مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ)
آزاد ہندوستان کا پہلا انتخاب 1952 میں ہوا تھا، دستور کے اعتبار سے ہندوستان ریاستوں کا وفاق ہے، اس لیے اس وقت ریاستی حکومتوں کی تشکیل کے لیے پارلیامنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرائے گیے تھے، تاکہ ملک کا وفاقی ڈھانچہ مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہوسکے، رجواڑوں اور نوابوں کے نرغے سے آزاد ریاستوں کی نئی حدبندی کی وجہ سے یہ سلسلہ 1957ء میں باقی نہیں رہ سکا، چنانچہ اس سال صرف چھہتر فی صد ریاستوں میں ہی پارلیمانی انتخاب کے ساتھ اسمبلی انتخابات کرائے جاسکے، 1959ء میں اس وقت کی کانگریسی حکومت نے آزاد ہندوستان میں پہلی بار دفعہ 356 کا سہارا لے کر کیرل کی نمبودری پد سرکارکو برخواست کردیا، ایسے میں ممکن نہیں رہا کہ پارلیامنٹ اور اسمبلی کا انتخاب ایک ساتھ ہو، چنانچہ کیرل میں 1960ء میں پھر سے ضمنی انتخاب کرایا گیا جو ملک کی تاریخ کا پہلا ضمنی انتخاب تھا، 1962ء اور 1967ء میں جن ریاستی حکومتوں کی مدتِ کار پارلیامنٹ کے ساتھ ختم ہوگئی تھی، وہاں پارلیمانی انتخاب کے ساتھ ہی ریاستی انتخابات کرائے گیے اور جن کی مدت کا پوری نہیں ہوتی تھی، اس کے انتخابات مدت کار کی تکمیل کے بعد کرائے گیے، 1977ء میں جب ایمرجنسی کے بعد پہلے انتخاب میں کانگریس کو بُری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا، خود اس وقت کی وزیر اعظم اور مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں کامیاب اندرا گاندھی جو خاتون آہن کے لقب سے جانی جارہی تھیں، اپنی رائے بریلی سیٹ ہار گئیں اور ان کے روایتی حریف راج نرائن نے ان سے گاندھی خاندان کی یہ روایتی سیٹ چھین لی، جے پرکاش نرائن کانگریس مخالف تمام پارٹیوں کو یک جٹ کرنے میں کامیاب ہوگیے اور جنتا پارٹی قائم ہوئی، جس کی ایک حلیف جماعت جن سنگھ بھی تھی، مرار جی ڈیسائی وزیر اعظم ہوئے اور انہوں نے یہ کہہ کر کہ ملک نے کانگریس کے خلاف ووٹ دیا ہے، نو ریاستوں کی کانگریسی حکومت کو یاتو برطرف کردیا، یاکانگریسی حکومتوں نے خود سے استعفیٰ دیدیا، ان ریاستوں میں صدر راج لگایا گیا اور بعد میں ریاستی انتخابات کرائے گیے، ایسے میں پارلیامنٹ کے ساتھ ریاستوں کے انتخاب کی روایت بالکلیہ ختم ہوگئی اور ریاستی انتخاب کا مدار مدت کار کی تکمیل پر قرار پایا۔
1983ء میں الیکشن کمیشن نے پھر سے پالیامنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخاب ایک ساتھ کرانے کا مشورہ دیا، حکومت کی نظر میں یہ کام ملک کے وفاقی ڈھانچے کو کمزور کرسکتا تھا، اس لیے اس پر توجہ نہیں دی گئی 1999ء میں لاکمیشن نے ایک ساتھ انتخاب کرانے پر زور دیا، لیکن اسے ملک کے مفاد میں نہیں سمجھا گیا، 2014 ء میں کانگریس حکومت کا اختتام ہوا اور بی جے پی اکثریت کے ساتھ مرکزی حکومت پر قابض ہوئی، 2015ء میں پارلیامنٹ کی مجلس قائمہ نے ایوان میں اپنی رپورٹ رکھی، لاکمیشن نے 2018 ء میں جج پی، ایس چوہان کی صدارت میں قانونی مسودہ جاری کیا، جس میں یہ بات صاف کہی گئی تھی کہ موجودہ دستور کے مطابق ایک ساتھ انتخاب نہیں کرائے جاسکتے، ظاہر ہے یہ بات بی جے پی اور آر ایس ایس کو پسند نہیں آئی، چنانچہ وزیر اعظم نریندر مودی نے 2019ء میں ایک ملک ایک انتخاب کے موضوع پر تمام سیاسی پارٹیوں کو مدعو کیا، اس طرح ایک بار پھر یہ بحث کا موضوع بنا، لیکن اتفاق رائے نہیں ہوسکا، مرکزی حکومت اسے سرد بستے میں ڈالنا نہیں چاہتی تھی، اس لیے اس نے 2؍ دسمبر 2023ء کو سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت میں اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی، تاکہ وہ اس کے امکانات پر غور کرے، اس کمیٹی میں مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ، کانگریس کے سابق لیڈر غلام نبی آزاد، پندرہویں مالیاتی کمیشن کے سابق صدر این کے سنگھ، پارلیامنٹ کے سابق جنرل سکریٹری ڈاکٹر کمار کیشپ، سینئر وکیل ہریش سالوے، چیف وجیلنس کمشنر سنجے کوٹھاری کو شامل کیا گیا، خصوصی مدعوئین میں قانون راجیہ منتری ارجن رام میگھوال اور ایچ ایل سی سکریٹری کی حیثیت سے ڈاکٹر نتن چندرا بھی شامل کیے گیے، اس کمیٹی نے مبینہ طورپر تمام سیاسی پارٹیوں، ججوں، الگ الگ حلقوں کے ماہرین سے تبادلہ خیال کے بعد اپنی تفصیلی رپورٹ مارچ 2024ء میں 18626 صفحات پر مشتمل صدر جمہوریہ درویدی مرمو کو پیش کردیا اور ستمبر 2024ء میں مرکزی وزارت نے رپورٹ کو اپنی منظوری بھی دیدی، کوند کمیٹی کو اس رپورٹ کے تیار کرنے میں 191 دن لگے، کمیٹی کے صدر کے بقول اس درمیان انہوں نے سینتالیس سیاسی جماعتوں سے رائے لی، ان کے مطابق بتیس (32) سیاسی جماعتوں نے ایک دیش، ایک چناؤکے تجویز کی حمایت کی اور کہا کہ اس سے وسائل کی بچت ہوگی، سماجی تال میل بنائے رکھنے میں مدد ملے گی، معاشی تیز رفتاری کو اس سے فروغ ملے گا، پندرہ (15) سیاسی جماعتوں نے تجویز کی پر زور مخالفت کی، عوامی رائے جاننے کے لیے کمیٹی کی جانب سے پورے ہندوستان کے اخبارات میں اشتہارات دیے گیے اور ان سے رائے مانگی گئی، عوام نے رائے دینے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی، صرف پورے ہندوستان سے 21558 لوگوں نے اپنی رائے بھیجی، بھیجنے والے زیادہ تر بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ تھے، اس لیے اسّی فی صد رائے انتخابات ایک ساتھ کرانے کی آئی، آخری مرحلہ میں بھارت کے چار سابق چیف جسٹس، بارہ ہائی کورٹ کے جج، چار سابق الیکشن کمشنر، آٹھ ریاستی انتخابی ذمہ دار، لاکمیشن کے صدر کو ان کی ذاتی حیثیت سے بات چیت کے لیے بلایا گیا، الگ الگ انتخاب سے معاشی نقصانات کے تجزیہ کے لیے، سی، آئی، آئی، فکی، ایسو چرم جیسے معاشی ماہرین کی رائے لی گئی، رائے لینے میں انتخاب اس فکر وخیال کے لوگوں کا کیا گیا جو حکمراں کے کہنے پر دن کو رات ہی نہیں کہتے، بلکہ آگے بڑھ کر کہتے ہیں کہ ہاں ہاں دیکھئے وہ چاند تارے نکلے ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کی رائے یہی تھی کہ ایک ساتھ انتخابات کرائے جائیں۔
