میں ندھی رازدان ہوں ، ہارورڈ پروفیسر نہیں لیکن ۔۔۔

انگریزی تحریر : ندھی رازدان
اردو ترجمہ : ثناءاللہ صادق تیمی
میں نے جون 2020 میں ٹویٹر پر اعلان کیا تھا کہ لگ بھگ 21 سال خدمات انجام دینے کے بعد میں این ڈی ٹی وی کو الوداع کہہ رہی ہوں اور ہارورڈ یونیورسٹی میں صحافت پڑھانے کے لیے ایسوسیئٹ پروفیسر کی حیثیت سے میری تقرری ہونے جارہی ہے ۔ مجھے سچ مچ یقین تھا کہ یہ بڑا زبردست موقع ہے لیکن لگ بھگ آٹھ مہینوں بعد ، میں اس احساس سےپریشان ہوں کہ میری تقرری کی پوری کاروائی یعنی ہارورڈ میں میری تقرری کی کاروائی صرف ایک وسیع اوراعلا قسم کا فیشنگ حملہ تھی تاکہ میرے بینک اکاؤنٹ ، ذاتی وثائق ، ایمیل ، طبی رکارڈ ، پاسپورٹ،کمپیوٹر اور فون تک رسائی حاصل کی جائے ۔ میں یہ تحریر اس لیے لکھ رہی ہوں تاکہ میں بتا سکوں کہ میرے ساتھ کیا ہوا اور مجھے امید ہے کہ بقیہ تمام لوگوں کو اس سے سبق حاصل ہوگا ۔
یہ کیسے ہوا ؟ نومبر 2019 میں مجھے ایک پروگرام میں تقریر کرنے کی دعوت دی گئی جسے ہارورڈ کینیڈی اسکول نے 2020 کے شروع میں آرگنائزکیا تھا۔ اس پروگرام کے بظاہر منتظمین میں سے ایک صاحب نےیہ کہنے کے لیے مجھ سے علاحدگی میں رابطہ کیا کہ یہاں تدریس کے لیے ایک جگہ خالی ہے اور کیا مجھے اس میں دلچسپی ہوگی ؟ میں نے یہ سوچ کر اپنی سی وی ان کےسپرد کردی کہ کوشش کرنے سے میرا کیا بگڑنے والا ہے ۔مجھے یہ امید نہیں تھی کہ واقعی کوئی نتیجہ برآمد ہوگا ۔ چند ہفتوں بعد مجھ سے 90 منٹ تک آن لائن انٹرویوو لیا گيا ۔ یہ سب بالکل درست لگ رہا تھا ، سوالات گہر ے اور پیشہ وارانہ تھے ۔ میں نے گوگل سرچ کیا اور پایا کہ ہارورڈ اکسٹینشن اسکول کی جانب سے ایک جرنلزم ڈگری پروگرام پیش کیا جارہا ہے ۔بہت سے لوگوں کے ٹویٹ کے برعکس ہاروڑد کا ایک اسکول ہے جس کا نام ہارورڈ اسکول ہے اور جو جرنلزم ڈگری پروگرام کراتا ہے ۔حقیقی پروگرام کو ماسٹر آف لبرل آرٹس ،جرنلزم ڈگری کہا جاتا ہے ۔اکسٹینشن اسکول کے پاس پانچ سو تدریسی عملہ ہیں جن میں سے سترہ جرنلزم فکلٹی کے شعبہ سے ہیں ، ان میں سے کئی برسرکار صحافی ہیں ، مجھے لگا کہ میں اس پروفائل کے لیے موزوں ہوں ۔
جنوری 2020 میں مجھے مبینہ ہارورڈ وسائل انسانی کےایک شخص کی طرف سے آفر لیٹر اور اگریمنٹ پیپر کے ساتھ ایمیل موصول ہوا جوبظاہر ہارورڈ کا آفیشیل ایمیل ايڈریس لگ رہا تھا ۔معاہدے اور ملازمت کی پیش کش کا خط حقیقی لیٹرہیڈ پر لگ رہا تھا کہ اس پر یونیورسٹی کا علامتی نشان بھی تھا اور ہارورڈ یونیورسٹی کےتمام اعلاعہدہ داروں کے دستخط بھی تھےجو آج بھی ان عہدوں پربرقرار ہیں ۔