شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
افسوس اور صد افسوس کہ صرف مسلمان ہی نہیں؛ بلکہ ملک کی تمام انصاف پسند اور سیکولر قوتوں کی مخالفت کی باوجود اقتدار کے نشہ میں بدمست اور نفرت کی سوداگر حکومت نے وقف ترمیمی بل ۲۰۲۴ء کو پاس کر دیا اور صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد یہ قانون بن چکا، یوں تو پورا قانون ہی مسلم مخالف، دستور مخالف اور ظلم وناانصافی پر مبنی ہے؛ لیکن اس کے چند واضح نا منصفانہ پہلو کو نظر میں رکھنے کی ضرورت ہے:
وقف املاک کو ہڑپنے کی کوشش:
۱۔ اس قانون کا مقصد وقف کی املاک کو ہڑپ لینا اور سرکاری تعاون سے ضائع کرنا ہےاور اس کے لئے کئی تدبیریں اختیار کی گئی ہیں:
(الف) وقف ایکٹ ۱۹۹۵ء میں یہ بات درج ہے کہ اگر طویل عرصے سے کوئی جائیداد بطور مسجد، درگاہ یا قبرستان کے طور پر استعمال میں ہے اور مذہبی اور خیراتی مقاصد کے لئے ہے تو اس کو وقف جائیداد تسلیم کیا جائے گا۔
اس کو وقف بذریعہ استعمال (Waqf By User) کہا جاتا ہے، موجودہ حکومت نے جو یہ بل پیش کیا تھا، اُس میں اس کو بالکل ختم کر دیا گیاتھا، پھر جب مسلمانوں نے مطالبہ کیا تو بعض این ، ڈی، اے حلیفوں کے مشورہ پر اس میں ترمیم کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ مستقبل میں جو اَملاک وقف کی جائیں گی، ان پر اس کا اطلاق ہوگا، پہلےسے جو وقف موجود ہے، ان میں وقف بالاستعمال کو تسلیم کیا جائے گا؛ لیکن اگر ان میں کوئی تنازع ہو یا وہ سرکاری زمین ہو تو صرف استعمال کی وجہ سے ان کو وقف نہیں مانا جائے گا، یہ ایک طرح سے ماضی کے اوقاف کو بھی ہڑپنے کی ایک بالواسطہ کوشش ہے، عام طور پر جو لوگ کوئی زمین یا جائیداد دینی یا خیراتی مقاصد کے لئے وقف کرتے ہیں تو وہ یہ سوچ کر کہ ہم نے یہ زمین اللہ کے لئے وقف کر دی ہے، اس سے لا تعلق ہو جاتے ہیں، جب حکومت سروے کرواتی ہے تو ان اراضی کا کوئی مدعی سامنے نہیں آتا اور ان کو ’’ بحق سرکار‘‘ لکھ دیا جاتا ہے، دیہات وقصبات ، چھوٹے شہروں وغیرہ میں وقف کی ایسی بہت سی جائیدادیں موجود ہیں، ان تمام زمینوں کو سرکاری زمین قرار دے کر ان پر قبضہ کی کوشش کی جا سکتی ہے، دوسرے: ہمارے ملک میں ہندو دہشت گردوں اور انتہا پسندوں نے کسی بھی مسجد، درگاہ، عیدگاہ وغیرہ پر بلا دلیل وثبوت ہندو مذہبی مقام ہونے کا مطالبہ کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جس کی ابتداء ایودھیا سے ہوئی، رات کے اندھیرے میں چھپ چھپا کر وہاں ایک مورتی لا کر رکھی گئی اور دعویٰ کیا گیا کہ یہاں رام جی پرکٹ ہوئے ہیں، اب اس طرح کے دعوے ملک کے مختلف حصوں میں کئے جانے لگے ہیں ، ابھی گیان واپی مسجد میں وضو خانہ کے فوارے کو شیولنگ کہا جا رہا ہے اور وی، ایچ، پی نے تقریباََ ساڑے تین ہزار مساجد کی فہرست تیار کر رکھی ہے، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہاں مندر تھے، اور اس فہرست میں آئے دن اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے، درگاہوں پر بھگوا جھنڈے لگائے جا رہے ہیں، قبرستانوں کو مسمار کیا جا رہا ہے اور بے دلیل دعوے کی بنیاد پر حکومت ان کو متنازع تسلیم کر لیتی ہے، اس طرح اگر غور کیا جائے تو حکومت نے ایک طرف اپنے حلیفوں کی بات رکھنے کے لئےگزشتہ اوقاف کا استثناء کیا ہے تو دوسری طرف نہایت ہی چابک دستی کے ساتھ ان پر بھی خود قبضہ کرنے اور ہندو دہشت گردوں کو قبضہ دلانے کا راستہ نکال لیا ہے۔
(ب) ۱۹۹۵ء کے قانون کی دفعہ (۱۰۷) کے تحت اوقاف کی جائیداد کو ’’ لمیٹیشن ایکٹ ‘‘ سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا، لمیٹیشن ایکٹ کے تحت کسی جائیداد پر بارہ سال یا اس سے زائد قبضہ کو ملکیت تسلیم کیا جاتا ہے اور قابض شخص کو اس کا مالک تسلیم کر لیا جاتا ہے، وقف کی جائیداد کو اس سے مستثنیٰ کیا گیا تھا، اس کا فائدہ یہ تھا کہ وقف کی جائیداد پر قدیم غاصبانہ قبضے ختم کروائے جا سکتے تھے، موجودہ قانون میں لمیٹیشن ایکٹ سے وقف کی جائیداد کے استثناء کو ختم کر دیا گیا ہے، اور اس طرح قدیم غاصبانہ قبضے کو جواز فراہم کیا گیا ہے۔
(ج) ہندستان میں بہت سے مسلمان بادشاہوں، نوابوں اور زمینداروں نے اپنی غیر مسلم رعایا کے لئے وقف کیا ہے، اسی طرح غیر مسلم حکمرانوں اور راجاؤں نے مسلمانوں کے لئے زمینیں اور عمارتیں دان دی ہیں، اور آج بھی بہت سے غیر مسلم بھائی اپنے مسلمان ہمسایوں کے لئے خیر کے کاموں میں زمین دیتے ہیں، اسی طرح مسلمان بھی برادران وطن کے لئے زمین کا تحفہ دیتے ہیں، موجودہ قانون کے تحت وہ جائیدادیں جو کسی غیر مسلم نے وقف کے لئے عطیہ کی ہوں اور بطور مسجد ، قبرستان اور مسافر خانہ استعمال ہو رہی ہوں، کو ختم کر دیا گیا ہے، لہٰذا غیر مسلموں کے یہ عطایا وقف کے دائرے سے باہر نکل جائیں گے اور بہت سے اوقاف پر سرکار کے قابض ہو جانے کا خطرہ ہے۔
تفریق پر مبنی قانون:
۲۔ یہ قانون پوری طرح تفریق اور امتیاز پر مبنی ہے؛ چنانچہ:
(الف) وقف بذریعہ استعمال کی صورت ہندو مذہبی اَملاک کے لئے، سکھوں، بدھسٹوں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے لئے اب بھی تسلیم کی جاتی ہے؛ لیکن مسلمانوں کے اوقاف کے معاملہ میں اس کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جیسا کہ اوپر اس کا ذکر آیا ہے، یہ واضح طور پر مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان امتیاز پر مبنی قانون ہے۔
(ب) لمیٹیشن ایکٹ سے استثناء کا قانون ہندو، سکھ، بودھ اور کرسچن وغیرہ کے لئے بھی موجود ہے؛ لیکن یہ قانون مسلمانوں کو اپنے اوقاف کے تحفظ سے محروم کرتاہے۔
(ج) ہندو اینڈومینٹ جو ہندو اوقاف کی شکل ہے، میں اس بات کو ضروری قرار دیا گیا ہے کہ اس کا ہر رکن ہندو ہو، اترپردیش، کیرالا، کرناٹک اور تامل ناڈو وغیرہ میں ایسے قانون موجود ہیں، جن کے مطابق ہندو جائیدادوں کا انتظام صرف ہندو ہی کر سکتے ہیں، بہار اینڈومینٹ ایکٹ کے تحت تین بورڈ قائم ہیں، ہندو اینڈومینٹ بورڈ، سوتمبر جین اینڈومینٹ بورڈ اور ڈگمبر اینڈومینٹ بورڈ، ان بورڈوں کے اراکین لازمی طور پر ہندو ہی ہوں گے، گرودوارہ پربندھک کمیٹی کے ارکان بھی لازمی طور پر سکھ فرقے میں سے ہی ہوں گے۔
