ڈاکٹر محمد عیسی
اب جب کہ بہار الیکشن کے نتائج آچکے ہیں، جس میں این ڈی اے کو معمولی سبقت ملی ہے جو کہ حکومت بنانے کےلیے کافی ہے، نیشنل ڈیموکریٹک الائنس جو کہ بی جے پی، جنتا دل یونائٹیڈ، ہندوستانی عوام مورچہ سیکولر اور وکاس شیل انسان پارٹی پر مشتمل تھا، اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا لیکن لیکن عوام کا مینڈیٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا کیونکہ دونوں اتحادوں کے درمیان صرف 12270 ووٹوں کا فرق ہے۔ این ڈی اے نے ٹوٹل 15700728 ووٹ37 اشاریہ 3 فیصد حاصل کیے جب کہ عظیم اتحاد کے حق میں 15688458 ووٹ ڈالے گئے جوکہ کل ووٹوں کا 37 اشاریہ 2 فیصد بنتا ہے۔ 12270 کے معمولی فرق کو مینڈیٹ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اگرچہ اس کے نتیجہ میں این ڈی اے کو 15 نششتوں کی بڑھت مل گئی۔ جب کہ لوک نیتی- سی ایس ڈی ایس نے انتخابات سے قبل 39 فیصدی مہاگٹھبندھن اور 36 فیصدی این ڈی اے کے لیے پروجیکٹ کیا تھا، انتخابات کے بعد کے سروے میں لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس کو پتہ چلا کہ آخر وقت میں این ڈی اے کے حق میں سوئنگ ہوگئی۔چار میں سے ایک جواب دہندہ نے یہ کہا کہ وہ ووٹ والے دن فیصلہ کریں گے اور ان میں سے نصف نے ایک ڈی اے کے حق میں ووٹ ڈالا اور اخری مرحلہ میں ایسا زیادہ ہوا جب دو تہائی نے این ڈی اے امیداروں کے حق میں فیصلہ کیا۔ البتہ جن لوگوں نے الیکشن کے اعلان یا امیداور کے اعلان کے بعد فیصلہ کیا ، ان میں زیادہ تر مہاگٹھبندھن کے حق میں ووٹ کیا۔ لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اکتوبرمہینے میں ہونے والے سروے میں عظیم اتحاد این ڈی اے کے مقابلے میں پچھڑ رہا تھا۔ تیسرے مرحلہ میں وزیر اعظم کے ریلیوں نے بھی این ڈی اے کے حق میں رائے دہندگان کو متاثر کیا۔ روزگار اور ملازمت کے وعدوں کی وجہ سے نوجوانوں کا ایک طبقہ تیجسوی کی طرف مائل ہوا ، لیکن نوجوان خواتین نے زیادہ تر این ڈی اے کے حق میں ووٹ دیا۔ لوک نیتی-سی ایس ڈی ایس کے سروے کے مطابق مسلم اور یادونے مہاگٹھبدن کو مضبوط کیا اسی طرح ، اعلی ذات، کرمی-کوئری،ای بی سیز نے این ڈی اے کا ساتھ دیا، دلتوں نے سوئنگ کیا۔ پہلے دومرحلوں میں خاص طور پر کمیونسٹ پارٹیوں کے زیر اثر علاقوں میں دلتوں نے عظیم اتحاد کو ووٹ کیا جب کہ اخری مرحلہ میں دلتوں کا ووٹ این ڈی اے کے حق میں گیا۔ دلتوں میں روی داس اوردوشھاد کمیونٹی نے مہا گٹھبندن کو سپورٹ کیا۔ تیسرے مرحلہ میں ہندوؤں نے سوائے یادوں کے این ڈی اے کو ووٹ کیا۔ دوتہائی سے زیادہ مسلمانوں نے عظیم اتحاد کو ووٹ کیا لیکن سیمانچل علاقہ مسلم ووٹوں ایک اچھا حصہ اے آئی ایم آئی ایم کو ملا۔
اب تھوڑا فلیش بیک میں چلتے ہیں ۔ کویڈ ۔ 19 کے تناظر میں حزب اختلاف کی جماعتیں الیکشن کے حق میں نہیں تھی، انہوں نے الیکشن ٹالنے کی ممکنہ کوشش بھی کی ، صدر جمہوریہ سے اس سلسلہ میں مداخلت کی اپیل بھی گئی، بہر حال الیکشن کا اعلان ہوا، شروعاتی دور میں حزف اختلاف بالخصوص راجد اور کانگریس میں سیٹ شیئرنگ وغیرہ کے حوالے سے کافی تاخیر ہوئی، ایسا لگ رہا تھا جیسا بی جے پی کو واک اوور دینے کی تیاری ہو۔ جب کہ بے جے پی کی خیمہ میں بہت پہلے سے الیکشن کی تیاریاں چل رہی تھی اور لاک ڈاون کے زمانہ میں ہی ویڈیو لنک ذریعہ امت شاہ اور دیگر بے جے پی لیڈران نے اپنے کارکنوں سے رابطہ شروع کردیا تھا اور تیاری بھی شروع کردی تھی۔ بہت ہی ٹال مٹول کے بعد عظیم اتحاد جس میں راشٹریہ جنتادل، انڈین نیشنل کانگریس، کمیونسٹ پارٹی آف آنڈیا، کمیونسٹ پارٹی آف آنڈیا (مارکسیسٹ) کمیونسٹ پارٹی آف آنڈیا (مالے لبریشن) میں شامل پارٹیوں نے الیکشن کے لیے کمپین شروع کیا، اوپینین پول میں این ڈے اے کو بالکل واضح اکثریت ملتی دکھ رہی تھی۔ لیکن جب باقاعدہ کمپین شروع ہوا اور اپوزیشن پارٹیوں خاص طور سے تیجسوی کی ریلیوں میں بھیڑ امڈنے لگے تو تجزیہ کاروں کے لہجہ میں اور تحریر میں تبدیلی آنے لگے اور بہت سے لوگوں کو امید ہوچلی کے پندرہ سالوں کے بعد تبدیلی ہونے جارہے ہی ہے۔ جس طرح سے اکتیس سالہ تیجسوی یادو نے پورے الیکشن کمپین کی قیادت کی اور عوامی مسائل کی بات کی ، اس نے حکومتی خیموں میں ہل چل مچادی اور تجزیہ کاروں کو تیجسوی میں بہار کا ایک مقامی لیڈر نظر آنے لگا جب کہ پہلے لوگوں کو اس کی صلاحیتوں پر شک تھا۔شروع میں لوگوں نے لالویادو کو یاد ضرور کیا لیکن تیجسوی نے لالو یادو کی کمی پوری کردی ۔ اور اس طرح سے وہ بہار میں تاج پوشی سے چند قدم دور ضرور رہ گئے لیکن مین اف دی الیکشن 2020 کے طور پر ابھرے اور اپنے بل بوتے پر 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں صفر پر پہونچنے والی پارٹی کو پھر سے زبردست طریقے سے مستحکم کردیا۔ ان کے ناقدین کا کہنا کہ تیجسوی یادد نے اپنی شناخت بنانے اور اپنے آپ کو بہار میں ایک نوجوان چہرہ کے طورپر قائم کرنے زیادہ محنت کی، راجد کا نعرہ تھا “وجے ہوگا بہار ، تیجسوی طے ہیں اس بار ” یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان نوجوان لیڈروں کے ساتھ اسٹیج شیئر کرنے میں حتی الامکان گریز کیا جو اچھے مقرر مانے جاتے ہیں، جیسے کنہیا کمار اور ڈاکٹر مشکور عثمانی۔ اور اس کوشش میں وہ پوری طرح کامیاب ہوگئے۔ جس کا انہیں اور ان کی پارٹی کو مستقبل میں فائدہ ملے گا۔ بہار اور ملک کو ان سے کیا فائدہ ہوگا یہ آنے والے وقت بتائے گا۔
144 میں سے 75 سیٹیں جیت کر راجد اگرچہ بہار اسمبلی میں سب سے بڑٰی پارٹی بن کر ابھری لیکن 2015 کے بالمقابل انہیں 5 سیٹیں کم ملی، جب کہ بی جےپی نے صرف 110 میں سے 74 سیٹیں راجد سے بہت اچھی کارکردگی دکھائی۔ کانگریس نے 70 میں سے صرف 19 سیٹیں جیت لر بتادیا کہ مقامی سطح پر کانگریس کا تنظیمی ڈھانچہ بلکل مخدوش ہے ، ریلیوں کے نتائج کو ووٹ میں تبدیل کرنے کےلیے مقامی تنظیم کی ضرورت ہوتی ہے جو کانگریس بہار میں کم از کم نداراد ہے۔ عظیم اتحاد کی ناکامی میں کانگریس کے رول پر جب کانگریسی ترجمانوں سے سوالات پوچھے گئے تو اپنی ناکامی تسلیم کرنے کے بجائے اس کےلیے انہوں نے اے ایم آئی ایم او کو ذمہ دار ٹھہرانا شروع کردیا۔کانگریس کو لگتا ہے کہ مسلمانوں اور دلتوں کے سہارے وہ الیکشن جیت جائیں گے ، کبھی اعلی ذات کانگریس کے ووٹر ہواکرتے تھے ، اعلی ذاتوں کی ایک بڑی اکثریت نے جب سے ہندتوا اور نیشنلزم کی کشتی پر سوار ہوکر بھاجپا کا رخ کیا کانگریس کو برابر شکست کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، اگر کانگریس اپنا احیا کرنا چاہتی ہے تو انہیں ایک طرف تنظیمی ڈھانچہ درست کرنا پڑے گا، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا پڑے گا اور ساتھ ہی اعلی ذات کا اعتماد بھی حاصل کرنے پڑے گا ۔دلت اور اقلیتی طبقے کانگریس کو ووٹ کرتے ہیں لیکن جب نمائندگی کی بات آتی ہے تو اعلی ذات سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی ابادی سے کئی گنا زیادہ نظر آتے ہیں۔متھلا ، جو کہ اعلی ذاتوں کا گڑھ ماناجاتا ہے وہاں پر این ڈے اے کو زیادہ سیٹیں ملنا اور کانگریس کی مایوس کن کاردگری، کانگریس کے دوبارہ زندہ ہونے کے صلاحیتوں پر سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ خاص طورسے ایسی سیٹوں پر کانگریس کی کارکردگی اور زیادہ مایوس کن رہی جہاں پر کانگریس کا مقابلہ بی جے پی سے تھا۔
بے جی پی کے روایتی ووٹر وں میں سے چند نے جنتا دل یونائٹڈ کا ساتھ نہیں دیا اور اسی طرح ایل جی پی نے اگر چہ جدیو کا راستہ روکنے یا نتیش کمار کو قابومیں رکھنے کےلیے کوشش کی لیکن پانچ سیٹوں پر ایل جے پی نے بے جےپی کے خلاف بھی الیکشن لڑا جس میں بھاگلپور کی سیٹ پر ایک مارواڑی کو ٹکٹ دیا گیا اور اسے 20000 سے زائد ووٹ حاصل ہوئے اور کانگریس نے یہ سیٹ بے جے پی سے صرف 1,113 کے فرق سے جیت لیا۔ اسی طرح سے ایل جے پی نے امرپور سیٹ پر کانگریس کا گیم خراب کیا، ایل جی پی اور کانگریس دونوں نے راجپوٹ برادری سےتعلق رکھنے والے امیدوار کو ٹکٹ دیا اور اس طرح سے کانگریس کے امیدوار جیتندر سنگھ 3,114 ووٹوں سےجدیو سے یہ سیٹ ہارگئے۔ اس لیے کہ لوجپا کے امیدوار مرینل سیکھر کو 40,071 ووٹ ملے۔ اس طرح سے یہ بات صاف ہوتی ہے کہ لوجپا نے ہرجگہ صرف جدیوکو نقصان نہیں پہونچایا بلکہ دوسری پارٹیوں کا بھی رتھ روکا۔
دوسری طرف وی آئی پی اور ہندوستانی عوام مورچہ کی عین الیکشن کے زمانہ میں عظیم اتحاد سے کنارہ کشی اور این ڈے کا حصہ بننا عظیم اتحاد کےناکامی کا سبب بن گیا کیونکہ اس کی وجہ سے مہادلت اور غیر یادو اوبی سی ووٹ کا ایک حصہ سے محروم ہونا پڑا، وی آئی پی اور ہم دونوں نے چار چار سیٹیں حاصل کرکے این ڈی اے کو اکثریت دلائی۔ان دونوں پارٹیوں کے لیڈران کا کہنا ہے کہ مہاگٹھبندھن نے ہمارے سات درست سلوک نہیں کیا اور ہمیں نکال دیا۔ راجد کے ایک لیڈر نے الیکشن کے نتائج کے بعد 12 نومبر 2020 کو اپنی اس غلطی کا اعتراف بھی کیا۔ اسی طرح سے عظیم اتحاد نے اگرفراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اے ایم آئی ایم اور اس طرح کی دیگر پارٹیوں اپنے کینوس میں جگہ دے کر سیاسی دوراندیشی کا مظاہرہ کیا ہوتا تو نتائج بالکل مختلف ہوتے۔ ناکامی کے بعد کسی دوسری پارٹی پر ووٹ کاٹنے کا الزام لگانا عبث اور بے جا ہے۔
ویسے بھی جن بیس سیٹوں پر مجلس اتحادالمسلمین نے الیکشن لڑا، ان بیس سیٹوں میں چھ سیٹوں پے این ڈی اے کامیاب ہوا لیکن اگر ہم باریکی سے سیٹ بہ سیٹ کا جائزہ لیں اور مجلس کے امیدواروں نے جو ووٹ حاصل کیے ان کی روشنی میں یہ بات بلاکسی خوف وتردد کی کہی جاسکتی ہے اس میں مجلس کے امیداروں کے ذریعہ حاصل کردوہ ووٹوں کا ہار جیت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ کیونکہ شرح جیت بہت زیادہ ہے اور مجلس کے امیداروں کو بہت کم ووٹ ملے۔ دوسری بات یہ بھی اہم ہے ان سیٹوں پر دیگر پارٹیوں نے بھی الیکشن لڑا ، بہت سے ازاد امیداروں نے بھی قسمت آزمائی کی لیکن مجلس کے علاوہ دیگر پارٹیوں کو کوئی کٹھگرے میں کیوں نہیں کھڑا کرتا ۔ یہ ایک سوچنے اور سمجھنے والی بات ہے۔