محمد شکیب عالم
ریسرچ اسکالر، شعبہ علم سیاست
انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملیشیا
جب کبھی انتخاب آتا ہے، ہر باشعور ہندوستانی مسلمان کو یہ مسئلہ ہمیشہ درپیش ہوتا ہے کہ اب اس بار کس پارٹی کو یا پھر کس سیاسی نمائندہ کو اپنا قیمتی ووٹ دیکر کامیاب بنائے تاکہ وہ اس کے اچّھائی کے تعلّق سے قانون سازی کرے اور اس کے حقوق کے تعلّق سے ایوان میں بات رکھے۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہ دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور یہاں پر ہر ہندوستانی کو جو 18 سال کا ہوگیا ہے وہ حق رائے دہندگی استعمال کرسکتا ہے اور ساتھ ہی 25 سال کا ہوجائے تو انتخاب میں کھڑا ہوکر لوگوں کی نمائندگی بھی کرسکتا ہے، اس کے علاوہ، ہر کسی کو آزادانہ طور پر اپنی الگ سیاسی سوچ رکھنے اور اپنے اختیار کے مطابق موجود پارٹیوں میں سے جو اسے مناسب لگے اس سے جڑنے اور اس کی حمایت کرنے کی کھلی آزادی ہے، جس کی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں تقریباً ہندوستان کی سبھی پارٹیوں میں مسلمان شریک ہیں، نمائندے بھی بناۓ جاتے ہیں اور وہ اپنی پارٹی کو انتخاب میں جیت دلانے کے لیے کوشش بھی کرتے ہیں، جو ہر مسلمان کا بھی بنیادی حق ہے. اور یہی اس مضمون کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے یہ لکھا جارہا ہے کہ ایسی صورت میں مسلمان کم از کم کیسے اپنی بنیادی چیزوں کے حصول کے ساتھ ساتھ، اپنی شناخت، اپنے مذہب اور اپنے جان و مال کی حفاظت کرواپائے ۔
یہاں پر میں سب سے پہلے یہ مفروض کرتا ہوں کہ جہاں ہندوستان کی ساری سیاسی پارٹیاں انتخاب میں اس لیے شریک ہوتی ہیں کہ وہ ہندوستان کی عوام کو، ہندوستان کے آئین کے مطابق، انھیں ان کے حقوق دلائیں اور انھیں ان کے درپیش مسائل کا حل پیش کریں، عین ویسے ہی جتنے بھی مسلمان، چاہے وہ کسی پارٹی کے نمائندے ہوں، یا آزادانہ طور پر انتخاب میں کھڑے ہوئے ہوں، یا پھر کسی پارٹی کے حمایتی اور کارکن ہوں، ان کی بھی خواہش ہوگی کہ وہ ہندوستان کے آئین کے مطابق، ہر ہندوستانی کے حقوق کی بات کریں گے اور انھیں درپیش مسائل کو حل کریں گے. اور جب بات یہ ہے اور ہونا چاہیے تو پھر جب کسی خاص ذات، مذہب، علاقہ اور زبان کے لوگوں کے خلاف قانون سازی ہو یا پھر ان پر زیادتیاں ہوں، تو جہاں ہندوستان کی دوسری پارٹیوں اور دوسرے لوگوں کو آواز اٹھانی چاہیے ، وہیں عام مسلمان اور مسلم نمائندے اور پارٹی کارکنوں کو اس کے خلاف اپنی ناراضگی جتانی چاہیے اور اگر خود اس مسلمان کی پارٹی اس کام میں شامل ہے، تو اسے روکنا چاہیے ، اس مفروضے کی بنیاد پر، ہم چند اصول مرتب کرسکتے ہیں کہ اگر مسلمان کسی پارٹی سے جڑا ہو تو کیا کرے اور اگر صرف حق رائے دہندگی استعمال کر رہا ہو تو کیا کرے ۔
