محمد علم اللہ، دہلی
ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں جو تعلیم وترقی، خوشحالی، امن ومساوات اور ہر طرح کی آسودگی کی صدی کہلاتی ہے لیکن اس کے باوجود ملت اسلامیہ ہندیہ کی حالت یہ ہے کہ وہ اکیسویں صدی میں بھی غربت، ناخواندگی، بے روزگاری اور ہجومی تشدد جیسے مسائل سے نبرد آزما ہے۔ عروج کی اس صدی میں بھی ہندوستانی مسلمان ہجومی تشدد، قتل وغارت، ناانصافی اور فسادات جیسے بہیمانہ واقعات کی زد میں ہیں۔ماورائے عدالت قتل کے واقعات دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں۔ایک فرد کے جرم کی سزاپورے خاندان کو دی جاتی ہے، بناکسی قانونی چارہ جوئی کے ہی ان کے گھروں کو مسمار کردیا جاتا ہے۔
گذشتہ دنوں راجستھان میں دو مسلم نوجوانون ناصر اور جنید کے ساتھ ایسا ہی ہولناک واقعہ پیش آیا۔انہیں نہ صرف یہ کہ ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ بے دردی کے ساتھ زندہ جلا دیا گیا اور پولس تماشائی بنی رہی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جن افراد نے اس انسانیت سوز جرم کو انجام دیا ان کا تعلق بجرنگ دل سے ہے۔ راجستھان کے گھاٹمیکا گاؤں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی جلی ہوئی باقیات ہریانہ کے جس بھیوانی گاؤں سے ملی ہیں،اس کو2017 اور 2018 کے درمیان پہلو خان، اکبر خان اور عمر محمد کے وحشیانہ قتل کا دردناک منظر دیکھنا پڑا تھا۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ تشدد کی یہ کوئی پہلی واردات نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی ملک کے مختلف حصوں میں ایسے دل سوز واقعات ہوتے رہے ہیں۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس خبر کو جس انداز میں میڈیا میں عام ہونا چاہیے تھا نہیں ہوئی۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ میڈیا نے اس کو یکسرنظر انداز کردیا۔حالاں کہ یہی میڈیا چھوٹے چھوٹے مسائل پر اس قدر شور بپا کرتی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔
اس حوالے سے کچھ مقامی ویب سائٹوں میں چند سطری خبریں ضرور دیکھنے کو ملیں مگر مین اسٹریم میڈیا سے یہ خبر غائب رہی۔ اس کے پیچھے میڈیا کی جو بھی منشا اور حکمت رہی ہو،میں اس پر گفتگو کرنا نہیں چاہتا۔ تاہم سماج میں عدل و انصاف نافذ کرنے والے ادارے، عدالت اور سول سوسائٹیز کے لیے بھی یہ سوچنے کا مقام ہے کہ ملک کی ایک اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے نہتے لوگوں کے ساتھ اتنا بڑا حادثہ ہوتا ہے اور کہیں کوئی بے چینی دکھائی نہیں دیتی۔ نہ پولس حرکت میں آتی ہے ،نہ حکومت اورنہ حقوق انسانی کی دہائی دینے والے افراد ہی احتجاج کرتے نظر آتے ہیں، گویا کتے، بلی، کاکروچ یا چوہے تھے جو مار دیے گئے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ متاثرین کے گھر والوں نے جمعرات 16 فروری کو ایف آئی آر درج کرا ئی لیکن اس مضمون کے لکھے جانے تک ایک شخص کے علاوہ کسی کی گرفتاری یا کسی خاص کارروائی کی اطلاع نہیں ہے، حالاں کہ میڈیا رپورٹوں میں بتایا جا رہا ہے کہ جن افراد کے خلاف نامزد رپورٹ درج کرائی گئی ہے، ان کے خلاف پہلے بھی کئی معاملے درج ہیں لیکن اس کے باوجود پولس انھیں گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کرپا رہی ہے۔ اس حوالے سے آوٗٹ لک انڈیا (18 فروری 2023) اور دی وائر (18فروری 2023)کی رپورٹوں کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے،جن میں نامزد مجرمین کے بارے میں تفصیلات موجود ہیں۔
متعدد تحقیقات سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ2014کے بعد ہجومی تشدد کی وارداتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ ملزموں کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔ نجی طور پر قائم کردہ ڈیٹا بیس انڈیا اسپنڈ کے مطابق، جس نے انگریزی میڈیا میں رپورٹوں کے مجموعے اور مواد کے تجزیے کے ذریعہ اعداد و شمار مرتب کیے 2010 تا2017کی مدت کے دوران محتاط ہجومی تشدد کے تقریبا 66 معاملے ہوئے۔ 2017 اس معاملے میں بدترین سال ثابت ہوا، اس سال بائیس واقعات پیش آئے جو کہ 2014 کے بعد سے کل (64/66 فیصد) کا 96 فیصدہوا۔ایک اور ویب سائٹ کے اعداد و شمار کے مطابق، 2014 کے بعد سے ہجومی تشدد کے واقعات (قتل کے ساتھ یاقتل کے بغیر تشدد) کی تعداد کا تخمینہ تقریبا 266 لگایا گیا ہے۔ انڈیا اسپنڈ میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ حالیہ برسوں (زیادہ تر 2015 کے بعد) سے اب تک ہجومی تشدد کے 24 واقعات ہوئے، جس کے نتیجے میں 34 افراد کا قتل اور 2 خواتین کی عصمت دری ہوئی ہے۔ یہ کسی بھی جمہوری ملک کے لیے چونکا دینے والے اعداد و شمار ہیں، مغربی ممامک میں اتنا کچھ ہوا ہوتا تو ایک ہنگامہ بپا ہو جاتا لیکن ان سب کے باوجود ہمارے ملک میں ایوانوں سمت ہر جگہ خاموشی چھائی ہوئی ہے، بلکہ ایک رپورٹ میں تو یہاں تک انکشاف ہوا ہے کہ وزارت داخلہ کے پاس ہجومی تشدد جیسے معاملوں کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے۔
کئی معاملوں میں یہ تحقیق بھی سامنے آ چکی ہے کہ پولس اس میں براہ راست ملوث رہی ہے اور یہ کہ ہجومی تشدد کا یہ واحد جرم نہیں ہے جس میں ریاستی ایجنٹ (پولیس) متاثرین، عام طور پر مسلمانوں کے خلاف کام کرتے ہیں۔ ہاشم پورہ22 مئی 1987سے گودھرا 2002تک تمام مسلم کش فسادات کے دوران اس کے کردار پر سوال اٹھائے جا چکے ہیں۔ جس میں، 50مسلمانوں کو پرونشیئل آرمڈ کانسٹیبلری (پی اے سی) کے اہلکاروں نے اتر پردیش کے میرٹھ کے ہاشم پورہ گاؤں سے اٹھایا تھا۔ بعد میں متاثرین کو گولی مار دی گئی اور ان کی لاشوں کو نہر میں پھینک دیا گیا۔ 42 افراد کو مردہ قرار دے دیا گیا۔ (انڈیا ٹوڈے، 31 اکتوبر 2018) مؤخر الذکر معاملے میں اصغر علی انجینئر نے 2002کی اپنی ایک تحقیق میں باضابطہ طور پر فرقہ وارانہ تشدد میں ریاستی ایجنٹ کے رول کا ذکر کیا ہے اور اس پر سوال اٹھایا ہے اور دلیل دی ہے کہ ’گجرات میں پولیس نے فسادیوں کی مدد کی اور ان کی حوصلہ افزائی کی‘۔