آخر انسانیت کے خلاف فیصلہ کیوں لیا گیا؟

انوار الحق قاسمی نیپالی
ڈائریکٹر، نیپال اسلامک اکیڈمی
اس دنیا کے ہر کونے میں مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لیے ہر اسلام دشمن انسان اور اسلام کے خلاف قائم کردہ ہر ایک حکومت وتنظیم اپنی پوری طاقت و توانائی صرف کر رہا ہے اور ہماری بدقسمتی سے انہیں اس میں رفتہ رفتہ کامیابی بھی مل رہی ہے۔
اغیار ہماری ہی کتابوں سے جن میں اسلام کی سربلندی و عروج اور پستی و زوال کے اسباب مذکور ہیں، ان ہی کتابوں میں سے ہماری پستی و زوال کے اسباب اخذ کرکے انہیں ہر جگہ نافذ کر رہے ہیں، تاکہ بہ سرعت نہیں توبہ تاخیر ہی سہی ؛مگر مسلمان انہیں دیکھا دیکھی تو ضرور کرنےہی لگیں گےاور پھر انہیں اپنے مقصد عظیم یعنی مسلمانوں کو کمزور کرنے میں ایک وقت کامیابی ضرور مل کر ہی رہے گی اور یومیہ مشاہدہ بھی یہی ہے کہ انہیں اپنے مقصد میں کامیابی مل بھی رہی ہے۔
سب سے زیادہ جس چیز سے باری تعالی کی قربت حاصل ہوتی ہے، وہ ہے ” نماز ” نماز ایک عظیم حکم ربانی ہے، جس کی تعمیل جب بندہ کرتا ہے ،تو اسے اللہ کی قربت حاصل ہوتی ہے اور جسے اللہ کی قربت حاصل ہوگئی، وہ اپنے مقصد تخلیق میں کامیاب ہوگیا؛ مگر افسوس کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہر بڑی چھوٹی بستی میں نمازیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، ایسا بھی نہیں کہ بستیاں مساجد سے خالی ہیں یعنی ان بستیوں میں مسجدیں نہیں ہیں؛ بل کہ ہر بستی میں ایک نہیں دو نہیں، بل کہ کم از کم تین یا چار بڑی اورعالیشان مساجد ہیں ، مگر نمازیوں کی تعداد بس دس یا پندرہ ہے۔
اسی طرح دیگر فرائض کے ساتھ مسلمانوں کے معاملات ہیں ،کہ کوئی روزہ رکھتا ہے تو کوئی روزہ نہیں رکھتا، کوئی زکوۃ دیتا ہے تو کوئی زکوة نہیں دیتا، کوئی حج کرتا ہے تو کوئی حج نہیں کرتا، کوئی علم دین حاصل کرتاہےتوکوئی علم دین حاصل نہیں کرتا۔
اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے، کہ ہر فرض کی ادائیگی قرب خداوندی کاایک عظیم ذریعہ ہے ،اسی طرح سنن ونوافل و مستحبات اور دیگر امور حسنہ ؛مگر مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اللہ سے قریب کرنے والے اوامر الہی کی تعمیل سے کنارہ کشی اختیار کرتی ہے اور شیطان سے قریب کرنے والی چیزوں کو بصد شوق انجام دیتی ہے، جس کی بنا مسلمانوں کو اللہ کی قربت کی بجائے شیطان کی قربت حاصل ہورہی ہے اور یہی مقصد ہے اسلام مخالفین کا کہ مسلمانوں کو اللہ کی قربت حاصل ہونے کی بجائے شیطان کی قربت حاصل ہو اور افسوس کہ مسلمان شیطان کے قریب ہو بھی رہے ہیں اسی لیے میں نے کہا کہ انہیں اپنے مقصد میں کامیابی مل بھی رہی ہے۔
یقیناً بعض چیزیں ایسی ہیں، جن سےانسانی طبیعت نفرت کرتی ہےاور ان چیزوں میں ملوث اورمرتکب افراد سے دور بھاگتی ہے مثلا: شراب نوشی، ہم جنس پرستی ، زنا وغیرہم۔
جب معاملہ یہ ہےکہ یہ چیزیں فی نفسہ قبیح ہیں اور ان سےہرانسان نفرت بھی کرتا ہے، تو پھر عدالت میں بیٹھے ضمیر فروش انسان، بہ شکل انسان شیطان اکبر کیوں انہیں پسند کرتے ہیں؟ اور خود اختراعی وکسبی قانون کے تحت جائز بھی سمجھتے ہیں؟ ۔
اس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ مسلمانوں کوایمانی حیثیت سےکمزور کرنےکی اغیار کی سازشیں چل رہی ہیں کہ بےحیائی عام کرواورمسلمانوں کوان میں ملوث کرکےان کےایمان و عقائد کوکمزور کرو، تاکہ وہ بزدل ہوجائیں اورہماری حکومت ان پر تادیر قائم رہے۔
