لفظِ صحافت کا اصل مادّہ آسمانی صحیفہ ہے!

ڈاکٹر عبد الرؤف

آج ہم اردو صحافت کی دو سو سالہ یاد ، ماضی کی تواریخ وکتب کی ورق گردانی کرتے ہوئے حال کی صحافت کا جائزہ لے رہے ہیں۔ سیمینار و سمپوزیم منعقد کر رہے ہیں ، مستقبل کا لائحہ عمل مرتب کر رہے ہیں۔

ان حالات میں راقم کی سوچ و فکر ،صحافت کے اصل مادّہ سے ہے جو ہزارو ںسال قبل ،دنیا ئے انسانیت کو بحکم خدا وندی عطا کیا گیا اور دور حاضر میں بھی موجود ہے۔

لفظ “صحافت”کا اصل مادّہ آسمانی صحیفہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مختلف زمانے میں چار آسمانی کتاب کے نزول سے قبل انبیاءؑ پر وقتاً فوقتاً نزول فرمایا تھا یہ آسمانی صحیفہ انسانوں کے لئے رشد و ہدایات ، خدائے واحد کی بندگی علم و قلم کی اہمیت و افادیت کا اعلیٰ و ارفع پیغام ہے چونکہ اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ، انہیں انسانی شعور بخشا ،شعورہی انسان اور جانور سے متمیز کرتا ہے ، اسی شعور کی بناءپر علم و آگہی سے سر فراز کیا ،تا کہ دنیائے انسانیت میں امن و آشتی ،بھائی چارگی اعلیٰ اخلاق و اقدار ،سماج و سوسائٹی ،خاندان و معاشرہ بلکہ پوری دنیائے انسانیت ،ایک دوسرے کے دکھ و درد کا مداوا اور ہر انسانی درد سے واقف رہے۔ دنیا گل و گلزار رہے۔

یہی وطیرہ صحافت کا اصل مادّہ ہے۔ ساڑھے چودہ سو سال قبل قرآن کریم میں اللہ کا فرمان ،وَماَ عَلَینآَ اِلَّا اُلبَلٰغُ المُبِینُo( پارہ ۲۲ آیت ۷۱) کا تجزیہ کریں تو اس میں صحافت کے بنیادی اصول ملیں گے ۔

اسلام نے جس ذریعہ کو سب سے پہلے اپنایا وہ قلم ہے، کیونکہ قلم کی طاقت ایسی ہے جو فکری بے راہ روی پر کنٹرول کرسکتی ہے جسے ہم اسلامی نظریہ ابلاغ (Islamic concept of communication)کہتے ہیں۔ جسے ہم وسیع تر مفہوم میں یوں سمجھتے ہیں کہ اسلامی معاشرے میں پریس کا کردار و اخلاقی اقدار ان اصولوںکا پابند ہو گا ،جو فرد ،ریاست اور دوسرے ادارے پر عائد کی گئی ہیں پریس امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے تابع ہو گا۔ خیر اور بھلائی کو فروغ دینا شراوربرائی کا سد باب کرنا پریس کی ذمہ داری ہوگی ۔ اسلام نے تحفظ جان و مال، تحفظ آبرو و نجی اور شخصی آزادی کے تحفظ ظلم کے خلاف احتجاج ،اظہار رائے کی آزادی ،حصول انصاف اجتماعی معاملات میں صلاح و مشورہ اور انہی نوعیت کے دوسرے امور میں حقوق وفرائض کا دائرہ متعین کیا ہے اس کا احترام فرد ، ریاست اور پریس پر لازم ہو گا۔ اسلامی ریاست میں پریس کا کام یہ ہے کہ وہ رائے عامہ کی تشکیل اور رہنمائی کے لئے ہمیشہ اصلاح اور فلاح و بہبود کی بات کرتے ہوئے لذت اندوزی کا شکار نہ ہو، ورنہ لوگ عبرت حاصل کرنے کے بجائے ان برائیوں میں دلچسپی لیں گے۔ اور نت نئے امراض کا شکار ہو جائیں گے، سماجی برائیاں جیسے جھوٹ ،غیبت ،افواہ ،تہمت ،زنا ،چوری ،ڈکیتی کے خلاف پریس کو کمر بستہ ہونا چاہئے، بہر کیف صحافت کے اصول و مبادیٰ ،آسمانی کتابوں سے دنیائے انسانیت کو ہزاروں ہزار سال قبل سے ملا ہے ۔اور عصر حاضر تک پورے عالم میں ہر مذہب و زبان کے پیروان کے لئے نقطہ آغاز ہے۔

ان تمہیدی کلمات کے ساتھ واشگافی ہوتی ہے کہ ہندوستان میں اردو صحافت کے آغاز کا محرک انگریز تھے اور یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اردو کا پہلا اخباربنگال سے شائع ہونا شروع ہوا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی عمل داری میں آ چکا تھا ۔ جہاں شورشوں کے پس منظر میں استمراری بندو بست کے نفاذ کے بعد سے انگریزی حکومت اپنا پرو پگنڈا بھی چاہتی تھی اور ردعمل بھی دیکھنا چاہتی تھی چو نکہ یہ عیاں ہیں کہ آٹھارہویں صدی کے اواخر سے انیسویں صدی کے اواخر تک اردو زبان و ادب کے فروغ و ترقی کے سلسلے میں جو اہم اقدام ہوئے اس کے محرک انگریز حکام تھے ۔

اور ان اقدام کا منشاءہندوستان میں برطانوی حکومت کی جڑوں کو مظبوط کرنا تھا ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت سے پہلے فارسی کو ملک کی سرکاری اور تمدنی زبان ہونے کا مرتبہ حاصل رہا۔ اردو کی حیثیت محض ایک تجارتی ، معاشرتی، و تہذیبی رابطے کی زبان رہی، مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ فارسی زبان کا ستارہ بھی غروب ہونے لگا۔ اور ہندوستان جو برصغیر کہلاتا تھا انگریزوں کے قبضے میں آگیا۔ اور انگریزوں کی فرماروائی قائم ہوئی ۔ کلکتہ میں فورٹ ولیم کے قیام کا مقصد ہندوستانی زبان و تہذیب کو سمجھنا لہذا انگریز افسر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ماتحت جان کلکٹرسٹ نے سب سے پہلے یہ محسوس کیا کہ فارسی صرف اونچی سطح پر سرکاری کاموں میں معاون ہو سکتی ہے۔لیکن عوام سے حقیقی واسطے کی زبان نہیں بن سکی ۔ جبکہ ہندوستان میںایک ایسی زبان ہے جو تمام اختطاع ہندمیں بولی اور سمجھی جاتی ہے اس نے کمپنی کے ملازمین کو فارسی سے زیادہ ہندوستانی سکھانے کی اہمیت پر زور دیا۔ چنانچہ اس کی کوشش سے فورٹ ولیم کالج میں ہندوستانی زبان کا ایک شعبہ قائم ہوا ویسے ایسٹ انڈیا کمپنی کو با لواسطہ طور پر اردو زبان و ادب کو فائدہ پہنچا اور اردو نثر کیلئے راستہ کھل گیا یہی اردو صحافت کا موجب بھی بنا۔ اردو کا پہلا اخبار “جامِ جہاں نما” 27مارچ 1822ءکو کلکتہ سے جاری ہوا۔ جو ہفتہ وار تھا اسکے ایڈیٹر منشی سدا سکھ مرزا پوری اور مالک ہری ہر دت تھے، چھاپنے کی ذمہ داری ولیم پیٹرسن کاپ لیکسن اینڈ کمپنی کے سپرد تھی۔ “جام ِ جہاں نما “کا اردو زبان کا دور بے حد مختصر رہا ۔1822ءکے اواخر میں دو بارہ اس کی زبان فارسی ہو گئی۔ لیکن ایک سال بعد “جام جہاں نما”نے پھر اردو کی طرف رجوع کیا جبکہ شمالی ہند میں بر صغیر کا دوسرا اردو اخبار “دہلی اخبار”ہے جسے مولانا محمد حسین آزاد کے والد محمد باقر نے 1836ءمیں جاری کیا ۔وہ صحافت کے سچے علمبردار کی حیثیت سے حقیقت نگاری اور انگریزی حکومت کے خلاف خبریں لکھنے پر انگریزوں نے انہیں توپ سے اڑا دیا۔ اس طرح سے مولوی باقر اردو بلکہ کسی بھی ملک زبان کے پہلے شہید صحافی کہلائے ۔