سب سے پہلی بات جو اس مفروضے سے کھلکر سامنے آتی ہے کہ ایک مسلمان کو نہ ایسی پارٹی سے جڑنا چاہیے اور نہ ہی ویسی پارٹی کو ووٹ دینا چاہیے جو ہندوستان کے دستور کے خلاف ایجنڈے رکھتی ہو یا پھر کسی خاص ذات، علاقہ، مذہب اور زبان کے لوگوں کے تئیں نفرت رکھتی ہو اور انھیں دستور ہند میں دئیے گئے حقوق کو ان سے سلب کرنا چاہتی ہو، کیوں کہ یہ جہاں دستور ہند کی خلاف ورزی ہے، وہیں وہ اخلاقی اور دینی اعتبار سے بھی غلط ہے، اور ایک مسلمان کی ذمّہ داری ہوتی ہے کہ اگر وہ کسی سے کوئی معاہدہ کرے تو پھر اس کے شروط کو پورا کرے اور حقیقت میں ہندوستان کے آئین کے تحت ہندوستان میں رہنے کا فیصلہ جب مسلمانوں نے 1947 میں کیا، بنیادی طور پر وہ یہی حلف لئے کہ وہ دستور ہند کے مطابق اپنی زندگی گزاریں گے اور ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جو اس آئین کے روح کے خلاف ہو. اس کے بعد مسئلہ رہ جاتا ہے، ایسی پارٹیوں کے تعلّق سے کیا رویّہ ہو، جو مذکورہ صفات سے متصف پارٹی کے برخلاف، ہندوستان کے آئین کے عین مطابق کام کرنے کی منشاء رکھتی ہو اور ساتھ ہی ہندوستان میں موجود مختلف لوگوں میں سے کسی کے خلاف کوئی عداوت بھی نہ رکھتی ہو ۔ اس کے لیے ہم کسی پارٹی سے جڑے مسلم کارکن کا رویّہ کیا ہو اور عام مسلمان کا رویّہ کیا ہو، الگ الگ بحث کریں گے ۔
رہی بات ایسے مسلمانوں کی جو باضابطہ کسی پارٹی سے جڑے ہوئے ہیں، مطلب کے اس پارٹی کے ممبر ہیں، تو پھر ضروری ہے کہ وہ پارٹی کے اصولوں کے مطابق، پارٹی کو مضبوط کریں اور اس پارٹی کو ووٹ بھی دیں، اس وقت تک جب وہ پارٹی اوپر کے پیراگراف کے مطابق اصولوں کی پاسداری کرتی ہے اور جس دن اور جس وقت پارٹی ایسی پالیسی بناتی ہے، جو ہندوستان کے آئین کے خلاف ہو، تو پھر ان مسلمانوں کو اپنی پارٹی کو اس عمل سے روکنا چاہیے اور اگر پارٹی کے سامنے ان کی بات نہ مانی جاۓ، تو وہ پھر اس پارٹی سے فوری دستبردار ہوجائیں، جو ایک اچھے ہندوستانی اور ایک اچّھے مسلمان ہونے کی دلیل ہے، بلکہ یہی اصول ہندوستان کے سبھی کارکنوں کو اپنی پارٹی کے تئیں رکھنا چاہیے ، تبھی ہندوستان ایک مہذب، ترقی یافتہ، خوشحال اور پرامن ملک بن سکتا ہے، جہاں پالیسیاں انصاف کی بنیاد پر بنیں گی اور ہر طبقہ کے لوگوں کو برابری پہ لانے کی کوشش ہوگی. کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا ۔ مالدار مزید مالدار اور غریب مزید غریب ہوتا نہیں چلا جائے گا ۔
اس کے برعکس عام مسلمانوں کے لیے جو کسی پارٹی سے جڑے نہیں ہیں اور صرف حق راۓ دہندگی کا حق استعمال کرنا ہے، تو پھر ان کے لیے کافی وسعت ہے، مگر اس کے باوجود انھیں اسطرح ووٹ دینا چاہیے جس کی وجہ سے ان کا بھلا ہو، ان کے ووٹ بنٹے نہ، ان کے علاقہ میں ترقی ہو، ان کے علاقہ کا جیتا نمائندہ ان کے دکھ درد میں شریک ہو،اور اس کے لیے ایک طریقہ یہ ہے، کہ آپ کے اسمبلی حلقہ میں کھڑے سارے ہی نمائندے سے آپ یہ وعدہ لیں بلکہ ان سے ایک ورق پر دستخط کروائیں جس پر اس علاقہ میں موجود سارے مسائل ذکر ہوں اور ان سے کہیں، کہ اگر انھیں ووٹ دیا جاتا ہے، اور وہ کامیاب ہوتے ہیں، تو وہ ان سارے مسائل کو حل کریں گے، اور ساتھ ہی سالانہ، وہ آپ لوگوں سے ملنے آئیں گے اور ایک سال کی رپورٹ دیں گے. مگر ان سب میں آپ ووٹ اسے دیں، جو اخلاق کے اعتبار سے سب سے اچّھا ہو، جو کئے وعدے پورا کرتا ہو، تاکہ ہندوستان میں اچّھی سیاست جنم لے اور پارٹیاں اچّھے نمائندہ کو اتارنے پر مجبور ہوں. آپ ہرگز کسی پارٹی کے ووٹ بینک نہ بنیں، یاد رکھیں جس وقت آپ ایسا کریں گے، آپ کی وقعت ختم ہوجاۓ گی، اور ہرگز آپ اس کی فکر نہ کریں کہ پارلیمنٹ میں یا اسمبلی میں کس کی حکومت بن رہی ہے، کیونکہ ہوسکتا ہے آپ کسی نمائندہ کو ووٹ اس لیے دیں کہ وہ فلاں پارٹی کا ہے، مگر جیتنے کے بعد وہ پارٹی تبدیل کرکے دوسری پارٹی کی حکومت بنانے میں مدد کردیتا ہے، پھر آپ کا ووٹ رائیگاں ہوگیا اور عام طور پر ایسا وہی انسان کرے گا جو اخلاقی طور پر بہت گرا ہوگا، جس کو صرف اپنی فکر ہوگی، لہٰذا آپ پارٹی کے بجاۓ، نمائندہ کے اخلاق کو ترجیح دیں۔
اگر نمائندے اخلاقی اعتبار سے مساوی ہوں تو ایک دوسری اسٹریٹجی یہ ہے کہ آپ ہمیشہ نئے نمائندے یا نئی پارٹی کو موقعہ دیں، اس سے یہ ہوگا کہ فطری طور پر بار بار جیتنے کی وجہ سے، پارٹی میں جو یہ نفسیات جنم لیتی ہے کہ وہ کچھ ترقیاتی کام کرے یا نہ کرے، حکومت تو اسی کی بننی ہے ختم ہوگی اور جب کبھی جس پارٹی کو موقعہ ملے گا ، اس کی پوری کوشش ہوگی کہ ترقیاتی کام کرے، تاکہ لوگ دوبارہ اسے منتخب کریں. تامل ناڈو اور کیرالا، ہندوستان کے دو کامیاب صوبے ہیں. ان دونوں کی کامیابی کی جہاں بہت ساری وجہیں ہیں، ان میں سے ایک میری نظر میں یہ بھی ہے کہ یہاں کے لوگوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ ہر انتخاب میں حکومت بدلے اور شاید اسی وجہ وہاں موجود دو بنیادی پارٹیوں میں کافی مقابلہ ہوتا ہے اور وہ لوگوں کے لیے نئی نئی اسکیم لاتی ہیں، ہر طبقہ کے لوگوں کو بغیر کسی بھید بھاؤ کے نوکری ملتی ہے اور ہر کوئی خوشی خوشی اپنے صوبہ کو مزید بہتر بنانے کے لیے محنت کرتا ہے ۔
ان سب کے باوجود مسلمانوں کو اس پر اکتفاء نہیں کرنا چاہیۓ کہ ہم نے فلاں نمائندہ کو یا فلاں پارٹی کو جتا دیا ہے، اب میری ترقی ہو جاۓ گی، اب میرے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی یا ظلم نہیں ہوگا، نہیں ہرگز نہیں. آپ کے لیے دوسرا جتنا بھی کردے، آپ کی ترقی اسی وقت ہوگی یا آپ کے جان مال کی حفاظت اسی وقت ہوگی ، جب آپ خود محنت کریں گے اور ہوشیار رہیں گے. اس کے لیے اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کروائیں، دین سیکھیں، اس پر عمل کریں اور اپنے نو مسلم بھائیوں کو اسلام اور مسلمان کا کیا مطلب ہوتا ہے بتائیں، تاکہ وہ اسے جانیں اور انکے ذہن میں کسی قسم کی کدورت نہ جمنے پائے اور ہے تو ختم ہوجائے ، آپ اپنے آپ کو معاشی اعتبار سے مضبوط کریں. کسی کے ساتھ ظلم اور ناانصافی نہ کریں وغیرہ، اور یہی خدائی اصول ہے کیوں کہ ہم سب جانتے ہیں، الله تعالی بہت طاقتور ہے اور وہ چاہے تو کسی ایک مسلمان پر بھی ظلم نہ ہونے پائے ، مگر ایسا نہیں ہوتا ہے، وہ اس لیے کے الله تعالی بھی دیکھتے ہیں کہ خود مسلمان کی کتنی تیاری ہے، اس کا ایمان کیسا ہے، اس نے دنیا میں سرخروئی سے جینے کی کتنی کوششیں کی ہے، کیا وہ ضروری اسباب اپنائیں ہے، جو ایک اچّھی اور کامیاب قوم کے لیے ضروری ہے یا نہیں؟ اور جو قوم انھیں اپنائے گی، دنیا میں طاقت اسے ہی میسّر ہوگی، اور یہی سنۃ الله ہے ۔