چنانچہ کووند کمیٹی نے جو رپورٹ تیار کی، اس میں صاف صاف لکھا کہ انتخاب دو مرحلوں میں کرایا جائے، پہلے مرحلہ میں پارلیامنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخاب کرائے جائیں اور دوسرے مرحلہ میں نگر پالیکا اور پنچایت کے چناؤ ہوں گے، البتہ دوسرے مرحلہ کا انتخاب پارلیامنٹ اور ریاستی اسمبلی انتخاب کے سو دنوں کے اندر ہونے چاہیے، تمام انتخابات میں ووٹر لسٹ اوررائے دہندگان کے شناختی کارڈ ایک ہوں گے، اس کے لیے دستور میں ضروری تبدیلی کی جائے اور الیکشن کمشنر کی صلاح سے کیا جائے۔
کمیٹی نے اس مسئلہ پر کہ اگر ریاستی اسمبلی اور پارلیامنٹ کسی وجہ کر وقت سے پہلے تحلیل ہو جائے تو مشورہ دیا ہے کہ بچے ہوئے وقت کے لیے ضمنی انتخاب کرایا جائے گا، اگر دو سال پر ایسا ہوا تو ضمنی انتخاب کے بعد آنے والی حکومت کی مدت کار صرف تین سال ہوگی، اسی طرح ریاست کا نئے انتخاب کے بعد مدت کار اگر اسے دل بدلنے یا کسی اور وجہ سے برخواست نہیں کیا گیا تو وہ پارلیامنٹ کی مدت تک ہی کام کر سکے گی، کمیٹی نے یہ بھی سجھاؤ دیا ہے کہ 2029 کے انتخاب ایک ساتھ کرانے کے لیے تمام ریاستی اسمبلیوں کی مدت کار کم کر دیا جائے تاکہ 2029 کا انتخاب ایک ملک ایک انتخاب کے فارمولے پر کرایا جا سکے۔
اس رپورٹ کے دینے کے بعد رام ناتھ کووند کمیٹی کا کام پایہ تکمیل کو پہونچ گیا، مرکزی کابینہ نے اسے نہ صرف منظور کر لیا، بلکہ پارلیامنٹ میں اس بل کو پیش بھی کر دیا، سیاسی پارٹیوں نے 17؍ دسمبر 2024ء کو اس بل پر چرچا کے لیے اپنے اپنے ارکان کو ایوان میں حاضر رہنے کے لیے وھپ جاری کر دیا، بل پر زور دار بحث ہوئی، سارا حزب مخالف انڈیا اتحاد مخالفت میں کھڑا ہو گیا، بی جے پی کے لیڈر نے کانگریس کو خوب کوسا، وزیر قانون نے اس بل کو آئینی قرار دیا، جس سے کسی بھی طرح ریاست کے اختیارات میں کمی نہیں آتی، اس بل کے ذریعہ آئین کے بنیادی ڈھانچے میں چھیڑ چھاڑ بھی نہیں کیا جا رہا ہے، اس سے نہ تو پارلیامنٹ کی طاقت کمزور ہو رہی ہے اور نہ ہی مقننہ کی، انڈیا اتحاد کے لوگوں نے بھی خوب کھری کھوٹی سنائی، بل کو جمہوریت، وفاقی ڈھانچے، آئین کی بنیادی روح کے خلاف، ریاستوں میں صدر راج کے فروغ اور حقیقی جمہوریت کے لیے خطرناک بتایا، بعضوں کی رائے تھی کہ اس بل کا اصل مقصد نیا آئین لانا ہے۔
زور دار بحث کے بعد ووٹنگ ہوئی، جس میں بل کی حمایت میں 269 اور مخالفت میں 198ووٹ پڑے اور ثابت ہو گیا کہ مرکزی حکومت کم از کم اس وقت بل کو پاس نہیں کراسکتی، کیوں کہ دستور میں تبدیلی کے لیے دو تہائی اکثریت چاہیے جو اس کے پاس دونوں ایوانوں میں نہیں ہے، اس لیے اسے سال دو سال سرد بستے میں ڈالنے کی غرض سے امیت شاہ کے مشورے اور مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال کی تجویز کے مطابق اسپیکر نے جوائنٹ پارلیامنٹری کمیٹی (JPC) کے حوالہ کرنے کا فیصلہ کر دیا، اب جے پی سی بنے گی اور وسیع صلاح ومشورہ کے بعد اپنی رپورٹ اسپیکر کے حوالہ کرنے کا فیصلہ کر دیا، اب جے پی سی وسیع صلاح و مشورہ کے بعد اپنی رپورٹ اسپیکر کو سونپے گی، پھر ایوان میں اس پر بحث کیا جائے گا، تب تک کے لئے یہ معاملہ ٹھنڈا گیا ہے، جے پی سی کی رپورٹ دونوں ایوان سے پاس ہونے کے بعد اسے صدر جمہوریہ کی منظوری کے لیے بھیجا جائے گا، ان کی منظوری کے بعد ہی یہ قانون بن سکے گا، مطلب ہنوز دلی دور است، موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اگر یہ بل منظور ہوتا ہے تو دستور کی کم از کم پانچ دفعات میں تبدیلی کرنی ہوگی تبھی اس بل کا نفاذ ممکن ہو سکے گا، جن دفعات کو بدلنا ہوگا، ان میں 174,172,85,83اور 356 ہیں۔
دفعہ 83 میں کہا گیا ہے کہ پارلیامنٹ اپنی پہلی نشست کی تاریخ سے پانچ سال کے لیے ہوگی، دفعہ 85 ضرورت پڑنے پر صدر جمہوریہ کو پارلیامنٹ تحلیل کا اختیار دیتا ہے، دفعہ 172میں اسمبلیوں کی مدت کار پہلی بیٹھک سے پانچ سال مقرر ہے۔ دفعہ 175 میں گورنر کو ضرورت پڑنے پر اسمبلی تحلیل کرنے کی قوت دی گئی ہے، دفعہ 356مرکزی حکومت کو ریاستوں میں قانون کی بالا دستی باقی نہ رہنے کی صورت میں صدر راج نافذ کرنے کا اختیار تفویض کرتا ہے۔
اس کے علاوہ اس بل کے پاس ہونے کی صورت میں عوامی نمائندگی قانون 1951میں بھی ترمیم کرنی ہوگی، ایک فہرست رائے دہندگان اور ایک شناختی کارڈ کو لاگو کرنے کے لیے دفعہ 325 کو بھی بدلنا ہوگا اور مرکزی اقتدار کے تحت لائے گیے تمام ریاستوں کے قانون زیر بحث آئیں گے، اور جموں کشمیرکی نئی تشکیل پربھی غور کرنا ہو گا۔
اس طرح دیکھیں تو ایک ساتھ چناؤ کرانے کا راستہ آسان نہیں ہے، عوامی وسائل کی بچت، انتظامی اور دفاعی امور پر بوجھ کی کمی، سرکاری اسکیموں کا وقت پر نفاذ، انتظامی مشنری کا ترقیاتی کاموں کے لیے استعمال کہہ کر حکومت کے ذریعہ عوام کو مطمئن نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ جن ریاستوں کے پانچ سال پورے نہیں ہوئے انہیں قبل از وقت تحلیل کرنا ریاست کی حکومت اور عوام پسند نہیں کرے گی، اس منصوبے کو لاگو کرنے میں اضافی ای وی ایم، وی وی پیٹ کی ضرورت ہو گی، کیوں کہ اگر ایک ساتھ چناؤ کرا ئے جائیں گے تو اس کے لیے ای وی ایم اور وی وی پیٹ کی دو گنی تعداد کی ضرورت ہوگی، اس کے علاوہ ہر پندرہ سال پر ای وی ایم کو بدلنا ہوگا،جس سے انتخابی لاگت بڑھے گی، گذشتہ جنوری میں الیکشن کمیشن نے بتایا کہ ایک ملک ایک انتخاب کے لیے ہر پندرہ سال پر دس ہزارکروڑ روپے کی ضرورت ہوگی، ایک ساتھ چناؤ کرانے کے لیے اضافی کارکنوں کی بھی ضرورت ہوگی، جس کی وجہ سے ریاستیں غیر معمولی دباؤ کی شکار ہوں گی، ای وی ایم اس تعداد میں آبھی جاتے ہیں تو انہیں محفوظ رکھنے کے لیے بڑی جگہ کی ضرورت ہوگی اور مالیاتی بوجھ بھی بڑھے گا، یہ خواب وخیال کی بات ہے کہ ایک ساتھ انتخاب کرانے میں پارلیامینٹری انتخاب کے خرچہ سے ہی اسمبلی انتخابات کا انعقاد ہوجائے گا اور مالیات کی بچت ہوگی۔
ایں خیال است ومحال است وجنوں
اس کے علاوہ ریاستی مدّے اور معاملات کی ان دیکھی ہوگی،چھوٹی اور علاقائی پارٹیوں کا خاتمہ ہو جائے گا،ریاستوں کے مسائل پس پشت چلے جائیں گے۔صدر راج لگا نے میں مرکزی حکومت کو آسانی ہوگی۔اب تک صدر جمہوریہ مختلف معاملات و مسائل میں صرف مرکزی حکومت سے مشورہ کرتے تھے۔اب انہیں الیکشن کمشنر سے بھی مشورہ کرنا ہوگا،اس سے طاقت کا ارتکاز باقی نہیں رہے گا اور جمہوریت کمزور ہوگی۔