مسلم مینجمنٹ تعلیمی ادارے (2)

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

مسلمانوں کے زیر انتظام عصری مدارس کی ایک بڑی ضرورت نصاب تعلیم میں ایسے مضامین کو شامل کرنا ہے ، جو مسلمان طلبہ اور طالبات کو اسلام کے بارے میں واقفیت بھی فراہم کریں اور ان کو احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے سے بچائیں، محض چند دُعاؤں کا یاد دِلا دینا کافی نہیں ؛ بلکہ توحید ، شرک ، رسالت ، عبادات ، معاشرتی زندگی اور معاملات کے بارے میں ان کو معلومات فراہم کی جائیں، سیرت نبوی ااور اسلامی تاریخ کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں ، ان کے متعلق وہ حقائق سے آگاہوں ، ہندوستان کی حقیقی تاریخ کہ مسلمانوں نے اس ملک کوکیا کچھ دیا ؟ پڑھائی جائے ، بابر ، غزنوی و غوری اور حضرت اورنگ زیب عالم گیر ؒ وغیرہ مسلم حکمرانوں کے بارے میں جو پروپیگنڈے کئے جاتے ہیں، ان کی حقیقت سمجھائی جائے ؛ تاکہ آج ازسر نو تاریخ لکھنے کی جو کوشش کی جارہی ہے، اس کے زہر سے مسلم نوجوانوں کے ذہن کو محفوظ رکھا جاسکے، ان موضوعات پر بہت سی تحریریں موجود ہیں اور اگر ضرورت پڑے، تو اس نقطۂ نظر سے کچھ کتابیں مدون کی جائیں، یہ وقت کی نہایت اہم ضرورت ہے جن جماعتوں میں بورڈ کا امتحان دینا ہوتا ہے، ان جماعتوں کو چھوڑ کر اگر دوسری کلاسس میں ایسی کتابیں رکھی جائیں ، تو شاید اس میں کوئی دقت نہ ہو ۔
ایک افسوس ناک بات یہ ہے کہ تعلیم جو خدمتِ خلق کا ذریعہ تھی، آج وہ سب سے بڑی تجارت ہے، عیسائی مشنریز تو اس تجارت سے لوگوں کا مذہب خرید کرتی ہیں اور اپنے دین کی تبلیغ کرتی ہے؛ لیکن مسلمان انتظامیہ اس تجارت کو زیادہ تر اپنے شخصی مفاد اور زیادہ سے زیادہ حصولِ دولت کے لئے استعمال کرتی ہے؛ بلکہ بعض اوقات تو غریب مسلمانوں کو اس حوصلہ افزا مشورہ سے بھی سر فراز فرمایا جاتاہے کہ ’’ پڑھانا ہی کیا ضروری ہے ، رکشہ چلوالو ‘‘ اگر ہماری درس گاہوں کا مقصد صرف مرفہ الحال مسلمانوں سے پیسے وصول کرنا اور ان کے بچوں کو پڑھانا ہے، تو یقینا یہ ادارے بے فیض ہیں، اور یہ مقصد تو غیر مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والی درس گاہوں سے بھی حاصل ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں ۔
حیرت ہوتی ہے کہ معقول داخلہ فیس اور تعلیمی فیس لینے کے باوجود ان اسکولوں میں عام طور پر اساتذہ کی تنخواہیں بہت قلیل ہوتی ہیں اور قلیل تنخواہ ہی کی نسبت سے ان اساتذہ کی صلاحیت اور استعداد بھی ہوتی ہے ، تنخواہ کی کمی اساتذہ کے لئے بے اطمینانی کا باعث ہوتی ہے ؛ اس لئے وہ بھی دوسری جگہ کی تلاش میں رہتے ہیں کہ شاید یہ ان کی تنخواہ میں کسی قدر اضافہ کا باعث ہو سکے ، اس بے اطمینانی کی وجہ سے بار بار اساتذہ تبدیل ہوتے ہیں، اور یہ ظاہر ہے کہ بار بار اسا تذہ کی تبدیلی تعلیم کے لئے نہایت نقصان دہ ہے ؛ کیوں کہ تعلیم کے لئے طالب علم اور مدرس کے درمیان ذہنی مناسبت اور مناسبت سے بڑھ کر موانست ضروری ہے، ہر شخص کی تفہیم کا انداز الگ الگ ہوتا ہے، زبان اور لب ولہجہ میں بھی فرق ہوتا ہے، ہفتہ عشرہ تو طالب علم کو اساتذہ سے مناسبت پیدا ہونے میں لگ جاتا ہے اور اساتذہ کے لئے طلبہ کی انفرادی صلاحیت اور مزاج کو پہچاننے میں تو اس سے بھی زیادہ وقت درکار ہوتا ہے، اس کے بعد ہی حقیقی طور پر استاذ اور طالب علم کا تعلیمی رشتہ استوار ہوتا ہے، اگر مدرس بار بار تبدیل ہو، یا خود مضامین ایک مدرس سے دوسرے مدرس کی طرف منتقل ہوتے رہیں، تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اچھا خاصا وقت ایک دوسرے سے ارتباط ہی میں چلا جائے گا ۔
مسلمان انتظامیہ کا انسانی، اسلامی اور اخلاقی فریضہ ہے کہ تعلیمی اخراجات کو ایسا مناسب اور متوازن رکھیں کہ غریب مسلمان خاندان کے طلبہ بھی تعلیم حاصل کر سکیں اور ’’ نہ نفع نہ نقصان ‘‘ یا ’’ اقل ترین نفع ‘‘ کی بنیاد پر ادارے چلائے جائیں ، جبھی ہم غریب اور پس ماندہ مسلمانوں کو بھی زیورِ تعلیم سے آراستہ کر سکیں گے، یا کم سے کم اتنا کیا جائے کہ ہر طالب علم کی فیس میں کچھ حصہ (Poorfund) مان کر چلیں، مثلاً اگر ہم ایک ہزار داخلہ فیس لیتے ہیں ، تو نو سو داخلہ فیس اور ایک سو ’’ غرباء کا فنڈ ‘‘ تصور کریں اور ہر دس طالب علم پر ایک غریب طالب علم کا مفت داخلہ لیں ، اس طرح کم سے کم دس فیصد داخلے غریب بچوں کے بھی ہوسکیں گے ۔
موجودہ حالات میں ایک اہم مسئلہ اردو زبان کی تعلیم کا بھی ہے ، اس میں شبہ نہیں کہ اُردو واحد زبان ہے جس کو مسلمانوں نے وجود بخشا ہے ، اس زبان میں تقریباً ۷۵ فیصد الفاظ عربی اور فارسی ہیں ، خود قرآن مجید کے الفاظ بہ کثرت اس زبان میں داخل ہیں ، اسلامی اصطلاحات اور محاورات جس قدر اُردو زبان میں پائے جاتے ہیں ، عربی زبان کے بعد کوئی زبان نہیں ، جو اسلامی تعبیرات سے اس قدر مالا مال ہو ، ایک غیر مسلم بھی جب اُردو زبان میں لکھنا اور بولتا ہے، تو ’’ ماشاء اللہ ، الحمد للہ ‘‘ اور ’’ سبحان اللہ ‘‘ وغیرہ الفاظ اسے بھی بولنے اور لکھنے پڑتے ہیں ۔
پھر اُردو زبان میں اسلامی علوم کا سرمایہ اتنی بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے کہ سوائے عربی زبان کے کوئی زبان نہیں جو اتنی مال دار اورصاحب ِثروت ہو ، تفسیر ، قرآن و حدیث کے ترجمے، مسنون حدیث کی شرحیں ، فقہ اور فقہی کتابوں کے ترجمے، سیرت، اسلامی تاریخ ، غرض تمام ہی اسلامی علوم پر اردو زبان میں ایک عظیم الشان کتب خانہ تیار ہو چکا ہے ، ایک زمانہ میں عربی کے بعد سب سے زیادہ اسلامی لٹریچر فارسی زبان میں تھا ؛ لیکن اب اُردو نے فارسی پر سبقت حاصل کر لی ہے ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اردو ایک بین الاقوامی زبان ہے ، جو آج ایشیاء سے لے کر امریکہ تک اپنا مقام بنا چکی ہے ، بر صغیر آبادی کے اعتبار سے دنیا کا نہایت ہی گنجان علاقہ ہے ، بر صغیر کے اکثر علاقوں میں اُردو زبان سمجھی جاتی ہے ، ایک محتاط اندازہ کے مطابق ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ساٹھ کروڑ مسلمان بستے ہیں ، ان میں پچاس کروڑ لوگ وہ ہیں جو اُردو سمجھتے ہیں اور کم سے کم چالیس کروڑ وہ ہیں ، جو اُردو بولتے اور پڑھتے ہیں ، یہ ایک بہت وسیع حلقہ ہے ، اگر پوری دنیا میں اُردو بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد پچاس کروڑ ہی مان لی جائے، تو اُردو بولنے والے کا تناسب بین الاقوامی زبانوں میں نہایت نمایاں ہے ۔
