عارف اقبال کی صحافت کے امتیازی پہلو

صفدر امام قادری

(شعبہ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ)

صحافت ایک مشکل اور چیلنج بھرا پیشہ ہے اور یہ سست رو اور تن آساں افراد کے لیے ہرگز نہیں۔ تاریخِ صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے مجھے معلوم ہے کہ سو دو سو برس پرانے صحافیوں نے جس طرح جاں فشانی کی، آج کے دور میں مثالی صحافی اسی جاں سوزی اور جاں فشانی سے اپنے فرائض ادا کررہے ہیں۔ سماج کی مشکلات کے ساتھ ساتھ سیاست اور دیگر شعبوں کے چیلنج تو ہیں ہی، ہر صحافی کو اب اِن ہاؤس چیلنجز سے جوجھنا پڑتا ہے۔ جان گنوانے، جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی گنوانے اور ملازمت تک سے ہاتھ دھو بیٹھنے کی ایک مستحکم روایت شعبۂ صحافت کی تاریخ کا حصہ ہے۔ مگر ہر شخص صحافی کی حیثیت سے اپنے قلم اور اپنے ایمان کے لیے جدوجہد کرنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ اگر ایسے صحافی نہ ہوں تو اسے جمہوریت کا چوتھا ستون کوئی کیوں کر قرار دے گا۔ سماج میں صحافی کی بات کو جو قبولیت حاصل ہے، اسے کے پیچھے بھی اس کا خلوص، پیشہ ورانہ مہارت اور صحافتی ایمان ہی اصل اسباب ہیں۔

ایک صحافی کی زندگی کانٹوں کے تاج سے آراستہ ہوتی ہے۔ایک ایک دن بھی اتنی مشکلات کے ساتھ گزرتے ہیں جیسے ہر سانس پر ایک تلوار تنی ہوئی ہو۔ روز ایسے امتحانات سے گزر کر ایک صحافی اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں آگے بڑھتا ہے۔ اسے روز ہار اور جیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں عارف اقبال کا ای ٹی وی بھارت میں پانچ برس مکمل کرنا اور صحافتی زندگی میں آٹھ برس پورے کرلینا کرشمہ سے کم نہیں۔ روز صحافی کی حیثیت سے آپ کوزندگی کی ایسی ننگی سچائیاں دیکھنی پڑتی ہیں کہ روح چھلنی ہو جاتی ہے۔ مگر صحافی کی حیثیت سے کلیجہ پر پتھر رکھ کر اسے قبول کرنا ہوتا ہے۔ اس دنیا کو باخبر کرنا ہوتا ہے، روتے ہوئے چہروں اور مرتے ہوئے جسموں کی تصویر پیش کرتے ہوئے اور ان پر چند الفاظ میں کمنٹری دیتے ہوئے بار بار فرائض، انجام اور حقائق میں ٹکراو ہوتا ہے۔

اخبار کی صحافت تحریر کی تابع ہوتی ہے اور صحافی کو صرف اپنے قلم سے حالات اور واقعات کی پیش کش کرنی ہوتی ہے۔ مگر آڈیو ویزول صحافت کی اپنی مشکلات ہیں۔ قتل عام کی تصویر، فرقہ وارانہ فسادات کی رپورٹنگ،سیلاب زدہ علاقوں کا خوف ناک منظر،ناگہانی حادثات اور نہ جانے کتنے ایسے مراحل ہوں گے جنہیں پیش کرتے ہوئے عارف اقبال نے ایک طرف اپنی سانسوں اور دھڑکنوں کو سنبھالا ہوگاا ور دوسری طرف پیشے کے احترام اور فرائض کی پکار پر مظلوم کی طرف داری میں ظالم کے برخلاف حقائق پیش کیے ہوں گے۔ ٹیلی ویژن صحافت کا یہ سب سے مشکل اور صبر آزما حصہ ہوتا ہے جب آپ روتے بلکتے ہوئے لوگوں سے ان کی تکلیف پوچھتے ہیں مگر جب تک ان کی بات عوام کے سامنے نہ آجائے، آخر حقیقت تک رسائی کیسے ممکن ہوگی۔ ارریہ کے دور میں عارف اقبال نے ایسی سینکڑوں رپورٹنگ کی ہے جہاں انسانی دردمندی اور سماجی فرائض کی پیشہ وارانہ پیش کش مکمل ہوتی ہے۔ کسی نیشنل چینل کے صحافی کی مفصِل میں رہتے ہوئے رپورٹنگ کی عجیب و غریب ذمہ داری ہوتی ہے۔ اسے ایسا موضوع چننا ہے جو ضلع سے لے کر ریاست اور قومی سطح تک قابل توجہ بنے۔ اتنا ہی نہیں، اسے اس بات کی بھی توجہ کرنی ہے کہ خبر دیکھنے والی قومیت ہندستان سے باہر بھی رہتی ہے۔ اس لیے تحقیقی شغف اور خبر کے معیار پر نظر رکھے بغیر اچھی اور بڑی صحافت کے لیے گنجائش نہیں ہے۔ عارف اقبال نے ارریہ میں رہتے ہوئے ایسی صدہا رپورٹنگ کی جو ایک طرف علاقائی اہمیت کی حامل تھی تو دوسری طرف اس کے تار و پود، قومی سیاست اور سماج سے جڑتے تھے۔ یہ کہنے میں مجھے کوئی جھجھک نہیں کہ عارف اقبال کی ارریہ میں رہتے ہوئے جو مفصِل صحافت کے نمونے سامنے آئے، اسی سے بہار میں ای ٹی وی بھارت کی مقبولیت بڑھی۔ان کی ”بھکّا“ پر کی گئی اسٹوری کو ٹیلی ویژن کے معروف صحافی رویش کمار نے  اپنے فیس بک پر شیئر کرتے ہوئے اس بات کا اقرار کیا تھا کہ سیمانچل میں کھانے کی ایسی کوئی چیز ہے، جس سے وہ واقف نہیں تھے۔اسی طرح ” ہندستان کے دل میں بسا پاکستان “ بھی قومی سطح پر موضوعِ بحث رہا۔ یہ پورنیہ میں آباد اس علاقے کی کہانی تھی جو گا ؤں آج بھی پاکستان کے نام سے آباد ہے۔ تقسیم کے وقت یہاں کے سارے مسلم ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے تھے۔

اردو صحافت کا ایک خاص شعبہ قومی اور ملی موضوعات کی طرف خصوصی توجہ بھی ہے۔ عارف اقبال کی اسٹوریز پر نظر کریں تو یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ وہ اس میدان میں پورے طور پر کامیاب ہیں۔ ارریہ میں رہتے ہوئے اس بات کے مواقع اور بھی زیادہ تھے کہ وہ اقلیت آبادی کی اکثریت کی وجہ سے امتیاز کا حامل ہے۔ اس لیے وہاں کسی دوسری جگہ سے زیادہ اس بات کی ضرورت رہے گی کہ ملی مسائل کو اور ملی قائدین کے کاموں کی بھی زمینی سطح پر جانچ پرکھ کی جائے۔ چار سال ارریہ میں رہتے ہوئے عارف اقبال نے ارریہ کو قومی صحافتی منظر نامہ پر جو مشہور کیا،اس میں ان ملی موضوعات کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ یہ موضوعات قومی اور ملی درد مندی کے بغیر اپنے اثرات قائم نہیں کر سکتے تھے۔

فیلڈ رپورٹنگ میں رہنے والے صحافی کی کامیابی کا انحصار اس مواد پر ٹکا ہوا رہتا ہے جو اسے فرسٹ ہینڈ دستیاب ہوتا ہے، اس کے لیے رپورٹرس کے قومی، صوبائی اور علاقائی سطح کے ملی، سیاسی اور ہر شعبۂ حیات کے قائدین سے براہ راست رشتہ ہونا لازم ہے۔ اس کے بغیر آپ کو ئی نیوز بریک نہیں کر سکتے۔ پٹنہ آنے کے بعد عارف اقبال کو اس بات کے زیادہ مواقع ملے اور انہوں نے اپنے صحافتی ذرائع بڑھائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اتنے اخبارات اور ٹی وی چینل کے رہتے ہوئے بہت سارے مواقع پر سب سے پہلے بعض خبریں انھوں نے ہی بریک کیں، ٹیلی ویژن صحافت کی یہ سب سے بڑی کامیابی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ بہار کی سطح پر کام کرنے والے کسی اقلیت آبادی کے فرد کی حیثیت سے وہ سب سے نمایاں ہیں۔

عارف اقبال بے خوفی کے ساتھ اپنی صحافت انجام دیتے ہیں، کسی ایک حلقے کی طرف جھک جانے کا ان کا رویہ نہیں ہے۔ جن موضوعات کو چھونے میں دوسرے کو پریشانی ہوتی ہے، انہیں بھی انہوں نے چھوا۔ گذشتہ برس بہار میں امیر شریعت کے انتخاب میں شدید تنازعات پیدا ہو رہے تھے اور خیمہ بندیاں بھی شباب پر تھیں۔ بہت سار ے دعویدار اور اسی انداز کے گروپ کام کر رہے تھے۔ ان چھے سات مہینوں میں عارف اقبال نے مسلسل اس موضوع کو مرکز میں رکھا اور ہر فریق کو اس کی بات کو کہنے کے لیے مواقع فراہم کیے۔ اپنی طرف سے کسی ایک حلقے کے علمبرار نہ ہوئے جو بات ایک بہترین اور غیرجانب دار صحافی ہونے کی حیثیت سے انھیں وقار بخشتی ہے۔

عارف اقبال کا تہذیبی اور ثقافی شعور بھی بہت بالیدہ ہے۔ وہ خود اردو زبان و ادب میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، پٹنہ یونیورسٹی سے لے کر دہلی یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے اعلیٰ تعلیمی ا داروں کے فیض یافتہ ہیں۔ اس لیے ان کی زبان نپی تلی، سلجھی ہوئی، محاورات اور ضرب الامثال سے آراستہ اور حقیقت پسندانہ ہوتی ہے۔ اشاروں کی زبان اور حسب ضرورت حسِ مزاح کا استعمال کر کے بھی وہ اپنی رپورٹوں کو قابل توجہ بناتے ہیں۔ سڑک اور بازار پر ان کی گہری نظر رہتی ہے جہاں سے وہ اپنی ڈھیر ساری رپورٹنگ کے موضوعات تلاش کر لیتے ہیں۔ کسی سے وہ عام آدمی سے جڑتے ہیں۔ ان کی سینکڑوں ہیومن اسٹوریز ایسے ہی مشہور نہیں ہوئیں، ان کے موضوعات عام لوگوں کے بیچ اٹھنے بیٹھنے کے درمیان آئے ، یہ ان کا اضافی وصف ہے جو انہیں امتیاز عطا کرتا ہے۔

عارف اقبال چونکہ اردو چینل سے وابستہ ہیں، اس لیے موقع بموقع وہ اردو زبان و ادب کے موضوعات پر بھی خاص طور سے توجہ فرماتے ہیں۔ کوئی ادبی تقریب ہو تب تو براہ راست یہ ان کے دائر ے میں چلا آتاہے مگر کسی کے یوم پیدائش، کسی کے یوم وفات یا کوئی خاص موقع ہاتھ آ جائے تو وہ خصوصی اسٹوریز ضرور فلیش کرتے ہیں۔ اس بہانے ان کے چینل سے سینکڑوں کی تعداد میں ادبا اور شعرا اور دانشور حضرات اپنے آپ جڑ جاتے ہیں۔ یہ صحافت کا ادبی میدان ہے اور اس میں ایک صحافی کو عام طور پر سنبھل کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ ہر مرحلے میں علم و الوں سے پالا پڑتا ہے۔ اس موقعے سے اردو زبان کی اعلیٰ تعلیم ان کے کام آتی ہے اور ان کے نپے تلے سوالات اور پھر اُن کی کمنٹری لوگوں کو مطمئن کرتی ہے۔اسی طرح وہ سیاست دانوں کے ساتھ ساتھ ادیبوں اور شاعروں سے بھی اسی مہارت کے ساتھ انٹرویو کر تے ہیں۔

عارف اقبال کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ وہ ملی قائدین سے قوم و ملت کے بڑے اور سلگتے ہوئے سوالوں پر گفتگو کرتے ہیں۔ امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے چھٹے امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین صاحبؒ پر تو انہوں نے پوری کتاب ہی مرتب کی۔ بعد میں مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی، مولانا سید ارشد مدنی،مولاناکلب صادق، مولان محمود مدنی، مولانا اسرار الحق قاسمیؒ، مولانا سید محمد ولی رحمانیؒ،مولانا بدرالحسن قاسمی کویت،مولانا محمد قاسم مظفرپوریؒ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا انیس الرحمن قاسمی،مولانا احمد ولی فیصل رحمانی، مولانا رضوان احمد اصلاحی جیسی عظیم ملی و مذہبی شخصیات سے وقت فوقتاََ ملک وقوم کے بڑے مسئلوں پر انھوں نے گفتگو کی اور ان کی ایسی سینکڑوں اسٹوریز اہل دانش کے حلقے میں قابل توجہ رہی ہے۔ یہی سلسلہ اہالیانِ سیاست کا بھی رہا جب اقتدار اور حزب اختلا ف دونوں حلقے کے نمائندہ افراد سے انھوں نے براہ راست گفتگو کی اور قوم کو باخبر کیا کہ سیاست کے پلیٹ فارم پر کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔

اس طرح ایک کامیاب صحافی کے طور پر عارف اقبال صفِ اول میں جگہ پانے کے حق دار ہیں۔ ابھی ان کی عمر بہت کم ہے۔ مگر اس پیشے نے انہیں صحافت کا ایسا شعور بخشا ہے کہ ان کی نہ زبان پھسلتی ہے اور نہ ہی کسی موضوع کے انتخاب میں وہ مشکل میں پڑتے ہیں۔ ایک بلوغیت ہے جس سے ان کے یہاں ایک خاص قسم کی دانشورانہ توجہ ابھرتی ہے۔ غیر جانب دارانہ اندازِ فکر، تحقیق و ترتیب کا شعور، استفسار در استفسار کا انداز، حقیقت کی تلاش میں بے خوفی اور بنیادی امور پر ہر صورت میں نظر رکھنے کی صلاحیت نے انہیں صحافی کی حیثیت سے امتیاز کا حامل بنایا۔ میں مخدوم محی الدین کے الفاظ میں اپنی نیک خواہشات اس طرح پیش کرنا چاہوں گا:

الٰہی یہ بساطِ رقص اور بھی بسیط ہو

صدائے تیشہ کامراں ہو، کوہکن کی جیت ہو

٭٭٭

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com