شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
انسان پر جیسے دوسروں کے حقوق ہیں ، اسی طرح اس پر خود اپنی ذات کا ، اپنے بال بچوں اور اپنے عزیزوں کا بھی حق ہے ؛ بلکہ یہ حق نسبتاً زیادہ اہم اور قابل توجہ ہے اور آخرت میں اس کے بارے میں جواب دہی بھی زیادہ ہے ، انسان پر اس کی ذات کے اور اس کے اہل وعیال کے کیا حقوق ہیں اور اپنے زیر پرورش لوگوں کے تئیں اس پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ؟ قرآن و حدیث میں جا بجا اس کا ذکر ہے ، یہ حقوق انسان کی مادی ضروریات سے متعلق بھی ہیں اور اس کی دینی اور اخروی حاجات سے متعلق بھی اور یقینا اس کی دینی حاجات سے متعلق حقوق زیادہ اہم ہیں ؛ کیوں کہ مادی ضرورتوں کا تعلق تو ایسے مستقبل سے ہے جو چند سالہ ہے اور جس کی انتہاء قبر کی منزل پر ہو جاتی ہے ؛ لیکن دینی اور اُخروی ضرورتیں ایسے مستقبل سے متعلق ہیں ، جن کی کوئی نہایت نہیں ، اس لئے ایک صاحب ِایمان جو آخرت میں جواب دہی کا احساس رکھتا ہو اور جو اس دنیا پر یقین کرتا ہو ، یقینا اس وسیع اور نہ ختم ہونے والے مستقبل سے بے پرواہ نہیں ہوسکتا ۔
قرآن مجید نے انسان کو اسی کی طرف متوجہ کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے ، کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ : ’’قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَ اہْلِیْکُمْ نَارًا‘‘ (التحریم : ۶) یہ آگ سے بچانا کیونکر ہوگا ؟ ایمان اور عمل صالح کے ذریعہ ، ایمان کیا ہے ؟ قرآن و حدیث میں جن جن باتو ںکا ذکر آیا ہے ، ان سب کو ماننا اور بے کم و کاست ان کا یقین کرنا ، ایمان صرف کلمہ پڑھ لینے کا نام نہیں ، اگر ایک شخص اپنی زبان سے توحید کا اقرار کرتا ہو اور قرآن کے کسی حکم کا انکار بھی ، رسول اللہ اپر ایمان رکھتا ہو ؛ لیکن آپ اکی کسی سنت کا مذاق اُڑانے سے بھی گریز نہ کرتا ہو ، آپ کو نبی مانتا ہو ؛ لیکن آپ اکے بعد کسی اور نبی کے آنے کا قائل ہو، تو بظاہر وہ صاحب ایمان محسوس ہوتا ہے ؛ لیکن حقیقت میں وہ کفر کی راہ پر ہے ، ایمان کا مسئلہ بہت نازک ہے ، بعض اوقات انسان ہنسی مذاق میں ، غیظ و غضب اور ضدو عناد میں ایسی باتیں کہہ جاتا ہے جو اسے دولت ِایمان سے محروم کر دیتی ہیں اور اسے خبر تک نہیں ہوتی ، ظاہر ہے اس نادانستہ خسران و محرومی سے بچنے کے لئے ایک ہی راہ ہے اور وہ ہے علم کے زیور سے آراستہ او راحکام دین سے واقف ہونا ، بے علمی اور نا آگہی و جہالت و نادانی انسان کو راہِ حق سے دور لے جاتی ہے اور گمراہی کے راستہ پر ڈال دیتی ہے ۔
آگ سے بچنے کے لئے دوسری ضروری چیز عمل صالح ہے ، عمل صالح کے معنی اچھے کام کے ہیں ، کوئی کام اس وقت اسلام کی نگاہ میں عمل صالح بنتا ہے ، جب اس میں تین باتیں پائی جائیں ، اول : وہ حکم خداوندی کے مطابق ہو ، دوسرے : اس عمل کو رسول اللہاکے طریقہ پر انجام دیا جائے ، تیسرے : اس کا مقصد اللہ کی خوشنودی اور رضاکا حاصل کرنا ہو ، شہرت وناموری ، عہدۂ و جاہ اور دنیا طلبی مقصود نہ ہو ، اگر یہ تینوں باتیں جمع ہوں تو وہ عمل صالح ہے اوران میں سے کوئی ایک بات بھی نہ پائی جائے ، تو وہ عمل صالح نہیں ، ظاہر ہے کہ عمل صالح کو جاننے اور اس کو اختیار کرنے کے لئے قدم قدم پر علم کی ضرورت ہے ، ایک وضو اور نماز ہی کو دیکھ لیجئے ، کہ اس سے متعلق کتنے مسائل و احکام ہیں ؟ انسان بوڑھا ہوجائے اور اپنی پوری عمر طے کر لے ، پھر بھی ان مسائل کا احاطہ نہیں کرپاتا ، ٹھوکریں کھاتا رہتا ہے ، اہل علم سے استفسار کرنا پڑتا ہے ؛ بلکہ خود اصحابِ علم بھی ایک دوسرے سے رجوع کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ، فقہ کا ایک سمندر بیکراں ہے ، جو ان ہی اعمال صالحہ کی تشریح و توضیح سے عبارت ہے ۔
غرض انسان کے اپنے آپ کو اور اپنے بال بچوں کو آخرت کی آگ سے بچانے اور جہنم کی بھٹی سے محفوظ رکھنے کا واحد راستہ ایمان اور عمل صالح ہے اور ایمان ہو یا عمل صالح ، جب تک دین کا علم نہ ہو ، احکامِ شریعت سے آگہی نہ ہو ، کتاب و سنت سے واقفیت اور دین کا فہم نہ ہو، حاصل نہیں ہوسکتا اور ایمان و عمل کا حق جہل و ناآگہی کے ساتھ ادا نہیں کیا جاسکتا ۔
اس لئے ہر مسلمان کے لئے اپنی ضروریات کے مطابق علم دین کا حصول فرائض میں سے ہے ، رسول اللہ انے بہ وضاحت ارشاد فرمایا کہ : علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ، طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم، شاید ہی دنیا کے کسی مذہب میں علم کی یہ اہمیت ظاہر کی گئی ہو ، آپ اکے اس ارشاد میں اور کوئی علم داخل ہو یا نہ ہو ، علم دین تو ضرور ہی داخل ہے ؛ کیوںکہ یہ ایسا فریضہ ہے کہ جس کے بغیر دین کا کوئی فرض ادا ہو ہی نہیں سکتا ، وضو اس لئے فرض ہے کہ اس سے نماز ادا کی جائے ، حرمین شریفین کا سفر اس لئے فرض ہے کہ حج کی ادائے گی ہوسکے ، تو علم سے تو تمام ہی فرائض متعلق ہیں ، نماز و روزہ حج و زکوٰۃ ، نکاح و طلاق ، حلال وحرام ، خلوت و جلوت اور رزم و بزم ، کونسی جگہ ہے اور کونسا موقع ہے ، جہاں انسان علم کا محتاج نہ ہو ، اس لئے علم دین اہم ترین فریضہ ہے ، ایسا فریضہ کہ جس پر تمام فرائض کی ادائے گی منحصر ہے ۔
اس لئے یقینا قرآن مجید نے اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچانے کا حکم دے کر بالواسطہ علم کی طرف متوجہ کیا ہے ، ہندوستان کے موجودہ حالات میں اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے ، ہمارے سرکاری نظام تعلیم میں آزادی کے بعد ہی سے ہندو تہذیب کی چھاپ ڈالنے کی کوشش رہی ہے ؛ لیکن اب یہ کوشش بے لباس اور تیز رفتار ہے ، مسلمان بچوں کو مشرکانہ فکر سے مانوس کیا جارہا ہے ، دیویوں اوردیوتاؤں کا تقدس ان کے ذہنوں میں بٹھایا جاتا ہے ، ہند و بزرگوں کی عظمت ان کے قلوب میںراسخ کی جاتی ہے ، مسلمانوں کی تاریخ کو ڈاکووں اور لٹیروں کی تاریخ کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے ؛ تاکہ مسلمان بچے احساسِ کمتری میں مبتلا ہوں ، یہاں تک کہ پیغمبر اسلام اکی سیرتِ مبارکہ اور اسلام کے قرنِ اول کی تاریخ کو بھی مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے ؛ تاکہ پیغمبر اسلام ااور آپ اکے رفقاء کی عظمت نئی نسل کے دل سے نکل جائے ، اس صورتِ حال میں مسلمانوں کی نئی نسل کے لئے دینی تعلیم کی اہمیت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے ۔
دینی تعلیم کا ایک درجہ تو ضروریاتِ دین کی تعلیم کا ہے ، یہ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے ، ہمارے جو بچے عصری درسگاہوں میں زیر تعلیم ہیں ، ان کے لئے بھی قرآن مجید کا باتجوید ناظرہ ، کچھ سورتوں کا حفظ ، رسول اللہ اکی سیرت ، ضروری فقہی مسائل اور شب و روز کے مختلف احوال سے متعلق جو ادعیہ واذ کا ر منقول ہیں ، ان کا یاد کرانا تو ہر مسلمان بچے کے لئے ضروری ہے ، اب اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ضروری ہوگئی ہے کہ ان کو اسلام کی اور مسلمانوں کی تاریخ بھی پڑھائی جائے ؛ تاکہ وہ احساسِ کمتری سے بچ سکیں اور اسلام پر مغربی مصنفین اوران سے متأثر ہو کر مشرق کے اہل علم جو اعتراضات کرتے ہیں ، ان کے جواب میں بھی رہنمائی کی جائے ؛ تاکہ غلط فہمیوں اور پروپیگنڈوں کے دامِ ہم رنگ ِزمین سے اپنے آپ کو بچاسکیں۔
علم دین حاصل کرنے کا دوسرا درجہ یہ ہے کہ اُمت میں کچھ لوگ قرآن و حدیث کا تفصیلی علم حاصل کریں ، کتاب و سنت پر ان کی گہری نگاہ ہو، فقہ اسلامی پر ان کی وسیع نظر ہو ۔
ایمانیات اور عقائد کی گہرائیوں تک ان کی رسائی ہو ، ہر عہد میں اسلام کے خلاف جو فتنے کھڑے ہوں ، وہ ان کے مقابلہ کی صلاحیت کے اہل ہوں ، وہ اسلام کی فکری سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ انجام دیں اور اپنے عہد کے پیدا ہونے والے مسائل کو فراست ِایمانی کے ساتھ کتاب وسنت کی روشنی میں حل کریں ، یہ اُمت پر فرضِ کفایہ ہے ، جیسے کسی ملک کی سرحد پر فوج کا دستہ کھڑا رہتا ہے ، بظاہر ایسا لگتا ہے ، کہ اس پر مفت میں کثیر اخراجات ہو رہے ہیں ؛ لیکن حقیقت میں وہ ملک کے سب سے بڑے محسن اور اس کی سلامتی کے ضامن ہیں ، یہی مقام فکری اعتبار سے کسی بھی سماج میں علماء ِدین کا ہے ، یہ ہمارے معنوی وجود ، ہمارے فکری تشخص اور ہمارے تہذیبی امتیازات کے محافظ ہیں ، کسی سماج میں اگر کوئی عالم نہ ہو تو کافرانہ طاقتیں علانیہ یا نادانستہ ان کو اُچک سکتی ہیں ، عالِم ممکن ہے عمل کے اعتبار سے کوتاہ ہو ؛ لیکن انشاء اللہ وہ کسی گمراہی کے بارے میں غلط فہمی میں نہیں پڑسکتا اور پروپیگنڈہ سے متاثر نہیں ہو سکتا ؛ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کا کوئی خاندان ایسا نہ ہو جو عالم دین سے خالی ہو ، یہ انشاء اللہ اس پورے خاندان کے لئے حفاظت ِدین کی ضمانت ہے ۔
بد قسمتی سے مسلمانوں نے ایسا سوچ لیا ہے کہ یہ عظیم الشان علم صرف غریب اور پسماندہ مسلمانوں کے لئے ہے ، مسلمانوں میں مرفہ الحال اور اصحاب ثروت کا طبقہ علم دین کی طرف سے بالکل ہی بے توجہ ہے ؛ بلکہ وہ اسے حقارت اور کمتری کی نظر سے دیکھتا ہے ، یہ نہایت ہی افسوس ناک بات ہے ، یہ سمجھنا تو درست نہیں کہ یہ غریب طلبہ ، کند ذہن اور فکری اعتبار سے مفلس ہوتے ہیں ؛ کیوں کہ ذہانت کا دولت و غربت سے کوئی تعلق نہیں ؛ بلکہ تجربہ یہ ہے کہ غریب ماحول کے بچے علم کی طرف زیادہ متوجہ رہتے ہیں ؛ چنانچہ اس وقت آئی اے ایس اوراعلیٰ تعلیم کے شعبوں میں زیادہ تر اسی طبقہ سے طلبہ کامیابی حاصل کر رہے ہیں ؛ لیکن اس کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ جو طالب ِعلم معاشی اعتبار سے پست ماحول سے اُٹھتا ہے ، وہ بہر حال نفسیاتی اعتبار سے احساسِ کمتری کا شکار رہتا ہے اور سماج میں جو مرفہ الحال طبقہ ہے ، اس سے آنکھیں ملا کر بات کرنے کی قوت اپنے اندر نہیں پاتا ، اس سے سماج میں کچھ لوگ دینی رہنمائی اور اپنی کوتاہیوں کی اصلاح سے محروم رہتے ہیں ، اگر سماج کے معزز سمجھے جانے والے لوگ علم دین حاصل کریں تو وہ اپنے طبقہ کے لوگوں سے آنکھیں ملا کر باتیں کر سکیں گے اور بے جھجک اسلامی تعلیمات کو ان کے سامنے پیش کریں گے ، اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج کے معزز اور مرفہ الحال لوگ علم دین کی طرف متوجہ ہوں اور اس علم کو حاصل کرنے میں آگے آئیں ۔
قابل فکر امر یہ ہے کہ آخر علم دین کی طرف سماج کے اونچے طبقے کی توجہ کیوں نہیں ہے ؟ حالاںکہ ہر شخص کو اس بات کا اعتراف ہے کہ جو بچے دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں ، ان میں تہذیب و شائستگی اور بڑوں کی توقیر ، چھوٹوں کے ساتھ شفقت ، اپنے پرائے کے ساتھ حسنِ سلوک ، نگاہ اور زبان کی حفاظت اور اپنے فرائض کے تئیں جواب دہی کے احساس کا عنصر زیادہ ہوتا ہے ؛ لیکن کیا بات ہے کہ اس کے باوجود علم کا یہ شعبہ لوگوں کے التفات سے محروم ہے ؟؟ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ جو لوگ دین اور علم دین کی خدمت میں مشغول ہیں ، ان کے پاس مادی وسائل کم ہیں ، ان کو کم تنخواہوں پر اکتفا کرنا پڑتا ہے ، یہی ایک بات ہے جس نے مادہ پرست اذہان اور حریصانہ فکر و ذہن کے حاملین کو علم دین کی طرف آنے سے روکا ہوا ہے ، وہ سمجھتا ہے کہ ان کے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا ؟ وہ کیا کھائیں گے ؟ اور کیوںکر زندگی گذاریں گے ؟
اس سلسلہ میں مسلمان سماج کے لئے دوباتیں قابل توجہ ہیں : اول یہ کہ کیا مسلمانوں کا معاشرہ اپنے دینی تحفظ کے لئے ایک ایسے طبقہ کی صحیح طریقہ پر کفالت نہیں کر سکتا جن کی تعداد بہ مشکل ایک فی ہزار ہوگی ؟ اگر مسلمان اپنی دوسری ضروریات کی طرح دینی خدمت گذاروں کو بھی اپنے لئے ایک ضرورت باور کریں اور فراخ حوصلگی کے ساتھ ان کے تعاون کے لئے ہاتھ بڑھائیں اور خادمین دین کو کم سے کم معاشی اعتبار سے اس لائق بنائیں کہ وہ متوسط طریقہ پر سماج میں اپنی زندگی بسر کر سکیں ، تو یقینا اس علم سے بے اعتنائی اور بے رغبتی کی یہ کیفیت باقی نہیں رہے گی اور یہ کچھ مشکل نہیں ہے ، بعض وہ قومیں جو باطل فکر و نظر کی حامل ہیں ، اپنے مذہب اور مذہبی شخصیتوں کے لئے کل آمدنی کا دس فیصد وقف کی ہوئی ہیں ، مسلمان اتنی بڑی قوم ہے کہ اگر وہ آمدنی میں دین کے خدمت گذاروں کے لئے ایک فی صد بلکہ نصف فی صد بھی حصہ مقرر کرلیں تو ان کے ائمہ ، مؤذنین ، علماء اور دینی کام کرنے والے بہتر حالات میں اپنی زندگی گذار سکتے ہیں اور بعض اوقات غربت و احتیاج کی وجہ سے اس طبقہ میں جو دناء ت اور پستی کی بعض باتیں پیش آتی ہیں ، ان کی نوبت بھی نہ آئے گی ، کاش ! مسلمان اس پہلو سے غور کریں ، کہ خادمین دین کے وقار کو بلند کرنا در اصل خود دین کے وقار کو بلند کرنا ہے ۔
دوسری ضروری بات یہ ہے کہ آج کی دنیا میں معیشت کا علم سے کچھ زیادہ ربط نہیں ہے ، ہمارے اسی شہر میں کتنے لوگ ہیں جو نشانِ ابہام سے کام چلاتے ہیں ؛ لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ان کے ملازم ہیں اور دولت ان کے قدموں میں نثار ہے ، کتنے انجینئر بیکار ہیں اور کتنے ڈاکٹر بے روزگار ہیں اور کتنے قانون داں مؤکل کی تلاش میں خاک چھانتے نظر آتے ہیں ، اس لئے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ اگر ایک شخص علم دین حاصل کرے گا تو بھوکا مرے گا اور دوسرے علوم حاصل کرے گا تو اس کے گھر میں ’’ ہن‘‘ برسنے لگیں گے ، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رزاق اور روزی رساں ہیں ، چاہیں تو پڑھے لکھے لوگوں کو محروم رکھیں اور چاہیں تو جاہلوں کو سر فراز فرمادیں ، پھر یہ ایک نظریہ نہیں ؛ بلکہ تجربہ اور آزمودہ حقیقت ہے کہ جو لوگ اللہ کے دین کے کام میں مشغول ہیں ، اللہ ان کو ضائع نہیں کرتا اور غیب سے ان کی کفالت کا سروسامان کرتا ہے ، آخر اسی معاشرہ میں وہ دینی تعلیم یافتہ لوگ بھی موجود ہیں جو خوش پوش بھی ہیں ، باعزت طریقہ پر اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں اور کسی کے سامنے دست ِسوال پھیلانے پر مجبور نہیں ہیں ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُمت کے دل میں ان کی محبت اس طرح ڈال دی ہے کہ مشکل مواقع پر بلا کہے سنے اور بلا طمع واشراف وہ لوگوں کی توجہ کا مرکزبن جاتے ہیں ، اس لئے بھروسہ اللہ پر ہونا چاہئے ، اگر ایک مسلمان میں اللہ کی رزاقیت کا یقین بھی نہ پیدا ہو ، تو یہ کیسا کھوکھلا اور بے روح ایمان ہے ؟
پس ہندوستان کے موجودہ حالات میں اور عالمی حالات کے پس منظر میں یہ بات ضروری ہے کہ مسلمان دینی تعلیم کی اہمیت کی طرف متوجہ ہوں ، آج ہمارے ملک میں مدارس اسلامیہ کے خلاف آوازیں اُٹھائی جارہی ہیں ، عالمی سطح پر بھی ان کو بنیاد پرستی اور دہشت گردی کا مرکز قرار دیا جارہا ہے ، یہ سب ان لوگوں کی زبان ہے کہ اسلام سے جن کی عداوت ظاہر وباہر ہے ، اعداء ِاسلام کا یہ رویہ سرمایہ عبرت ہے ، جو لوگ حق وراستی کے دشمن ہوں ، وہ تو مدارس کی اہمیت کو سمجھ لیں کہ جو لوگ صاحب ِایمان اور اسلام کے نام لیوا ہیں ، وہی اسلام کی حفاظت اور اس کی بقا میں مدارس کی کردار کی اہمیت کو نہیں سمجھیں ، اس سے زیادہ قابل افسوس اور کیا بات ہوگی ؟ ( ملت ٹائمز)