طلاق شدہ خواتین کے مسائل کا حل (۱)

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

بد قسمتی سے مطلقہ عورت کے نفقہ کے بارے میں بار بار عدالت کی طرف سے شریعت کے موقف کے خلاف فیصلے سامنے آتے ہیں، اور مسلم تنظیموں اور ذمہ دار شخصیتوں کی طرف سے اس کا جواب دیا جاتا ہے، یہ ضروری بلکہ ایک شرعی فریضہ بھی ہے؛ لیکن ظاہر ہے کہ صرف جواب دے دینا مسئلہ کا حل نہیں ہے؛ بلکہ طلاق کے واقعات سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں، اور خاص کر مطلقہ عورتیں جن دشواریوں سے گزرتی ہیں، ان کا حل کرنا بھی ضروری ہے، علماء اور ملت کی ذمہ دار شخصیتوں کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مثبت حل کی طرف مسلمانوں کی اور خاص کر مطلقہ عورت کے خاندان کو توجہ دلائیں، اگر ہم صرف فکری اور علمی طور پر معترضین کے سوالات کے جواب دیں تو اس سے زبانیں بند ہو سکتی ہیں؛ لیکن مسائل حل نہیں ہوں گے اور جب مسائل حل نہیں ہوں گے تو دل ودماغ بھی مطمئن نہیں ہوگا۔

اصل یہ ہے کہ نکاح ایک ایسا رشتہ ہے جس کے ذریعہ شوہر و بیوی کو جہاں شریک حیات اور غمگسار میسر آتا ہے ، وہیں عورت او ربچوں کو ایک سہارا حاصل ہوتا ہے ، عورت ذہنی یکسوئی کے ساتھ بچوں کی پرورش کرتی ہے ، بچے اطمینان و سکون کے ساتھ تعلیم و تربیت میں مشغول ہوتے ہیں ، شوہر کسب ِمعاش کی تگ و دو میں اپنے آپ کو مصروف رکھتا ہے اور گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد رہتا ہے ، اگر کسی وجہ سے یہ رشتہ ٹوٹ جائے تو عورت سب سے زیادہ دشواریوں سے دوچار ہوتی ہے ، اس کے لئے خود اپنی زندگی بوجھ بن جاتی ہے اور بچے چوںکہ ماں کی ممتا کے بغیر زندگی کے ناہموار راستوں کا سفر طے نہیں کرسکتے ؛ اس لئے جیسے ایک مرغی اپنے بچوں کو اپنے پروں میں چھپائے رکھتی ہے ؛ اسی طرح ماں اپنی بے سہارگی کے باوجود بچوں کو اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتی ہے اور بچے بھی ماں کی گود میں جو سکون و راحت محسوس کرتے ہیں ، سونے کی پلنگ بھی انھیں وہ راحت نہیں پہنچاسکتی ؛ اسی لئے اگر رشتہ ٹوٹ جائے اور طلاق کی نوبت آجائے تو خاندان بکھر جاتا ہے اور ماں اور بچے بے سہارا ہوجاتے ہیں ۔

ایسے مسائل کوحل کرنے کے لئے شریعت نے نفقہ و کفالت کا ایک پورا نظام رکھا ہے اور اس میں عورت اور چھوٹے بچوں کی خصوصی رعایت کی گئی ہے ، افسوس کہ ہمارے سماج میں ایک تو طلاق کے بیجا واقعات پیش آتے ہیں ، اور اگر طلاق کا واقعہ پیش آہی گیا تو طلاق کے بعد مطلّقہ عورت اور بچوں سے متعلق جن حضرات کی جو ذمہ داریاں ہیں ، وہ ان کو ادا نہیں کرتے ، اس کی وجہ سے بہت سے سماجی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی کوتاہ عملی کی وجہ سے اسلام کی بدنامی ہوتی ہے اور لوگوں کو شریعت اسلامی پر زبان کھولنے کا موقع ملتا ہے ۔

