احمد نادر القاسمی ، جوگابائی دہلی
بھارت میں مسلمانوں کا دور اقتدار محمدبن قاسم رحمۃ اللہ سے جزوی طورپر شروع ہوتا ہے ۔ مگر اس اقتدار کا دائرہ اتنا وسیع نہیں تھا، بلکہ محض بھارت کے ایک مغربی حصہ تک محدود تھا ۔ جو اس وقت جغرافیہ کے اعتبار سےتقسیم ہند کے بعد جو علاقہ دیبل کی بندرگاہ اور کراچی یا صوبہ سندھ سے ملحق ہے وہیں تک محدودنظر آتاہے۔ وہاں سے نکل کر جب شمالی بھارت بشمول دہلی تک اس کے بعد وسیع ہوا، اور سب سے پہلی حکومت دہلی کے مہرولی میں قطب الدین ایبک نے ١٢٠٦عیسوی میں اس کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد شیرشاہ سوری اور ظہیرالدین بابر اورعلا ٕ الدین خلجی نے شمال میں اجمیر اور بیکانیر تک اورمشرق میں بھارت کی آخری سرحد بنگال تک اسے وسعت دی۔ اورجنوب میں مالوہ سمیت بیجاپور تک مغل حکمرانوں نے مسلم حکومت ۔بلکہ یہ کہیے کہ متحدہ بھارت کی حکومت کو وسیع کیا ۔ میں اس لیے اس کو ۱۲۰۶ کے بعد کے بھارت کی حکومت کہ رہاہوں کہ اس پوری جدوجہد اکیلے مسلم حکمرانوں نے نہیں کی تھی۔ بلکہ اس میں ان مسلم حکمرانوں کے ہندو بھی فوج کی حیثیت سے شریک تھے۔اس لیے یہ سب مشترکہ کوششوں کا نتیجہ تھا ۔ ۱۲۰۶ سے لیکر نواب سراج الدولہ کی پلاسی کی جنگ اورایسٹ انڈیاکے اثرورسوخ تک پورے بھارت کے ہندواورمسلمان ۔ تہذیبی۔ تمدنی۔ لسانی۔مزاجی۔ یہاں تک کہ لباس وپوشاک ۔غم اورخوشی ہرچیزمیں باہم شیروشکر اورایک مشترکہ معاشرے میں تبدیل ہوچکے تھے اور اس اشتراکی مزاج ومعاشرے کی تشکیل میں مسلم حکمرانوں نے بڑااہم رول اداکیا تھا۔ ایبک سے لیکر بہادرشاہ ظفرتک کسی بھی مسلم حکمراں کے بارے میں تاریخی طورپر یہ نہیں ملتا کہ انھوں نے اپنے دوراقتدار میں مسلم اورہندوکے درمیان مذھب کی بنیاد پر کوئی تفریق کی ہو ۔ تمام ہی مسلم حکمرانوں نے اپنی فوج سے لیکر نظام حکومت کے کل اور پرزے تک میں صلاحیت کی بنیاد پر مسلم اورہندو دونوں طبقوں کو ملازمتیں دیں اور سب کوساتھ رکھا۔بڑے بڑے منصب اورعہدے ، بلکہ مسلمانوں سے بھی اعلی عہدوں پر بحال کیا۔ یہاں تک کہ شاہ جہاں اورانگزیب تک جسے آج لوگ دشمن گردانتے ہیں ان کے وزیر اعظم اورناٸب وزیراعظم تک ہندو تھے۔ جن کا نام گھناتھ داس تھا۔ چاہے ہندو ہو یامسلمان سب کے دکھ درد میں برابر کے شریک تھے ۔ ملک کی تمام رعایا کو اپنا سمجھتے تھے، سب کو پاس بٹھاتے تھے ۔ یہاں تک کہ انھوں نے انسانوں کے درمیان پاٸی جانے والی ذات پات۔ اونچ نیچ تک کی خلیجیں پاٹ دیں تھیں۔ اس طرح انھوں نے ایک مشترکہ انسانی سماج کی تشکیل کی تھی۔ بھلاکیسے کہا جاسکتا ہے کہ مسلم حکمراں ہندووں کے دشمن تھے، وہ تو سارے یہاں کی مٹی میں پیوست ہو کر ہندوستانی ہوگئے تھے۔ ان کو بجائے باہرسے آنے والے کے ہندوستانی کہنا زیادہ مناسب ہے۔سب یہیں پیداہوئے اوریہیں کے ہوکر بھارت کی خدمت کرتے ہوئے دنیاسے چلے گئے۔ (دیکھیے ۔مسلم عہدحکومت میں ہندومسلم رواداری جلد دوم)۔ یہ بات یقینا سمجھ میں آنے والی ہے۔کہ اگر انھوں نے ایسانہ کیا ہوتا تو کسی قیمت پر تقریباً آٹھ سوسالوں تک بھارت کے اتنے وسیع وعریض حصے پر حکومت کرپاتے ۔جس کی سرحد ایک طرف انڈونیشیا تودوسری ہمالہ کی وادی توتیسری طرف ایران کی سرحد سے ملتی تھی۔ یہ سب یہاں کے ہرمذھب کے لوگوں کے اتحاد اورمشترکہ ذہنی ہم آہنگی ہی کانتیجہ تھا۔ ہزارتعصب اورمسلم دشمنی اورمنفی سوچ کے اس حقیقت سے انکارنہیں کیاجاسکتا۔کسی مسلم دور اقتدار میں کسی بھی جگہ کے ہندومسلم فساد کاتذکرہ تاریخ میں نہیں ملتا۔ سوائے اقتدار کی جنگ کے جس میں دونوں طرف ہندوبھی تھے اورمسلم بھی تھے۔ ہندؤں اور مسلمانوں نے باہم مذھب اورذات کی بنیاد پر کبھی جھگڑانہیں کیا ۔دولت کی زمین کی اورملازمت کی منصفانہ تقسیم تھی ۔حکومت کے خزانے سے ہندومسلمان ۔ ملا اورپنڈت سب کوحق ملتاتھا ۔اپنے اپنے مذھب پر چلنے اورعبادت کرنے اپنی کتابیں چھاپنے اورعبادت خانے تعمیرکرنے ہرچیز کی آزادی سب کو تھی۔ کوٸی کسی پر اعتراض نہیں کرتا تھا۔ بلکہ ایک دوسرے کا تعاون کرتے تھے۔ جیسا مشہور مورخ اور تاریخ داں ڈاکٹر پنیانی نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے ۔مسلمانوں اورہندووں میں مذھبی منافرت کا دور ۔یا ایک دوسرے کے خلاف زہراگلنے کا دور 1857 کے بعدد شروع ہوا۔اس میں سب بڑا رول لارڈ میکالے نے اداکیا۔ اور بنگال میں اس نے ایک دوسرے کے خلاف تاریخی اورمذھبی جھوٹے پروپیگنڈے ایجاد کروائے منافرتی سلوگن کی تشہیر کی ۔ مسلم حکمرانوں کی ہندووں کے جذبات بھڑکانے والے الزامات تاریخی کتابوں میں درج کرائے ۔ انھیں تعلیمی اداروں کے نصاب میں شامل کیا۔ مندروں کو توڑنے اور ہندو خواتین کے ساتھ زیادتیوں جیسی تہمتوں کو عام کیا، تاکہ دونوں طبقے میں نفرت کی آگ بھڑکے۔ اوروہ بیج آخر بوگیا۔ یہ تو اس وقت کے غلام بھارت کے لوگوں کی دانشمندی تھی کہ اس کے بہکاوے میں نہ آکر انگریزوں کے خلاف آزادی کی لڑاٸی جاری رکھی۔۔ اگر اس وقت اس جھوٹے پروپیگنڈے میں ہندومسلمان آزادی کے وقت آگئے ہوتے توکسی قیمت پر دیش آزاد نہ ہوتا۔ مگر وہ نفرت کی بیج جو انگریزوں نے بویاتھا ۔ ہندو بھائیوں کے ایک طبقے میں بونے میں کامیاب ہوگیا۔ جس کی آگ میں آج ہمارا دیش کسی نہ کسی حدتک جل رہا ہے ۔ اب ضرورت ہے اسی تین سوسالوں پرانی رواداری۔ معاشرتی ہم آہنگی۔ مشترکہ سماج اور رکھ رکھاو بنانے کی ۔۔ (جاری)۔