شمع فروزاں : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے ، جو نیکیوں کی فصلِ بہار ہے اور تہی دامانِ عمل کو بقدرِ توفیق اس فصل گل سے استفادہ کا موقع فراہم کرتی ہے ، رسول اللہ کو اس ماہِ مبارک کا اس قدر اہتمام تھا کہ اس کی آمد سے پہلے ہی آپ لوگوں کو اس ماہ کی برکتوں اور سعادتوں کے بارے میں خبر دار فرماتے اور عبادت کی طرف خاص طور پر انھیں متوجہ کرتے ، اس ماہ کا اصل اور بنیادی عمل روزہ ہے ، یعنی صبح طلوع ہونے سے لے کر سورج کے غروب ہونے تک کھانے ، پینے اور دوسرے نفسانی تقاضوں سے اپنے آپ کو باز رکھنا ، یہ کوئی معمولی عمل نہیں ہے ، انسان کے لئے گھنٹے دو گھنٹے بھی بھوکا رہنا دشوار ہو جاتا ہے ، بیمار ہو تو پرہیز مشکل ہو جاتا ہے ، دنیا کی ساری لذتیں ان ہی خواہشات سے متعلق ہیں ، آدمی بطورِ خود اپنے آپ کو ان سے روک لے ، حالاں کہ اس کو روکنے کے لئے نہ کوئی چوکیدار ہو ، نہ کوئی قانونی پہرہ دار اور نہ جسمانی مضرت و نقصان کا اندیشہ ۔
یہ انسان کی تربیت کا نہایت مؤثر اور بے مثال طریقہ ہے ، جس سے محض روحانی مقاصد کے تحت اپنے آپ پر قابو کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور انسان کے لئے یہ بات ممکن ہوتی ہے کہ وہ نفس کے گھوڑے کے لگام کو اپنے ہاتھ میں رکھے ، جو شخص نفس کی آواز کو دبانے اورخواہشات کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت حاصل کر لے اس کے لئے کسی بھی گناہ سے بچنا چنداں دشوار نہیں ، اسی لئے روزہ کو تقویٰ کا باعث قرار دیا گیا اور رمضان کے مہینہ کو صبر کا مہینہ فرمایا گیا ۔
لیکن دنیا کی ہر چیز میں صورت اور حقیقت کا ایک فرق پایا جاتا ہے ، شیر کی تصویر میں شیر کی طاقت اور آگ کی تصویر میں آگ کی حرارت نہیں آسکتی ، شیر کی خوفناک اور بھیانک اسٹیچوں سے دن رات بچے کھیلتے ہیں اور آگ کی تصویر سے لوگ اپنے گھر سجاتے ہیں ؛ لیکن اگر جاں بہ لب زندہ شیر بھی ہو تو اچھے اچھے بہادر بھی قریب جانے کی ہمت نہیں پاتے اور آگ کی ایک چنگاری بھی ہو تو پورے مکان کو سلگانے کے لئے کافی ہے ۔
ہاں عبادات میں بھی صورت اور حقیقت کا فرق ہے ، محض بھوکا ، پیاسا رہنا روزہ کی صورت ہے نہ کہ حقیقت ، اسی لئے رسول اللہ انے فرمایا کہ جو جھوٹ بولے اس کا روزہ نہیں ، جو غیبت کرے اس کا روزہ نہیں ، آپ ا نے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزہ داروں کو روزہ سے بھوک وپیاس کے سوا کوئی چیز حاصل نہیں ، یہ روزہ کی صورتیں ہیں ، ایسی صورت جو روح اور زندگی سے خالی ہیں ، روزہ تو اس لئے ہے کہ انسان کا سینہ خدا کی محبت سے معمور ہوجائے ، اس کا دل سب کچھ کھو کر خدا کو پانے کے جذبہ سے لبریز ہو اور گناہوں کی نفرت اس کے دل میں سما جائے ، اس کی نگاہ ایک پاک دامن نگاہ ہو ، اس کی زبان قند و نبات کی مٹھاس سے ہم کنار اور ہر طرح کی بد گوئی سے محفوظ ہو ، اس کے اعضاء و جوارح کو نیکی سے لذت حاصل ہوتی ہے ، گویا ایک عاشق ہے جو اپنے محبوب کو خوش کرنے کے لئے بھوکا ، پیا سا اور دنیا کی لذتوں سے بیگانہ بنا ہوا ہے ، اگر روزہ اس کیفیت کے ساتھ رکھا جائے تو یقیناً اس سے نفس کی تربیت ہوگی ، انسان کے اندر برائی سے بچنے کی صلاحیت پیدا ہوگی اور انسان اپنے نفس کی غلامی سے آزاد ہوسکے گا ، یہ تربیتی نظام اسے آئندہ گیارہ مہینوں میں بھی خدا کی مرضیات پر قائم رکھے گا ، اس لئے روزہ کو حقیقت کی سطح پر رکھنا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ یہ خدا کے حکم کو نفس کے حکم پر غالب رکھنے کا ایک عنوان ہے !