ہم تاریخ کے دھاروں سے جب دیکھتے ہیں تو یہ عیاں ہوتا ہے شہید محمد باقر کے بعد ہندوستان میں جنگ آزادی کی بگل بج چکی تھی اور اردو صحافت کی دنیا میں اسلامی صحافت کی داغ بیل ڈالی جا چکی تھی ۔ پھر تاریخ نے دیکھا کہ صحافت کی دنیا میں کتنے ایسے لعل و گہر پیدا ہوئے جو تاریخ میں امر ہو گئے۔

مثلاًسید الاخبار سید محمد خان ، سر سید احمد خان کے بھائی نے 1837، صادق الاخبار، سید جمیل الدین خان1857، خدا بخش نے 1856میں جاری کیا ، کریم الا خبار مولوی کریم الدین 1845، (خلاصتہ الاخبار ، خلاصتہ اطراف ، ضیاءالاخبار ،اخبار  وحیدالاخبار، اور نور مغربی و نور مشرقی اسکے علاوہ بھی آگرہ لکھنﺅ ،بنارس ، کلکتہ، لاہور،امرتسر یعنی پورا بر صغیر اردو صحافت کا گہوارا ہوا، اخبارات اردو میں شائع ہوئے۔

اسی طرح اردو روز نامو ں کا پہلا روز نامہ “اردو گائیڈ”ہے جسے مولوی کبیر الدین خان نے 1858ءمیں کلکتہ سے جاری کیا۔ اسکے بعد اودھ اخبار 1874میں لکھنﺅ سے جاری ہوا ،”روز نامہ پنجاب 1875″میں لاہور سے جاری ہوا جس کے ایڈیٹر مولوی سیف الحق تھے”آئینہ نمائش”اور “نیک صبا 1883 ” ©ءمیں کلکتہ سے جاری ہوا۔اس طرح پورے ہندوستان میں پچاسوں اردو اخبارات شائع ہوئے ۔اس زمانے میں مولانا محمد علی جوہرؒ ، ہمدرد ، مولانا عبدالماجد دریابادی ،صدق جدید، مولانا ظفر علی خان ، زمیندار ، مولانا حسرت موہانیؒ ،اردو معلی ، مولانا عثمان فار قلیط ، الجمیعتہ اور مولانا ابو الکلام آزادؒ جو آسمان ادب و صحافت کے آفتاب و مہتاب تھے۔

مضمون ، طوالت کی وجہ کر صرف مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی شاہکار اور اصناف سُخن کی چند گرانقدر خدمات پر ہی اکتفا کرنے کی سعی کی ہے۔

حضرت مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی زندگی کا جائزہ لیں تو یہ پیدائشی ادیب و صحافی اور غیر معمولی ذہین انسان تھے۔ وطن کی آزادی ان کی روح میں حلاوت کر گئی تھی۔ اس لئے بچپن سے ہی ان کی سوچ و فکر کا محور آزاد ہندوستان کی تعبیر تھا اور جیسا کہ تاریخوں میں آیا ہے کہ وطن کی آزادی کے لئے علامہ اقبال ؒ کشمیر سے مولانا آزادؒ کلکتہ سے ایک ہی فکری کا رواں میں شامل ہو ئے ہندوستان کے ان دونوں علمبرداروں نے ایک عظیم مجاہد آزادی سید جمال الدین ؒ افغانی سے پیمانِ وفا استوار کیا۔ حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ نے غلام ہندوستان میں ہندوستانیوں کے دکھ درد کو ایک سچے رہنما اور صحافی کی حیثیت سے بہت ہی قریب سے محسوس کیا تھا۔

حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒکی صحافتی زندگی کا آغاز محض گیارہ سال کی عمر سے شروع ہو گیا تھا تیرہ سال کی عمر میں جلسوں سے خطاب کرنا شروع کیا ۔ قدرت خداوندی کا کرشمہ ہے کہ اس عبقری شخصیت نے عمر کے اس حصہ میں صحافت کی دنیا میں قدم رکھا جب کہ گیارہ سالہ بچہ کے لئے کھیلنے کودنے کے دن ہوتے ہیں۔ انہوں نے نومبر 1899ءمیں کلکتہ سے” نیرنگ عالم” کے نام سے ایک گلدستہ شائع کیا اور پھر اس عمر سے ہی ان کی تحریر کی جو لانی آگے چل کر شعلہ جو اّلہ بن گئی جب کہ1903ءمیں باقاعدہ ماہ نامہ “لسان الصدق “کلکتہ سے شائع کیا ۔ اس کم عمری میں ہی 1904ءمیں جب مولانا ابوالکلام آزادؒ انجمن اسلامیہ ۔ لاہور کے جلسے میں تشریف لے گئے وہاں ان کی ملاقات مولانا الطاف حسین حالی سے ہوئی تو وہ یہ جان کر کہ”لسان الصدق”کے ایڈیٹر ہیں ۔ اتنے متعجب ہوئے کہ وہ بار بار ان سے اس کی تصدیق کر رہے تھے۔

یہی صورت علامہ شبلی نعمانی ؒسے ملاقات کے وقت بھی پیش آئی ۔لوگ حیران رہ جاتے بسا اوقات ان سے سوالات کرتے کہ ابوالکلام آزاد آپ کے والد ہیں اس پر مولانا خود جواب دیتے کہ میں ہی ابو الکلام آزاد ہوں ۔

اس طرح مولانا ابوالکلام آزادؒ “لسان الصدیق”سے لے کر ہفتہ وار “پیغام”تک تقریباً 16اخبارات و جرائد سے وابستہ رہے 1912ءمیں جب “الہلال”آسمان صحافت پر بدر کا مل بلکہ آفتاب عالم بن کر چمکا۔اس میں ان کے علم کو ایسا آبشار میں تبدیل کر دیا۔ جو چٹانوں سے ٹکرانے کی وجہ سے ابلتا ہے اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ گذرتا ہے ۔اس میں ایسے مضامین ان کے قلم سے نکلے جن میں آبشار کا شور اور طوفان کا زو رتھا۔ جس سے ایک طرف برٹش امپائر کے ایوان ہلنے لگے اور دوسری طرف ہندوستانیوں میں آزادی کی روح اور تڑپ بیدار کردی۔ اس وقت عام ہندوستانی بشمول برادران وطن اردو زبان سے بخوبی واقف تھے۔ حریت آزادی کا پیغام جو الہلال ، البلاغ کے صفحوں سے گونجتا تھا پوری قوم میں آزادی کی دی ہوئی چنگاریوں کا شعلہ جوالہ بن کر اُبل گیا تھا۔ تیسری طرف ان اخبارات کے اسلوب بیان ادب کے شاہکار بن گئے۔اس طرح صحافت میں مولانا نے ایک طرح نو کی بنیاد ڈالی۔ جس کی وجہ سے انگریز حکمراں کے سامنے کوئی چارہ کار نہ تھا کہ مولانا آزاد کے قلم کو پابند سلاسل کیا جائے۔ انہیں قید زنداں کے حوالے کیا جائے۔ اس طرح حضرت مولانا ابوالکلام آزادؒ نے عمر کا ساتواں حصہ یعنی 9 سال 8 مہینے قید زنداں میں متواتر گذارے۔

اس طرح مولانا ابوالکلام آزاد کے دست راست مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی اپنے عہد کے نامور صحافی تھے انہوں نے کلکتہ سے ہند جاری کیا جو آگے چل کرہند جدید،بعدہ ¾ مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی کے لائق فرزند احمد سعید ملیح آبادی نے آزاد ہند کلکتہ سے جاری کیا۔ اس طرح اردو صحافت کے تقریباً دو سو سال ہوئے پر وائے افسوس کہ عصر حاضر میں تہذیبی انقلاب میں انسانیت دم توڑ رہی ہے۔آج بھٹکی ہوئی انسانیت سسکتی ہوئی انسانیت اور پورے عالم میں بگاڑ کا سبب جسے ہم سو شل میڈیا کے مختلف ذرائع میں پرنٹ صحافت کا بھی بڑا دخل سمجھتے ہیں جو صحافت کی اصل روح سے بھٹک چکے ہیں ، ذرا اس سبق کو پھر یاد کریں جو اللہ کے کلام میں ہے۔