اسی طرح پال براس نے بھی جو سماجی تحقیق میں اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں علی گڑھ میں فرقہ وارانہ تشدد کے دوران متاثرین کے تئیں پی اے سی اور پولیس کے کردار پر روشنی ڈالی ہے، یہ تفصیلات 2014میں شائع ان کی معروف کتاب’ دی پروڈکشن آف ہندو مسلم وائلنس ان کنٹمپریری انڈیا ‘نامی کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ریاستی مشینری (پولیس یا پی اے سی) کا اس طرح کا رویہ نہ صرف فرقہ وارانہ تشدد کے دوران بلکہ ہجومی تشدد کے حوالے سے بھی اس کے کام کاج اور مسلمانوں سے نمٹنے پر سوال اٹھا رہا ہے۔ اس سے ریاستی نظام کی نوعیت کے بارے میں بھی سوالات اٹھتے ہیں، یعنی اسے نہ صرف سیکولر بلکہ منصفانہ اور غیر جانبدار بھی سمجھا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کے مبصرین یہ کہتے ہیں کہ ہجومی تشدد میں اضافہ کے پیچھے مقتدر طبقہ ہے کیوں کہ ملک پر حکمرانی کرنے والے زیادہ تر لوگوں نے جارحانہ اور پرتشدد سیاسی نظام کے ذریعہ اپنا اقتدار برقرار رکھا یا اس پر قبضہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے اقلیتوں کے خلاف تشدد کا پرچار کرتے ہوئے اپنا سیاسی کر یئر بنایا ہے، جہاں ہجوم خود کو بااختیار اور مضبوط محسوس کرتا ہے۔ سیاسی طبقہ اپنی روایتی مذمت کے علاوہ متاثرین ان کے زندہ بچ جانے والے خاندانوں سے ملنے سے گریز کرتا ہے، تو یہ غلط بھی نہیں ہے۔
اس حوالے سے مبصرین کی یہ رائے بھی قوی ہے کہ حکومت اس طرح کے معاملات کی روک تھام چاہتی ہی نہیں اور ایسے افراد کے حوصلے اس لئے بھی پست نہیں ہوتے کہ ایسے عناصر کو سرکارکی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے جس کی متعدد مثالیں سامنے آچکی ہیں جن میں ایسے جرائم پیشہ افراد کو ہار پہنائے گئے، نوکریاں دی گئیں اور بعض جگہوں پر سیاسی پارٹیوں میں عہدے دئے گئے۔
خلاصہ یہ ہے کہ گائے کے نام پر مسلمانوں پر حملہ یا کسی بھی طرح کے نفرت انگیز جرائم اکثریتی طبقے میں پیدا کی گئی مسلم دشمنی کی پیداوار ہے۔اس کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کواپنی سلامتی کے مسئلے سے آگے سوچنے نہ دیا جائے۔ اس طرح کا خوفناک ماحول پیدا کرکے انہیں اتنی فرصت ہی نہ دی جائے کہ وہ سیاسی نمائندگی (جو543 کم کر کے محض25 مسلم ا رکان پارلیمنٹ، یعنی 4۔60 فیصدکردی گئی)، تعلیم (اے آئی ایس ایچ ای، 2015-16 کے مطابق اعلی تعلیم میں 4۔7 فیصد)، اقتصادی، سماجی اور دیگر میدانوں میں ترقی پر غورکر سکیں۔ اس طرح کے اقدامات کا تسلسل سیکولرازم کے ساتھ ساتھ سماجی عدم ہم آہنگی کی مسخ شدہ تصویر کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ یہ نئے ہندوستان میں ایک نیا معمول بن گیا ہے۔ اس طرح کے واقعات ’ سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘ کے تصور کی صداقت اور اعتبار پر بھی سوال اٹھاتے ہیں اورایسے میں یہ دیکھنا بہرحال ضروری ہے کہ ’پانی آخر کہاں مر رہا ہے ؟‘
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ڈاکٹرکے آر نارائنن سینٹرفار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔)