھا۔ان کے انتقال پر مجھے غالب کا یہ مصرعہ یاد آتا ہے جو انھوں نے اپنے جواں سال بھتیجے عارف کے انتقال پر کہا تھا۔
اے فلک ِپیر، عارف ابھی جواں تھا