مغربی یوپی میں بڑا چیلنج بن کرنہیں ابھر پارہے ہیں اسدالدین اویسی  پیس پارٹی اور علماء کونسل جیسی جماعتیں بھی ویسٹ میں قابل ذکر مقام حاصل نہیں کرپائی 

 دیوبند(ملت ٹائمز۔سمیر چودھری)
گزشتہ دو سال سے اترپردیش اسمبلی انتخابات کی تیاری کررہی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کا جادو مغربی یوپی میں کچھ خاص اثر نہیں دکھا پارہاہے،پارٹی نے یہاں امیدوار اتار کر ضروری انتخابی میدان میں دستک دی ہے لیکن ابھی تک پارٹی مسلمانوں کو اپنے ساتھ متحدکرنے میں قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کرپائی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندراور باہر اپنے دمدار اور پوائنٹ ٹو پوائنٹ تقاریر کے سبب مسلم نوجوانوں میں خاصی مقبولیت رکھنے والے پارٹی کے سپریمو اسدالدین اویسی اب تک سہارنپور اور کیرانہ سمیت مغربی یوپی کے کئی مقامات پر ریلیاں کرچکے ہیں ،لیکن انتخابی جلسوں میں کافی بھیڑ کے باوجود زمینی سطح پراس نوعیت کی کامیابی ملتی نظر نہیں آرہی ہے ،جس کی شاید اسدالدین اویسی گزشتہ دو سال سے توقع کئے ہوئے ہیں۔ مغربی یوپی کے کئی شہروں میں 40؍ سے 50؍ فیصد تک مسلم ووٹر ہیں جس کے سبب اسدالدین اویسی یہاں کافی وقت سے محنت کررہے ہیں اور مسلمانوں کی اسی تعداد میں انہیں امید کی کرن نظر آرہی ہے ساتھ ہی وہ دلت ووٹروں کو بھی اپنے ساتھ لانا چاہتے ہیں۔ لیکن سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق مغربی یوپی کا مسلمان اب بھی ایس پی،بی ایس پی اور لوکدل کے ساتھ جارہاہے ،جس کے سبب اسدالدین اویسی بہار کے تجربہ کے بعد یہاں بھی کم ہی سیٹوں پر اپنے امیدوار اتاررہے ہیں۔ گزشتہ دو سال سے اسدالدین اویسی پوری شدت کے ساتھ اترپردیش اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اپنے تقاریر میں جہاں وہ بی جے پی کی ناکامیوں کو اجاگر کررہے ہیں وہیں ریاست کی اکھلیش یادو حکومت اور ملائم سنگھ یادو پر تنقید کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ، لیکن اس کے برعکس مایاوتی کے سلسلہ میں انہوں نے ابھی تک قابل ذکر تبصرہ نہیں کیاہے،الیکشن سے قبل اسدالدین اویسی کی اے آئی ایم آئی ایم سے لوگوں کو کافی توقعات وابستہ تھیں لیکن انتخابات آتے آتے ہیں کارکنان کے جوش میں کافی کمی محسوس کی جارہی ہے ،جس کے سبب لیڈران کا رول سے بھی ایسا محسوس نہیں ہوپارہاہے کہ مجلس اترپردیش میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرپائے گی۔ حالانکہ پارٹی سپریمو اسدالدین اویسی مسلسل اترپریش کی سرزمیں پر انتخابی جلسوں کو خطاب کررہے ہیں اور مسلمانوں کو متحدہ ہونے کا پیغام دے رہے ہیں لیکن ابھی تک کم از کم مغربی یوپی کے مسلم ووٹر کا تیز رجحان ایم آئی ایم کی طرف نہیں ہوسکاہے۔ بہر حال پوری صورت حال تو 11؍ مارچ کو نتائج کے آنے کے بعد ہی سامنے آئے گی لیکن اترپردیش جیسے 20؍ فیصد مسلمانوں والے صوبہ میں اسدالدین اویسی کی سطح کے نیشنل اور بے باک لیڈر کا پیر نہ جم پانا واقع مسلمانوں کے لئے فکرمندی کی بات ہونی چاہئے۔ وہیں پیس پارٹی اور علماء کونسل جیسی پارٹیاں بھی مغربی یوپی میں خاص مقام حاصل نہیں کرپائی ہیں۔ حالانکہ پیس پارٹی نے گزشتہ انتخاب میں چار سیٹیں ضرور جیتی تھیں ،جس میں ایک مرادآباد کی سیٹ بھی شامل ہے لیکن بعد میں پارٹی ٹوٹ گئی اور دو رکن اسمبلی سماجوادی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ مغربی یوپی میں پیس پارٹی کا قابل ذکر مقام نہیں ہے جس کے سبب ڈاکٹر ایوب نے یہاں ایک بھی سیٹ پر اپنا امیدوار نہیں اتارا ہے۔ 
ایم آئی ایم کے مغربی یوپی امیدوار!
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے مغربی یوپی میں سہارنپور شہر سے طلعت خان،آگرہ سے محمد الیاس،فیروزآباد سٹی سے احتشام علی، کیرانہ سے محمد مسیح اللہ،علی گڈھ سے کول سے پرویز احمد،مرادآباد کی کیندرکی سیٹ سے اسرار حسین،بریلی شہر سے یاسین انصاری،امروہہ شہر سے شمیم احمد ترک کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