ابھی حال ہی میں یعنی 26/ستمبر 2020ء کو انسانی ضمیر کےخلاف ممبئی ہائی کورٹ کافیصلہ سامنے آیا ہے، وہ فیصلہ یہ ہےکہ جسم فروشی کوئی جرم نہیں ہے، ایک بالغ عورت کو اپنے پیشے کے انتخاب کا مکمل حق حاصل ہے، اس میں مداخلت صحیح نہیں ہے ۔
مشہور و معروف قلم کار محترم جناب شکیل رشید صاحب – حفظہ اللہ -27/ستمبر 2020ء کے اخبار ممبئی اردو نیوز میں شائع شدہ اپنی تحریر میں لکھتے ہیں، کہ معاملہ تین خواتین کا تھا، جنہیں ایک اصلاحی ادارے میں ایک سال سے رکھا گیا تھا ، مقصد انہیں راہ راست پر لانا یا بالفاظ دیگر جسم فروشی سے روکنا تھا۔ تینوں عورتوں کا تعلق ’ بڑیا ‘ برادری سے ہے، جہاں لڑکیوں سے بلوغیت کے بعد جسم فروشی کروائی جاتی ہے۔ انہیں پولیس نےایک گیسٹ ہاؤس سے رنگے ہاتھوں حراست میں لیا تھا، اور میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کی عدالت نے تینوں کو ایک اصلاحی ادارے نوجیون مہیلا دستی گرہ، دیونار، ممبئی کی تحویل میں دے دیا تھا۔
معاملہ میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کی عدالت سےسیشن جج، ڈنڈوشی اور وہاں سے ممبئی ہائی کورٹ پہنچا ۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا : کہ غیر اخلاقی ٹریفک (انسداد) ایکٹ سن 1956ء کےتحت جسم فروشی کوئی جرم نہیں ہے۔
عدالت کے جج پرتھوی راج چون کا کہنا تھا: کہ قانون میں کوئی ایسی شق نہیں ہے، جس میں اپنی مرضی سےجسم فروشی کوئی جرم ہو؛ البتہ جبراً کسی مرد و عورت سےجسم فروشی کا کاروبار کا جرم ہے۔
ممبئی 26/ستمبر (یواین آئی) عدالت نے یہ بھی کہا:کہ متاثرہ افراد کو ان کی خواہش کے برخلاف غیر ضروری نظربندی کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا اور نہ ہی انہیں اصلاحی ادارے میں مزید رہنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔
ممبئی ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ اسلام کے خلاف تو ہے ہی، علاوہ ازیں یہ انسانیت کے خلاف بھی ہے اس فیصلہ کی جس قدر بھی مذمت کی جائے بہت ہی کم ہے۔
وقت قریب ہی میں یکےبعد دیگرے انسانیت شرمسار کرنے والے چند عدالتی فیصلے دیکھ کر اب ایسا لگنے لگا ہے کہ مسلمانوں کی ایمانی حرارت سرد کرنے کے لیے عدالت ایسے بھی فیصلے صادر کرنےلگی ہے، جن سے حیوان بھی شرم سے سر جھکا لیا ہے ؛ مگر ان کا سر ابھی بھی فخر سے بلند ہی ہے۔
مسلمانوں کےقلوب سے ایمان سلب کرنے کے لیے اورانہیں غیر اللہ کے قریب کرنے کے لیے معاندین اسلام ہر ممکن کوشش کر رہا ہے اور حیف صد حیف یہ کہ مسلمان ان کے نرغے میں بآسانی پھنس بھی جا رہے ہیں ۔
اس لیے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مومن اپنے ایمان و اسلام کا جائزہ لے اور اپنے ایمان و اسلام کو قوی سے قوی تر بنانے کی فکر میں لگ جائے، تب ہی جاکر مسلمانوں کو فتح و کامرانی نصیب ہو گی؛ ورنہ سابقہ حالت پر رہتے ہوئے تو کبھی بھی ممکن نہیں ہے ۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ شیطانی امور سے بہت دور رہیں اور اللہ والوں کی مجالس و خانقاہوں کو اپنے لیے لازم پکڑ لیں اور کوشش یہ کریں کہ ہر ممکن فرائض میں معمولی کوتاہی بھی نہ ہو ، ہر نماز تکبیر اولیٰ کے ساتھ مسجد میں ادا کریں، مکمل پابندی کے ساتھ روزہ رکھیں، زکوۃ ادا کریں، حج کریں اور جملہ فرائض بحسن و خوبی انجام دیں ، اسی طرح سنن و نوافل کا کثرت سے اہتمام کریں اور اعمال حسنہ خوب خوب کرتے رہیں، نیز ہر برائی سے بچنے کو اپنا فرض منصبی سمجھیں ، تب ہی جاکر دشمنان اسلام اپنے مشن میں ناکام ہوں گے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں