سیاسی ریلیوں میں’کورونا گائیڈ لائنز‘ کی خلاف ورزی!

ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب

کورونا عہد میں عا م ہندوستانیوں کو تو اس مہلک وائرس سے خوب ڈرایا دھمکایا گیا، اس کا نتیجہ یہ ہواکہ شروع شروع میں لوگ کورونا ضابطوں پر سختی عمل پیرا رہے مگر سیاسی لیڈروں نے خود کبھی کورونا گائیڈ لائنز کی پروا نہیں کی اور نہ ہی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ ہاں جب باتیں تعلیمی اداروں ، مذہبی اجتماعات اور شادی بیاہ کی تقریبات پر ہوئیں تو حکمرانوں اور حکاموں کی طرف سے سخت وارننگ ملی، انہیں ضابطوں اور کورونا گائڈ لائن کا سبق پڑھایا گیا اور وبا کی خطرناکی سے متنبہ کیا گیا۔ اجتماعات کی اجازت اس لئے نہیں دی کہ اس سے کورونا کے خطرناک جرثومے ایک دوسرے میں منتقل ہوں گے۔ لے سانس بھی آہستہ کے فارمولے پر عمل کرایا گیا، مگر جب بھی موقع ملا سیاست دانوں نے کورونا ضابطوں کی کھل کر دھجیاں اڑائیں ۔ابھی گذشتہ روز (۲۰دسمبر۔ ۲۰۲۰ء) کو مغربی بنگال میں بی جے پی کی ریلی میں عوام کا سیلاب نظر آیا۔ توجہ طلب امر ہےکہ اس ریلی کی قیادت خود مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ کر رہے تھے جو کئی بار انفیکشن کا شکار بن چکے ہیں۔ ریلی کے تعلق سے ان کا کہنا تھاکہ اب تک انہوں نے اتنا بڑا روڈ شو نہیں دیکھا۔ ظاہر ہے ان کے روڈ شو میں بھی ریاست کے عام لوگ ہی شریک ہوئے ہوں گے ۔تو کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ بھیڑ بھاڑ سے کورونا نہیں پھیلتا ہے اور اگر پھیلتا ہے تو پھر سوال یہ اٹھتا ہےکہ جسمانی فاصلہ او ر ماسک لگائےبغیر سیاسی ریلیوں میں شامل ہجوم سے کورونا وائرس کو کس طرح سے شکست دیا جا سکتا ہے؟ یقیناکسی نے امت شاہ سے یہ سوال پوچھنےکی جرأت نہیں کی ہوگی۔ اس وقت جبکہ دنیا برطانیہ میں پھیلے کورونا کی نئی لہر (اسٹرین) سے بے چین ہے، ہندوستان میں سیاسی ریلیاں نکالی جار ہی ہیں، وہ بھی مرکز میں حکمران جماعت بی جے پی کی طرف سے۔ حکومت کی یہی دوہری پالیسی سے ملک کے عوام پریشان ہیں۔مرض ایک ہے مگر دوا الگ الگ تجویز کی جارہی ہے۔ ایک طرف تو دھڑلے سے سیاسی اجلاس ،ریلیاں اور روڈ شو ہورہے ہیں اور دوسری طرف تعلیمی ، مذہبی اور دیگر اہم سرگرمیوں پر قدغن لگا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا وائرس کے تعلق سے ایک گروپ کے ذہن میں ابتدا ہی سے جو شکوک شبہات پیدا ہوئے وہ حکومتوں کی طرف سے لاکھ دلائل دیے جانے کے باوجود برقرار ہیں۔

اس سلسلے میں اگر تبلیغی جماعت کی بات کی جائے تو ملک بھر میں سب سے زیادہ انہیں ہی بدنام کیا گیا اور بغیر کسی گناہ کےجماعت کے اراکین کو گرفتار کرکے مہینوں جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کیا گیا جن میں سیکڑوں بیرون ممالک کے افراد بھی شامل تھے۔ان کی گرفتاری سے ہندوستان کی انسانیت نوازی اور مشترکہ تہذیبی ثقافت پر جو بدنما داغ لگا ہے اسے مٹانا آسان نہیں ہے۔ تبلیغی جماعت کے ممبروں کے ساتھ ہوئے ناروا سلوک کے سبب بیرون ممالک میں ہندوستان کی بڑی بدنامی ہوئی ہے۔ جماعت کی آڑ میں عام ہندوستانی مسلمانوں کو عوامی مقامات پر جو نشانہ بنایا گیا وہ الگ۔ خیر سے جب یہ معاملے عدالتوں میں پہنچنے لگے تو انصاف کے در کھلے اور تبلیغی جماعت کے اراکین کو انصاف ملنا شروع ہوا اور عدالتوں کی طرف پولیس و انتظامیہ کی سرزنش کی گئی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ تبلیغی مرکز حضرت نظام الدین دہلی کے معاملے میں سب سے سخت سرزنش بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ نے کی تھی۔ بینچ نے جماعت کے اراکین کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ انھیں ’ بلی کا بکرا ‘ بنایا گیا ہے۔ عدالت نے دو ٹوک کہاکہ تبلیغی جماعت کے لوگوں کو وائرس کے پھیلنے کا ذمہ دار بتانے کا پروپیگنڈا چلایا گیا جو مناسب نہیں ۔ ہائی کورٹ نے میڈیا کے کردار پر بھی سوال کھڑا کیا اور واضح لفظوں میں کہا کہ تبلیغی جماعت کے خلاف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے بڑا پروپیگنڈا چلایا اور تاثر پیش کرنے کی کوشش کی گئی کہ ہندوستان میں کووڈ۔۱۹؍ انفیکشن کے پھیلاؤ کے لئے یہی لوگ ذ مہ دار ہیں؟۔

