دیش بھکتی کے نام پر دیش سے دھوکہ

آر ایس ایس ہمیشہ جنگ آزادی کے خلاف اور انگریز حکومت کا وفادار رہا۔ ایسے لوگوں سے حب الوطنی کی توقع کرنا ایسے ہی ہے جیسے کہ آگ سے پانی نکلنے کی توقع کرنا۔

سہیل انجم
جب بھی کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی چینی افواج کی جانب سے ہندوستانی علاقے میں دراندازی کے معاملے پر حکومت سے سوال کرتے ہیں تو سب سے زیادہ گودی میڈیا بوکھلا اٹھتی ہے اور راہل گاندھی کو ایسے پیش کرنے لگتی ہے جیسے کہ وہ دیش بھکت نہیں بلکہ دیش دروہی ہوں۔ یہاں تک کہ ان پر چین سے سازباز کا بھی الزام لگا دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ گودی میڈیا وزیر اعظم نریندر مودی سے یہ پوچھنے کی جرأت نہیں کر پاتی کہ آخر چینی افواج بار بار ہندوستانی علاقے میں کیسے اور کیونکر دراندازی کرتی رہتی ہیں۔
تیس اگست کو ایک سو چینی جوان ایل اے سی عبور کرکے اتراکھنڈ میں داخل ہو گئے۔ انھوں نے وہاں توڑ پھوڑ مچائی اور ایک پل کو نقصان پہنچایا۔ وہ اس علاقے میں پانچ کلومیٹر اندر آگئے تھے اور وہاں وہ تین گھنٹے تک رہے۔ لیکن نہ تو سیکورٹی فورسز کو اس کا علم ہو سکا اور نہ ہی مقامی انتظامیہ کو۔ جب مقامی باشندوں نے اس کی اطلاع انتظامیہ کو دی تب کہیں جا کر انڈو تبت پولیس فورس اور سیکورٹی ایجنسیوں نے اپنے گشتی دستے وہاں بھیجے۔ اس وقت تک چینی جوان وہاں کافی کچھ نقصان پہنچا چکے تھے۔ لیکن یہ خبر ہندوستانی میڈیا میں نہیں آئی۔ اگر آئی بھی تو چند سطروں پر مشتمل۔ البتہ راہل گاندھی نے اس دراندازی پر حکومت سے سوال کیا لیکن ہمیشہ کی مانند اس بار بھی حکومت نے چپی سادھ لی۔
گودی میڈیا ایسے حساس معاملات پر بھی حکومت سے کوئی سوال پوچھنے کے بجائے کانگریس پارٹی اور اپوزیشن سے سوال پوچھتی ہے۔ شکوک و شبہات کا اظہار حکومت پر کرنے کے بجائے کانگریس پارٹی پر کرتی ہے۔ اس سے قبل جب بھی اس قسم کے واقعات پیش آئے ہیں تو حکومت کے ساتھ ساتھ گودی میڈیا نے بھی خاموشی اختیار کی ہے۔ چینی جوانوں کی دراندازی کا معاملہ بہت ہی سنگین ہے لیکن اس معاملے پر بھی حکومت اور میڈیا کا رویہ بہت سنجیدہ نہیں ہے۔ سال 2020 میں چینی جوانوں کی جانب سے ایل اے سی پر دراندازی کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں لیکن ان کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
ایل اے سی پر صورت حال کتنی سنگین ہے اس کا اندازہ آرمی چیف جنرل ایم ایم نرونے کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایل اے سی پر چین کی جانب سے جوانوں اور ہتھیاروں کی مسلسل تعیناتی کی جا رہی ہے جو کہ تشویش کا باعث ہے۔ انھوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ چین کی جارحیت کا سامنا کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ ہو سکتا ہے۔ تاہم انھوں نے یہ اطمینان بھی دلایا کہ ہندوستانی فوجیں کسی بھی صبورت حال کا سامنا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ لیکن جس سنگینی کی طرف انھوں نے اشارہ کیا اس کے سلسلے میں حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔
چین کی ان کوششوں کے سبب ہی گزشتہ سال پندرہ جون کو وہ خونی تصادم ہوا تھا جس میں ہندوستان کے بیس جوان شہید ہوئے تھے۔ لیکن جب اس پر کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے سوال اٹھایا تو انھیں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔ گودی میڈیا نے مودی حکومت کو سچا دیش بھکت اور اپوزیشن جماعتوں کو ملک دشمن ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اس معاملے میں حکومت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اسی سے لگائیے کہ اس واقعہ کے چار روز بعد وزیر اعظم نے ایک بیان میں چین کو کلین چٹ دیتے ہوئے اعلان کر دیا کہ نہ کوئی ہمارے علاقے میں داخل ہوا اور نہ ہی کسی چوکی پر قبضہ کیا اور نہ ہی بھارتی علاقے میں کوئی موجود ہے۔ اس کے بعد وزیر اعظم کے دفتر سے ایک غیر دستخط شدہ بیان جاری کرکے کہا گیا کہ چینی جوان ایل اے سی پر اپنی جانب تعمیرات کرنا چاہتے ہیں۔
