این آرسی کے تعلق وزیر اعلیٰ سونووال کے بیان پر سپریم کورٹ کا سخت اظہار برہمی
نئی دہلی(ملت ٹائمز۔عامر ظفر)
آسام میں غیر ملکی شہری معاملے میں گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضداشتوں پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے آج اسٹیٹ کورڈی نیٹر کونیشنل رجسٹر آف سٹی زنس کا کام 31دسمبر تک مکمل کر لینے کی ہدایت دی ہے ساتھ ہی اس تعلق سے آسام کے وزیر اعلیٰ کے بیان پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے ۔ مدھو کر گپتا کمیٹی کے سربراہ کے مستعفی ہو جانے کے سبب عدالت فریقین کو ایک ہفتہ کے اندر اپنی جانب سے نام پیش کرنے کو کہا ہے ۔دریں اثناعدالت نے اس معاملے کو پہلے ہی پانچ ر کنی کانسٹی ٹیوشنل کے سپرد کیا جا چکا ہے ۔ بنچ کے ججوں کے تقرر کے بعد جلد ہی اس کی سماعت شروع ہوگی۔
جسٹس رنجن گوگوئی اور جسٹس روہنٹن نریمن کی بنچ نے اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے اسٹیٹ کورڈی نیٹر آف نیشنل رجسٹر سٹیزنس پرتیک ہجیلاسے جواب طلب کیا کہ کیا این آر سی کا کام 31دسمبر 2017 تک مکمل ہہو سکتا ہے تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا تب عدالت نے حکم دیا کہ اس کام کو 31دسمبر تک مکمل کیا جائے ۔بنچ نے آسام کے وزیر اعلیٰ سونووال کے اس بیان پرکہ ’ این آر سی کا کام 31مارچ 2018کے بجائے 31دسمبر2017 تک مکمل کر لیا جائے گا ‘سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب اس معاملے کی مانیٹرنگ خود سپریم کورٹ کر رہا ہے تو وزیر اعلیٰ کو اس میں مداخلت کرنے کا کیا حق ہے ؟عدالت نے کورڈی نیٹر کو ہدایت دی کہ اگر آئندہ کوئی اسٹیٹ اتھارٹی این آر سی کے معاملے میں مداخلت کرے تو عدالت کو آگاہ کیا جائے تاکہ عدالت اس کے خلاف حکم جاری کرسکے۔سماعت کے دوران مرکزی حکومت کی جانب سے سالیسیٹر جنرل آف انڈیا رنجیت کمار نے شرکت کی۔ایڈشنل سالیسیٹر جنرل نے عدالت کے سامنے تمام تفصیلات پیش کیں ۔اس موقع پر آسام پردیش کانگریس کمیٹی کی جانب سے مداخلت کار بننے کی درخواست بھی داخل کی گئی ۔فریقین میںصدر جمعیة علماءہندمولانا سید ارشد مدنی کی جانب سے معروف وکیل ڈاکٹر راجیو دھون،فضیل احمد ایوبی، اعجازمقبول نے پیروی کی جبکہ سماعت کے دوران معروف وکیل کپل سبل، سنجے ہیگڑے وغیرہ بھی موجود تھے۔ واضح ہو کہ جمعیة علما ہند آسام شہریت کے معاملے میں 1954سے ہی پیروی کرتی آ رہی ہے اور اس وقت بھی مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر جمعیة علما ءہند کی قانونی امداد کمیٹی اس معاملے میں سنجیدگی سے عمل پیرا ہے۔
واضح ہو کہ یہ معاملہ آسام کی تقریباً 48لاکھ خواتین کی شہریت پر منڈلا رہے خطرے سے بھی متعلق ہے ۔ ان 48لاکھ خواتین کے سر پر غیر ملکی ہونے کی تلوار لٹکا دی گئی ہے۔ سابقہ مرکز اور ریاستی حکومت نے اتفاق سے اس معاملہ کوحل کرنے کے لئے آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹی زنس تیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ جس میں شہریت کے ثبوت کے طور پر دیگر دستاویزات کے ساتھ گاﺅ ں پنچایت یعنی پردھان کے سرٹیفکیٹ کو بھی قبول کرنے کی بات کہی تھی اور اسی کی بنیاد پر قومی شہری رجسٹر تیار کیاجا رہا تھا ۔ یہ کام تقریباً مکمل ہی ہونے والا تھا کہ مرکز اور ریاست کی بی جے پی سرکارنے این آر سی کے لئے گاﺅں پنچایت کے سرٹیفکیٹ کو ثبوت ماننے سے کورٹ نے انکار کر دیا۔ ایسے میں وہ خواتین جن کی شادیاں اب سے 40-50سال پہلے ہوچکی ہیں اور وہ بیاہ کر دوسرے گاﺅںاور شہروں میں چلی گئیں انکے پاس ہندوستانی شہری ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے کیونکہ اس زمانے میں لوگ عام طور سے پیدائش سرٹیفکیٹ تک حاصل نہیں کرتے تھے ، لڑکیاں پانچویں چھٹی جماعت تک ہی اسکول جاتی تھیں اس لئے ان کے پاس اسکول کا سرٹیفکیٹ بھی نہیں ہے ۔ ایسے میں صرف گاﺅں پنجایت ہی یہ سرٹیفکیٹ دے سکتی ہے کہ فلاں عورت فلاں ِشخ±ص کی بیٹی، بہن یا بہوہے لیکن اب اسے ریاستی حکومت ماننے کو تیار نہیں ہے اور گوہاٹی ہائی کورٹ بھی اس معاملے کی تصدیق کر چکا ہے جس کے بعد جمعیة علما ہند کی آسام یونٹ کے ساتھ ساتھ دیگر تنظیموں کوبھی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹاناپڑا ۔واضح ہو کہ آسام میں فرقہ پرست جماعتیں یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ 1951کے بعد ریاست میں آنے والے کوغیرملکی قرار دیاجائے جبکہ 1985میں وزیر اعظم راجیو گاندھی اور آسو کے درمیان معاہدہ میں یہ طے پایا تھا کہ جن کے پاس 25مارچ 1971تک آسام میںرہنے کے ثبوت ہیں انہیں ہندوستانی شہری تسلیم کیا جائے گا۔لیکن فرقہ پرست تنظیمیں ان دونوں ہی معاہدوں کو نظر انداز کر کے انکی مخالفت کر رہی ہیں اور اب ایک طرح سے انہیں حکومت کی بھی خاموش حمایت حاصل ہے ۔