ن – و القلم ومایسترون

اگر قلم نہ ہو تا تو آج علم کا قافلہ اپنے ماضی سے کٹ جاتا ، قلم ہی وہ آلہ ہے جس سے آپ علم کو کتاب میں منتقل کرتے ہیں اگر آج یہ نہ ہوتا تو دنیا نے جو سفر طئے کیا ہے اس سے ہم بے خبر ہوتے ( اشارہ صحافت کی طرف ہے)۔

ہم پھر سے از سر نو سفر شروع کرتے اور ہماری حیثیت استاد کی نہیں بلکہ طفل مکتب کی ہے۔

ہمیں استاد بننے کی تلقین کی گئی ہے دنیا کو اس حقیقت سے آشکارا کرنے کی ترغیب دی گئی جو اسلامی صحافت میں درج ہے۔

عصر حاضر میں صحافت کے مختلف نام ہیں جسے پیڈ صحافت ،سرخ صحافت ،زرد صحافت ،آزاد صحافت وغیر ہم ۔یہ صحافت کی روح سے بھٹکی ہوئی ہے۔قبل کے صحافت میں جس مایہ ناز صحافیوں کا میں نے ذکر کیا ان حضرات ؒ میں صحافت کی اصل روح سے ان کی وابستگی تھی اور آسمانی صحیفوں کے وہ پہچان تھے جنہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

آج بھی ان اصولوں کی پاسداری ضروری ہے موجودہ دور ابلاغیات کا دور کہلاتا ہے اس وقت دنیا میں مختلف صحافتی یا ابلاغی نظام موجود ہیں جو ملک ابلاغی نظام کے کسی مخصوص نظریے کا تابع ہوگا۔ وہاں کے اخبارات اسی نظریے کا آئینہ دار ہونگے ۔کہیں صحافت مکمل طرز ہے تو کہیں مطلق العنان حکومت کے زیر نگرانی ہے کہیں یہ کھل کر سماجی خدمات انجام دے دیتی ہے ۔لیکن حقیقت تویہی ہے کہ صحافت کا اصل مادہ آسمانی کتاب صحیفہ سے لیا گیا ہے جسے اللہ نے اپنے نبیوں پر نازل کیا ہے جسے ہم مسیحان سے تصور کرتے ہیں، اس روشنی سے ہم دیکھیں کہ صحافت کے قلم میں ہی سچائی ہوتی ہے ۔ سچائی رقم کرنے کی سزا بسا اوقات صحافی کے پاﺅں کے نیچے کی سخت زمین کھینچ دی جاتی ہے۔ تاکہ انہیں دیکھ کر دوسرے عبرت حاصل کریں ۔لیکن سچائی ہے کہ اپنے آپ کو منواکر ہی رہتی ہے۔

آج بھی یہی ہورہا ہے اور کل بھی یہی ہو گا ۔نہ سچ کو پابند زنجیر کیا جاسکتا ہے نہ سچائی کی راہوں میں کوئی ایسی دیوار کھڑی کی جاسکے گی ۔جو قابل عبور نہ ہو آج کے دور میں سب سے بڑا جہاد سلطان جابر کے سامنے صحافی کا حق ادا کرنا ہے ۔

صحافی کو اپنے قلم کا سودا کبھی نہ کرنا چاہئے اور پرورش لوح قلم کو جو آسمان صحیفہ سے ہمیں ودیعت کی جا چکی ہے اس پر ہمیشہ عمل کرنا چاہئے اور ہر محاذ پر قلم کے آبرو کے محافظ بن کر جو خود پر آنچ آجائے لیکن قلم کی حرمت پر آنچ نہ آنے پائے ۔ اسی کا نام صحافت ہے۔

(مضمون نگار ، یونیورسٹی آف حیدرآباد سے صحافتی کورس اور سند یافتہ صحافتی فارغ التحصیل ، نیز ماہنامہ” اطلاع عام ” آسنسول کے مدیر اعلیٰ ہیں)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com