مفتی احمد نادرالقاسمی، دہلی
اس وقت دنیا کے بیشتر ملکوں میں جمہوری نظام رائج ہے ۔اورخاص طور سے وہ ممالک جن کی بنیاد کسی خاص مذھب پر نہیں رکھی گئی ہے ۔بلکہ وہاں کے عوام نے جدجہد کرکے ملک کا سیاسی نظام تشکیل دیاہے ان میں کے اکثر ممالک جمہوری طرز کے ہیں اوروہاں کے حکمرانوں نے ملک کے ہر باشندے کا خیال کرتے ہوئے ۔ اپنے یہاں کا قانون جمہوری رکھاہے ۔اس میں مذھبی اساس کوکوٸی عمل دخل نہیں ۔ہے ۔ان میں بعض مسلم اکثریتی ممالک بھی ہیں، جن کی بنیاد اگرچہ مذھب اورقوم پر استوار ہے، مگر قوانین اور جوڈیشیری اب بھی جمہوری ہے ۔جیسے ترکی، پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملیشیا جزائر ۔مصر، تیونس اور لیبیا وغیرہ۔۔۔ ان ملکوں میں نظام شرعی کی بنیاد پر فیصلے کرنا ۔ شرعی قضاة اورمسلم ججز کا تقرر کرنا اوران کو فیصلوں میں کتاب وسنت اورشرعی ضابطوں کا پابند بنانا آسان ہے۔بہ نسبت ان ملکوں کے جہاں غیر مسلموں کی اکثریت ہے ۔اگرچہ قانون اوردستور جمہوری ہے۔
میں اس وقت ان ممالک کی بات کررہاہوں جن کی باگ ڈور غیر مسلموں کے ہاتھوں میں ہے ۔اور جمہوری عدالتی نظام رائج ہے ۔ جیسے بھارت۔سنگھاپور ۔ چائنا ۔رشیا۔ امریکہ اور یورپ اورافریقی ممالک ۔بلکہ ۔ ٥٨ مسلم اکثریتی کوچھوڑ کر تمام ہی ملک اس میں ہیں۔
شرعی نظریے اور فکرے کے مطابق مسلمہ عقائد جن پر ایمان لائے بغیر ایک انسان اسلام کے داٸرے میں ہی نہیں آسکتا ۔ان کا تعلق ایمانیات اورتسلیم ورضا سے ہے اوروہ قانونی بندشوں سے یکسر آزاد ہے۔ بالفاظ دیگر وہ قانون اورفیصلوں کے دائرے سے خارج ۔ہے ۔الا ماشا ٕاللہ۔۔دوسرے وہ معاملات ہیں جن میں ہرحال میں شرعی احکام کی پابندی ضروری ہے ۔جیسے نکاح ۔ طلاق، فسخ تفریق، ہبہ میراث ایلا ۔ظہار، عدت اور وقف وغیرہ ۔جنہیں آج کی جدید اورماڈرن اصطلاح میں۔ ۔مسلم پرسنل لا۔مسلم معاشرتی مسائل ۔فیملی لا۔ یا عربی زبان میں ۔احوال شخصیہ ۔کہا جاتا ہے، اور ان احکام میں ایک مسلمان دنیا کے خواہ کسی بھی ملک میں آباد ہو۔وہ اپنی شریعت کا پابند ہے ۔اوراسے انجام دینے کے لیے ۔شرعی ماحول اورنظام بنا نے اورجہاں نہیں ہے وہاں بنانے کی کوشش کرنا ہرمسلمان عاقل بالغ مرد اور خواتین کا دینی اورایمانی فریضہ ہے۔۔ ”فلاوربک لایومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ۔ولایجدوا فی انفسھم حرجامماقضیت ویسلمواتسلیما۔“ (سورہ نسا ٕ:٦٥) ترجمہ ”سو قسم تیرے پروردگار کی ۔یہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم مان لیں ۔ پھر جوفیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اورناخوشی نہ پائیں اورفرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں “۔
دوسرے معاملات ہیں جن کا تعلق عبادات سے ہے۔ان میں بھی مسلمان ہر حال میں اپنے مذھب ۔ اور دین میں نازل شدہ اصول واحکام کا پابند ہے۔۔اوران میں بھی ملک کے قانون کو کوٸی عمل دخل نہیں ہے ۔جمہوری ممالک میں عام طور سے ان دونوں معاملات ۔ یعنی عقاٸد ۔اور عبادات میں عمل کی آزادی ہے ۔اور اس کو اسلام نے ”لاإکراہ فی الدین“ اور”لکم دینکم ولی دین“کے ذریعہ ۔اوردنیا کی تمام اقوام نے تسلیم کیاہے۔
