2020 کا انتخاب: بہار کو بدلنے کا ایک اور موقعہ

محمدشکیب عالم
٭ ریسرچ اسکالر، شعبہ علم سیاست
  انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملیشیا  
یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ کسی بھی ملک یا صوبہ کی ترقی میں جہاں ایک اچھے حکمران کی ضرورت ہوتی ہے، وہیں ایک فعال اور سمجھدار عوام کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ دونوں کے ایک اچھے تال میل اور مثبت کردار سے ہی وہ ملک یا صوبہ بلندیوں کو چھو پاتا ہے۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جیسی عوام ہوتی ہے، ویسے ہی حکمران اسے میسر ہوتے ہیں، کیونکہ بالآخر وہ انھیں میں سے منتخب ہوکے آتے ہیں بلکہ وہی انہیں منتخب کرتے ہیں۔ بہار کا 2020 کا انتخاب آزادی کے بعد سے اب تک کا 17واں انتخاب ہوگا، اور اس وقت سے ابھی تک صوبہ نے 26 وزیر اعلیٰ کا چہرہ دیکھا ہے اور ساتھ ہی صوبہ میں 2 مرتبہ صدارتی قانون بھی نافذ کیا گیا ہے۔ ان سب کے بیچ کانگریس 7 مرتبہ، جنتا پارٹی 1مرتبہ، راشٹریہ جنتا دل 3مرتبہ اور جنتا دل یونائیٹڈ اپنی حلیف پارٹی بی جے پی کے ساتھ ملکر 3مرتبہ حکومت کرچکی ہے۔ ان سب کے باوجود ریاست کی صورت حال بدتر ہے اور ہندوستان کے سب سے پست اور کمزور صوبوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔ جنگل راج اور بیمار صوبہ کے خطاب کے ساتھ ساتھ بہار چمتکار کا خطاب بھی ملا ہوا ہے، لیکن ایک مرتبہ پھر سے اسکی حالت دگرگوں ہے۔
بہار کی خستہ حالی کے اسباب
محققین نے بہار کی خستہ حالی کے تعلق سے کافی کچھ لکھا ہے، یہاں میں اختصار کے ساتھ کچھ چیزوں کو ذکر کرتے ہوئے آگے بڑھوں گا، ساتھ ہی میں اعداد وشمار کے پیچ و خم میں پڑے بغیر ، کچھ موٹی موٹی باتوں اور زمینی حقائق کو ذکر کرنے پر اکتفا کروں گا۔ اور اس انتخاب میں کیا کرنے کی ضرورت ہے کہ بہار ایک ترقی یافتہ اور خوشحال صوبہ بن پائے پر کچھ تجاویز پیش خدمت ہوں گی۔
قدرتی وسائل
بہار ، جھارکھنڈ سے الگ ہونے سے قبل معدنیات سے بھرپور صوبہ تھا۔ تقریباً ہندوستان کا 40٪ کوئلہ ، 32٪ باکسائٹ، 59٪ تانبا، 17٪ لوہا، 80٪ چاندی اور 60٪ میکا بہار سے آتا تھا، مگر غلط قوانین اور حکمرانوں کی لاپرواہی کی وجہ سے اس سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ قدرت نے اس کی گود سے کثیر تعداد میں ندیاں بہائی ہیں اور زراعت کے موزوں موسموں سے نوازا ہے ، مگر اس قدر زمین کے زرخیز ہونے کے باوجود غربت یہاں کا مقدّر بنی ہوئی ہے۔ چونکہ اس شعبہ کی طرف کما حقہ توجہ نہیں دی گئی ، جس کی وجہ سے کبھی فصلیں سیلاب میں ڈوب کر برباد ہوجاتی ہیں، تو کبھی سوکھا پڑنے کی وجہ سے جل کے بھسم ہو جاتی ہیں، کبھی انھیں اولے اڑا لے جاتے ہیں، تو کبھی کسان کو سینچائی کے لیے پانی ہاتھ نہیں آتا، تو کبھی کھاد مہنگا ہوتا ہے. بہار کی معیشت کا ایک چوتھائی حصّہ زراعت پر منحصر ہے اور تقریباً 80 فیصد آبادی زراعت سے جڑی ہوئی ہے اس کے باوجود اسے ابھی بھی نئے تکنیک اور تجربوں سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ اور کیسی بھی صورت ہو مگر فصلیں برباد نہ ہوں سوچ کر کوئی پلاننگ اور اسکیم سرکار نہیں لا پائی ہے۔
