مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ملک اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے، نفرت کی چنگاری اب آتش فشاں بن چکی ہے، اس ملک کی خمیر میں محبت، بھائی چارہ، امن وآشتی، مروت ورواداری، اخلاقی اقدار کی پاسداری، مذہبی مقدسات کا احترام اور مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان اتحاد وہم آہنگی کی کیفیت تھی اور محبت کی خوشبو اس ملے جلے سماج کو ہمیشہ عطربار رکھتی تھی؛ لیکن اب صورت حال بہت کچھ تبدیل ہوتی جارہی ہے، اس پس منظر میں مسلمانوں کو دو اہم محاذ پر کام کرنا ہے، ایک: اپنی دینی شناخت کو بچانے کا، دوسرے: ملک کی جمہوری قدروں کی حفاظت کا، پہلا کام دین سے محبت کا تقاضہ ہے اور دوسرا وطن سے محبت کا، ان حالات میں ہمیں ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے، جو ان دونوں تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔
غور کیا جائے تو اس وقت بنیادی طور پر تین باتیں اس سلسلہ میں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں:
پہلی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھا جائے، ایک طرف جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو شکوک و شبہات سے بچایا جائے، دوسری طرف عام مسلمانوں کے اندر پُرمشقت حالات میں بھی دین پر ثابت قدم رہنے کا جذبہ پیدا کیا جائے، صورت حال یہ ہے کہ عالمی و ملکی سطح پر ذرائع ابلاغ اسلام کے خلاف شکوک و شبہات کے کانٹے بونے میں سرگرم ہیں، اور شب وروز اس کی کوششیں کی جارہی ہیں، اس کے نتیجہ میں کہیں انکار والحاد کی طرف قدم بڑھ رہا ہے، قانون شریعت کو قابل اصلاح قرار دیا جارہا ہے، شریعت کے مسلمہ احکام میں بھی تبدیلی کی باتیں کی جارہی ہیں، بعض مسلمانوں میں بھی یہ سوچ پیدا ہورہی ہے کہ اسلام میں عورتوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ہے، گزشتہ دنوں شریعت کے عائلی قانون کے تحفظ کے سلسلہ میں جو دستخطی مہم شروع کی گئی، تو جہاں بیشتر مسلمانوں نے جوش وخروش کے ساتھ اس میں حصہ لیا، وہیں کچھ ایسے مرد و عورت بھی پائے گئے جنہوں نے دین وشریعت پر شکوک و شبہات کی انگلی اٹھائی اور تعدد ازدواج کے جواز، مرد کو دیئے گئے حق طلاق اور بیٹوں اوربیٹیوں کے حق میراث جیسے موضوعات کو نعوذ باللہ نامنصفانہ قرار دیا، اسی ذہنی ارتداد کی مثال مسلم پرسنل لا کے خلاف عدالت عظمی میں داخل ہونے والی ایک درجن سے زیادہ نام نہاد مسلم خواتین کی درخواستیں ہیں، اگرچہ کئی دہوں سے کچھ خدا بیزار لوگوں کی طرف سے ایسی آوازیں اٹھائی جارہی تھیں؛ لیکن اسلام دشمن فرقہ پرست طاقتوں کو پہلی بار اس کا موقع ملا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر خود مسلم سماج کی طرف سے اس طرح کی نامسعود آواز بلند کی گئی ہے۔
دوسری طرف ذرائع ابلاغ اور نصابی کتابوں کے ذریعہ دیو مالائی کہانیوں کا تقدس ذہنوں میں بیٹھایا جارہا ہے، معصوم بچوں سے برداران وطن کی کتابوں کے اشلوک پڑھائے جارہے ہیں، مشرکانہ ترانے رائج کئے جارہے ہیں، ایسے نعرے لگوائے جاتے ہیں، جو مخالف اسلام تصور پر مبنی ہیں، جو چیز بار بار جبر کے ذریعہ کرائی جاتی ہے، وہ بھی آہستہ آہستہ ذہن کے لئے قابل قبول ہونے لگتی ہے، انسان اس کے جواز کے راستے ڈھونڈھنے لگتا ہے، اور بالآخر اختیار اور رضامندی کے ساتھ اسے قبول کرلیتا ہے، یہ ایک ایسا فکری ارتداد ہے، جو دبے پاؤں مسلم سماج میں داخل ہوا تھا اور اب اس کی رفتار تیز ہوتی جارہی ہے، یہ اعلانیہ دعوت ارتداد تو نہیں ہے، لیکن مسلمانوں میں ارتدادپیدا کرنے کی ایسی کوشش ہے کہ ان کی اگلی نسلیں ہنسی خوشی اس کو قبول کرلیں۔
ان حالات میں ایک طرف پورے شعور کے ساتھ دلیل اور عقل وحکمت کے ہتھیار کے ذریعہ شکوک وشبہات کے ان کانٹوں کو نکالنے کی ضرورت ہے، جو دلوں میں گھر کرتے جارہے ہیں اور جن کے ایک وبائی مرض کی طرح پھیل جانے کا اندیشہ ہے، اور دوسری طرف مسلمانوں کو آزمائشوں کے باوجود دین پر استقامت اور ثابت قدمی کی اہمیت بتانے کی ضرورت ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’یا أیہا الذین آمنوا اصبروا وصابروا ورابطوا واتقوا اللہ لعلکم تفلحون‘‘ (آل عمران: ۲۰۰)۔
یہاں ’’صبر ‘‘ کے معنی دین کے راستہ میں ہونے والی تکلیفوں کو برداشت کرنے اور ’’صابروا ‘‘ سے مخالف اسلام طاقتوں سے مقاومت اور حکمت کے ساتھ ان کا مقابلہ اور ’’رابطوا ‘‘ سے اسلامی مملکت اور اسلامی اقدار کی حفاظت کے معنی مراد لئے گئے ہیں، چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ اس آیت کا تعلق صرف جہاد سے نہیں ہے؛ کیونکہ حضورﷺ کے زمانہ میں تو سرحدوں کی حفاظت کے لئے جنگ کی نوبت ہی نہیں آئی تھی:
’’لم یکن فی زمان النبیﷺ غزوٌ یرابط فیہ‘‘ (الدر المنثور بحوالہ المستدرک للحاکم ۲؍۴۱۶)۔
اور علامہ ابن ابی حاتم سے اس آیت کی تفسیر مروی ہے:
’’أمرہم أن یصبروا علی دینہم ولا یدعوہ لشدۃ ولا رخاء ولا سراء ولا ضراء وأمرہم أن یصابروا الکفار وأن یرابطوا المشرکین‘‘ (حوالہ سابق)۔
اللہ تعالی نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے دین پر عمل کرنے کے لئے صبر وبرداشت کا مظاہرہ کریں، حالات کی سختی ونرمی، راحت یا تکلیف کی وجہ سے دین کو چھوڑ نہ دیں، مخالفین اسلام کا (مناسب طور پر) مقابلہ کریں اور ان کے مقابلہ میں جمے رہیں۔
نیز بیہقی نے زید بن اسلم سے ’’رابطوا ‘‘ کی تشریح نقل کی ہے:’’رابطوا علی دینکم‘‘ (حوالہ سابق) یعنی اپنی دینی سرحدوں کی حفاظت کرو، اس سے معلوم ہوا کہ ’’رباط ‘‘ جس کے ایک دن کو رسولﷺ نے دنیا ومافیہا سے بہتر قرار دیا ہے: ’’رباط یوم فی سبیل اللہ خیر من الدنیا وما علیہا‘‘ (صحیح بخاری ۳؍۲۲۴، کتاب الجہاد والسیر)، اس سے اصلاً اور اولاً اسلامی مملکت کی زمینی سرحدوں کی حفاظت تو مراد ہے ہی، مگر اسلام کی فکری سرحدوں کی حفاظت بھی اس میں شامل ہے؛ مفہوم میں اس عموم کی تائید لغت سے بھی ہوتی ہے؛ چنانچہ اہل لغت نے ’’مرابطہ ‘‘ کے معنی کسی چیز پر ایسی گرہ باندھنے کے بیان کئے ہیں جو کھلنے نہ پائے، ’’المرابطۃ عند العرب:العقد علی الشئی حتی لا ینحل‘‘ (تفسیر قرطبی ۱۰؍۳۲۷)۔