اس شخص کی طرف سے آنے والے تمام ایمیل اس طرح نشان زد کیے گئے تھے جیسے یہ یونیورسٹی کی آفیشیل گروپ ایمیل آڈی ہو ۔انہوں نے این ڈی ٹی وی کے مالکان اور دوسرے لوگوں کو بھی ریکمنڈیشن لیٹر کے لیے الگ سے ایمیل کیا اوران کے لیٹر ارسال کرنے پر انہیں اعتراف نامہ کے طور پربظاہر آفیشیل لگنے والی جوابی تحریر بھی بھیجی ۔ انہیں بھی ایسا نہیں لگا کہ اس میں کچھ گڑبڑ ہے ۔
اس کے بعد چند مہینوں تک میرے اور ان مبینہ ہارورڈ ایمیل آئی ڈيز کے بیچ ایمیل کا تبادلہ ہوتا رہا ، انہوں نے ” ورک ویزا( کام کے ویزا) کے لیے میری ذاتی اطلاعات جاننا چاہی، مجھے مارچ 2020 میں فکلٹی اوریئنٹیشن پروگرام کے لیے ” آفیشیل ” دعوت بھی بھیجی گئی لیکن وہ وبا کے چلتے منسوخ کردیا گيا ۔ایمانداری کی بات یہ ہے کہ مجھے اس میں ایسا کچھ بھی نہیں لگا کیوں کہ کووڈ سے ہماری پوری زندگی ہی متاثر ہورہی تھی اور پوری دنیا میں تالہ بندی کا اعلان ہورہا تھا ۔
جون 2020 میں میں نے این ڈی ٹی وی چھوڑ دیا اور ہارورڈ سے منسلک ہونے کا میں نے اعلان کردیا ۔اس وقت تک ہوئی تمام مواصلات کے پیش نظر مجھے اس پورے معاملے کے حقیقی ہونے میں کوئی شک نہیں تھا ۔مجھے کلاس کا لائحہ عمل بھیجا گيا ، میں جن موضوعات کو پڑھانے والی تھی ان کی تفصیل بھیجی گئی اور میری چھٹیوں کی تفصیل بھی بتائی گئی ۔ستمبر 2020 میں کلاسیز آن لائن شروع ہونے تھے لیکن پہلے اکتوبر تک اور پھر جنوری تک کے لیےکووڈ کی وجہ سے ملتوی کردیے گئے ۔ابھی بھی میں نے نہیں سوچاکہ کچھ گڑ بڑ ہے ۔مجھے بتایا گيا کہ امریکہ سے میرے لیے ورک ویزا ایشو ہوچکا ہے ، جب سفر کی ضرورت ہوگی تو وہ مجھے بھیج دیا جائے گا ۔مجھے دہلی سے بھی ویزا کی ضرورت ہوتی لیکن معاملہ اس مرحلے تک پہنچا ہی نہیں کیوں کہ جلد ہی کوئی سفر درپیش نہیں تھا ۔
پھر بھی میں انتظامی کاروائیوں سے مایوس ہونے لگی اور میں نے ایمیل میں ان سے اس کا باربار اظہار بھی کیا ۔ مجھے یہ بھی بتایا گيا کہ چاہے جو بھی کیفیت ہو مجھے ستمبر 2020 سے تنخواہ دی جائے گی لیکن کبھی کوئی پیسہ نہیں آیا ۔ اس سب کی وجہ کووڈ سے پیدا ہونے والی افراتفری اور انفارمیشن ٹکنالوجی کی ناکامی بتائی گئی ۔ایک موقع سے انہوں نے مجھے بینک ٹرانسفر سلپ بھی بھیجا ہر چند کہ میرے پاس کوئی پیسہ نہیں آیا ۔
