ڈاکٹر ظل الرحمن تیمی
شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ جہاں علم وفن کے نیر تاباں اور تحقیق ورسرچ کے منارہ نور تھے وہیں اللہ تعالی نے آپ میں دوسری گوناگوں خوبیاں بھی رکھی تھیں, آپ نہایت متواضع اور منکسر المزاج تھے, علماء وطلباء کا خصوصی خیال رکھتے تھے, انہیں مخلصانہ رہنمائی کرتے تھے, انہیں مطالعہ وتحقیق کی رغبت دلاتے اور اس سلسلے میں خصوصی مشورے دیتےتھے۔یہی وجہ ہےکہ جو بھی آپ سے ملتا ایک ہی ملاقات میں آپ کا لدادہ ہوجاتا اور آپ کا اسیر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔
علماء وطلباء اور باحثین ومحققین سے جب بھی آپ کی ملاقات ہوتی, فورا علمی گفتگو شروع ہوجاتی , سامنے والے کےذوق اور معیار کے مطابق آپ قیمتی گفتگو سے اسے مطالعہ وتحقیق کے میدان میں نئی سمت دیتے تھے۔
ہندوپاک کے طلباء واسکالرس بطور خاص آپ سے ملنے اور استفادہ کرنے جایا کرتے تھے, آپ انہیں کبھی ناامید نہیں کرتے تھے, انہیں وقت دیتے اور انہیں نصیحت فرماتے تھے,آپ کا یہ سلسلہ آپ کی موت تک جاری رہا, جس مجلس میں آپ کی وفات ہوئی,اس وقت بھی چند طلباء کو آپ نصحیت فرمارہے, یہ سلسلہ مغرب کی نماز کے بعد شروع ہوا تھا اور عشاء کی نماز پر ختم ہونا تھا, لیکن مجلس ختم ہونے قبل ہی آپ کی زندگی ختم ہوگئی اور آپ نے ہمیں داغ مفارقت دے دیا اور اپنے مولائے حقیقی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
عام طریقہ سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ بڑے محققین نئے اسکالرز اور طلباء کے کاموں کی خاطر خواہ حوصلہ افزائی نہیں کرتے ہیں, لیکن آپ اس کے برعکس ہر خاص وعام کی قدر دانی کرتے تھے, جب میں نے اپنے پی ایچ ڈی کے تھیسس کو چھپوانے کا ارادہ کیا اور اس کے مسودہ کی نظرثانی کرکے شیخ سے گذارش کی کے اس کا علمی مراجعہ فرمادیں اور اس کے لیے ایک مقدمہ لکھ دیں, تو شیخ محترم نے فورا ہماری گذارش قبول کرلی اور اپنے قیمتی اوقات میں سے وقت نکال کراس کی نظر ثانی بھی کردی اور اس کے لیے نہایت پر مغز مقدمہ بھی تحریر فرمادیا۔
آپ کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ ہرمسلک کے علماء وطلباء کے ساتھ گھل مل جاتے, ایک مرتبہ جیت پور, نئی دلہی میں ہم دونوں زمین کی خریداری کے لیے پہنچے, اتفاق سےجس پراپرٹی ڈیلر سے ہماری بات ہوئی وہ ایک مدرسہ بھی وہیں چلاتےتھے, وہ ہمیں اپنے مدرسہ میں لے گئے, اور شیخ محترم نے بچوں کو وہاں نہایت قیمتی نصیحت فرمائی, خاص طور پر عربی زبان وادب کے سلسلے میں آپ کی گفتگو سبھوں کے لیے مرکز توجہ بن گئی اور ایسا لگا کہ یہ گفتگو انہیں نئی سمت دے رہی ہو۔
آٹھ سال قبل جب ہم منتخب ہوکر سعودی عرب پہنچے اور ہمارا قیام مکہ میں ہوگیا, وہاں ہم چار مترجمین حرم ایک ہی فلیٹ میں قیام پذیر تھے, اور خود ہی مل جل کر کھانے بناتے تھے, ایک دن رات میں شیخ محترم پہنچے, گفتگو ہوتے ہوتے کھانے کا وقت ہوگیا, اتفاق سے اس دن گوشت اور مچھلی دونوں بنی ہوئی تھی, ہم سب نے شیخ سےبھی کھانا تناول کرنے کی گذارش کی اور اصرار کے بعد آپ نے قبول بھی کرلیا, لیکن شیخ نے گوشت اور مچھلی دونوں کھانے سے انکار کیا اور کہا کہ میں ایک وقت میں یا تو صرف گوشت کھاؤں گا یا مچھلی, اورآپ نے ایسا ہی کیا۔
آپ کتابوں کی تلاش میں رہتے اور اچھی اچھی کتابیں ہمیشہ منگواتے رہتے, ایک مرتبہ جب میں دلہی سےمکہ آرہا تھا , آپ نےمکتبہ جامعہ لیمیٹڈ کی کتابوں کی منتخب لسٹ بھیجی اور کہا کہ میرے لیے یہ ساری کتابیں لیتے آئیے, میں نے مکتبہ جامعہ کے انچارج کو فون کیا اوران کے ذریعہ متعین کردہ وقت پر مکتبہ پہنچا اور انہوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر منتخب کتابیں نکالیں اور میں نے ساری کتابیں آپ تک پہنچائیں. کتابوں کو دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ آپ صرف عربی زبان کی کتابوں کی تلاش میں ہی نہیں رہتے ہیں بلکہ اردو کی ادبی اور علمی کتابوں کے مطالعہ کا شوق بھی آپ میں خوب سے خوب تر ہے۔
دعوتی پروگراموں یا دعوتی مراکز کےلیے جب بھی منصوبہ بندی کی بات ہوتی تو آپ اس سلسلےمیں خصوصی مشورے دیتے, مکہ کے کئی دعوتی سنٹروں میں آپ اس طرح کی خصوصی رہنمائی فرماتے رہتے تھے, مکہ کے مرکز بصیرت کے قیام اوراس کی منصوبہ بندی کی بات ہوئی تو آپ ماہرین کے ساتھ مشاورتی نشست میں شریک ہوئے اور نہایت قیمتی باتیں کہیں اور نہایت قیمتی مشورے دیے, جس کا مرکز بصیرت کے قیام اور اسے صحیح دعوتی سمت ادا کرنے میں اہم رول رہا۔
آپ کی تقریریں عام طور پر مختصر اور ٹو دی پوائنٹ ہوا کرتی تھیں , عربی میں تقریر ہو یا اردو میں دونوں زبانوں میں اس بات کا آپ خصوصی خیال رکھتے تھے۔
پچھلے سال ہم نے قرآن فہمی کا ایک کورس تیار کیا, اس کورس کو عملی طور پر آن لائن کرانے کے لیے دارلہدی , اڈپی نے منظوری دی, اس کے افتتاحی پروگرام میں ہم نے شیخ محترم کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا, آپ کو میں نے پورے کورس کے میٹیریل کی پی ڈی ایف بھیج دی تھی,آپ نے کورس کوخوب سراہا اور پروگرام میں اپنی خصوصی گفتگو میں قرآن فہمی کے تعلق سے نہایت قیمتی گفتگو کی اور طلباء وطالبات میں اس کا زبردست شوق پیدا کیا۔
فیملی اور بچوں کا آپ نہایت خیال رکھتے تھے, بیٹے کے ساتھ بیٹیوں کو بھی آپ نے نہایت اعلی تعلیم دلائی , آپ کی دو بڑی بچیاں عالمی سطح کے تعلیمی اداروں میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔آپ کا یہ ماننا تھا کہ بچیوں کی تعلیم وتربیت کا بھی بیٹوں کی طرح خیال کیا جانا چاہیے۔ اس سلسلےمیں کسی طرح کی تفریق نہ برتی جائے۔
سماجی طور پر ملنے جلنے کا بھی آپ خصوصی خیال رکھتے تھے, تقریبات میں بھی آپ وقت نکال کر شریک ہوتے تھے, جب میں نے مکہ میں اپنی بیٹی سندس کا عقیقہ کیا اور اس میں آپ کودعوت دی تو اسے آپ نے قبول فرمایا اور فیملی کے ساتھ تشریف لائے, اس موقع پر بھی آپ نےمجلس کو اپنے علم وفن اور مطالعہ وتحقیق سے فیضیاب کیا۔
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہوں جسے
اللہ تعالی آپ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے, آپ کی قبر کونور سے بھر اور اسے جنت کی کیاڑیوںمیں سےایک کیاڑی بنادے۔ آمین