اس ماہِ مبارک میں رسول اللہ پر نزولِ قرآن کا آغاز ہوا ، ہر سال حضرت جبرئیل ں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اورقرآن مجید کے ایک ختم کا آپ سے مذاکرہ فرماتے ، جس سال وفات ہوئی اس سال آپ نے حضرت جبرئیلں کے ساتھ قرآن مجید کا دو دور فرمایا ، اس سے معلوم ہوا کہ اس ماہ کو قرآن مجید سے ایک خاص مناسبت ہے ، اسی لئے اس مہینہ میں خاص طور پر تراویح کی نماز رکھی گئی ، کہ اس میں پورا قرآن مجید ختم کیا جائے، تہجد میں بھی زیادہ طویل قیام اور اسی نسبت سے قرأت کا معمول مبارک تھا ؛ اسی لئے سلف صالحین کے یہاں اس ماہ میں قرآن مجید کی تلاوت کا بھی خاص اہتمام رہا ہے ، اس لئے جہاں رمضان کے دن روزہ کے نور سے منور ہوں ، وہیں رمضان کی راتیں تلاوتِ قرآن سے آباد ہونی چاہئے ، یہ ہماری کم نصیبی ہے کہ خدا کی آخری اور کائنات میں موجودہ واحد سچی کتاب اس اُمت کے پاس ہے ، جس کا حق یہ تھا کہ مسلمان کا کوئی دن اس کی تلاوت سے خالی نہ ہو ؛ لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ پورا سال گذر جاتا ہے اور بہت سے بے توفیقوں کو قرآن مجید کے ایک ختم کی توفیق بھی میسر نہیں آتی ، اس لئے یوں تو پورے سال تلاوتِ قرآن کا اہتمام کرنا چاہئے ؛ لیکن اگر یہ نہ ہو سکے تو کم سے کم رمضان کو توضائع نہ ہونے دیا جائے ، عام طور پر بیس منٹ میں ایک پارہ مکمل ہو جاتا ہے ، اگر روزانہ صرف ایک گھنٹہ تلاوت کا وقت رکھا جائے تو باآسانی ہر دس دن میں ایک ختم ہو سکتا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ اگر کسی وقت ایک گھنٹہ قرآن کے ترجمہ وتفسیر کے مطالعہ کے لئے بھی رکھ لیاجائے تو کیا کہنا !!! ہونا تو یہ چاہئے کہ سال بھر ترجمہ و تفسیر کے مطالعہ کا اہتمام ہو ؛ لیکن اگر یہ نہ ہوسکے، تو کم سے کم رمضان میں کسی ایک بڑی سورت، یا منتخب سورتوں ہی کا مطالعہ کر لیا جائے، تاکہ بندہ یہ جان سکے کہ اس کا خدا اس سے کیا کہہ رہا ہے، یہ کیسی محرومی ہے کہ ہمارا خدا ہم سے مخاطب ہو اور ہم اس کی طرف متوجہ نہ ہوں؟ وہ ہم سے بات کرے اور ہم اپنے کان بند کر لیں ، اس کا کلام اپنی جلوہ فرمائیوں کے ساتھ ہم پر آشکار ہو اور ہم اپنی آنکھیں موند لیں ، کیا اس سے زیادہ حق ناشناسی کی بھی کوئی اور مثال مل سکتی ہے؟
رمضان المبارک کا تیسرا اہم عمل دُعاء ہے ، یہ دُعاء کی قبولیت کا مہینہ ہے ، رمضان کی راتوں میں اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو پکار تا ہے ، کہ ہے کوئی مغفرت کا طلب گار ، کہ میں اسے بخش دوں ، کوئی ہے رزق کا خواستگار کہ میں اسے روزی دوں ، ہے کوئی ضرورت مند کہ میں اس کی حاجت روائی کروں ؟ اس سے زیادہ کم نصیبی کیا ہوگی ، کہ داتا خود سائل کو طلب کرے اورسائل اپنا دستِ سوال نہ پھیلائے ، تہجد کا وقت دُعاء کی قبولیت کا ہے ، افطار کے وقت دُعاء قبول ہوتی ہے ، رمضان المبارک کا آخری عشرہ جس میں شبِ قدر کا امکان ہے ، دُعاء کی قبولیت کی خاص ساعتوں پر مشتمل ہے ۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ پوری ملتِ اسلامیہ زخم سے چور ہے اور پورا عالم اسلام یہود و نصاری کے پنجۂ استبداد سے کراہ رہا ہے ، خود ہندوستان میں مسلمانوں کے گرد فرقہ پرست تنظیمیں گھیرا تنگ کرتی جارہی ہیں ، ان حالات میں دُعاء مؤمن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے ، مگر بد قسمتی سے افطار کے لئے ایک سے ایک کھانے کا انتخاب اور دسترخوان کو خوب سے خوب تر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ؛ لیکن یہ وقت دُعاء کی قبولیت اور اللہ سے مانگنے اور اپنے خالق کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا ہے ، اسی کو فراموش کر دیا جاتا ہے ، اس لئے ہم اس ماہ کو دُعاء کا مہینہ بنالیں ، خدا سے مانگنے اور خدا کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا مہینہ ۔
رسول اللہ نے اس ماہ کو غم گساری کا مہینہ ( شہر المواساۃ) بھی فرمایا ہے ، یعنی جیسے یہ خدا کو راضی کرنے اور اس کے سامنے جھکنے کا مہینہ ہے ، اسی طرح یہ خدا کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک اور بہتر برتاؤ کا مہینہ بھی ہے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ رسول اللہا کی سخاوت اس ماہ میں تیز ہوا سے بھی بڑھ جاتی تھی ، اسی لئے بعض صحابہ ث اس ماہ میں زکوٰۃ ادا کرنے کا اہتمام فرماتے تھے اور آج کل بھی لوگ خاص طور پر اسی مہینہ میں زکوٰۃ ادا کرنے کا اہتمام کرتے ہیں ؛ لیکن زکوٰۃ تو ایک لازمی فریضہ ہے اور انفاق کا وہ کم سے کم درجہ ہے جس سے انسان جوابدہی سے بچ سکتا ہے ؛ لیکن جیسے رمضان میں فرائض کے ساتھ نوافل کا اہتمام کیا جاتا ہے اسی طرح زکوٰۃ کے ساتھ عمومی انفاق پر بھی توجہ ہونی چاہئے بہت سے لوگ محتاج و ضرورت مند ہوتے ہیں ؛ لیکن زکوٰۃ کے مستحق نہیں ہوتے ، بہت سے دینی کام ایسے ہیں جن میں زکوٰۃ کی رقم صرف نہیں کی جاسکتی ، ایسے مواقع پر عمومی انفاق اُمت کے لئے ایک ضرورت ہے اور اصحابِ ثروت کو محسوس کرنا چاہئے کہ یہ بھی ان پر ایک حق ہے ؛ چنانچہ رسول اللہ نے فرمایا کہ مال میں زکوٰۃ کے سوا دوسرے حقوق بھی ہیں ، ان فی المال لحقا سوی الزکوٰۃ ۔
آئیے ہم عہد کریں کہ ایمان و عمل کی اس فصل بہار سے ہم اس کے تقاضہ کے مطابق فائدہ اُٹھائیں گے اور اپنی عملی زندگی کو اس کی خوشبو سے عطر بار کریں گے !(ملت ٹائمز)