اللہ کا شکر ہے!کہ کورونا کے نام پر صرف ایک طبقہ کو بدنام کرنے والے لوگوں بالخصوص میڈیا کو ہرسطح پر منھ کی کھانی پڑی، ان کی ہزیمت اور شرمندی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ آج ایسے شرپسند اور زہر پھیلانے والے چینل خود عدالت کا چکر کاٹ رہےہیں جبکہ تبلیغی اراکین کو جیلوں سے آزادی کے پروانے مل رہے ہیں۔ ابھی ۱۵؍ دسمبر ۲۰۲۰ء کو بھی دہلی کی ساکیت عدالت نے تبلیغی جماعت سے وابستہ۳۶؍ غیر ملکی افراد کو کورونا وائرس گائیڈ لائنس کی خلاف ورزی کے الزامات سے بری کردیا ۔ دہلی پولیس کے ذریعہ پیش کی گئی چارج شیٹ اور شواہد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کورٹ نے ان تمام لوگوں کو بری کر دیا اور کہاکہ دہلی پولیس کے ذریعہ جو شواہد پیش کیے گئے ہیں ان سے ان لوگوں کی تبلیغی مرکز میں موجودگی ثابت نہیں ہوتی۔ جبکہ دہلی پولیس کی طرف سے خوب مخالفت کی گئی اور وزارت داخلہ کے سرکلر کا حوالہ دیا گیا تاہم عدالت نے ان شواہد کو ناکافی قرار دیا۔

سوال یہ ہے کہ کورونا صرف عام لوگوں کے اجتماع اور عبادت کے لئے اکٹھا ہونے سے ہی پھیلتاہے یا سیاسی اجتماع سے بھی؟ اس کا جواب حکمراں جماعت کو دینا چاہئے تاکہ یہ تذبذب ختم ہو۔ پہلے بہار اسمبلی انتخابت میں بڑے اجتماعات میں بشمول وزیر اعظم، وزیر داخلہ، وزیر دفاع اور ملک کے اعلیٰ رہنماؤں اور وزراء کی شرکت رہی، تشہیری ریلیوں میں ہزاروں اور لاکھوں افرداد کی موجودگی سے کورونا وائرس نہیں پھیلا، مگر زرعی قوانین کے خلاف جیسے ہی کسانوں نے آندولن چھیڑنے کی بات کہی تو انہیں دہلی میں داخل ہونے سے روک دیا گیا، کووڈ۱۹؍ کی دہائی دےکران کے اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی۔لیکن کسان بھی کہا ماننے والے تھے، انہوں نے بھی بہار انتخابات میں سیاسی اجلاس میں لاکھوں افرادکی موجودگی کا سوال پوچھ کر ان گودی میڈیا کو خاموش کردیا۔ ایک طرف کسان بڑی تعدادمیں تحریک چلا رہے ہیں اور حکومت کے خلاف پوری طاقت سے ڈٹے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ان کی تحریک کو کمزور کرنے کےلئے بی جے پی مغربی بنگال میں ریاستی حکومت کا تختہ پلنے کے لئے سیاسی بساسط بچانے میں مصروف ہے۔ اس لئے ہندوستان کے قومی چینلوں کا رخ بھی پریشان حال کسانوں کی طرف نہیں، بلکہ مغربی بنگال کی طرف ہے۔ اور وہ پورے دن بی جے پی کے اجلاس اور یلیوں پر اسٹوری چلاتے ہیں، ان کے اسٹوڈیو میں گرما گرم بحث ہوتی ہے، لیکن کسان تحریک پر کوئی چرچا نہیں ہوتی۔ غور کریںکہ مغربی بنگال میں بی جے پی کی جو ریلیاں ہو رہی ہیں ان میں سو ، دو سو اور ہزار افراد نہیں بلکہ لاکھوں کی بھیڑ ہوتی ہے مگر کسی میڈیا کا دھیان اس طرف نہیں جارہاہے کہ کورونا کے اس عہد میں بی جے پی کے اجلاس کیوں ہو رہے ہیں۔؟ ٹھیک اسی طرح جیسے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ گجرات کے موقع پر ’ نمستے ٹرمپ ‘ کے انعقاد پر سوال نہیں اٹھایاگیا تھا۔ کلکتہ میں۲۰؍دسمبر ۲۰۲۰ء کی مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی ریلی میں جم غفیر اور بی جے پی کے اعلیٰ لیڈروں کی شرکت نے ایک بار پھر لوگوں کے شکوک و شبہات کو بڑھا دیا ہےکہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں لوگوں کااجتماع کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ہے!

(مضمون نگار دہلی انقلاب میں سینئر سب ایڈیٹر ہیں)

 mssaqibqasmi@yahoo.co.in

(مضمون نگار دہلی انقلاب میں سینئر سب ایڈیٹر ہیں)

 mssaqibqasmi@yahoo.co.in