ایسے زراعت کے شعبہ میں برٹش راج سے ہی لوگوں کا استحصال ہوتا چلا آرہا ہے، اگرچہ کہ جبر کرنے والے بدلتے رہے ہیں، یہ تو شکر ہے کے چھوٹی ذات کے لوگ باہر جاکر دو پیسہ کما لیتے ہیں جس سے ان کا پیٹ بھی بھر جاتا ہے اور کچھ بچ جائے تو ایک دو کٹھا زمین خرید لیتے ہیں جس سے ان کے دال روٹی کا بندوبست ہوجاتا ہے، ورنہ ان کے کھانے کے لالہ پڑجاتے. ابھی بھی زمین کا ایک بڑا حصّہ اونچی ذات اور مالدار طبقہ کی ملکیت میں ہیں جو خود کسی دوسرے شہر میں رہتے ہیں اور انکی زمین غریب کسانوں کے ہاتھ میں تو ہے مگر ان کے پاس پونجی نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان زمین کا سہی فائدہ نہیں اٹھا پارہے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زمین کی دولت تو ہے مگر اسکا کوئی فائدہ نہیں ہے، اور اس کا مزید بہتر رول بہار کی ترقی میں نہیں ہو پارہا ہے. کریلا نیم چڑھا کے مساوی کھیتی سے متعلق مرکزی حکومت کا حالیہ منظور شدہ قانون کسانوں کو مزید استحصال کرنے کا راستہ فراہم کروا ئیگا. ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہر پنچایت میں ایک زراعت کا مرکز کھولا جاتا جہاں کسان کو سستے دام میں بیج اور کھاد مہیا کیا جاتا اور ساتھ ہی انھیں فری ہدایات فراہم کی جاتیں اور یہ تسلی دی جاتی کہ آپ محنت سے کھیتی کریں، حکومت آپ کی فصلوں کا بہتر معاوضہ دے گی، بلکہ فصل کے برباد ہونے پر بھی حکومت آپ کی حتی المقدور مدد کرے گی، تاکہ وہ پوری لگن   سے کھیتی کرے.
کثیر مگر ان پڑھ، بے ہنر ، اور غریب آبادی
اس کے علاوہ بہار کی کثیر آبادی بھی موجودہ صورت حال میں ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے، ہاں اگر انہیں تعلیم سے آراستہ کیا جاۓ اور ساتھ ہی کچھ ہنر سکھا دیا جاۓ تو پھر یہی بہت بڑا سرمایہ بن جائے گا، اور بہار کی صورت لمحوں میں بدل جائے گی، اس کے لیے حکومت کو جگہ جگہ پیشہ ورانہ تربیتی مراکز کھولنے کی ضرورت ہے اور ممکن ہو تو اس کے لیے ضروری سرٹیفکیٹ کو بھی نظر انداز کیا جاۓ، مگر جب وہ ان مرکزوں سے تربیت پاکر نکلیں تو وہ اس شعبہ کے ماسٹر ہوں، اس کے علاوہ حالیہ سالوں میں اگرچہ کے اسکول میں بچوں کے داخلہ کا فیصد بڑھا ہے مگر اسکول میں کیا پڑھائی ہو بھی رہی ہے یا نہیں، اور ساتھ ہی کیا اساتذہ اور ٹرینر اس قابل ہیں غور طلب مسئلہ ہے. ابھی بھی ہزاروں طلبہ اسکول سے دور ہیں اور غربت کی وجہ سے ہزاروں کو بیچ میں ہی اپنے تعلیمی سفر کو روکنا پڑتا ہے. اس کے لیے جہاں حکومت کو ان بچوں کے لیے فنڈ مہیا کرنے کی ضرورت ہے، وہیں اسے بہت بڑے پیمانے پر تعلیم کے تعلّق سے تحریک چلانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر گھر تک ان کی اپنی سمجھ کے مطابق تعلیم کی ضرورت اور اہمیت سمجھ میں آجاۓ، اور بہار کی ترقی میں وہ مثبت رول ادا کر پائیں۔