موجودہ قانون میں وقف انتظامیہ میں کم سے کم دو غیر مسلموں کی نمائندگی لازمی کر دی گئی ہے اور مسلم نمائندگی کومختلف پہلوؤں سے کم کیا گیا ہے، پہلے شرط تھی کہ وقف بورڈ کا چیف ایگزیکٹیو مسلمان ہوگا، اب اس شرط کو ہٹا دیا گیا ہے، پہلے وقف بورڈ کی سفارش پر چیف ایگزیکٹیو کا تقرر ہوتا تھا، اب حکومت خود اس کا تقرر کرے گی، سینٹرل وقف کونسل میں پہلے ایک غیرمسلم رکن ہو سکتا تھا، اب ان غیر مسلم اراکین کی تعداد بحیثیت رکن وبحیثیت عہدہ ۱۳؍ ہو سکتی ہے، اور دو غیر مسلم اراکین تو لازماََ شامل ہوں گے، پہلے ریاستی وقف بورڈ میں صرف ایک غیر مسلم اس کا چیئر پرسن ہو سکتا تھا، جب کہ باقی سارے ارکان مسلمان ہوتے تھے اور انتخاب کے ذریعہ آتے تھے، اب بورڈ کے ۷؍ ارکان غیر مسلم ہو سکتے ہیں اور دو ارکان کا غیر مسلم ہونا لازمی ہے، نیز ارکان کو وقف بورڈٖ منتخب نہیں کرے گا؛ بلکہ ریاستی حکومت نامزد کرے گی۔
وقف میں رکاوٹ:
نئے اوقاف کو روکنے کی بھی کوشش کی گئی ہے؛ چنانچہ گزر چکا ہے کہ غیر مسلم وقف نہیں کر سکتا، اسی طرح اس قانون کے مطابق جو شخص گزشتہ کم سے کم ۵؍ سال سے اسلام پر عمل کر رہا ہو، صرف وہی وقف قائم کر سکتا ہے، یہ پوری طرح شریعت کے خلاف ہے، اسلام کی نظر میں جو شخص آج اسلام قبول کرے وہ بھی اسی طرح مسلمان ہے، جیسے ۵؍ سال پہلے مسلمان ہونے والا شخٰص، یہ پانچ سال تک ایک مسلمان کو ان کے بنیادی مذہبی حق سے محروم کرنے کے مترادف ہے، اس طرح وقف کے عمل کو دشوار بنا دیا گیا ہے، اور پھر یہ ثابت کرنا کہ وقف کرنے والا اسلام کی تمام تعلیمات پر پانچ سال سے عمل پیرا ہے، بے حد مشکل ہے ۔
اصول وقف کی مخالفت:
اسلام کا تصور یہ ہے کہ مالک کو اپنی املاک پر جائز تصرف کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور شریعت کی نظر میں اپنی اولاد اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک بھی ایک کارِ ثواب ہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیوی کے منھ میں لقمہ رکھنا بھی ثواب کا باعث ہے؛ اسی لئے اسلام میں ’’وقف علی الاولاد‘‘ کا تصور ہے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت علی اور مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل سے ثابت ہے، یعنی ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اپنی زمین یا جائیداد اولاد پر وقف کرے، ایسی صورت میں وقف کرنے والے کی شرط کے مطابق اس کے خاندان کے لوگ اس زمین وجائیداد سے فائدہ تو اُٹھائیں گے؛ لیکن اس کو بیچنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔
موجودہ قانون میں اس میں بھی تبدیلی لانے کی کوشش کی گئی ہے ، پہلے تو بِل میں یہ بات کہی گئی تھی کہ یہ وقف اسی وقت قابل قبول ہوگا جب کہ حقیقی وارثوں کے حقوق پامال نہ ہوں، یہ شرط بھی ناقابل قبول تھی؛ کیوں کہ ورثہ کو تو تقسیم وراثت کے ذریعہ اپنا حق ملتا ہی ہے اور یہ حق مالک کی موت کے بعد متعلق ہوتا ہے، اب بعد میں جو چودہ ترامیم آئی ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ وقف علی الاولاد اس طرح کیا جائے گا کہ اس سے کسی کا قانونی حق تلف نہ ہو، اس میں بہت زیادہ عموم ہے اور یہ شریعت کے مقرر کئے ہوئے اصولوں میں دخل دینا ہے۔
کمزور کرنے کی کوشش:
قانون وقف کو کمزور کرنے کی ایک اور صورت یہ اختیار کی گئی ہے کہ پہلے قانون وقف کو ’’ اوور رائیڈنگ ایکٹ‘‘ تسلیم کیا گیا تھا، یعنی اگر دوسرے قوانین سے وقف قانون کا تعارض ہو تو وقف قانون لاگو ہوگا، اس بِل میں اسے بھی ختم کر دیا گیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وقف ایکٹ ایک اسپیشل قانون ہے اور مسلّمہ قانونی اصول اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اگر کوئی اسپیشل قانون کسی جنرل قانون سے ٹکراتا ہے تو اس صورت میں اسپیشل قانون کو فوقیت حاصل ہوتی ہے، یہ صرف وقف ایکٹ کے ساتھ خاص نہیں ہے؛ بلکہ یہ اصول دیگر اسپیشل ایکٹ پر بھی نافذ ہوتا ہے؛ مگر وقف کو اس سے محروم کر دیا گیا ہے۔
جھوٹ کا سہارا:
افسوس کہ حکومت کے موجودہ ذمہ داروں نے جھوٹ بولنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے، اگر جھوٹ بولنے اور جھوٹے وعدے کرنے پر کوئی ایوارڈ دیا جاتا تو شاید ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ اس کے اولین مستحق قرار پاتے، وقف کے سلسلہ میں بھی بار بار کچھ جھوٹ دہرائے جاتے ہیں ، جو برادران وطن کو متأثر کرتے ہیں ، اُن کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے:
۱۔ ’’وقف بورڈ کو کسی بھی جائیداد پر دعویٰ کرنے کے مطلق اختیارات دئیے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج ملک بھر میں وقف جائیدادیں تقریباََ چھ۶؍ لاکھ ایکڑ پر محیط ہیں اور ملک کے تیسرے سب سے بڑے زمین کے مالک ہیں‘‘
ایک صاحب علم نے اس کی بڑی عمدہ وضاحت کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
’’ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق، بھارت میں تمام وقف جائیدادوں کا مجموعی رقبہ 6 لاکھ ایکڑ ہے، اس کا موازنہ اگر ہندو انڈومینٹ سے کیا جائے تو تمل ناڈو میں 4,78000 ایکڑ اور آندھرا پردیش میں 4,68000 ایکڑ زمین انڈومینٹ کے پاس ہیں، صرف ان دونوں ریاستوں کو ملا کر 9,40000 ایکڑ زمین ہندو انڈومینٹ کے پاس ہے، جب کہ پورے بھارت میں وقف جائیدادوں کا مجموعی رقبہ چھ لاکھ ایکڑ ہے، زمین کو وقف قرار دینا کوئی خفیہ عمل نہیں ہے، اس کا پورا پروسیجر وقف ایکٹ میں مذکور ہے، وقف صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو اپنی جائیداد کا مالک ہو اور اسے اپنی ملکیت کے دستاویزات وقف بورڈ میں جمع کروانے ہوتے ہیں، اس کے بعد عوام کو اعتراضات داخل کرنے کے لئے نوٹس جاری کیا جاتا ہے، حکومت ایک سروے کمشنر مقرر کرتی ہے، جو زمینوں کی جانچ کرتا ہےاور ان کے وقف ہونے کی تصدیق کرتا ہے، اس کے بعد یہ اعلان ریاستی گزٹ میں شائع کیا جاتا ہے، اور کوئی بھی شخص اس نوٹیفیکیشن کو ایک سال کے اندر وقف ٹربیونل میں چیلنج کر سکتا ہے‘‘
