عہد کورونا میں اسمبلی انتخابات

یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ چیف الیکشن کمیشن اپنے دعوے میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں

ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب

بہا رکے اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان ابھی نہیں ہوا ہے ، لیکن الیکشن کمیشن نے رہنما ہدایات جاری کردی ہیں۔ کورونا عہد میں اسمبلی انتخابات پہلی بار ہوں گے اس لئے الیکشن کمیشن کی گائڈ لائن بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ امیدوار اس بار ہو ہنگامہ بھی نہیں کر سکیں گے کیوںکہ امیدوار سمیت صرف پانچ افراد ہی گھرگھر جا کر تشہیری مہم چلا سکیں گے۔ تاہم کوڈ-۱۹ کے اس خطرناک عہد میں اسمبلی کے چناؤکو لے کربھی سیاسی جماعتوں میں ایک رائے نہیں ہے۔ مگر چیف الیکشن کمیشن نے ایک سوال کے جواب میں دو ٹوک کہہ دیا ہے کہ بہار اسمبلی کے انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہی ہوں گے اس میں کسی تبدیلی کی گنجائش فی الحال نہیں ہے۔ جہاں تک کورونا وائرس کا سوال ہے تواس وباکے پیش نظرانتخاباب کی سبھی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ تاکہ ایک انسان سے دوسرے انسانوں میں منتقل ہونے والے اس وائرس سے لوگوں کو محفوظ رکھا جا سکے۔ اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ جس وبا کے تعلق سےپوری مرکزی سرکا ر تقریباً ناکام ہوچکی ہے اس سے نمٹنے میں چیف الیکشن کمیشن اپنے دعوے میں کتنے کامیاب ہوتے ہیں۔ ویسے بھی اس وقت بہار کورونا وائرس کے نشانہ پر ہے ، جبکہ شروع کے چند ماہ میں یہ ریاست اس وباسے بہت زیادہ متاثر نہیں تھی مگر ریاستی حکومت کی تساہلی کے سبب اگست کے مہینہ میں یہاں کورونا کے معاملے بہت تیزی سے بڑھ رہےہیں اور راجدھانی پٹنہ سمیت کئی اضلاع کووڈ- ۱۹ کی زد میں ہیں۔ یہاں کے اسپتالوں کی جو حالت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کہا جارہا ہے کہ کورونا وائرس سے ملک میں سب سے زیادہ ڈاکٹر بہار میں موت کے شکار بنے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کی طرف سے نومبر۲۰۲۰ میں انتخابات کی مخالفت کی وجہ بھی یہی ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ چناؤ سے زیادہ عزیز بہار کے باشندوں کی زندگی ہے۔ چناؤ کو کچھ ماہ کے لئے ملتوی کیے جانے سے کوئی نقصان نہیں ہوگا اس لئے لوگوں کی زندگی کی فکر کرنی زیادہ ضروری ہے۔ اور الیکشن کمیشن کو بھی اس طرف توجہ دینی چاہئے۔لیکن سیاسی ماہرین کا خیال ہےکہ برسراقتدار پاٹی کی انتخابات کو لے کر جو تیاریاں ہیں ، وقت پر انتخابات کے نہیں ہونے سے اس کا حساب بگڑ سکتا ہے۔اس لئے جنتا دل یونائٹیڈ (جے ڈی یو) کسی بھی قیمت پر انتخابات میں تاخیر کے حق میں نہیں ہے۔ چونکہ وقت پر چناؤ کے ہونے سے جے ڈی یو کی اقتدار میں واپسی کےامکانات زیادہ روشن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہار میں افسروں کے تبادلے کو بھی اسی نظریہ سے دیکھا جا رہا ہے۔گزشتہ روز بہار سرکار نے ۱۷ آئی پی ایس کو ادھر سے ادھر کیا ان میں سے کچھ کا پرموشن بھی کیا گیا۔اسی سے نتیش حکومت کی نیت اور چناوی نیتی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی بتائی جا رہی ہےکہ اندرون خانہ بی جے پی اور جے ڈی یو اتحاد میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ،دونوں پارٹیوں میں کئی طرح کی کھچڑی پک رہی ہے۔ وقتاً فوقتاً بی جے پی اور جے ڈی یو کے مابین کا ان بن میڈیا کے توسط سے باہر بھی آجاتا ہے۔اس لئے وثوق سے یہ کہنا کہ انتخابات ہونے تک یہ اتحاد برقرار رہے گا ٹھیک نہیں ہے ابھی بہت کچھ بدلنے کے امکانات ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو بی جے پی کے ریاستی انچارج بوپندر یادو کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی کہ ’این ڈی اے نتیش کمار کی قیادت میں ہی انتخابات لڑےگا۔ بی جے پی کو نتیش کی قابلیت پر مکمل بھروسہ ہے اور بہارکے لوگ بھی نتیش کمار کے کاموں سے بہت خوش ہیں اس لئے اتحاد کو لے کر بی جے پی کا موقف بالکل واضح ہے‘۔ مگر اس کی دوسری اتحادی پارٹی جے ڈی یو اور لوک جن شکتی پارٹی کے درمیان بھی کشیدگی کی خبر ہے۔