البتہ وہ معاملات ۔جن کاتعلق ۔حدود وقصاص ۔جرم وسزا ۔اوردوسروں کو جانی اورمالی نقصان پہونچانے سے ہے ان میں بھی اسلام کا عمومی اور۔ایمانی اورقرانی مطالبہ تویہی ہے کہ مسلمان ایمانی حثیت سے احکام الہی کاپابند ہے۔”فاحکم بینھم بماأنزل اللہ“(ماٸدہ:48) اور بطور خاص اپنے من مانی ۔اورخود طۓ کردہ ضابطوں کی پیروی سے اجتناب کا حکم ہے۔”وأن احکم بینھم بما انزل اللہ ولاتتبع أھواٸھم“ کہ آپ ان کے درمیان اس کے مطابق فیصلہ فرمائیے ۔اور ان کی خواہش کا پاس ولحاظ مت کیجئے ۔
قران و سنت میں بہت تفصیل سے اس بارے میں وضاحت موجود ہے۔لیکن۔ اس کے لیے اسلام قوت قاہرہ کو ضروری قرار دیتاہے۔یعنی مسلم اکثریتی خطہ ۔اورزمام اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہونا جہاں وہ بغیر کسی رکاوٹ کے قانون سازی کی پوزیشن میں۔ہوں ۔اس کے باوجود اگر اللہ کے نازل کردہ احکام کو نافذ نہیں کرتے تو ان کو قران نے فاسق وفاجر۔ اپنی خواہشات کامتبع اورنافرمان قرار دیاہے۔ ۔
اب مذکورہ تمہید کے بعد اپنے مقصد کی طرف آتے ہیں کہ ۔غیرمسلم اکثریتی ملک کے عدالتی نظام کے ذریعہ ۔اگر خلع ۔تفریق اور فسخ کا معاملہ ہوتاہے تو شرعی اعتبار سے درست اور نافذ العمل ہوگایانہیں۔؟۔۔
اس کا جواب اورتفصیل یہ ہے کہ ۔اگر ان ملکوں میں مسلمانوں کے عاٸلی مسائل کو حل کرنے کے لٸے کوٸی مسلم جج یا مجسٹریٹ مقررکیاگیا ہے اوروہ اس کام کو انجام دیتاہے تو یہ عدالت کے ذریعہ دیاگیا طلاق ۔تفریق ۔خلع اورفسخ کا معاملہ شرعا درست اورنافذ العمل ہوگا ۔اورعورت آزاد ہوجاۓ گی ۔اس کی اجازت فقہا ٕ نے بھی دی ہے ۔اورکتاب وسنت کے اصول اوربعض صحابہ کے عمل سے بھی اس سلسلہ میں رہنماٸی ملتی ہے جیساکہ ائمہ اربعہ :۔امام اعظم ابوحنیفہ ۔امام مالک ۔امام شافعی ۔امام احمدبن حنبل۔سے فقہا اور دیگر علمإ سلف وخلف سے منقول ہے ۔(یہاں ۔کتب فقہ کے حوالوں کو طوالت سے بچتے ہوئے چوڑرہاہوں )
اور ہمارے بھارت کے مفتیان :حضرت تھانوی۔۔مفتی کفایت اللہ ۔مفتی محمود ۔مفتی عبدالرحیم لاجپوری۔ رحمھم اللہ رحمة۔و اسعہ وغیرھم۔سے ایساہی منقول ہے۔۔دیکھئے : (الحیلة الناجزة۔45۔ٗ۔فتای رحیمیہ :جلد 6 ص 38..،کفایت المفتی ۔جلد2 ص 223.،اعرموجودہ لوگوں میں ۔مولانا خالد سیف اللہ صاحب کی بھی یہی رائے ہے۔کتاب الفتاوی۔جلد6ص 66)
ان کے علاوہ دنیا کی موجودہ فقہ اکیڈمیز۔جن میں سرفہرست اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ہے اس کا بھی اجتماعی فیصلہ یہی ہے ۔(دیکھئے ۔فقہ اکیڈمی کے فیصلے ۔سماجی مساٸل ، مجلہ غیر مسلم ممالک میں عدالتوں کی طلاق ص 15-16)
اس طرح کے مساٸل کا سامنا زیادہ تر ۔یورپی ممالک ۔برطانیہ ۔ افریقہ کیناڈا اورامریکہ میں گرین گارڈ ہولڈر لوگوں کو ہے ۔ میں یہاں حضرت تھانوی ۔کی محققانہ راۓ جو انھوں نے انڈیا کے برٹش دور میں دیا تھا اوربعدکے لوگوں اورخاص کر وہ ممالک جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ۔ کے علما نے انھیں کی پیروی کی ۔یہ ”فقہ الاقلیات “کے باب میں کلیدی ،اورانقلابی نوعیت کا اور بلکہ دور رس نتاٸج کا حامل ثابت ہواہے ۔ اسے نقل کرنا مناسب سمجھتاہوں: (گورنمنٹی علاقوں میں جہاں قاضی شرعی نہیں ان میں وہ حکام۔ جج۔ مجسٹریٹ وغیرہ جوگورنمنٹ کی طرف سے اس قسم کے معاملات میں فیصلہ کا اختیار رکھتے ہیں اگروہ مسلمان اورشرعی قواعد کے مطابق فیصلہ کریں تو ان کاحکم بھی قضاۓ قاضی کے قاٸم مقام ہوجاتاہے۔۔”ویجوز تقلید القضا من السلطان العادل والجاٸر ولوکافرا ۔ذکرہ مسکین وغیرة ۔ (درمختار).“(الحیلة الناجزہ ص 45).