افتخار رحمانی فاخر
راحت اندروی کا نام [ جنہیں اب ’مرحوم‘ لکھنا پڑ رہا ہے ] پہلی بار میں نے دیوبند میں سنا تھا ،جب وہ دیوبند میلہ کے تحت ہونے والے آل انڈیا مشاعرہ میں شر کت کیلئے تشریف لائے تھے ۔راحت اندوری مرحوم کی آمد کے باعث ہمارے کئی ساتھی پرجوش تھے ، ان کی خوشی دیدنی بھی تھی کہ وہ راحت اندوری صاحب کا کلام بالمشافہ سنیں گے ۔ اس سے قبل راحت اندروی مرحوم کے نام اور ان کے کلام سے کلیةً ناآشنا تھا ۔مشاعرہ میں شرکت تو شجر ممنوعہ ہی تھی ،مدرسہ کے دفتر اہتمام کی جانب سے بھی میلہ اور مشاعرہ کے تناظر میں ’سخت ‘ اعلان چسپاں کردیا گیا تھا، بنا ءبریں مشاعرے میں شریک نہ ہوسکا، البتہ ان کا کلام موبائل فون کے توسط سے بارہا سنا ، اورخوب محظوظ بھی ہوا۔ بدقسمتی کہہ لیں کہ میں نے کبھی انہیں بالمشافہ مشاعرہ میں نہیں سنا ؛کیوں کہ راقم آج تک ایک آدھ مشاعرے میں ہی ’بھیڑ ‘کا حصہ بنا ہے ۔ وبائی دور [کرونا وائرس] اپنے شباب پر ہے ، لیکن راحت اند وری مرحوم کا یوں یک لخت چلے جانا نہایت ہی رنج آمیز ، اردو ادب کے لئے عظیم خلا اور شاعری سے شغف رکھنے والوں کیلئے ایک نعمت کبریٰ کا چھن جانا ہے ۔ کسی کو اِس امر کا گمان بھی نہیں تھا کہ وہ یوں بہ عجلت تمام داعی ¿ اجل کو لبیک کہہ جائیں گے ،گویا وہ فرشتہ ¿ اجل کی صدا کے منتظر ہیں، اُدھر فرشتہ ¿ اجل نے صدالگائی ، اِدھر انہوں نے’ لبیک‘ کہہ دیا ۔ ان کی آخری غزل جو اُن کے صاحبزادہ ستلج اندوری کے توسط سے منظر عام پر آئی ہے ، اس غزل کے ایک شعر میں انہوں نے اپنی خواہش اِس طرح ظاہرکی
وبا نے کاش ہمیں بھی بلالیا ہوتا
تو ہم پر موت کا احسان بھی نہیں ہوتا
اتفاقی طور پر وہ کرونا ’پازیٹیو ‘ ہوئے ، اور حرکت ِ قلب بند ہوجانے کے باعث روہروانِ آخرت میں شامل ہوگئے ۔ موت برحق ہے ،’کل من علیہا فان، و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال و الاکرام‘۔ ان کے چلے جانے سے بیباک شاعرانہ لب و لہجہ، عصری حسیت اورامتداد ِ زمانہ کی نوحہ خوانی کا ایک حسیں باب ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا ۔راحت اندوری مرحوم مشاعرہ کے شاعر نہیں تھے ، بلکہ ان کی ذات میں فنی شاعری کا پیکرِ جلیل جلوہ گر تھا، یہ وقت کا تقاضا تھا جس کے با عث وہ مشاعروں کا جزو لازم ہوگئے ، اور سچائی تو یہی ہے کہ بقول شخصے :’ شاعر وہی ہے ، جو زمانہ شناس بھی ہواور نباض بھی،راحت اندروی کی شخصیت اس مقولہ پر صدفیصد منطبق ہوتی ہے ۔ ان کی شاعری کا محور اور خمیر وطن پرستی ، حب الوطنی ، عشق ، عبادت ، سیاست ، سیاست کی ستم ظریفی اور وقت کی سرد مہری نیز بے التفاتی ہے۔ وہ اشعار میں تشبیہات و استعارات کے برمحل استعمال اور لفظوں کے ’مدو جزر‘ پر ید ِ طولیٰ رکھتے تھے۔سامعین کو اپنی شاعری کی سحر انگیزی میں یوں مسحور کردیتے کہ سامعین بے ساختہ ان کے ہرایک شعر پر داد دینے پر مجبور ہوتے ۔ان کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ االفاظ سادے ہوتے ،لیکن ترکیب برمحل ، برجستہ اور موزوں ہوا کرتی تھی کہ سامع و قاری پر غیرمرئی وجد طاری ہوجایا کرتا ۔ وہ قومی یکجہتی اور ہندوستانیت کے بھی علمبردار تھے ۔جب بھی اردو ادب میں قومی یکجہتی اور ملکی حمیت کی بات کی جائے گی، راحت اندوری مرحوم کا نام صد تکریم و تعظیم سے لیا جائے گا۔وہ شاعر محض اور لفظوں کی کاریگری کے حامل صنعت کار نہیں تھے،بلکہ ’احساس و ادراک ‘ کی اتھاہ گہرائیوں میں اترکر گفتگو کرنے والے بامہذب شاعر تھے ۔ ان کے مجموعہ کلام اور مشاعرہ میں پڑھے جانے والے کلام سے یہی اخذ ہوتا ہے کہ راحت اندوری مرحوم ایک انقلابی شاعر بھی تھے اور قومی یکجہتی کے پرُجوش علمبردار بھی۔ عصری حسیت راحت اندوری مرحوم کی شاعری کا مسلک تھی، اوراسی مسلک کی پیروی اور اتباع میں اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ ان کے لطیف احساس نے وقت کے تقاضوں اور اس کے مطالبات کوفن کا پیرہن بھی عطا کیا ، بناءبریں وہ ایک انقلابی گھن گرج ، زیر و بم ، نک سک اور طرزِ ادا کے بھی شاعر بن کر اپنی خدادا صلاحیتیوں کا لوہا منوایا ۔وقت کا جبر اور سیاست کی رستخیزی جب جب شرربار ہوئی ،ایک بیباک اور بیداردل شاعر کی فکر و سوچ میں تلاطم برپا ہوا اورپھر یہ تلاطم شاعری کی صورت میں جلوہ گر ہو کر عوام کے سامنے آگیا ،ان کا دعویٰ تھا کہ :
مرا ضمیر مرا اعتبار بولتا ہے
مری زباں سے پروردگار بولتا ہے
ان کی پوری شاعری کھنگا لی جائے ، اور اُس کا بالاستیعاب محققانہ مطالعہ کیا جائے ،تو یہ صداقت سامنے آتی ہے کہ’ ان کی زبان سے پروردگار بولتا ہے ‘۔ گزشتہ چھ سات سا لوں سے انہوں نے جس طرح کی شاعری کی ہے ، اورجس طرح سے حاکم ِ اعلیٰ اور فقیہ شہر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کی ہے ،وہ اپنی مثال آپ ہے ۔بلکہ فی زماننا یہ سمجھا جاتا تھا کہ انقلابی شاعری اور اس کی گھن گرج بیتے زمانے کی بات ہوگئی ہے ، انقلابی طرزِ تکلم فیض ، جوش ، علی سردار جعفری ، حبیب جالب کا ہی خاصہ اور وصف نہیں ہے ، بلکہ جب راحت اندوری مرحوم کایہ شعر ’ سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں / کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے ‘ سماعتوں سے ٹکراتا ہے ،تو یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ اس دور میں بھی انقلابی آہنگ و طرز باقی ہے، جس کی پیروی راحت اندوری مرحوم نے کی۔انہوں نے انقلابی خو اور طرزِ تخاطب میں جو کچھ بھی کہا ببانگ دہل علی الاعلان بڑی مضبوطی اور وثوق کے ساتھ کہا ، جس کی چند مثالیں ذیل میں پیش ہیں:
مرا ضمیر مرا اعتبار بولتا ہے
مری زبان سے پروردگار بولتا ہے
تری زباں کترنا بہت ضروری ہے
تجھے مرض ہے کہ تو بار بار بولتا ہے
کچھ اور کام تو اسے یاد نہیں شاید
مگر وہ جھوٹ بہت شاندار بولتا ہے
ایک دوسرے مقام پر یوں کہتے ہیں :
تجلیوں کا نیا دائرہ بنانے میں
مرے چراغ لگے ہیں ہوا بنانے میں
اڑے تھے ضد پہ کہ سورج بنا کے چھوڑیں گے
پسینے چھوٹ گئے دیا بنانے میں
مری نگاہ میں وہ شخص آدمی بھی نہیں
جسے لگا ہے زمانہ خدا بنانے میں
اس وقت جب کہ ملک بھر میں اقلیت بالخصوص مسلمانوں کا مستقبل موہوم سانظر آرہا ہے ، نام نہادقانون ( C.A.A) اور( N.C.R)، نیز این پی آر (N.P.R) جیسے متعصبانہ قانون کیخلاف ملک بھرمیں احتجاج ہوئے ، اس احتجاج میں جہاں دوسرے انقلابی شاعروں کی نظمیں ، گیت ، شعر ان احتجاجات کی زبان بن گئے ، وہیں راحت کی ایک پوری غزل ان احتجاج کی ترجمانی کرنے لگی ۔جس کا ایک شعر تو گویا اس پورے احتجاج کی جان ہی تھا
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے !
ان کی شاعری کوہم مشاعرہ کی شاعری نہیں کہ سکتے ، کیوں کہ وہ مشاعرہ کی شاعری سے بہت دور تھے ، البتہ یہ سچ ہے کہ انہوں نے اپنی شاعری کو مشاعرہ کی ذریعہ بام عروج تک پہنچایا، نیز یہ بھی سچائی ہے کہ مشاعرہ انہیں خود پکڑ پکڑ کر اپنی جانب کھینچ لاتا تھا ، اور راحت اندوری مرحوم اس کی جانب چلے جایا کرتے تھے ۔آج راحت اندوری مرحوم ہوگئے ، لیکن وہ روزِ ازل تک ہمارے درمیان رہیں گے ، ایک جسم تھا، جو پیوندِ خاک ہوگیا ، لیکن جب جب لوگ شاعری کا ذکر کریں گے ، عشق و محبت کی بات کریں گے ، انقلابی زیر و بم کی گفتگو چھیڑیں گے،راحت اندوری کو ضرور یاد کیا جائے گا ، انہوں نے بہت قبل اس کی پیشن گوئی بھی کردی تھی ۔ وہ گم گشتہ نہیں ہیں؛ بلکہ ان کے پیچھے زمانہ چل رہا ہے ۔اور یہ سچ ہے بقول راحت اندوری مرحوم
مری گم گشتگی پر ہنسنے والو
مرے پیچھے زمانہ چل رہا ہے
٭٭٭