سیٹوں کی تقسیم کے تعلق سے دونوں پارٹیوں کے درمیان دوریاں بڑھ سکتی ہیں۔ اختلافات کی اہم وجہ یہ ہےکہ جنتادل یو ان سیٹوں کی قربانی نہیں دے گی جن پر پچھلے انتخابات میں اس کے امیدوار مقابلے میں تھے اور ان سیٹوں پر ایل جے پی بھی سرگرم تھی۔ جبکہ ایل جے پی اس بار زیادہ سیٹوں پر انتخابات لڑ نا چاہتی ہے۔ پارٹی کے قومی صدر چراغ پاسوان کادعویٰ ہےکہ امت شاہ نے انہیں اسمبلی انتخابات میں ۴۲ سیٹیں دینے کی یقین دہانی کرائی تھی ۔ جبکہ جے ڈی یو کا کہناہےکہ ان کا اتحاد بی جے پی سے جے ڈی یو سے نہیں۔ بی جے پی چاہے تو اپنی سیٹوں میں سے ایل جے پی کو دے سکتی ہے۔ ان سب باتوں سے ناراض چراغ پاسوان وزیر اعلی نتیش کمار پر مسلسل حملہ کر رہے ہیں۔ دونوں پارٹیوں کے لیڈروں کے درمیان بیان بازی کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا اور ان کے مطالبات حل نہیں ہوئے تو انتخابات سے قبل بہت کچھ تصویر بدل سکتی ہے ۔ ادھر برسر اقتدار پارٹی جے ڈی یو اور اپوزیشن پارٹی آرجے ڈی کے لیڈران اپنے بہتر مستقبل کے لئے پارٹی بدل رہے ہیں۔ ایک طرف ریاستی وزیر شیام رجک نے ۱۰ سالوں کے بعد جے ڈی یو کو الواداع کہہ کر آرجے ڈی میں واپسی کی ہے تو وہیں آرجے ڈی کے تین اراکین اسمبلی نے جے ڈی یو کا دامن تام لیا ہے۔ حیرت کی بات ہےکہ جو لیڈران پارٹی چھوڑ رہے ہیں وہ اپنے اپنے لیڈروں کو خوب نشانہ بھی بنا رہے ہیں ۔شیام رجک جے ڈی یو پر نشانہ سادھ رہے تو آرجے ڈی کے باغی اراکین لالو فیملی پر حملہ آور ہیں ۔ مگر چونگہ سیاست میں یہ تماشتہ شب روز ہوتا ہے اس لئے ان کے بیانوں کو سنجیدگی سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ بہار کے سابق وزیر اعلیٰ اور ہندوستانی عوام مورچہ (ہم) کے صدر جیتن رام مانجھی کا مہا گٹھ بندھن سے الگ ہو کرایک بار پھر سے جے ڈی یو کے ساتھ مل کر انتخاب لڑنے کا اشارہ بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ انہوں نے مہا گٹھ بندھن پر ہم کو نظرانداز کر نے کا الزام عائد کرتے ہوئے گزشہ روز الگ ہونے کا اعلان کردیا. بلاشبہ یہ آرجے ڈی اتحاد کے لئے بڑا جھٹکا ہے ۔ اگر مانجھی دوسری چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں کو ایک ساتھ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس بار بہار اسمبلی انتخابات بہت دلچسپ رہے گا، سیمانچل کی بات کریں تو پپو یادو کی جن ادھیکار پارٹی اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) جیسی علاقائی پارٹی کا الگ الگ چناو لڑنا بھی بڑی پارٹیوں کے کم چیلنج نہیں ہے۔ یہ پارٹیاں کتنی کامیاب ہوں گی اس بارے میں کچھ کہنا غیر مناسب ہے لیکن اتنی بات تو طے ہے کہ یہ پارٹیاں بڑے اتحاد کا کھیل بگاڑ سکتی ہیں۔ پڑوسی ریاست جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات اس کی مثال ہیں۔ جہاں سیکولر اتحاد کے کئی امیدوار بہت معمولی ووٹوں سے شکست کھا گئے۔ سب سے اہم بات یہ ہےکہ بہار کا سیاسی ماحول جس طرح سے گرماتا جا رہا ہے اسی طرح سے فرقہ پرست لوگ یہاں کے سماجی و معاشرتی ماحول کو بھی پراگندہ کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس لئے نتیش حکومت کو اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ووٹروں کو پولرائز کرنے کا بی جے پی اور اس کی ذیلی تنظیموں کا پرانا حربہ ہے، انتخاب سے قبل اشتعال انگیز بیانات اور سوشل میڈیا پر نفرت پھیلانے والے پوسٹ کے ذریعے سے سماجی تانے بانے کو منتشر کرنے کی اس کی چال اکثر کامیاب ہو جاتی ہے، اس بار بھی جنم اشٹمی کے موقع پر دو گروپ میں معمولی باتوں پر ہونے والے تنازع نے فرقہ وارانہ تشدد کا رخ اختیار کرلیا۔ اس قسم کے واقعات پر روک نہیں لگی تو انتخابات سے قبل بہار کے حالات نامساعد ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ اور عشرہ کے درمیان مظفر پور ، سیتا مڑھی، دربھنگہ اور دوسرے اضلاع میں جو واقعات رونما ہوئے اس پر غور کریں تو معلوم ہوتاہے کہ یہاں بھی شرپسند عناصر ماحول کو خراب کرنے کی پوری کوشش میں مصروف ہیں۔

(مضمون نگار دہلی انقلاب میں سینئر سب ایڈیٹر ہیں)

mssaqibqasmi@yahoo.co.in

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں