شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اس وقت ملك كے بعض علاقوں میں برادران وطن كے تهوار منعقد هو رهے هیں، جس كے لئے برهنه پا یاترائیں نكلتی هیں، اس موقع پر مسلمانوں كی طرف سے افراط وتفریط كا ارتكاب هوتا هے، كهیں تو ناواقف مسلمان اس قدر جھک جاتے هیں كه گویا وه ان كے هم مذهب هوگئے، جیسے: قشقه لگانا، مورتیوں پر پھول چڑ ھانا، گیروا كپڑا پهننا، ان كے نعروں میں هم آواز هو كر نعره لگانا، اور كهیں اس كے بر خلاف نفرت كا اظهار هونے لگتا هے، جیسے جلوس كے شریر لوگوں كے جواب میں كوئی ایسی بات كهه دی، جس سے ان كے مذهبی جذبات مجروح هوتے هوں، یا ان كی طرف سے چند افراد نے فساد بھڑكانےكے لئے چند پتھر پھینك دئیے تو جواب میں ان پر پتھر پھینك دئیے گئے، اس سے پھر ایك بڑا فساد پھیل جاتا هے؛ اسی لئے اس سلسله میں غیر مسلموں كے ساتھ تعلقات كے دائره كے بارے میں غور كرنا چاهئے یه ایك حقیقت هے كه مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کے بارے میں سب سے اہم موضوع مذہبی تعلقات کا ہے ، اس سلسلہ میں اسلامی تعلیمات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہب کے معاملہ میں دو باتیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں : اپنے دین پر استقامت اور دوسروں کے مذہبی جذبات کا احترام ۔
مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں — مسلم ممالک میں یا غیرمسلم ممالک میں — دین کے چار شعبوں میں ان کے لئے قانونِ شریعت کا التزام ضروری ہے : اعتقادات ، عبادات ، معاشرتی زندگی اور معاملات ۔
اعتقادات سے مراد وہ احکام ہیں ، جن کا تعلق قلب و ضمیر سے ہو ، جیسے: توحید ، رسالت ، آخرت کا یقین وغیرہ ۔
’’عبادات‘‘ سے وہ احکام مراد ہیں ، جن کا تعلق براہِ راست خدا اور بندے کے باہمی ربط سے ہے ، جیسے : نماز ، روزہ وغیرہ ۔
’’معاشرتی احكام‘‘ سے مراد Parasnal Law ہے ، اس میں نکاح و طلاق کے علاوہ میراث ، وصیت اور مختلف اقارب سے متعلق حقوق و فرائض بھی آجاتے ہیں ۔
’’ معاملات‘‘ سے مراد مالی بنیاد پر دو افراد کے تعلقات و معاہدات ہیں : تجارت ، اجارہ ، ہبہ وغیرہ اس شعبہ کے تحت آتے ہیں اور سود و قمار جیسے حرام معاملات بھی اسی دائرہ میں ہیں ۔
یہ تمام قوانین وہ ہیں کہ چاہے مسلم اکثریت ملک ہو یا غیرمسلم اکثریت ملک ،اور کلید ِاقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو یا نہیں ہو ، مسلمانوں کے لئے ان قوانین میں شریعت ِاسلامی کی اطاعت واجب ہے ، یه درست نهیں هے كه رواداری كے نام پر عقیدهٔ وایمان كے مسائل میں كوئی كمزوری قبول كی جائے، جو قوانین اجتماعی نوعیت کے ہوں ، یا جرم و سزا سے متعلق ہوں ، جیسے: حدود ، قصاص ، نظامِ مملکت وغیرہ ، ان شعبوں سے متعلق شرعی قوانین وہیں قابل نفاذ ہیں ، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو اور باگِ اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہو ، پس غیرمسلموں سے تعلقات ان قوانین پر عمل آوری کے حق سے دست برداری اور محرومی کی قیمت پر استوار نہیں کئے جاسکتے اور اس سلسلہ میں کسی تبدیلی کو قبول کرنے کا مطالبہ فی نفسہٖ نامعقول بھی ہے ؛ کیوںکہ مسلمانوں کے ان پر عمل کرنے اور نہ کرنے سے غیرمسلم بھائیوں کو نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ کوئی نقصان۔