اس کی حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں سات لاکھ ستر ہزار گاؤں ہیں، اگر مان لیا جائے کہ ان میں سے نصف تعداد میں کم یا زیادہ مسلمان بھی بستے ہیں تو ایسے گاؤں کی تعداد تین لاکھ پچاسی ہزار ہوتی ہے، مسلمان جہاں بھی آباد ہوتے ہیں، وہاں کم از کم ایک قبرستان ہوتا ہے، عیدگاہ ہوتی ہے اور نماز کے لئے مسجد ہوتی ہے، اگر قبرستان اور عید گاہ کے لئے ایک ایک ایکڑ اور مسجد کے لئے نصف ایکڑ یعنی اوسطاََ ڈھائی ایکڑ فی آبادی زمین فرض کی جائے تو اس کی مقدار تو نو لاکھ باسٹھ ہزار پانچ سو ایکڑ زمین ہونی چاہئے، جیسا کہ ہندو بھائیوں کے یہاں مندر، مٹھ، شمشان گھاٹ وغیرہ ہوتے ہیں، اگر اس حساب سے دیکھیں تو چھ لاکھ ایکڑ زمین کوئی بڑا رقبہ نہیں ہے،اور پھر سرکار کی دی ہوئی نہیں ہے؛ بلکہ خود مسلمانوں کی ہے۔
۲۔ یہ بھی تأثر دیا جا رہا ہے کہ وقف کی جائیداد کا فیصلہ یک طرفہ طور پر وقف ٹریبونل کر دیتا ہے اور کسی بھی جائیداد کو اپنے قبضہ میں لے سکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وقف ٹربیونل کی حیثیت سِول عدالت کی ہے، جس کا اعلیٰ افسر ڈسٹرکٹ جج ہوتا ہے، اگر وقف کی جائیداد پر کوئی شخص، ادارہ یا سرکار قابض ہو تو اس میں کیس چلتے ہیں، فریقین اپنا ثبوت پیش کرتے ہیں، اس کی روشنی میں ٹریبونل فیصلہ کرتا ہے، اگر فیصلہ پر کوئی ایک فریق مطمئن نہیں ہو تو وہ ہائی کورٹ جا سکتا ہے، اور ہائی کورٹ کے فیصلہ سے مطمئن نہ ہو تو سپریم کورٹ میں چیلنج کر سکتا ہے؛ اس لئے یہ کہنا کہ وقف ٹربیونل کی مدد سے وقف بورڈ جائیداد کو وقف قرار دیتا ہے، جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈا ہے۔
۳۔ معترضین بار بار یہ بات اٹھاتے ہیں کہ سابق قانونِ وقف ’’وقف بورڈ‘‘ کو کسی بھی زمین پر دعویٰ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے، یہ بھی دھوکہ اور جھوٹ ہے، سوال یہ ہے کہ کیا وقف بورڈ کسی ثبوت اور شہادت کے بغیر کوئی دعویٰ کر سکتا ہے؟ اور کیا صرف وقف بورڈ کے کسی دعویٰ کی بنیاد پر کوئی فیصلہ ہو سکتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی شخص پر یہ پابندی نہیں ہے کہ وہ کس زمین پر اپنا حق پیش کر سکتا ہے اور کس پر نہیں؟ البتہ یہ ضرور ہے کہ کوئی بھی شخص دعویٰ کرے تو قابل قبول ثبوت کے بغیر دعویٰ قبول نہیں کیا جاتا، اور مقدمہ قبول کرنے کے بعد بھی جب تک کوئی بات ثبوت وشہادت سے ثابت نہ ہو جائے، اس دعویٰ پر مہر نہیں لگائی جاتی ہے اور اس دعویٰ کا نفاذ نہیں ہوتا ہے؛ اس لئے یہ صرف پروپیگنڈہ ہے۔
۰ ۰ ۰