اب مجھے محسوس ہوا کہ کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہے ، میں نے ابھی بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ کوئی بڑی دھوکہ دھڑی ہوسکتی ہے بلکہ یہ سوچا تھا کہ یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے بیچ ہم آہنگی کی کمی ہوگی۔ دسمبر میں میں نے ہارورڈ کے ایچ آر کو خط لکھا لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا پھر جنوری میں میں نے گریجویٹ اسکول آف آرٹس اینڈ سائنسیز کے ڈین آفس کو خط لکھا ، اب جاکر اس ہفتے کے شروع میں مجھے ان سے یہ سننے کو ملا کہ میری تقرری کا کوئی رکارڈ موجود نہیں ہے اور جو لوگ ان کی یونیورسٹی کے خود کو ایچ آر بتارہے ہیں اصلا وہ ان کے یہاں پائے ہی نہيں جاتے ۔ میں نے اس پر اپنی حیرانی ظاہر کرتے ہوئے ہارورڈ کو لکھا اور ان سے کہا کہ معاملے کو سنجیدگی سے لیں کیوں کہ کچھ لوگ ان کے سینئیر عملہ کی نقالی کررہے ہیں یہاں تک کہ جعلی لیٹر ہیڈ پر ان کے جعلی دستخط سے بھی دھوکہ دھڑی کاکام لے رہے ہیں جس میں ان کے ایچ آر کے نائب صدر اور ان کے چیف فائننشیل آفیسر کا دستخط بھی شامل ہے ۔
میں نے جلد ہی ان اداروں کو لکھا جن سے میں منسلک رہی تھی اور انہیں بتایا کہ کیا کچھ ہوا ہے ۔ میرے وکیل نے ان تمام ایمیلز کو بغور پڑھا اور انہوں نے محسوس کیا کہ یہ سب ایک بڑا فیشنگ حملہ تھا جس کا ہر طرح سے مقصد یہ تھا کہ میرے پیسے چرائے اور غلط استعمال کے لیے میرے ذاتی وثائق حاصل کرے ۔
میں نے پولیس میں شکایت درج کی ہے ۔ تمام وثائق اور مراسلت انہیں دی ہے ۔ مجموعی طور پر یہ مجرمانہ فعل تھا ۔ میں اس حادثے سے بری طرح ہلی ہوئی ہوں اور لگاتار خود کو کوس رہی ہوں کہ میں ایسی بے وقوف ٹھہری ۔
دیر سے ہوئے احساس کے فائدے کے ساتھ کیا میں مزید احتیاط سے کام لے سکتی تھی ؟جواب تو بالکل ہاں ہے لیکن یہ فریب کاریاں اس لیے کامیاب ہوگئیں کہ یہ بالکل حقیقی جیسی دکھ رہی تھیں ۔ ان دھوکہ بازوں نے مل کر ایسا کچھ کیا کہ میں نے ٹی وی میں اکیس سال کا اپنا کریئر ایسے ہی چھوڑدیا ۔
اب جب کہ تاخیر سے مجھے یہ بات سمجھ میں آئی ہے ، مجھے لگتا ہے کہ میں نے متنبہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں دیکھی تھی کیوں کہ وبا نے پوری دنیا میں افراتفری اور خلل پیدا کردی تھی ، اس لیے بھی کہ کسی نے مجھ سے پیسے نہیں مانگے ، یہ ایک نہایت سمجھداری سے کیا گیا حملہ تھا ۔ میرے لیے اور ہم تمام کے لیے اس میں سبق ہے کہ کسی بھی آن لائن چيز پر بھروسہ مت کیجیے ۔ میں غصہ میں ہوں ، مایوس ہوں اور پریشان ہوں لیکن ساتھ ہی راحت محسوس کررہی ہوں کہ جو کچھ ہورہاتھا اس کی حقیقت مجھے معلوم ہوچکی ہے ،اور میں نے کسی بھی سنگین نقصان سے پہلے بشمول ہارورڈ ذمہ اداروں کو باخبر کردیا ہے ۔ ان تمام کے باوجود مجھ پر بے وقوف ہونے کا الزام رکھا جاسکتا ہے تو میں اسے خوشی خوشی قبول کروں گی ، اس سے سیکھوں گی اور آگے بڑھوں گی ۔