کشمیر میں قیام امن کیلئے حکومت فوراً مذاکرات شروع کرے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کا مرکزی و ریاستی حکومت سے مطالبہ

نئی دہلی: ۲۷؍ اپریل ۲۰۱۷ ؁ء، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر جناب نوید حامد نے وادی کشمیرمیں بگڑتی صورتحال اور گذشتہ آٹھ مہینوں سے جاری مسلسل تشددپر گہری تشویش کا اظہار کیاہے۔

صدر مشاورت نے ریاست میں امن و امان قائم بحال کرنے میں ناکامی کیلئے مودی حکومت اور ریاستی پی ڈی پی و بی جے پی کی اتحادی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایاہے۔مشاورت کا مانناہے کہ کشمیری عوام میں حکومت کے خلاف غصہ اور بداعتمادی ہے جس کو سرکار ظالمانہ حد تک بے جا طاقت کے ذریعہ کشمیری عوام کو ظلم کا نشانہ بنارہی ہے۔
صدر مشاورت نے بی جے پی قیادت کی شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی میں پالیسی سازوں کی ہدایت کے تحت پتھر بازوں کے ساتھ سیکورٹی فورسز کا شدید رد عمل ریاست میں حالات کو معمول پر لانے کی کوششوں کو شدید دھچکا پہنچا رہا ہے۔ اس بحران کا ایک بدنما پہلو یہ بھی ہے کہ بی جے پی لیڈران اس بات کو منوانے کیلئے مسلسل بضد ہیں کہ کشمیر میں لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ ہے اور یہ کوئی ایسا سیاسی بحران نہیں ہے جس کو تمام اطراف کے ساتھ ڈائیلاگ ، بات چیت اور لوگوں تک رسائی کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی جائے۔یہ ستم ظریفی ہی کی بات ہے کہ حکومت کے پاس پتھر بازوں سے نمٹنے کیلئے پوری ظالمانہ قوت کے ساتھ فوج کو استعمال کرنے کی پالیسی موجود ہے لیکن وہی حکومت سکما۔ بستر ، مدھیہ پردیش میں جدید ترین اسلحوں سے پوری طرح لیس عسکریت پسندوں کا نشانہ بننے والے سی آرپی ایف کے عملوں کو جدید ہتھیار تک مہیا نہیں کراتی۔
اس سے بڑھ کر غیر ذمہ درانہ سیاسی حکمت عملی کیا ہوسکتی ہے کہ کشمیری عوام اور احتجاجیوں سے بات چیت کرنے کے بجائے ان کے خلاف ظالمانہ طاقت کا استعمال کیا جارہا ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل ملک، لیفٹیننٹ جنرل پناگ، اورسابق جنرل آفیسر کمانڈنگ لیفٹیننٹ ہڈا سمیت تمام سینئر سیاست داں، ماہرین دفاع نے ریاست میں سیاسی بحران کو ختم کرنے کیلئے تمام فریقوں کے ساتھ سیاسی ڈائیلاگ شروع کرنے کی التجا کی ہے۔ مرکز نے ان کی گذارشوں اورسیاسی جماعتوں کی اپیلوں کو یکسر نظر انداز کردیا ہے۔ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اس لئے ہمارے لیڈران کی رسائی ان تمام لوگوں تک بھی ہونی چاہئے جو قومی مرکزی دھارے سے پیچھے رہ گئے ہیں، ان کے زخموں پر نمک پاشی کے بجائے ان پر مرہم لگانے کی ضرورت ہے۔
اس بحران کا ایک غمناک پہلو یہ بھی ہے کہ وادی کشمیر کے نوجوان بھی اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ ریاست میں سیاسی بحران کے حل کو صرف اور صرف پرامن تحریک کے ذریعہ ہی حاصل کیا جاسکتا ہے، پرتشدد تحریک کے ذریعہ یہ ممکن نہیں۔ ہم سب کو پرامن راستے پر چلنے اور مسئلہ کے تئیں پرامن حل کی بازیابی کیلئے بات چیت شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
دن بہ دن کشمیر کے نوجوان وحشت زدگی کے احساس میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں کیونکہ دائیں بازو کی آرایس ایس سے منسلک تشدد برپا کرنے والی تنظیموں کے ذریعہ بی جے پی کی زیرحکومت اکثر ریاستوں کے تعلیمی اداروں میں کشمیری طلباء پرمسلسل حملے کئے جارہے ہیں۔ ان شرپسندوں کے خلاف حکومت کو فوراً سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔اسی لئے دوسری ریاستوں میں زیرتعلیم ذہین طلباء کی ایک اچھی خاصی تعداد تعلیمی ادارہ چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ ریاستی حکومتیں ان معصوم حملہ کرنے والے مجرموں کی سرپرستی کررہی ہیں۔کیا بی جے پی اور دیگر دائیں بازو کی تنظیمیں یہ سمجھنے میں بالکل ہی ناکام ہوگئی ہیں کہ کشمیری نوجوانوں کی خود اعتمادی ختم ہونے سے کیا خطرہ پیدا ہوگا؟
اس بات کو بیان کرنا بے حد ضروری ہے کہ سابق وزیر خارجہ اور بی جے پی لیڈر جناب یشونت سنہا کی قیادت میں سول سوسائٹی کے ایک گروپ نے حال ہی میں وادی کشمیر کا دورہ کیا تھا اور اس بحران کو حل کرنے کیلئے سفارشات سے متعلق ایک ویژن دستاویز حکومت ہند کو سونپا ہے۔
اس لئے مشاورت حکومت ہند سے پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت فوراً جبر و استبداد اور قوت کے بے جا استعمال سے باز آجائے اور سابق وزیراعظم جناب اٹل بہاری واجپئی کی پالیسیوں کے طرز پر تمام فریقوں کے ساتھ غیرمشروط بات چیت شروع کرے۔ آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ وہ ریاست میں موجودہ بحران کے حل کیلئے یشونت سنہا جی کی سفارشات پر پوری طرح غوروفکر کرے۔وادی کشمیرمیں تحریک سے منسلک نوجوانوں اور طلباء سے بھی مشاورت اپیل کرتی ہے کہ وہ تشدد کی راہ چھوڑ کر اپنا مستقبل بنانے کیلئے پڑھائی پر توجہ مرکوز کریں اور ان نوجوانوں کویہ بھی یاد دلایاہے کہ تشدد میں مبتلا رہنے سے اس بحران کا کبھی کوئی حل نہیں نکلے گا اس لئے پرامن انداز میں اپنے مطالبات پیش کرے۔