اس سنگین صورت حال کے باوجود حکومت اور خاص طور پر سنگھ پریوار کو دیش بھکتی کا سب سے بڑا سرٹیفکٹ دے دیا جاتا ہے۔ عوام کو بھی حقیقت کا علم نہیں ہو پاتا جس کی وجہ سے ان حساس معاملات کے باوجود نہ تو بی جے پی کے تعلق سے عوام میں کوئی بے اطمینانی پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی مودی کے بارے میں کوئی منفی رائے قائم ہو پاتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے گودی میڈیا کو کنٹرول کر رکھا ہے اور تمام تر حربے اختیار کرکے اس کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ وہی کہے اور کرے جو حکومت چاہتی ہے۔ صحافیوں کی ایک بین الاقوامی تنظیم رپورٹرس وداؤٹ بارڈرس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان میں میڈیا کو آزادی حاصل نہیں ہے اور وزیر اعظم مودی نے میڈیا کو کنٹرول کر رکھا ہے۔
ورنہ یہی میڈیا ہے جو یو پی اے کے دس سالہ دور حکومت میں بالکل آزاد تھا۔ یہاں تک کہ جب 2008 میں ممبئی پر خوفناک دہشت گردانہ حملہ ہوا تو اس نے حکومت سے خوب سوالات کیے۔ لیکن جب 2019 میں پلوامہ میں سی آر پی ایف کے قافلے پر حملہ ہوا اور اس میں چالیس سیکورٹی جوان ہلاک ہوئے تو اسی میڈیا نے حکومت سے کوئی سوال نہیں کیا بلکہ حکومت سے سوال کرنے پر اس نے اپوزیشن کو آڑے ہاتھوں لیا اور الزام عاید کیا کہ کانگریس اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کو ہماری فوج پر اعتماد اور بھروسہ نہیں ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پلوامہ حملے کی کوئی جانچ رپورٹ ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔ اس واقعہ کو استعمال کرکے جس طرح نریندر مودی نے انتخابی کامیابی حاصل کی اس کے پیش نظر بہت سے شکوک و شبہات جنم لیتے رہے ہیں اور لیتے رہیں گے۔
جس وقت ممبئی میں دہشت گردانہ حملہ کیا گیا تھا اور پولیس اور سیکورٹی جوانوں کی جانب سے جوابی کارروائی کی جا رہی تھی اسی دوران اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے ایک پریس کانفرنس کرکے حکومت پر حملہ کیا تھا اور بی جے پی نے اشتہارات شائع کرکے اپیل کی تھی کہ اسے ووٹ دیا جائے اور مرکز کی یو پی اے حکومت کو ہٹایا جائے۔ اس وقت مودی نے یہ بھی کہا تھا کہ چین کو لال لال آنکھ دکھانے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب خود برسراقتدار آئے تو ان کی لال لال آنکھ غائب ہو گئی اور وہ چینی صدر شی جن پنگ کو جھولا جھلانے لگے۔
غرضیکہ یہ حکومت دیش بھکتی اور راشٹرواد کا خوب نعرہ لگاتی ہے لیکن خود ان نعروں پر یقین نہیں رکھتی۔ البتہ اگر کوئی اس کی دیش بھکتی اور حب الوطنی پر شبہ ظاہر کرے تو اس کے خلاف ایک محاذ کھول دیا جاتا ہے۔ بی جے پی آر ایس ایس کی سیاسی شاخ ہے اور جنگ آزادی میں آر ایس ایس کا کوئی کردار نہیں تھا۔ بلکہ آر ایس ایس رہنما ویر ساورکر نے تو انگریز حکومت سے معافی مانگی تھی اور آر ایس ایس ہمیشہ جنگ آزادی کے خلاف اور انگریز حکومت کا وفادار رہا۔ ایسے لوگوں سے حب الوطنی کی توقع کرنا ایسے ہی ہے جیسے کہ آگ سے پانی نکلنے کی توقع کرنا۔ آج بھی یہ لوگ دیش بھکتی اور راشٹر بھکتی کا صرف ڈھونگ رچاتے ہیں۔ حقیقت میں اس سے ان کا کوئی دلی تعلق نہیں ہے۔ یہ لوگ دیش بھکتی کے نام پر عوام کو دھوکہ اور فریب دے رہے ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com