اگر کسی عورت کو طلاق دی جائے تو عدت کا نفقہ توواجب ہے ہی ، (المحیط البرہانی : ۳؍ ۵۵۳) اور بہتر ہے کہ یکمشت کوئی رقم بھی دے دی جائے ؛ تاکہ مستقبل کی زندگی کے لئے کوئی سہارا بن سکے ، اس کو ’’متاع ‘‘کہتے ہیں ، قرآن مجید نے متاع دینے کی ترغیب دی ہے : وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ(البقرۃ:۲۴۱)اور متاع کی کوئی حد مقرر نہیں ہے ، یہ طلاق دینے والے مرد کی استطاعت اور اس کے ظرف کے اعتبار سے ہے کہ جس عورت کے ساتھ وہ زندگی گزار چکا ہے اور جس کو زندگی کی راہ میں اس نے تنہا چھوڑ کر بے وفائی کا ارتکاب کیا ہے ، وہ اس کے ساتھ کیا حسن سلوک کرسکتا ہے ؛ تاکہ اس کی اس حرکت کی کچھ تلافی ہوسکے ۔

لیکن عدت کے خرچ اور متاع کے علاوہ بعض اور ذمہ داریاں ہیں ، جو اکثر حالات میں طلاق دینے والے شخص پر عائد ہوتی ہے اور وہ دو ہیں : ایک یہ کہ اگر اس کے بچے بھی ہیں تو وہ ان کا مناسب نفقہ ادا کرے ، جس سے خوراک ، پوشاک ، علاج ، تعلیم اور رہائش کی ضرورت پوری ہو ، اور وہ جس سماج میں رہتا ہے ، اس سماج کے معیار کے مطابق پوری ہو ، اگر اس نے دوسرا نکاح کیا اور دوسری بیوی اور اس سے پیدا ہونے والے بچے اس کے ساتھ ہیں اور مطلّقہ بیوی سے پیدا ہونے والے بچے اپنی ماں کے ساتھ ہیں تو جس معیار کے مطابق اپنے ساتھ رہنے والے بچے کی پرورش کرتا ہے ، ضروری ہے کہ اسی معیار کے مطابق اپنی سابقہ بیوی سے ہونے والے بچے کی بھی پرورش کرے ، اگر اس نے ان دونوں بچوں کے درمیان مساوات اور برابری کا معاملہ نہیں کیا تو وہ گنہگار ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس کی باز پرس ہوگی ، اگر اپنی اولاد کے درمیان برابری کا برتاؤ نہیں کیا جائے ، یا ایک بیوی سے پیدا ہونے والے بچوں اور دوسری بیوی سے پیدا ہونے والے بچوں کے درمیان برابری کا معاملہ نہ کرے تو رسول اللہ ﷺ نے اس کوجور ( ظلم ) قرار دیا ہے ۔ ( صحیح مسلم،کتاب الہبات،حدیث نمبر:۱۶۲۳)

