عمارہ رضوان
جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی
آج عظمیٰ سے پھر بات ہوئی ، مگر یہ تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی ، دونوں طرف صرف آہیں اور آنسو تھے ، عظمیٰ تو کسی طرح کی بات کرنے کی پوژیشن میں ہی نہیں تھی ۔ آخر کیسے ہوتی ؟ عظمیٰ نے اپنے اس باپ کے سایہ کو کھودیا ، جس کے سینے سے لگ کر وہ اپنی ہر خواہش کی تکمیل کرالیتی تھی ، اور اپنی ہر گفتگو میں اپنے ابّو کو اپنا آئیڈیل بتاتی تھی ۔
عظمیٰ جامعہ سینئر سیکنڈری اسکول میں ہماری ہم جماعت ہے ، اور مرحوم ڈاکٹر عبد القادر شمس ؒ کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی ، جامعہ میں داخلے سے پہلے اس نے ذاکر نگر میں واقع خدیجۃ الکبریٰ سے آٹھویں پاس کیا تھا اور میں نے ابوالفضل میں واقع دی اسکالر اسکول سے ۔ آج سے تین سال قبل اتفاق سے نویں جماعت کے ٹسٹ میں اسکالر اسکول ، ابوالفضل اور خدیجۃ الکبری ، ذاکر نگرکی طالبات نے نمایاں نمبرات حاصل کرکے اپنا نام کنفرم کرایا تھا ۔ کچھ دنوں تک ہم لوگ الگ الگ خیموں میں بٹے رہے اور اپنے اپنے سابقہ اسکولوں کی وکالت کرتےرہے، لیکن دھیرےدھیرے معاصرت کی یہ دیواریں زمیں بوس ہوگئیں اور نہ معلوم کب سے ہم لوگ اتنے قریب ہوگئے کہ پتہ ہی نہیں چلا کہ ہماری اسکولنگ الگ الگ ہوئی ہے۔
ہمارے وہاٹس اپ گروپ پر عظمیٰ کے والد کی طبیعت کی خرابی عید الاضحیٰ کے بعد ہی گردش کرنے لگی ، ریم نے کئی بار صحت کے مزید بگڑنے اور رو بہ صحت ہونے کے بارے میں اپڈیٹ کیا ۔ مگر کل ریم نے جب عظمیٰ کا میسیج فارورڈ کیا تو دِ ل دھک سے رہ گیا ۔ عظمیٰ نے ریم سے دعا کی درخواست کی تھی اور یہ لکھا تھا کہ” ابّو کو تمھاری دعاؤوں کی سخت ضرورت ہے ، تم بھی یتیم ہو ، تم یتیم ہونے کے کَرب کو اچھے سے محسوس کرسکتی ہو۔ “
میں نے جب پہلی بار مضمون لکھا اور کلاس میٹ کے گروپ پر شیئر کیا ، تو عظمیٰ نے میری چُٹکی لی اور حوصلہ افزائی بھی کی ،اپنے والد کےحوالے سے کہا کہ میرے ابو تمہیں کسی اخبار میں ایڈیٹر لگوادیں گے ۔ مجھے پتہ ہے کہ عظمی ٰ نے میرے مضامین اپنے ابو کو ضرو ر دکھائے ہوں گے ۔
عظمیٰ ! تم نے تو مجھے صرف یہ بتایا تھا کہ تمھارے ابو ایک اخبار میں کام کرتےہیں ۔ مجھے تم سےشدید شکایت ہے کہ تم نے مجھ سے اپنے ابو کا بہت مختصر تعارف کرایا تھا ، وہ صرف ایک صحافی نہ تھے ۔ مجھے آج معلوم ہوا کہ تمھارے ابو کتنے عظیم تھے ۔ اور عظیم لوگ اللہ کو زیادہ محبوب ہوتے ہیں ، اسی لیے اللہ انہیں اپنے پاس جلدی بلا لیتا ہے۔
تمہارے ابو تو درحقیقت شمس تھے ، جی ہاں سورج ، وہ صرف روشنی کے نقیب تھے ، ہندوستان کے اس تاریک زدہ ماحول میں ان کی روشنی کی کتنی ضرورت تھی ؟
تمہارے ابو نے صحافت کو ایک مشن کے طور پر لیا اور مور کو دانہ کھلانے ، آم کے چوسنے کے طریق کار والی صحافت سے اپنے دامن کو داغ دار نہیں کیا ۔
تمہارے ابو جدید صحافت کے اجزائے ترکیبی سے قطعی مرعوب نہیں ہوئے اور اپنی شناخت کے ساتھ میدانِ صحافت میں اپنا لوہا منوایا ۔
تمہارے ابو مولانا قاسم نانوتوی ؒ اور مولانا محمد علی جوہر ؒ کی دانش گاہوں سے انہوں نے کسبِ فیض کیا اور قدیم او ر جدید علوم کا سنگم قرار پائے ۔
تمہارے ابو دہلی کی مجلسوں کے مسند نشین رہے تو ارریہ کی تعمیر وترقی کے لئے گاؤں کی مٹی سے بھی اپنے رشتے باقی رکھا ۔
عظمیٰ ! میری بہن ، تم تینوں بہنوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی تمھارے ابو نے،اور بہترین تربیت کی تمہارے والد نے ، تین کی بہترین تعلیم وتربیت کے ذریعے انہوں نے جنت میں اپنی جگہ متعین کرلی ہے ۔باقی ان کے کام تو ان کے لیے صدقہ جاریہ ہی ہیں ۔
حادثہ بہت بڑا ہے ، مگر یہ زخم بھی مندمل ہوجائے گا ۔ اللہ کارساز ہے ۔ اسی نے تم سب کی پہلے بھی کفالت کی ہے اور آگے بھی وہی کفیل ہے۔
میں آج یہ برملا کہ سکتی ہوں کہ تمہارے ابو چھوٹی عمر کے بہت بڑے آدمی تھے ۔ بہت بڑے ، اپنے کارناموں سے ، اپنی نیک نامی سے، اپنے تواضع وانکساری سے ، اورملک و ملت کے تئیں اپنی وابستگی سے ۔