دوسری ضروری بات یہ ہے کہ اسلام مسلمانوں سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ وہ تہذیبی اور تمدنی اعتبار سے اپنے وجود کو دوسروں کے ساتھ گم نہ کرلیں ؛ بلکہ اپنی شناخت اورپہچان کو باقی رکھیں؛ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے دوسری اقوام کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، حضرت عمرو بن العاص ؓ سے مروی ہے :
لَیْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّہَ بِغَیْرِنَا ، لَا تُشَبِّہُوْا بِالْیَہُوْدِ وَلَا بِالنَّصَاریٰ الخ ۔ (الجامع للترمذی ، حدیث نمبر : ۶۲۹۵ ، کتاب الاستیذان )
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو دوسروں کی مشابہت اختیار کرے وہ ہم میں سے نہیں هے، یہودیوں اور عیسائیوں سے مماثلت اختیار نہ کرو ۔
اس تشبہ اور مماثلت کے چار مدارج ہوسکتے ہیں :
(الف) دوسری قوموں کے مذہبی شعائر میں مماثلت اختیار کی جائے ، جیسے مسلمان صلیب یا زنار پہننے لگیں ، هولی كا رنگ اپنے اوپر ڈال لیں، یا سکھوں کے جو مخصوص شعائر ہیں ، ان کو استعمال کریں، فقہاء نے اسے باعث ِکفر قرار دیا ہے ، مجوسی خاص قسم کی ٹوپی پہنا کرتے تھے، فقہاء نے اس پر کفر کا حکم لگایا ہے : وَلَوْ وَضَعَ عَلٰی رَأسِہٖ قَلَنْسُوَۃَ الْمَجُوْسِ کَفَرَ (الملتقط فی الفتاویٰ الحنفیۃ : ۲۴۵ )
اسی طرح فقہاء کے یہاں’’ زنار‘‘ یعنی جینئو کے بارے میں بھی صراحت ملتی ہے ، ہندوستان میں ’’قشقہ ‘‘ لگانے کا حکم بھی یہی ہے ؛ کیوںکہ وہ ہندو بھائیوں کے مذہبی شعائر میں سے ہے ۔
(ب) غیرمسلم مذہبی تہواروں میں شرکت ، یہ اگر یوں ہی ہو ، یا اس کا مقصد اپنے گمان کے مطابق رواداری ہو ، تو حرام ہے اور اگر ان کے مذہبی معتقدات اور افعال پر خوشنودی ورضامندی کا اظہار اور تائید و تحسین مقصود ہو ، تو کفر ہے : إنَّمَا الرِّضَا بِالْکُفْرِ مُسْتَحْسِنًا کُفْرٌ(الملتقط : ۲۴۵) کیوں کہ آدمی جس مذہب پر عقیدہ نہ رکھتا ہو اور اپنے عقیدہ کے مطابق اس کو نادرست خیال کرتا ہو ، اس میں شرکت اور اس پر رضامندی و خوشنودی کا اظہار کھلی ہوئی دوعملی اور نفاق کی بات ہے ؛ اس لئے اسلام نہ مسلمانوں کے لئے اس بات کو پسند کرتا ہے کہ وہ ایسا منافقانہ رویہ اختیار کریں اور نہ غیرمسلموں سے خواہش کرتا ہے کہ وہ اسلامی شعائر کو اختیار کریں اور مسلمانوں کے مذہبی تہواروں میں شریک ہوں ۔
(ج) تیسرا درجہ تہذیبی تشبہ کا ہے ، یعنی ایسی وضع قطع اور لباس ، جو کسی خاص قوم کی شناخت بن گئی ہو اور اس کا مذہب سے تعلق نہ ہو ، کو اختیار کرنا ، جیسے ہندوستان میں ’’ دھوتی ‘‘ کہ اس کا مذہب سے تعلق نہیں ؛ لیکن یہ ہندو بھائیوں کی پہچان سی بن گئی ہے ، اگر کسی کو دھوتی میں ملبوس دیکھا جائے تو ذہن اسی طرف جاتا ہے کہ وہ ہندو ہے ، آج كل بعض مسلمان نوجوانوں اور لیڈروں نے گیروا كپڑا پهننا شروع كر دیا هے، یه بھی اسی قبیل سے هے، ایسی مشابہت اور مماثلت اختیار کرنا مکروہِ تحریمی ہے ، علامہ ابن تیمیہؒ نے اس پر تفصیل سے گفتگو کی ہے ۔ (دیکھئے : اقتضاء الصراط المستقیم : ۱؍۹۴)
لیکن تشبہ کی اس جہت میں تبدیلی آتی رہتی ہے ؛ کیوں کہ اگر کوئی وضع ایک عہد میں کسی قوم کی پہچان بن گئی ہو اور بعد کو اس کا استعمال عام ہوجائے اور وہ کسی خاص مذہبی گروہ کی شناخت باقی نہ رہ جائے تو پھر تشبہ کی کیفیت ختم ہوجائے گی اور اس کا استعمال جواز کی حد میں آجائے گا ، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے کوٹ، پینٹ کے بارے میں ،( امداد الفتاویٰ : ۴؍۲۶۸ سوال نمبر : ۳۴۵) اور حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحبؒ نے ساری کے متعلق یہی لکھا ہے ۔ (کفایت المفتی : ۹؍۱۶۱)