غیر مستحکم اور غیر صحتمند سیاسی کلچر
حکومت کا استحکام اور ساتھ ہی ساتھ صحتمند سیاسی کلچر کا وجود بھی بہت اہم ہے اور بد قسمتی سے بہار دونوں کی مار جھیل رہا ہے. اگرچہ حالیہ دہائیوں میں حکومت میں استحکام تو آیا ہے مگر صحتمند سیاسی کلچر کے فقدان کی وجہ سے ابھی بھی بجلی کا مسئلہ ہے، روڈ کا مسئلہ ہے، پانی کا مسئلہ ہے، بدعنوانی کا مسئلہ ہے، جرم کا مسئلہ ہے. بلکہ اب پھر سے یہ دکھنے کو مل رہا ہے کے لوگوں کی جانیں اور انکے گھر تک محفوظ نہیں ہیں. ریاست کے کرائم ریکارڈ بیورو کی ویب سائٹ پر دستیاب سال 2001 سے 2019 کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ہر سال جرائم پیشہ واقعات میں اضافہ ہی ہورہا ہے. سال 2001 میں بہار میں کل 95،942 سنگین جرائم درج کیے گئے، وہیں گزشتہ سال 2019 میں بہار میں کل 2،69،095 جرائم درج کیے گئے ہیں۔ نیشنل کرائم بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق، سال 2018 میں بہار 167 فرقہ وارانہ / مذہبی فسادات کے ساتھ پہلے نمبر پر تھا۔ ان فسادات سے تقریبا 339 افراد متاثر ہوئے تھے۔ اس سال بہار میں کل 10،276 فسادات ہوئے تھے ، جو کسی بھی دوسری ریاست کے مقابلے میں زیادہ تھے۔ 2018 میں، رام نومی کی تقریبات کے دوران نو اضلاع میں فرقہ وارانہ تشدد پھیل گیا تھا۔ پچھلے سال فروری میں، فرقہ وارانہ تشدد نے سیتا مڑھی میں بدصورت شکل اختیار کرلی تھی جہاں ایک مسلمان شخص کو دن کے وقت روشنی میں ہجوم نے جلاوطن کردیا تھا۔
کئی ریسرچ کا دعویٰ ہے کہ بہار میں پارٹی کے “کام” کے بجاۓ وہ کس “ذات” کی ہے کی بنیاد پر ووٹ دینے کی صورت اس وقت پیدا ہوئی جب ابتدا میں کانگریس، جو عام طور پر اونچی ذات کے لوگوں پر مشتمل تھی، اس نے نیچی ذات کو اوپر لانے کے لیۓ حتیٰ المقدور کوشش نہیں کی، تو چھوٹی ذات کے لوگ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے منظّم ہوئے اور پھر اسی بنیاد پر ووٹ مانگنا شروع کیا جو بعد میں ایک عام اصول بن گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب جس ذات کی پارٹی حکومت میں آئی، وہ اپنی ذات پہ توجّہ دی اور دوسری ذات کو نظر انداز کیا. اور یہ ایک بدیہی امر ہے کہ جب کبھی اسطرح لوگ حکومت کا انتخاب کرے گی ، ویسی حکومت عمومی طور پر صوبہ کو ترقی کی راہ پار لانے کے بجاۓ، اپنی ذات کے لوگوں کو اوپر لانے کی کوشش کرے گی، ساتھ ہی اپنے حساب کی پالیسیاں بناۓ گی، جس کی وجہ سے غنڈہ گردی بھی لازم ہے اور ساتھ ہی گھوٹالے، مگر اس کا خمیازہ پورا بہار جھیل رہا ہے۔ ایسے اونچی ذات کے لوگوں کی سیاست میں بی جے پی، جو ویدک زمانہ کو واپس لانا چاہتی ہے، جہاں صرف ایک ہی مذہب کے ماننے والے تھے، کی آمد کے بعد ایک نئی سیاست نے جنم لیا ہے جو آج پورے ہندوستان کو متاثر کر رہی ہے، اس کے ساتھ پچھڑے اور کمزور طبقہ میں بھی کئی پارٹیاں جنم لیں، جن کے اپنے ایجنڈے ہیں اور جو اپنے اپنے حساب سے ووٹ مانگتی ہیں۔
