مدارس کے اساتذہ ، ائمہ مساجد اور موذنین کی تنخواہوں کا المیہ

محمد انعام الحق قاسمی ، ریاض

آج ہم جس نازک دور سے گذر رہے ہیں اس دور میں مدارس اسلامیہ ہند [خصوصاً دروس نظامیہ کے مدارس] اب علمائے کرام کی قلت کا سامنا کررہے ہیں۔ ان کے ان گنت اسباب ہیں ، ان میں سب سے اہم معاشی ، سماجی اور رہائشی مسائل ہیں:

[1] عموماً علمائے کرام غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، فراغت کے بعد ان کے سامنے اپنے والدین اور سگے رشتہ داروں کی کفالت کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ نیز انہیں وقت پر شادی بھی کرنی ہوتی ہے ۔ ازداجی زندگی میں ان کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہوجاتی ہیں۔

[2] تقریباً 25 سے 30 فیصد فضلائے مدارس آج کے دور میں کالجوں یا یونیورسیٹیوں کا رخ کرتے ہیں اور وہ لوگ وہاں سے فراغت کے بعد مدارس یا مساجد میں عموماً نہیں جاتے ہیں بلکہ مختلف کمپنیوں ،فرموں ، سفارتخانوں یا وزارتوں وغیرہ میں بآسانی روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

[3] مدارس کی لائن میں آنے والے [جن کی تعداد 30 سے 35 فیصد ہے] یہ حضرات عموماً باصلاحیت ہوتے ہیں انہیں ایا انکی صلاحیتوں کے بناء پر یا کسی شفارش کی بنیاد پر مدرسوں میں وسطی یا علیا کی کتابیں پڑھانے کیلئے ان کا انتخاب ہوجاتاہے۔ جن میں سے بعض لوگ بعد میں ان مدارس کے شیخ الحدیث یا صدر مدرس وغیرہ بن جاتے ہیں۔ انہی لوگوں میں سے بعض سازگار حالات کے پیش نظر ان مدرسوں پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ چونکہ یہ لوگ ذہین ہوتے ہیں اور باصلاحیت بھی تو اپنے آپ کو تیس مار خاں گردانتے ہیں۔ اس طرح ان مدارس میں اختلافات کا لامتناہی سلسلہ چل پڑتا ہے۔

[4] عام قسم کے علمائے کرام ، ان میں بہت ایسے ہو تے ہیں جو اپنا چھوٹا مدرسہ کھول لیتے ہیں۔ اور اس طرح اپنا جوگاڑ کرلیتے ہیں۔ لیکن یہ مکاتب کے سطح پر مسلمانوں کے تئیں بہٹ بڑی خدمت ہے جہاں بچوں کو ابتدائی اسلامی بنیادی تعلیمات دی جاتی ہیں۔آج کل ان مکاتب کی شدید کمی ہے اور ہمیں چاہیئے کہ ہر گاوں اور قصبہ کی مسجد میں ایک مکتب قائم کریں۔ یہ مکاتب اسلامی تعلیمات کے اساس اولین ہیں۔

[5] عام قسم کے علمائے کرام میں سے ایک بہت بڑی تعداد مساجد کی امامت میں چلی جاتی ہے۔ جو تقریباً 25 سے 35 فیصد علمائے کرام ہیں۔ یہ انڈیا کے تمام اطراف اور دنیا کے دوسرے ممالک جیسے [ خلیجی ، یورپی، امریکی اور دوسرے ممالک] میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کی اکثریت تو امامت و خطابت کے خدمات انجام دیتی ہےاور کچھ علمائے ایسے بھی ہیں جو پرائیویٹ ٹیوشن وغیرہ پڑھا کر اپنا گذر بسر کرتے ہیں۔

[5] باقی 20 سے 25 فیصد علمائے کرام چونکہ فاضل ہوتے ہیں اس لئے وہ فضول کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ اس حالت میں ایسے علماء کی شناخت بہت مشکل ہوجاتی ہے کیونکہ وہ اپنے اعمال کی وجہ سے عالم نہیں لگتے ہیں، سونے پر سہاگہ اگر ایسے لوگ اگر حج کا فریضہ ادا کرلیں تو کیا کہنا۔ ایسے علمائے کرام عوام الناس میں ہر قسم کے فتوے صادر کرتے رہتے ہیں کیونکہ یہ فاضل کے ساتھ ساتھ حاجی بھی ہوتے ہیں۔

[6] 5 سے 10 فیصد علمائے کرام حالات کا سامنے کرتے ہوئے تجارت کے میدان میں اتر جاتے ہیں۔ یہ 99 فیصد اپنے مشن میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی اکثریت تبلیغی جماعت سے جڑی ہوئی ہے، کیونکہ اس بہانے ان لوگوں کو باہر ملکوں میں جانے کیلئے بہانے سے ویزہ حاصل کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ ان میں سے اکثریت علمائے کرام معاملات میں بہت ٹھس ہوتے ہیں۔ انکی وجہ سےعلمائے کرام کی ساکھ کمزور ہوئی ہے۔

 آج کل مدارس کے اساتذہ [علمائے کرام]، ائمہ مساجد اور موذنین حضرات معاشی مشکلات کے شکار ہیں۔ یہاں مسئلہ فنڈ کی کمی کا نہیں ہے، بلکہ اس میں چودھراہٹ و ہٹ دھرمی کا بہت بڑا دخل ہے۔ مدارس اور مساجد کی کمییٹی جاہلوں کے ہاتھ میں ہے۔

مدارس کے مہتممین حضرات مدارس کی تعمیرات اور اپنی ترقی پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک تعلیمی معیار کو بڑھانے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کے لمبے لمبے اسفار ہوتے ہیں، جو بڑے بڑے چندے ملتے ہیں وہ سب ان کے اپنے حساب خاص میں جاتے ہیں۔ ان کےبچے اچھے اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسیٹیوں میں پڑھتے ہیں، بلکہ انہی چندوں کے پیسوں سے اپنے بچوں کو یورپ اور امریکا کی بڑی بڑی یونیورسیٹیوں میں ہائر تعلیم کیلئے بھیجتے ہیں۔ دیکھنے میں آیا کہ ان میں سے بعض کے اپنے بڑے بڑے فلیٹس اور بڑی جائدادیں ہیں جو ان چندہ کے پیسوں سے خریدی گئی ہیں۔

دوسری طرف اساتذہ ان مدارس میں بیل کے مانند 24 گھنٹے فرائض کی ادائیکی میں مشغول رہتے ہیں اور ان کی تنخواہوں کی در آج کل [7000، 10000 یا زیادہ سے زیادہ 15000 ہزار ] ہے اور 20000 بیس ہزار تو تنخواہیں صرف شیخ الحدیث یا صدر مدرس کو ہی ملتی ہیں جسے یہ مہتممین حضرات بہٹ بڑی رقم سمجھتے ہیں۔ جبکہ ان کے بچے ایک ہی دن میں کتنے بیس ہزار روپئے اڑا دیتے ہیں۔

حقیقت حال یہ ہے کہ مدارس کے اساتذہ ہی مدرسوں کو چلارہے ہیں۔ وہی بچوں کو پڑھاتے ہیں، وہی چندہ کرکے بچوں کو کھلانے کا نظم کرتے ہیں۔ وہی مدرسے کا انتظام سنبھالتے ہیں۔ وہی بچوں کی تریبت و تعلیم کی نگرانی کرتے ہیں۔ جب یہی لوگ سب کچھ سنبھالے ہوئے ہیں تو ان پر ان جاہل ممبران کمیٹی کی حکومت کیوں؟ ان جاہل ان پڑھ ناظمین کی حکومت کیوں؟ ان کی اتنی کم تنخواہیں کیوں؟