(د) جو ملبوسات ، وضع قطع اور تقریبات کسی خاص مذہبی گروہ کی پہچان نہیں ہیں ، یاانتظام و انصرام سے متعلق اُمور ، جیسے طرزِ تعمیر ، دفتری نظم و نسق ، تجارتی طور و طریق وغیرہ ، ان میں غیرمسلم بھائیوں کے طریقۂ کار سے استفادہ کرنے میں کچھ حرج نہیں ، حضرت عمر ؓ نے حساب و کتاب کے نظام میں روم و ایران کے طریقوں سے استفادہ کیا تھا، (الفاروق : علامه شبلی نعمانیؒ : ۲؍۱۳۰۴)آپ ﷺ نے غزوۂ احزاب میں حضرت سلمان فارسی ؓ کے مشورہ پر اہل فارس کے طریقہ پر خندق کھدوائی تھی ۔ (البدایۃ والنہایۃ: ۴؍۹۵)یہ اس بات كی دلیل ہے کہ ایسے اُمور میں غیرمسلم بھائیوں کے تجربات سے فائدہ اُٹھانے میں کوئی حرج نہیں ۔
تشبہ اور مماثلت سے بچنے کا جو اُصولی حکم شریعت ِاسلامی میں دیا گیا ہے ، وہ تعصب اورتنگ نظری پر مبنی نہیں ہے ، اصل یہ ہے کہ شناخت کی حفاظت ایک فطری عمل ہے ، غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی صورت اور آواز کو ایک دوسرے سے ممتاز رکھا ہے ، انسان کے اندر شناخت کی حفاظت کا جذبہ اتنا گہرا ہے کہ ہر ملک اور ہر قوم اپنی شناخت الگ رکھنا چاہتی ہے ، اپنے تمدن کی حفاظت کرتی ہے ، اپنے جھنڈے الگ رکھتی ہے ، ہر اسکول اپنا مستقل یونیفارم رکھتا ہے ، گورنمنٹ کے مختلف محکموں کے الگ الگ یونیفارم ہوتے ہیں ؛ اس لئے اپنی شناخت کی حفاظت کوئی مذموم عمل نہیں ہے اور نہ اس میں دوسروں کی مخالفت اور ان کے بارے میں تنگ نظری ہے ، اسلام چاہتا ہے کہ مسلمان اپنی پہچان کو باقی رکھیں اور جہاں اسلامی نظام نافذ ہو ، وہاں غیر مسلم بھائیوں کو بھی اس بات کی پوری آزادی فراہم کی جائے کہ وہ اپنی مذہبی وتہذیبی شناخت کے ساتھ زندگی گذاریں ۔
مذہبی تعلقات کی دوسری بنیاد دوسرے مذاہب کا احترام اور ان کے مذہبی اُمور میں عدمِ مداخلت ہے ، قرآنی تعلیمات کا نچوڑ عقیدۂ توحید کی دعوت ہے ، اسلام میں توحید سے زیادہ کوئی چیز مطلوب و محمود نہیں اور شرک سے زیادہ کوئی چیز قابل ترک اور مذموم نہیں ؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے حد درجہ مذہبی رواداری کی بھیتعلیم دی ہے ، قرآن مجید نے صاف کہا ہے کہ ہر شخص کو عقیدہ کی آزادی حاصل ہے اور کسی مذہب کے قبول کرنے کے لئے جبر و تشدد جائز نہیں :
لَا اِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنَ قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ۔ (البقرۃ : ۲۵۶)
دین میں زبردستی کی گنجائش نہیں ، گمراہی کے مقابلہ ہدایت آشکارا ہوچکی ہے ۔
رسول اللہ ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا :
اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتّٰی یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ ۔ (یونس: ۹۹)
توکیا آپ لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور در دیں گے ؟
حضرت عمر ؓ کا واقعہ مشہور ہے کہ انھوں نے اپنے وَسَق یا دَثَق نامی غلام سے باربار خواہش کی کہ وہ اسلام قبول کرلے ، آپ ؓ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر تم اسلام قبول کرلو تو تمہیں مسلمانوں کی امانت کی کوئی ذمہ داری سونپوں گا ؛ لیکن وسق اس سے ہمیشہ انکار کرتے رہے ، حضرت عمر ؓ ہمیشہ اس کے جواب میں فرماتے : ’’لَا اِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ‘‘ یہاں تک کہ وفات کے قریب آپ ؓ نے ان کو آزاد کردیا ۔ (کتاب الاموال : ۱؍۱۵۴)