مرکزی حکومت اور ریاستی ترقیاتی کام
ان سب کے علاوہ مرکزی حکومت کا سوتیلاپن بھی بہار کو اس اسٹیج پہ لانے میں برابر کا رول ادا کیا ہے. اگر آپ مرکز سے ریاستوں کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے دئیے گئے فنڈس کا جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ بہار کو ہمیشہ سب سے کم فنڈ ملا ہے. مثال کے طور پر اگر آپ فی کس مختص ترقیاتی اخراجات کو دیکھیں گے، تو بہار کو 1990 تک بہار کو قومی اوسط کے آدھے سے بھی کم رقم ملی۔ بیرونی چندہ سے بننے والے پروجیکٹس وغیرہ میں بھی بہار کی شراکت بہت کم رہی ہے. مال برداری میں مساوات کے قانون نے بھی بہار کو بہت نقصان پہنچایا ہے. نتیجہ یہ ہوا کہ کمپنیاں چاہے تامل ناڈو میں ہو مگر انھیں ضروری ایندھن کوئلہ وغیرہ یا خام مال مساوی قیمت میں اسے حاصل ہوگیا ، اس کی وجہ سے اگرچہ بہار کو اس طرح کے قدرتی وسائل حاصل تھے، مگر سمندر سے قریب نہ ہونے یا پھر انفراسٹرکچر کی کمی کی بنا کمپنیاں نہیں آئیں اور بہار آج بھی بڑی بڑی انڈسٹری کو ترس رہا ہے، تاکہ ان کی وجہ سے بہار کے لوگوں کو ملک اور بیرون ملک جانے کی نوبت نہ پڑے اور ساتھ ہی بہار سے غربت کا خاتمہ ہو، یہاں خوشحالی آئے اور یہاں کی صلاحیت یہیں استعمال ہو ۔
بہار کی خوشحالی: کچھ تجاویز
اب کیا کرنا ہے جس کی وجہ سے بہار کو دوسرے ترقی یافتہ صوبوں کی طرح بلکہ ان سے بہتر بنایا جاسکے، یہ اہم سوال ہے، اور یہاں میں پہلے بتا دوں کہ اس کے لیے عوام کو کلیدی رول نبھانا ہوگا. کیونکہ تقریباً بہار کے لوگوں نے کم و بیش تمام بڑی پارٹیوں کو تشفی بخش موقع دیا اور اس کے باوجود وہ پارٹیاں خود کو آگے بڑھانے میں لگی رہیں. سیاسی پارٹیوں کے تعلّق سے میں یہاں پر صرف چند باتیں رکھوں گا اور وہ یہ ہیں:
1- بہار کی عوام کو آپ نے اب تک بیوقوف بنالیا، مگر اب سے بہار کی عوام ویسی نہیں ہے، انکا ووٹ اب آپ کے کام اور آپ کے کردار کی بنیاد پر ہی ملے گا، اس لیۓ اچّھے نمائندوں کو انتخاب میں ٹکٹ دیں اور ساتھ ہی آپ ہر بار کی طرح کچھ رٹے پٹے انتخابی وعدوں کے بجائے ، زمینی حقائق کا جائزہ لے کے، وہاں کن چیزوں کی اور کس مقدار میں ضرورت ہے کریں اور ساتھ ہی ایک ٹائم لائن فراہم کریں کے کونسا وعدہ کب پورا ہوگا.
2- اتنا کچھ ہونے کے باوجود میں تمام سیاسی پارٹیوں سے یہی امید رکھتا ہوں کہ وہ حقیقت میں عوام کے فائدہ پہونچانے کی بنیاد پر ہی انتخاب میں شریک ہورہی ہیں. لہٰذا وہ انتخاب جیت نے کے بعد وہ اسے ہرگز نہ بھولیں، اور ساتھ ہی وہ اسطرح انتخاب لڑیں تاکہ ان کے ووٹ برباد نہ ہوں، اور ساتھ ہی وہ ایسے حلیف منتخب کریں جو ان کو تقویت پہنچائے ، نہ کے نقصان. اور ہرگز ہرگز وہ کسی بدعنوانی میں شامل نہ ہوں.
3- سیاسی پارٹیوں کے لیے ایک آخری مشوره ہوگا کہ وہ ہندوستان کی شناخت کو برقرار رکھیں، یہاں کی جمہوریت اور سیکولرزم کو مضبوط بنائیں، نہ کہ اس پر دھاوا بولیں اور ساتھ ہی ساتھ عوام اور مختلف مذہب اور ذاتوں کے لوگوں کے درمیان کسی طرح کا بھید بھاؤ نہ کریں اور انھیں قریب لانے کی کوشش کریں، مختلف فورمز، سیمینار اور کمپیننگ کریں. اور مرکز سے ان تمام سہولیات اور فنڈز کو حاصل کرنے کی توثیق دیں جو دوسرے صوبوں کو مل رہی ہیں اور جو بہار کی ترقی میں معاون ہوں۔
عوام کی ذمہ داری:
جیسا کہ ذکر کیا عوام کو کلیدی رول ادا کرنا ہے اس لیے انھیں سیاسی پارٹیوں سے زیادہ چوکنا رہنا ہوگا اور ووٹ کے مقرّر دن، ووٹنگ بوتھ پر جانے اور ووٹ کے بٹن کو دبانے سے پہلے اس چیز کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ جسے ووٹ دے رہا ہے وہ کردار کا اچّھا ہے، وہ اپنے کیۓ گئے وعدے پورے کرتا ہے، اور وہ اس کے علاقہ میں موجود مسائل کو حل کر پائے گا، عوام کو مندرجہ ذیل چیزیں کرنی ہونگی:
1- سب سے پہلے آپ اپنے انتخابی حلقہ بلکہ آپ اپنے علاقہ کا بغور جائزہ لیں کہ وہاں کن چیزوں کی ضرورت ہیں، کیا وہاں اسکول ہیں؟ ہسپتال ہیں؟ روڈ اور بجلی کی کیا صورت ہے؟ کسان کو کن چیزوں کی ضرورت ہیں؟ کیا بچوں کو کھیلنے کے لیے کھیل کا میدان اور بزرگوں کے ورزش کے لیے پارک موجود ہیں؟ گلی اور بازار میں صفائی کیسی ہے؟ سیلاب سے بچنے کے لیے کیا بہتر طریقہ ہوسکتا ہے؟ اور امن و امان کی کیا صورت حال ہے وغیرہ کا جائزہ لیں اور انھیں باقاعدہ ایک ورق پر لکھیں اور علاقہ کے لوگوں سے مشوره کرکے جو بھی اور جس پارٹی کا نمائندہ بھی آپ کے پاس ووٹ مانگنے آتا ہے، اسے تھما دیں اور کہیں کہ نیتا صاحب آپ اس ورق پر دستخط کریں کے آپ یہ ساری چیزیں جیتنے کے بعد پوری کریں گے، ساتھ ہی سالانہ آپ کو یہاں آنا ہوگا اور اس پورے ایک سال کی رپورٹ دینی ہوگی، اگر آپ اسکے لیۓ تیار ہیں تو آپ مطمئن رہیں کہ یہاں سے ووٹ آپ ہی کو جائیگا. مطلب یہ کہ اس مرتبہ وعدہ نیتا نہیں کریں گے بلکہ عوام کریگی، اور یقین جانیۓ جمہوریت میں تو حقیقی حکمران عوام ہی ہوتی ہے نہ کہ سیاسی لوگ.
2- ہاں اگر ‘مرتا کیا نہ کرتا’ کی طرح ساری پارٹیوں کے سارے ہی نمائندے آپ کے ورق پر دستخط کردیں تو پھر آپ نئی پارٹی اور آزاد نمائندہ کو ترجیح دیں، کیوں کہ انہیں بھی آزما کے دیکھ لیں کہ انھیں اپنے کئے وعدوں کا کتنا لحاظ ہے، صرف اس بات کا خیال رکھیں کے وہ نمائندہ کردار کے حساب سے اچّھا ہو اور ہرگز آپ اسکی فکر نہ کریں کے اسمبلی میں کس کی حکومت بن رہی ہے. یہ پارٹیوں کی سر دردی ہے کہ انھیں کسی بھی صورت اتنی سیٹ دکھانی ہوگی جس سے وہ حکومت سازی کرپاۓ. اگر پارٹیوں نے اب تک آپ کی پرواہ نہیں کی ہیں تو آپ ان کی ذمّہ داری کیوں لے کے بیٹھے ہیں کہ اسی کو جتانا ہے، آپ اپنی اور اپنے بال بچوں کے ترقی کی فکر کریں، لوگوں اور سماج میں پیار محبّت قائم ہو اس کی فکر کریں اور وہ سب اسی وقت ہوگا جب آپ کے علاقہ میں اچّھے اسکول ہوں گے ، لوگوں کی صحیح تربیت ہو گی اور انھیں تعلیم کے بعد نوکری میسّر ہو گی. براہ کرم پارٹیوں کی غلامی کرنا بند کریں. اب تو ہندوستان کی سیاست میں ایک نیا پہلو ابھر کر سامنے آرہا ہے کہ آپ جس پارٹی کو سامنے رکھکر ووٹ دیتے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ وہ پارٹی جیتنے کے بعد بھی حکومت کرپاۓ، کیونکہ انتخاب کے بعد بھی بولی لگتی ہے اور جس کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے، اسے پارٹی بدلنے میں دیر نہیں لگتی.
