عزیر احمد
کوئی بھی قوم جب شقاوت، بد خلقی، حرام کاری، زنا کاری، اور برائی وغیرہ کی حدوں کو پار کرلیتی ہے تو اللہ رب العالمین اس پہ دوسری قوم کو مسلط کردیتا ہے، اگر وہ ایک سلجھی ہوئی اور سمجھدار قوم ہے، تو ڈوبنے کے بعد دوبارہ ابھرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن اگر اس کے اندر محاسبہ کرکے، خود کو سدھارنے اور حالات سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہوتی ہے تو پھر وہ تاریخ کے صفحات میں دور کہیں اس طرح سے گم ہوجاتی ہے کہ لوگ اگر اسے پڑھنا بھی چاہیں تو آسانی سے نہ مل سکے.
وطن عزیز ہندوستان میں مسلمانوں کی داستان بھی کچھ اسی قسم ہے، اگر یہ کہا جائے کہ آج مسلمانوں پہ جتنی بھی مصیبتیں اور پریشانیاں آرہی ہیں یہ خود مسلمانوں کی اپنی کمائی ہے، تو شاید غلط نہ ہو، ہوسکتا ہے بہت سارے لوگ میری اس بات سے اختلاف کریں، مگر حقیقت یہی ہے، ساری مصیبتوں اور پریشانیوں کا ذمہ دار خود مسلمان ہیں، اس کے وجوہات کوئی ایک دن یا دو دن کی پیداوار نہیں ہیں، بلکہ ماضی ہی کی بنیادوں پہ ہمارے حال کی عمارت تعمیر ہوئی ہے، اگر ہم جنگ آزادی کے بعد کی بات کریں، یا جنگ آزادی سے پہلے Medival Age کی بات کریں، مسلمان اپنے مذہب سے جس طرح دور ہوتے چلے گئے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے.
مغلیہ دور حکومت میں مسلمان بادشاہ تھے، مگر بادشاہت کیا تھی، کیسی تھی، اس کا اسلام سے کتنا رشتہ اور تعلق تھا یہ مکمل ایک بحث کا متقاضی ہے، مگر ایک بات ضرور ہے کہ مغلیہ سلطنت کے زیر سایہ بدعات و خرافات، ایجادات و نقائص کا خوب ظہور ہوا ہے، اسلام کے نام پہ ایسی ایسی بدعتیں عروج میں آئیں کہ الامان والحفیظ۔
یہ تو رہی مغلیہ سلطنت کی بات، مگر آزادی کے بعد جیسے مسلمانوں کی حالت اور خراب ہوگئی ہو، جو دین پسند اور علماء طبقہ تھے، اکثر ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے، باقی جو بچے کھچے، وہ بھی دھیرے دھیرے کرکے دین سے دور ہوتے گئے۔
میری ان باتوں سے کوئی یہ سوچنے کی کوشش نہ کرے کہ ہندوستان میں دین کا کام بالکل ہوا نہیں، نہیں، الحمد للہ دین کا کام بہت ہوا ہے، خصوصیت سے گزشتہ تیس چالیس سالوں میں دعوت الی اللہ اور اصلاح بین الناس کا فریضہ تو نہایت ہی زور و شور سے انجام دیا گیا ہے، مگر اب بھی یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ مسلمانوں میں سے عامة الناس کا طبقہ بلکہ مسلمانوں کی اکثریت اب بھی دین سے نابلد ہے، دین کے نام پہ خرافات ضرور ہیں، مگر دین نہیں ہے، شناخت انسان کے دین سے ہی ہوتی ہے، مگر حالت یہ ہے کہ اگر کوئی شناخت کرنا چاہے تو اب بھی تقریبا ساٹھ ستر فیصدی مسلمانوں کا بطور مسلمان شناخت کرنا ناممکن ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ میں یہ باتیں صرف ہوا میں کررہا ہوں، بالکل نہیں، یہ ہوائی باتیں نہیں ہیں، یقین نہ آئے تو کبھی اپنے اردگرد کے علاقوں کا دورہ کرکے دیکھنا، بخوبی معلوم ہوجائے گا کہ اسلام کی امانت لوگوں کے سینوں میں کس قدر ہے۔
آئیے میں آپ تمام قارئین کو ہندوستانی مسلمانوں کی ایک جھلک دکھلاؤں :
اگر آپ گاؤں میں رہتے ہیں، تو اپنے گاؤں سمیت دوسرے گاؤں کا موقع نکال کے دورہ کریں، آپ کو یہ دیکھ کے بہت تعجب ہوگا کہ بیس بیس سال کے مسلمان لڑکوں کو سورہ فاتحہ تک نہ یاد ہوگا، ان کے ہاتھوں میں کلاوے ہوں گے، ان کے گردنوں میں ایک میلی سی تعویذ لٹک رہی ہوگی، وہ آپ کو کنچے کھیلتے ہوئے ملیں گے، یا آوارہ گردی کرتے ہوئے، ان میں سے بعض ایسے ہوں گے جن کو یہ تو معلوم ہوگا کہ ان کا مذہب اسلام ہے، لیکن یہ بالکل معلوم نہ ہوگا کہ اسلام کیا ہے۔
پھر اگر تھوڑا اور آگے بڑھیں گے، گاؤں سے نکل کے چھوٹے موٹے قصبے میں پہونچیں گے، تو وہاں آپ کو تھوڑے بہت اگر پڑھے لکھے ملیں گے، تو یا تو وہ اسلام کے بارے میں بہت کم جانیں گے، اور اگر جانیں گے بھی تو فکر معاش نے ان کو اس پہ عمل کرنے سے روک رکھا ہوگا۔
ان سب باتوں سے قطع نظر، آپ جتنا آگے بڑھتے جائیں گے، آپ کو برائی کی شرح بڑھتی ہوئی نظر آئے گی، آپ شہر میں پہونچیں گے تو آپ کو برائیاں بہت زیادہ معلوم ہوں گی، میں دہلی میں بٹلہ ہاؤس میں رہتا ہوں، مگر یقین مانئے اس بٹلہ ہاؤس میں اتنی برائیاں ہیں کہ اگر ان برائیوں کو پورے ملک کے مسلمانوں پہ تقسیم کردیا جائے تو تقریبا آدھے فیصدی مسلمان برے قرار دے دئیے جائیں، چھوٹی چھوٹی بچیاں کم سنی کے عمر سے ہی بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کے رشتوں سے نہ صرف واقف ہوتی ہیں بلکہ بخوبی اس کا تجربہ بھی کرچکی ہوتی ہیں، ماں باپ کو بھی کوئی ٹینشن ہی نہیں ہوتا کہ بچی پڑھنے جارہی ہے، یا اپنے کسی بوائے فرینڈ کے ساتھ پارکوں میں گھومنے جارہی ہے، زناکاری، بدکاری، فراڈ سب ایک عام بات ہے مسلم علاقوں میں۔
میں آپ کو بتاؤں، ایک مرتبہ میں دہلی اسٹیشن پہ اترا، میں نے ایک آٹو والے سے کہا کہ مجھے بٹلہ ہاؤس جانا ہے، اس نے انکار کردیا، میں نے اس سے استفسار کیا کہ کیوں بٹلہ ہاؤس کیوں نہیں جارہے ہو، تو کہنے لگا ارے صاحب وہاں کے لوگ بہت کمینے ہوتے ہیں، میں نے کہا، نہیں نہیں، یقینی طور پہ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے تو اس نے کہا، نہیں غلط فہمی نہیں ہے، ایک مرتبہ میں ایک بندے کو لے کے بٹلہ ہاؤس گیا، جب میں اس کو اسٹینڈ کے پاس پہونچا دیا، تو اس نے کہا تھوڑا سا اور اندر گلی میں لے لیجئے، پھر اندر گلی میں لے جاکے میرا کرایہ نہیں دیا، بلکہ الٹا میرے پیسے چھین کر رفو چکر ہوگیا۔
سوچئے ذرا، یہ بٹلہ ہاؤس کا واقعہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہندوستان کا سب سے زیادہ پڑھے لکھے مسلمانوں کا علاقہ ہے، تو دیگر علاقوں کی کیا حالت ہوگی جہاں مسلمان زیادہ تعداد میں ناخواندہ ہیں.
ایک چیز میں نے نوٹ کیا ہے، کسی بھی معاشرے میں جب مفاد پہ مبنی تعلیم کو عروج نصیب ہوجاتا ہے تو وہاں سے عزت، غیرت اور حمیت رخصت ہوجاتی ہے، کہا جاتا ہے ایک غریب کے یہاں عزت کا معیار کچھ اور ہوتا ہے جب کہ ایک تعلیم یافتہ امیر کے یہاں عزت بالکل سکڑ کے چھوٹی سی ہوجاتی ہے، بیٹی کالج سے آتی ہے، بڑی خوشی کے ساتھ اپنے باپ کو فوٹو دکھاتی ہے، پاپا یہ میرا بوائے فرینڈ ہے، اچھا ہے نا، باپ بھی، ہاں بیٹی، بہت اچھا ہے، پھر بیٹی اس کے ساتھ گھومتی ہے، فلمیں دیکھتی ہے، مستی کرتی ہے، اور باپ دیوثیت کی چادر اوڑھے مستی کرتا ہے۔
زمین میں جب زناکاری عام ہوجاتی ہے، تو زمین کی بنیادیں ہلنے لگتی ہیں، نتیجے کے طور پہ زلزلوں، مصیبتوں یا آزمائشوں کی کثرت ہوجاتی ہے۔
آج مسلمان اپنے آپ پہ غور کریں، کون سی ایسی برائی ہے جو ان کے اندر نہیں پائی جاتی ہے، پھر کیوں نہ ان کے اوپر اللہ رب العالمین ان سے زءادی بروں کو مسلط کرے؟ اللہ تعالی نے انہیں “کنتم خیر امة” کا لقب دیا تھا، لیکن کیا حقیقی معنوں میں انہوں نے اپنے افراد کی اس طرح سے تربیت کی کہ خیر امت کا لقب ان کے اوپر فٹ آ سکے، ایسا بالکل نہیں ہے کہ مکمل طور سے یہ امت بری ہو، اب بھی اس امت میں خیر باقی ہے، پھر بھی اس امت کو ضروت ہے کہ اسے اس کا بھولا بسرا سبق پھر سے یاد دلایا جائے، اسے بتایا جائے کہ وہ قافلہ جو محمد اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے چلا تھا، آج کہیں نہ کہیں اپنا نشان کھوتا جارہا ہے، دین کہیں فضاؤں میں گم ہے، دین کے نام پہ زمین میں خرافات رقصاں ہیں، اسے بتایا جائے کہ اخلاق کیا ہے، عزت کیا ہے، اور عزت کی حفاظت کیا ہے، اسے بتایا جائے کہ تمہیں دنیا میں ایک مقصد کے خاطر اتارا گیا ہے، اور مقصد صرف اور صرف یہی ہے “تامرون بالمعروف و تنہون عن المنکر” لوگوں کو بھلائی کا حکم دو، برائی سے بچاؤ، انہیں بتایا جائے کہ اے لوگو! لا الہ الا اللہ کہہ دو، فلاح پاجاؤگے، برائیوں سے بچو، عزتوں کی حفاظت کرو، اسلام میں عزتوں اور عصمتوں کو ایک اہم مقام عطا کیا گیا، یہ عزت ہی کی حفاظت تو ہے کہ اگر کوئی غیر شادی شدہ اپنی عزت کو تار تار کرتا ہے تو اسے کوڑوں کی سزا سنائی ہے، اگر شادی شدہ کرتا ہے، تو اسے رجم کرنے کا حکم دیا گیا، یہ عزتوں ہی کی حفاظت کے لئے تو ہے کہ عورتوں کو زمانہ جاہلیت کی طرح ادھر ادھر گھومنے سے منع کیا ہے، اور ان کے لئے گھروں میں ٹھہرے رہنے کو زیادہ پسند کیا گیا ہے، یہاں تک کہ حکم دیا گیا کہ اگر کبھی کسی اجنبی سے بات کرنے کی ضرورت پیش آئے تو سخت لہجے میں بات کیا کرو، تاکہ وہ لوگ جن کے دلوں میں کجروی ہے وہ کسی وہم کا شکار نہ ہوں۔
حقیقت میں عزت ہے تو خاندان ہے، اور خاندان کی حفاظت ہے، عزتوں ہی کے تصور سے اخلاق بلند ہوتے ہیں، سوچوں میں بلندی آتی ہے، اور اسلام کے لئے کچھ کردکھانے کا جذبہ دل میں پیدا ہوتا ہے۔
اب بھی اگر مسلمان چاہتے ہیں، کہ وہ خیر امت ہی رہیں تو انہیں اپنی نسلوں کو تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے ساتھ ساتھ دین کا خوگر بنانا ہوگا، انہیں صحیح غلط کا فرق سمجھانا ہوگا، انہیں اسلام میں حلال و حرام کی تمیز سکھانی ہے، انہیں اخلاق کی اعلی قدروں پہ فائز کرنا ہوگا، تبھی جاکے حقیقی کامیابی نصیب ہوپائے گی، ورنہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان پہ گھیرا تنگ ہوتا جائے گا، اور اخیر میں سر پٹک پٹک کے دعائیں مانگنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوگا۔