عقیدہ کے علاوہ غیرمسلموں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی بھی مکمل آزادی حاصل ہے ، قرآن مجید نے صاف طور پر حضور ﷺ کی زبانِ مبارک سے مشرکین مکہ کو کہلایا : لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَ لِیَ دِیْنٌ(الکافرون : ۶) ’’تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین‘‘ ایک اورموقع پر ارشاد ہے : لَـنَا اَعْمَالُنَا وَ لَکُمْ اَعْمَالُکُمْ (الشوریٰ : ۱۵) ’’ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال‘‘ ۔
فقهاء نے لكھا هے كه اگر کسی مسلمان کی بیوی یہودی یا عیسائی ہو اور اس کے عقیدہ کے مطابق کسی خاص دن روزہ رکھنا واجب ہو تو مسلمان شوہر اسے روزہ رکھنے سے روک نہیں سکتا ہے ، گو اس کی وجہ سے وہ جنسی استفادہ کے حق سے محروم ہوتا ہو ۔ (احکام أہل الذمۃ : ۱؍۳۱۶)اسی طرح اگر وہ اپنے عقیدہ کے مطابق صلیب پہنے ، یامسلمان شوہر کے گھر میں صلیب رکھے تو اسے یہ حق ہے اور شوہر اس کو روک نہیںسکتا ۔ (احکام أہل الذمۃ : ۱؍۳۱۶)؛ البته موجوده دور میں عیسائی اور یهودی عورت سے نكاح كرنا كراهت سے خالی نهیں، اور اس كے مفاسد بهت زیاده هیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ دوسرے مذہبی گروہوں کے مذہبی جذبات کو مجروح نہ کیا جائے اور دوسری قومیں جن دیوتاؤں اور دیویوں کی پرستش کرتی ہوں ، ان کو برا بھلا نہ کہا جائے ؛ حالاںکہ یہ بات ظاہر ہے کہ اسلام خدا کی ذات و صفات میں کسی کی شرکت کو جائز نہیں سمجھتا ؛ کیوںکہ یہ سچائی اور واقعہ کے خلاف ہے ؛ لیکن پھر بھی مذہبی رواداری کے تحت ان معبودانِ باطل کے بارے میں ناشائستہ باتیں کہنے سے منع کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
لَا تَسُبُّوْا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ ۔ (الانعام : ۱۰۸)
اللہ کے سوا وہ جن کی عبادت کرتے ہیں، ان کو برا بھلا نہ کہو ۔
اسی طرح عبادت گاہوں کے معامله میں بھی تمام اہل مذاہب کے جذبات کو ملحوظ رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے ، قرآن مجید نے جہاں عبادت گاہوں کے منہدم کرنے کی مذمت کی ہے ، وہاں مسلمانوں کی مسجدوں سے پہلے یہودیوں اور عیسائیوں کے گرجوں کا ذکر فرمایا ہے ، (الحج : ۴۰) اس سے ظاہر ہے کہ عبادت گاہیں — خواہ کسی مذہب کی ہوں — ان کا احترام ملحوظ رکھنا چاہیے ، رسول اللہ ﷺ نے بنونجران سے جو معاہدہ کیا ، اس میں یہ صراحت فرمائی کہ ان کی عبادت گاہیں منہدم نہیں کی جائیں گی اور نہ مذہبی اُمور میں کوئی مداخلت کی جائے گی ، (ابوداؤد ، حدیث نمبر : ۳۰۴۱) عہد ِ صدیقی میں حضرت خالد بن ولید ؓ کے ذریعہ حیرہ کا علاقہ فتح ہوا ، اہل حیرہ کے لئے انھوں نے جو دستاویز تیار فرمائی ، اس میں بھی یہ صراحت موجود ہے کہ ان کے چرچ اور گرجے منہدم نہیں کئے جائیں گے ، امام ابویوسفؒ نے اسے نقل کیا ہے۔ (موسوعۃ الخراج : ۱۴۳)
اس سلسلہ میں خلافت ِ راشدہ اور بعد کے مسلم عہد میں بہت سی مثالیں موجود ہیں ، جن کا ذکر اس وقت درازئ تحریر کا باعث ہوگا ؛ لیکن اس سے صاف ظاہر ہے کہ اسلام عقیدۂ توحید کی حفاظت اور اپنی شناخت کی بقاء کے سلسلہ میں جس قدر حساس ہے ، غیرمسلموں کے مذہبی اور سماجی مسائل میں اسی قدر کشادہ قلب ، سیر چشم اور رَوادار بھی ہے ، افسوس کہ اس پر غلط فہمیوں کے تہہ در تہہ دبیز پردے ڈال دیئے گئے ہیں ۔
. . .