3- ہاں یہاں پر پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں کی ذمّہ داری اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے علاقہ میں کم علم اور غریب لوگوں کو ان ساری چیزوں سے آگاہ کریں اور ساتھ ہی ہرگز انھیں آس پاس موجود بہروپیوں کی چالوں، پیسوں کے عوض میں ان کے ووٹ کے خریدنے والے غنڈوں اور فلاں مذہب خطرہ میں ہے اور تمہیں فلاں سے خطرہ ہے کہنے والے دلالوں سے بچانا ہوگا، تاکہ لوگ حقیقت بینی کے تحت ووٹ دیں اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور اس کےآئین کی حفاظت کرپائیں اور اپنے علاقہ کو ترقی یافتہ بنا پائیں۔

مسلمانوں سے اپیل
زمینی حقائق کو جاننے اور ماننے والا سلیم الفطرت انسان اس بات کا انکار نہیں کرسکتا کہ حالیہ دنوں میں مسلمانوں اور پچھڑی ذاتوں کے ساتھ کافی اور کھلی زیادتیاں اور ناانصافیاں ہوئی اور ہورہی ہیں اور اسی وجہ سے یہ خصوصی نوٹ مسلمانوں کے لیۓ لکھ رہا ہوں جو کے اوپر ذکر کردہ اصولوں کے خلاف ہے، مگر چونکہ مسلمانوں کو بنیادی ضروریات کے علاوہ ان کے وجود پہ ہی خطرہ منڈلا رہا ہے اس کے لیے مجھے معذور جانیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے اور ان کی چھوٹی سی چونک صدیوں کے لیے پچھتاوے کا باعث بنے گی، اس لیۓ انہیں دوسرے ووٹرز کی بنسبت زیادہ احتیاط برتنی ہے۔ سب سے اہم مسئلہ جو ہے وہ یہ کے انکا ووٹ بنٹنے نہ پائے، خدا کے واسطے پارٹی کی غلامی کو چھوڑکر ایسے شخص کو ووٹ دیں جو آپ کا اور ہندوستان کا بھلا کرپائے، بہت ممکن ہے ایک اسمبلی حلقہ میں کئی مسلم امیدوار ہوں گے مگر اوپر ذکر کردہ اصول کے تحت ووٹ دیں. آپ کے ساتھ دوسرا بھلا اسی وقت کرے گا جب آپ خود اپنے لیے بھلائی کریں، میں یہاں کسی پارٹی کی تائید نہیں کر رہا ہوں کیوں کہ ہر اسمبلی حلقہ میں الگ حالات ہونگے، آپ انکا جائزہ لیں اور پھر ووٹ ڈالیں، مسلمانوں کا محافظ الله ہے، سیاسی پارٹیاں نہیں، اسے ہرگز نہ بھولیں۔
خلاصہ کلام
مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ اس میں ذکر بہت ساری چیزیں کافی مشکل اور آئیڈیل ہیں، مگر یقین جانیے ان کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے. ہمیں کوشش کرنی ہوگی تاکہ بہار کی یہ صورت تبدیل ہو. پھر سے بہار کی پرانی تاریخ دہرائی جاۓ اور یہ دوسروں کے لیۓ ایک آئیڈیل صوبہ بنے۔ بہار کے عقلمند لوگوں نے ہمیشہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف علم بلند کیا ہے اور ایک مرتبہ پھر وہ یہ کرنے کو تیار ہیں۔ وہ مظلوم کو انصاف دلائیں گے، انسان دشمن اور انسانوں میں بھید بھاؤ کرنے والے لوگوں کو اکھاڑ پھینکیں گے۔ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب اور اس کے قابل فخر آئین کی حفاظت کریں گے، سماج میں بڑھتے جبری زنا، چوری اور قتل پر انگشت لگائیں گے۔