کیا ان ممبران اور مہتممین کے مانند ان کی اولاد نہیں ہیں؟ کیا ان حضرات کیلئے مہنگائی کی مار نہیں ہے؟ کیا ان کے بچے پڑھنے والے نہیں ہے؟ کیا ان کےبچوں کو تہواروں میں اچھے اور عمدہ کپڑے پہننے کا شوق نہیں ہے؟ کیا انکی بیویوں اور بچیوں کے اخراجاتات نہیں ہیں؟ کیوں مالکان مدارس سب کچھ کے مالک ہیں اور ساری پابندیاں ان مسکین علمائے کرام کیلئےہی ہیں۔ 90 فیصد مدارس کے پاس اتنی استطاعت ہوتی ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کو اچھی تنخواہیں دے سکتے ہیں۔ اس کے برعکس معاشی طور علمائے کرام تنگ آکر ان مدارس کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور دوسرے مشاغل اختیار کرلیتے ہیں۔ تو کیا ایسے حالات میں اساتذہ کی قلت نہیں ہوگی ،بیشک ہوگی۔ اس لئے حالات کے پیش نظر اساتذہ مدارس کی تنخواہیں معیاری ہونی چاہیئے تاکہ وہ مدارس کو چھوڑنے پر مجبور نہ ہوں۔ مدارس کی کمیٹیوں کو چاہیئے کہ مدارس کے اساتذہ کی تنخواہیں 25000-30000-35000 ہزار سے کم نہ ہو تاکہ یہ لوگ کفایت شعاری کے ساتھ بحسن و خوبی اپنی فیملی کی کفالت کرسکیں۔

جہاں تک ائمہ و موذنین مساجد کا تعلق ہے اس میں 100 فیصد جاہل متولیان مساجد ان کے ساتھ ظلم کرتے ہیں۔ متولیان مساجد کے پاس پیسوں کی کمی نہیں ہے یہ لوگ پانی کی طرح پیسے مسجد کی زیب و زینت پر خرچ کریں گے لیکن اماموں اور موذنوں کو 5000 یا 10000 ہزار ہی دینے میں ان کی نانی مرجاتی ہے۔ میرا اپنا تجربہ ہے میں 6 سال تک اپنی مسجد کا صدر [متولی] رہاہوں، ان جاہلوں کا مقابلہ کیا ہوں۔ جب کبھی بھی امام اور موذن کی تنخواہ بڑھانے کی تجویز پیش کرتا تھا تو سارے جہلاء مجھ پر حملہ آور ہوجاتے تھے اور کہتے امام کی اتنی تنخواہ کسی مسجد میں نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ اہالیان محلہ مسجد میں چندہ دینے میں کنجوسی نہیں کرتے ہیں بشرطیکہ چستی سے ہفتہ وار اور ماہانہ چندہ کیاجائے اور مساجد کی کمیٹی کا خرانچی ایماندار ہو۔ تو دونوں کام بحسن و خوبی انجام پاسکتے ہیں [1] امام و موذن کو اچھی تنخواہ دی جاسکتی ہے اور [2] مسجد کے ضروری کام بھی انجام پاسکتے ہیں۔

لیکن کون سمجھائے ان جاہل متولیان مساجد کو جو ائمہ و موذنین پر حکومت کرنا اپنے باپ دادا کی برہمنی حق سمجھتے ہیں۔ مساجد کا فنڈ اپنی خواہش کے مطابق ایسے خرچ کرتے جیسے ان کی باپ کی کمائی ہو۔

بھائی آج کل کے اس مہنگائی کے دور میں ان کی تنخواہیں کم از کم 25000 سے 30000 ہزار ہونی چاہیئے تاکہ معاشی اعتبار سے ذہنی طور دباو سے آزاد ہوں۔ ان پر ناجائز پابندیاں نہ ہو جیساکہ آجکل فیشن ہوگیا ہے کہ ائمہ اور موذنین پر سو طرح کی پابندیاں لگادی جاتی ہیں اس کی وجہ اچھے ائمہ اور موذنین نہیں ملتے ہیں اور ملتے بھی جاتے ہیں تو بہت جلدہی مساجد کو چھوڑ جاتے ہیں۔

نوٹ: اگر متولی تبلیغی ہے تو اسکی الگ سے یہ شرط ہوتی ہے کہ امام وہی ہوگا جبکہ ایک سال تبلیغ میں لگا ہوچکاہو ورنہ وہ امامت کا اہل نہیں ہے۔ یہ الگ سے مصیبت کبری ہے۔

اگر امام مسجد نے فضائل اعمال کی جگہ قرآن کی تفسیر بیان کردی تو امام صاحب کی خیر نہیں ہے، اگر امام صاحب نے اس عمل پر اصرار کیا تو اخراج حتمی فیصلہ ہوگا۔ الاماں والحفیظ

مذکورہ بالا مقالہ کے نظریات مقالہ نگار کے اپنے ہیں ضروری نہیں قارئین حضرات ان سے متفق ہوں ۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com