اگر ہمارے بچے ( جو عربی اور فارسی زبان سے بھی واقف نہیں) اُردو زبان سے بھی نابلد رہ جائیں ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہت ہی عظیم اسلامی سرمایہ سے محروم ہو جائیں گے ، اسلامی لٹریچر سے ان کا رابطہ کٹ کر رہ جائے گا اور اپنے سلف ِصالحین اور بزرگوں سے ان کا رشتہ منقطع ہو جائے گا ، اسلام کے بارے میں یا تو ان کو کوئی واقفیت اور آگہی نہیں رہے گی ، یا وہ اپنی معلومات کے لئے ان لوگوں کی تحریروں اورکتابوں پر انحصار کریں گے جو حقیقت میں اسلام کے معاند ہیں اور جن سے اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی ، اس لئے مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکولوں میں اُردو زبان کی تعلیم وقت کی نہایت اہم ضرورت ہے، اور اس سے چشم پوشی برتنا آنے والی نسلوں سے محرومی کو گوارا کرنے کے مترادف ہے ، یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ جو لوگ اُردو زبان کے تحفظ کی تحریک چلاتے ہیں ، دین دار ہیں ، دینی علوم سے وابستہ ہیں، اُردو زبان کی روٹی کھاتے ہیں ، اُردو میں وعظ و تقریر اور شعر و سخن ان کا امتیاز ہے ، خود ان کے بچے اُردو کو ’’ اچھوت ‘‘ سمجھتے ہیں ، اس لئے ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اُردو ذریعہ تعلیم کے زیادہ سے زیادہ معیاری اسکول قائم کئے جائیں ؛ لیکن اگر اپنے اندر اتنی جرأت نہ پاتے ہوں ، تو خواہ ذریعہ تعلیم انگریزی ہو ، ثانوی زبان ہی کی حیثیت سے کم سے کم اردو کو داخل نصاب کریں ، اس کے لئے اچھے تربیت یافتہ اساتذہ رکھیں اور اس کو پوری اہمیت دیتے ہوئے پڑھائیں ، یہ موجودہ حالات میں آئندہ نسلوں کو اسلام پر باقی رکھنے اور مسلمان بچوں کا اسلام سے رشتہ استوار رکھنے کے لئے نہایت ضروری ہے ۔
عصری درس گاہوں کے طلبہ کی اسلامی تربیت اور ذہن سازی میں دینی مدارس بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ، اگر دینی مدارس ابتدائی مرحلہ میں پہلی جماعت سے ساتویں جماعت تک سرکاری نصاب کے ساتھ اسلامیات اور قرآن مجید پڑھ لیں ، دو پارے حفظ کر لیں ، سیرت اوردینیات کی کچھ کتابیں پڑھ لیں ، نیز اسلامی عقائد اور تاریخ پر بھی کوئی کتاب ان کی ذہنی استعداد کے مطابق پڑھادی جائے اور تربیت کا اسلامی ماحول ان کو دیا جائے ، تو یہ نہایت ہی مبارک اور نافع قدم ہوگا، اس طرح بہت سے وہ ماں باپ جو اپنے بچوں کو حقیقی معنوں میں مسلمان دیکھنا چاہتے ہیں اور اس ذہنی ارتداد سے نالاں ہیں جو اس وقت مشنری اسکولوں کی عام بیماری ہے ، وہ اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے، بچوں کا اگر ابتدائی مرحلہ میں اسلامی ذہن بنادیا جائے اور ان کی صحیح تربیت ہو جائے، تو پھر جو بھی پڑھیں اور بنیں، ایک مسلمان کی حیثیت سے بنیں گے اورانشاء اللہ ان کو کوئی طاقت ’’سلمان رشدی ، تسلیمہ نسرین اور طارق فتح‘‘ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکے گی اور خود ان دینی مدارس کے لئے بھی یہ نہایت مفید اور نتیجہ خیز قدم ہوگا ، ان مدارس کے فضلاء کے بارے میں جو شکایت ہے کہ یہ عصری معلومات سے بے خبر ہیں اور اپنے ماحول کے بارے میں بھی کوئی آگہی نہیں رکھتے، یہ شکایت بھی انشاء اللہ دور ہو جائے گی اورمدرسہ کی چہار دیواری سے نکلنے کے بعد اپنے آپ کو ماحول میں اجنبی اور نووارد محسوس نہیں کریں گے ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں