مجھے ہے حکم اذاں، لا الہ الا اللہ

محمد اللہ قیصر

حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب مدظلہ العالی نے بڑی بے باکی سے ایک طرف ہندتوا کے علمبرداروں کو خبردار کیا کہ تیس کروڑ مسلمانوں کو ہندو بنانے کا خواب اپنے ذہن و دماغ نے نکال دو، “گھر واپسی” کی رٹ لگانے والے فرقہ پرستوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اتنی جرأت ہوگئی ہے کہ یہ ہندستان کے تیس کروڑ مسلمانوں کو ہندو بنانے کا اعلان کرتے ہیں، انہیں احساس دلایا کہ جان لو یہ “دیوانے کا خواب ہے” جس کے شرمندہ تعبیر ہونے کا کوئی امکان نہیں،توحید وہ دولت ہے جس کیلئے “بندہ” “دو عالم” سے “خفا” ہوسکتا ہے، یہ وہ “چراغ” ہے جس کی حفاظت کیلئے انسان دنیا بھر سے ٹکرا سکتا ہے، کفرو شرک کے تلاطم خیز طوفانوں میں وہ قوت نہیں جو سفینہ توحید کو غرق آب کر سکے، اسلئے باطل قوتیں اپنے ذہن کے نہا خانوں میں بٹھا لیں کہ “توحید کی امانت” کو “ہمارے سینوں” سے نکالنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، توحید کو مٹانے والے خود مٹ گئے، اور مٹ جائیں گے، حضرت مولانا نے کہا کہ سویت یونین کے ملکوں سے اسلام کو مٹانے اور کمیونزم کی دھار دار “انیوں” کے سہارے لوگوں کے سینوں سے، دین کو کھرچ کر پھینک دینے کی ہر ممکن کوششیں کی گئیں، بزور طاقت ان کی مسجدیں میوزیموں میں تبدیل کردی گئیں لیکن 80 سال بعد پھر وہاں اللہ اکبر کی صدا گونجنے لگیں، ان ممالک کی سڑکیں توحید کے نغموں سے گونج رہی ہیں، آج پھر سے وہاں توحید کا جھنڈا بلند ہو رہا ہے، مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے ہندستانی مسلمانوں کو توحید کی اہمیت کا درس دیتے ہوئے اس پر ثبات و استقلال کی تلقین کی، اس عظیم الشان اسٹیج سے سوال کیا کہ جب دنیا میں نہ رام تھے نہ شیو، نہ برہما، تو “منو” کس کی پوجا کرتے تھے، وہ ایک اللہ کی ہی تو عبادت کرتے تھے، انہوں نے علمی و عقلی بنیادوں پر ثابت کرنے کوشش کی کہ درحقیقت انسانیت کے آغاز سے توحید ہے، اور یہ قیامت تک رہے گا، اس ملک کا پہلا مذہب بھی توحید ہی تھا، جس طرح اللہ رب العالمین نے “خاتم النبیین” صلی اللہ علیہ وسلم” کے لئے عرب کا انتخاب فرمایا اسی طرح پہلے انسان سیدنا آدم علیہ السلام کیلئے ہندستان کا انتخاب کیا، حضرت مولانا نے اشاروں میں یہ احساس دلایا کہ ایک خداء واحد کے علاوہ جن کی بھی پوجا کی جاتی ہے وہ سب کے سب باطل اور بے اصل ہیں، ان کی کوئی حقیقت نہیں، یہ سب علم سے عاری ذہنوں کی ساخت و پرداخت ہیں، اور اس ملک میں سب سے پہلے توحید تھا، اس میں تحریف و ترمیم کرکے خود ساختہ مذاہب کی تشکیل ہوئی، فرقہ پرستوں کو آئینہ دکھایا کہ گھر واپسی کی ضرورت ہمیں نہیں تمہیں ہے، جو فرقہ پرست گھر واپسی کی باتیں کرتے ہیں وہ اپنی تاریخ سے واقف ہیں نہ اس ملک کی تاریخ سے، انہیں یہ بھی احساس دلایا کہ تمہیں حقیقت کا “علم” نہیں ہے۔

اتنے بڑے اسٹیج سے توحید کا ایسا برملا اعلان بہت دنوں بعد سنا گیا ہے، بالخصوص ایسے حالات میں