اس پس منظرمیں ضروری ہے کہ ایک طرف علماء اپنے آپ کو اس کام کے لئے تیار کریں کہ اسلام کے خلاف پیدا کئے جانے والے شکوک وشبہات کا عصر حاضر کے اسلوب اور طرز استدلال کے مطابق جواب دیں اور غلط فہمیوں کو دور کریں، دوسری طرف امت کو سمجھائیں کہ دین حق پر استقامت کے لئے انبیاء، صحابہ اور سلف صالحین نے کیسی کیسی مشقتیں اٹھائی ہیں، انہو ںنے کانٹوں کے بستر پر چلنا اور آگ کے دریا میں تیرنا گوارہ کیا؛ لیکن ان کے پائے استقامت میں ذرا بھی جنبش نہیں ہوئی کہ مسلمان وہی ہے جو آخرت کے لئے دنیا کا سودا کرنے پر تیار ہو۔
ایک اہم اور قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ اس وقت ہمارے ملک میں مسلمانوں کی تاریخ پر متواتر حملے کئے جارہے ہیں، فلموں کے ذریعہ، نیشنل اور سوشل میڈیا کے ذریعہ، لٹریچر اور نصابی کتابوں کے ذریعہ، اشتعال انگیز تقریروں اورسمیناروں میں پیش کئے جانے والی بے بنیاد تحریروں کے ذریعہ، پوری قوت کے ساتھ یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کا عہد حکومت اس ملک میں صرف ظلم وبربریت اور دوسری قوموں کے ساتھ جبر وظلم کی ایک طویل داستان ہے، جس میں نہ ان کی جان ومال محفوظ تھی، نہ عزت وآبرو، یہاں تک کہ آریوں کو اس ملک کا اصل باشندہ قرار دیا جارہا ہے اور مسلمانوں کو بدیشی، بودھوں پر برہمنوں نے جو مظالم ڈھائے، وہ تاریخ کی ایک روشن حقیقت ہے، یہاں تک کہ ان کی بعض مقدس عبادت گاہیں آج بھی ہندو بھائیوں کے زیر تصرف ہیں، اسی طرح شودروں پر ہزاروں سال سے جور وستم روا رکھا گیا ہے اور آج بھی جاری ہے، ان سب کو تاریخ کی سچائیوں کی خاکستر میں دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اس کا اثر ایک طرف برادران وطن میں نفرت کی شکل میں اور دوسری طرف خود مسلمانوں کی نئی نسل میں احساس کمتری کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے، اس کا ایک پہلو تو سیاسی ہے جو ملی تنظیموں کے کرنے کا ہے، لیکن دوسرا علمی وفکری ہے، جس کی طرف علماء اور اسکالرس کو توجہ دینے کی ضرورت ہے، ماضی قریب میں علامہ شبلی نعمانیؒ، علامہ سید سلیمان ندویؒ، ڈاکٹرحمیداللہ ؒ، سید صباح الدین عبد الرحمن صاحبؒ وغیرہ ایسی شخصیات گزری ہیں، جنہوں نے تاریخ کے غبار آلود چہرے کو صاف کرنے کی کامیاب کوششیں کیں، آج پھر ضرورت ہے کہ علماء اس کی طرف توجہ کریں؛ کیونکہ مسلم عہد کی تاریخ فارسی کتابوں کے دفینوں میں محفوظ ہے، جس کو علماء ہی باہر لاسکتے ہیں اور اُس نفرت انگیز پروپیگنڈے کا جواب دے سکتے ہیں، جس میں تاریخ کو ازسر نو لکھنے کی کوشش کی جارہی ہے، تاریخ کی اہمیت اور اس کے گہرے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے مشہور عرب عالم شیخ محمود عقاد نے لکھا ہے:
’’والتاریخ لیس علم الماضی بل ہو علم الحاضر، و المستقبل فی واقع الأمر و حقیقتہ، فالأمۃ التی تستطیع البقاء، ہی الأمۃ التی لہا ضمیر تاریخی، و معرفۃ التاریخ وعشق لہ‘‘۔
نیز ایک اور بڑے صاحب دانش نے لکھا ہے :
’’ مثل القوم أضاعوا تاریخہم کلقیط عيّ فی الحي انتساباً ‘‘۔
افسوس کہ اس اہم ضرورت کی طرف سے مسلمان عمومی طور پر غفلت میں مبتلا ہیں، لیکن حالات کا تقاضہ ہے کہ اب علماء اس فراموش کردہ گوشہ کی طرف بھی توجہ دیں۔ (جاری)