صاحب اولاد مطلّقہ عورت کا دوسرا حق یہ ہے کہ جب تک وہ عورت ان بچوں کی پرورش کرتی رہے ، اس وقت تک اس عورت کو پرورش اور نگہداشت کے عمل کی اُجرت دی جائے ، جس کو فقہ کی اصطلاح میں’’ اُجرت حضانت‘‘ کہتے ہیں ، (البنا یہ:۵؍۶۴۴) یہ اُجرت اتنی ہونی چاہئے کہ عورت کے کھانے پینے کی ، لباس و پوشاک کی اور علاج و معالجہ کی ضرورت پوری ہوجائے ، اور یہ بھی واجب ہوگا کہ اس کے لئے مناسب رہائش کا انتظام کرے ، (ردالمحتار:۳؍۵۶۱) گویا جب تک عورت طلاق دینے والے سابق شوہر کے بچوں کی پرورش کررہی ہے ، نفقہ کے بقدر اس کی اُجرت ادا کرنا واجب ہے اور حق پرورش لڑکوں کے سات آٹھ سال تک اور لڑکیوں کے بالغ ہونے تک ماں کو حاصل ہوتا ہے ، یہ امام ابوحنیفہؒ کی رائے پر ہے ، (العنایۃ:۴؍۳۷۱) امام مالکؒ کے نزدیک لڑکی اگر بالغ بھی ہوجائے تو جب تک اس کی شادی نہ ہوجائے ، ماں پرورش کی حقدار ہے ، (البیان والتحصیل : ۵؍۱۲۰)اور موجودہ دور میں یہی رائے زیادہ قابل عمل ہے ، جو ان لڑکی کو تنہا باپ کی پرورش میں دے دینا یا ایسی جگہ رکھ دینا جہاں اس کے قریب العمر سوتیلے بھائی بھی رہتے ہوں ، فتنہ سے خالی نہیں ہے ، ماں جس طرح بیٹی کی عفت و عصمت اورعزت و آبرو کی نگہداشت کرسکتی ہے نہ باپ کرسکتاہے اورنہ سوتیلی ماں سے اس کی اُمیدکی جاسکتی ہے، اس طرح طلاق پانے والی عورت کو پانچ دس سال کی ایسی مہلت مل جاتی ہے جس میں اس کو اپنے گذران کاسہاراہوجاتا ہے اور یہ ایسی مدت ہوتی ہے جس میں وہ اپنی زندگی کو ایڈجسٹ کرسکتی ہے ۔

 مطلّقہ عورت سے متعلق بڑی ذمہ داری اس کے باپ کی ہے ، اگر طلاق دینے والامرد موجود نہ ہو، یا عورت کو ضروریات زندگی حاصل نہیں ہوپارہی ہو ، خواہ اس لئے کہ کسی بچہ کی پرورش اس کے ذمہ نہیں ہے ،کہ وہ اُجرت ِ پرورش کی مقدار ہو ، یا اس لئے کہ مرد کو دینا چاہئے ؛ لیکن اللہ سے بے خوفی اور اپنی ذمہ داری سے غفلت کی بناپر وہ اپنا فریضہ ادا نہیں کرتا ، ان تمام صورتوں میں باپ کی ذمہ داری ہے کہ بیٹی کا نفقہ ادا کرے ، اس کے پیدا ہونے کے وقت جس طرح اس نے اس کا استقبال کیا تھا ، اسی طرح خدا نخواستہ وہ بیوہ یا مطلقہ ہوکر واپس آتی ہے تو اس وقت بھی اس کا استقبال کرے اور اسے بوجھ نہ سمجھے ؛ کیوںکہ وہ اسی کے دل کا ٹکڑا اور اسی کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ۔

نفقہ کے معاملہ میں شریعت نے بیٹی کو بیٹے پر مقدم رکھا ہے ، بیٹا اگر بالغ ہوجائے تو باپ پر اس کے نفقہ کی ذمہ داری باقی نہیں رہتی ، (فتاویٰ قاضی خاں علی الہندیۃ:۱؍۲۱۹) اسی طرح اگر بیٹا کسب ِمعاش پر قادر ہے تو باپ اسے مجبور کرسکتا ہے کہ وہ خود محنت کرے اور اپنی روزی روٹی کے مسائل کو حل کرے ؛ لیکن اگر لڑکی بالغ ہوجائے تو جب تک اس کی شادی نہ ہوجائے، باپ پر اس کا نفقہ واجب ہے ، (فتح القدیر : ۴؍۴۱۰)اور اگر وہ کسب ِمعاش پر قادر ہو تب بھی باپ اسے اس پر مجبور نہیں کرسکتا ، (فتح القدیر : ۴؍۴۱۰) اسی طرح اگر بیٹی بیوہ ہوجائے یا اسے طلاق دے دی جائے اور اس کے پاس اتنی دولت نہیں ہوکہ وہ خود اپنی ضروریات پوری کرسکے تو پھر والد پر اس کے نفقہ کی ذمہ داری لوٹ آئے گی اور اس پر بیٹی کے اخراجات پورے کرنا ضروری ہوگا ، (فتح القدیر : ۴؍۴۱۰) نیز باپ کایہ نفقہ ادا کرنا بطور احسان کے نہیں ہے ؛ بلکہ یہ اس کا شرعی فریضہ ہے ؛اس لئے اس کے دوسرے بیٹے اور بیٹیوں کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے باپ کو اپنی بہن پر خرچ کرنے سے روک دے ۔

 یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جیسے دوسرے لوگوں پر خرچ کرنا باعث اجر وثواب ہے ، اسی طرح اپنی اولاد پر خرچ کرنے میں بھی ثواب ہے ؛ چنانچہ حضرت ابن مسعود انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا : جب کوئی مسلمان اپنے بال بچوں پر اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضا کے لئے خرچ کرتا ہے تو اس میں بھی صدقہ کا ثواب ہوتا ہے : اذا أنفق المسلم نفقۃ علی أھلہ وھو یحتسبھا کانت لہ صدقۃ (صحیح البخاری،باب فصل النفقہ علی الأھل،حدیث نمبر:۵۳۵۱) اور خاص کر بیوہ عورت کی خدمت و اعانت کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے ، حضرت ابوہریرہؓ آپ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ بیوہ عورت کی خدمت کرنے والا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ، یا اس شخص کی طرح ہے ، جو رات بھر نماز پڑھتا ہو اور دن میں روزہ رکھتا ہو : … کالمجاھد فی سبیل اﷲ أو کالقائم اللیل ، الصائم النھار (صحیح البخاری،باب السعی علی الأرملہ،حدیث نمبر:۶۰۰۶) ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے ان لوگوں کا ذکر فرمایا ، جن کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن عرش کے سایہ میں جگہ دیں گے ، اس میں آپ ﷺنے یتیم یا بیوہ کی کفالت کرنے والے کو بھی شمار کیا : من کلف یتیماً أو أرملۃ أظلہ اﷲ فی ظلہ وأدخلہ جنتہ (المعجم الاوسط : ۸؍۱۱۷ ، حدیث نمبر : ۹۲۹۲)نیز حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے اپنی وفات کے قریب بالکل آخر آخر میں تین باتوں کی نصیحت فرمائی : نماز کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو ، غلاموں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو ، دو کمزور لوگوں — بیوہ عورت اور یتیم بچہ — کے سلسلہ میں اللہ سے ڈرو ۔ (شعب الایمان : ۱۳؍۴۰۴)

 جو حکم بیوہ کا ہے وہی حکم بہ درجۂ اولیٰ اس مطلقہ عورت کا ہے ، جس کا کوئی سہارا نہیں ؛ کیوںکہ بیوہ کو لوگ رحم کا مستحق سمجھتے ہیں اور مطلقہ کے بارے میں عام طورپر یہ سوچ ہوتی ہے کہ اس کو اس کی بدزبانی و بد اخلاقی کی وجہ سے طلاق دی گئی ہوگی؛ اس لئے رحم کا جذبہ کم ہوتا ہے ، اور اس کی مجبوری اور بڑھی ہوئی ہوتی ہے ؛ حالاںکہ طلاق کے اکثر واقعات میں مرد کی زیادتی ہوتی ہے نہ کہ عورت کی ؛ اس لئے وہ زیادہ رحم کی مستحق ہے ، پس جو اجر کسی بیوہ کی پرورش میں ہے ، مطلقہ کی پرورش میں بدرجہ اولیٰ ہوگا اور اگر وہ مطلقہ بیٹی یا بہن وغیرہ ہو تو اس میں اجر اوربھی بڑھ جائے گا ؛ کیوںکہ یہ ایک بے کس اور ضرورت مند کی مدد بھی ہے اور رشتہ داری کا پاس ولحاظ بھی ۔ (جاری)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com