 جبکہ سیاسی بالادستی کے نشہ میں چور طبقہ احساس برتری کے اوج ثریا پر براجمان ہے، وہ ایک خداء واحد کا نام سننے کو تیار نہیں، وہ ہر ممکن طریقہ سے دین پر حملہ آور ہے، ہر مسلمان کے سینے سے دین و ایمان کو کھرچ کر نکال دینے کے ہر پیترے آزما رہا ہے، خود ساختہ اور غیر معقول افکارو عقائد کو ناقابل انکار حقیقت بناکر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا ہے، سیاسی رہنماؤں سے لیکر میڈیا تک ہر فرد مسلمانوں کو احساس دلا رہا ہے کہ ہندتوا اس ملک کا واحد مذہب ہے، جو اس کی پیروی نہیں کرتا اس کا اس ملک سے کوئی واسطہ نہیں۔

دوسری طرف فرقہ پرستوں کی سیاسی بالادستی کے خوف نے بہتوں کے دلوں سے توحید کی اہمیت ختم کردی ہے، اور بڑی تعداد ارتداد کا شکار ہورہی ہے، سیاسی و اقتصادی مفادات نے ان کے دلوں پر غفلت کی چادر تان دی ہے، قومی یکجہتی کا بار اس قدر چڑھا ہے کہ اس کے لئے مسلمہ عقائد سے سمجھوتہ روز مرہ کا معمول بن چکا ہے، اور اسلام کی عظمت کا ترانہ پڑھنے والے “رام ” کی جیکار کرنے لگے ہیں، ایسی دگرگوں صورت حال میں اس طرح کا بیباکانہ خطاب، انتہائی اہمیت کا حامل ہے، بالخصوص ایسے وقت میں جب اسی اسٹیج سے علماء اور عام مسلمانوں کو سبھی مذاہب کے احترام کا حلف دلاگیا، واضح رہے کہ دوسرے مذاہب کو برا بھلا کہنے سے بچنے اور ان کا احترام کرنے میں فرق ہے، قرآن نے برا بھلا کہنے سے منع کیا ہے، ولا تسبوا الذين يدعون من دون الله”( دوسروں کے معبودوں کو گالی مت دو)، لیکن احترام کرنے کی ایسی کوئی تعلیم نہیں ہے، کفر و شرک کے احترام کا نظریہ “اعلاء کلمۃ اللہ” کی فکر سے ہم آہنگ نہیں ہو سکتا، یہ آر ایس ایس کا دیرینہ مطالبہ ہے، کہ مسلمان توحید سے دست بردار ہوکر سب کو حق مان لیں، ان کا قدیم نظریہ ہے کہ “قومی سماجی دھارے” میں، دوسری اقوام کی طرح مسلمانوں کو شامل کرنے میں ناکامی ہندستانی تاریخ کی سب سے بڑی چوک ہے، لہذا مسلمان ہندوانہ رسوم ورواج اور عقائد کو درست تسلیم کرلیں، ہولی، دیوالی اور ست نارائن پوجا میں شرکت کریں، گولوالکر نے کھلے لفظوں میں اپنے ان مطالبات کا اظہار کیا ہے، جسے ہم “مسئلہ انضمام” سے جانتے ہیں،

اسی اسٹیج پر توحید کی بالا دستی اور توحید سے سمجھوتہ نہ کرنے کا کھلم کھلا اعلان بہت سے کمزور مسلمانوں کو تسلی کا سامان فراہم کرے گا۔

اس خطاب کے بعد جین رہنما کا چراغ پا ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ دین حنیف کی دشمنی ان کے دلوں پر کس قدر چھا گئی ہے، ان کے سامنے محبت کا اظہار بے فائدہ ہے، آپ اپنا دل نکال کر، طشت میں سجاکر ان کے سامنے پیش کر دیں تو بھی ان کے دلوں میں چھپی نفرت کو بر انگیختہ کرنے کے لئے “توحید” کا ایک نعرہ کافی ہے، آج بھی کسی “ابوذر غفاری” کے اعلانیہ کلمہ توحید پڑھنے سے “قریش کے مہنتوں” میں حقد وحسد آگ بھڑک اٹھتی ہے، اور اب بھی کھلبلی مچ جاتی ہے۔ دراصل برتری کے احساس نے انہیں گونگا، اور بہرا کردیا ہے، ان کے دلوں پر کائی چھا گئی ہے، ان کا خیال ہے کہ ناقابل تسخیر سیاسی قوت حاصل کرنے کے بعد ان کے سامنے کوئی کیسے ایک اللہ کی وحدانیت،اس کی عظمت اور برتری کا اظہار کرسکتا ہے،انہیں صرف وہی لوگ قبول ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں ان کے عقائد تسلیم کرلیں،ٹیوی پر بیٹھ کر ان کے مذہبی رہنماؤں کی جیکار لگائیں،

 وہ کسی حالت میں مسلمانوں کو ان کا مذہبی حق دینے کیلئے تیار نہیں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنی مجلس میں بھی خدا کے نام سے پرہیز کرے،

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com