امارت شرعیہ اور دعوت دین و تنظیم ملت

مفتی محمد سہراب ندوی

دعوت وتبلیغ ایک اہم دینی فریضہ ہے، دعوت کی محنت اور تبلیغ کی خدمت کے ذریعہ ہی دین کی وسعت اور استحکام کام انجام پاتاہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبہ میں پوری وضاحت کے ساتھ امت کو یہ ذمہ داری سپردکی کہ میرے پیغام کا سننے والاا ن لوگوں تک اس پیغام کو پہونچادے جو یہاں موجود نہیں ہیں، اورقرآن پاک میں جگہ جگہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ دین کی تلقین کی گئی اورامت محمدیہ کو مخاطب کرکے حکم دیا گاکہ وہ اس دین کو ان لوگوں تک پہونچائیں جہاں تک یہ دین نہیں پہونچا ہے اور جہاں کہیں دین میں کوئی فساد بگاڑ نظر آئے تو اپنی صلاحیت کے مطابق اس کو دور کرنے کی کوشش کرے۔بلاشبہ یہ حقیقت ہے کہ دعوت کے ذریعہ افراد کی مزاج سازی اور دل کی آبیاری ہوتی ہے اور صلاح وفلاح کاکام انجام پاتاہے، چنانچہ امارت شرعیہ کے اکابر نے امارت کے بنیادی شعبوں میں سب سے پہلا شعبہ دعوت وتبلیغ کو قرار دیا تاکہ اس کے ذریعہ نظام امارت کی افادیت ،انفرادی واجتماعی زندگی میں نفاذ شریعت کی ضرورت اور ایک صالح معاشرہ کی تعمیر کی اہمیت سے عوام وخواص کوروشناس کرایا جائے اور جہد مسلسل کے ذریعہ زندگی کے ہرشعبہ میں دین وشریعت کی بالادستی قائم رکھی جائے، اس فکر کے نتیجہ میں دعوت تبلیغ کی جو محنت امارت شرعیہ کے اس شعبہ کے ذریعہ انجام دی جارہی ہے وہ اپنے آپ میں مثالی بھی ہے اور ہمہ جہتی کا آئینہ دار بھی، اس شعبہ میں ہمیشہ علماءکی ایک بڑی جماعت اسی خدمت پر ماموررہتی ہے جوسال بھر شہروں اور دیہاتوں کا انفرادی دورہ کرکے عوام وخواص کو دین کی عظمت ،تعلیم کی اہمیت،صالح معاشرہ کی خیروبرکت اورایک داعی امت کی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتی ہے، امارت شرعیہ اور امیر شریعت کا پیغام ان تک پہونچاتی ہے، جس کے بہت ہی مفید اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس شعبہ کے تحت گاہے گاہے امارت شرعیہ کے ذمہ دارعلماءکرام بھی وفود کی شکل میں دعوتی واصلاحی دورے کرتے ہیں، ۷۱۰۲۔۶۱۰۲میں ۰۲سے زائد اضلاع کے وفود کی شکل میں دورے کئے گئے، جبکہ مبلغین کے انفرادیءدوروں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ آبادیوں تک پہونچتی ہے، وفود کے دوروں میں خاص طورپر اتحاد ملت کی اہمیت ،تعلیم کی اشاعت اور معاشرہ کی اصلاح کی ضرورت پر روشنی ڈالنے کے ساتھ مکاتب کے قیام،مساجد کی آبادی ،اورآپسی تنازعات کے حل پر خاص طورسے توجہ دی گئی، اسی شعبہ کے تحت دعوتی نقطہ نظرسے ہزاروں خطوط،متعدد قسم کے اشتہارات ،اصلاحی ومعلوماتی پمفلٹس اور کتابچے بڑی تعداد میں خواص کے درمیان تقسیم کئے گئے، اگر کہیں قادیانیوں اور عیسائی مشنریوں کی طرف سے کوئی فتنہ پیداکرنے کی کوشش کی گئی تواس کا تدارک کیاگیا،تعلیمی بیداری ،تحفظ شریعت اور اصلاح معاشرہ کے عنوان سے بڑے بڑے اجلاس منعقد کرکے دینی وتعلیمی بیداری کی تحریک کو مستحکم کیا جاتاہے۔
تنظیم ایک ایسی زندہ قوت کانام ہے جو قوموں کو ظاہری ومعنوی استحکام عطاکرتی ہے اور خدا کی رحمت ونصرت کا حقدار بناتی ہے، ملت اسلامیہ ایک جماعتی نظام سے مربوط امت ہے، اللہ کا وعدہ ہے کہ جماعتی نظام جتنا مضبوط ومستحکم ہوگا خدا کی نصرت ومدد اسی اعتبار سے اس کے شامل حال ہوگی، امارت شرعیہ کے بانیوں نے ملت کو کلمہ کی بنیاد پر اسی تنظیمی کڑی سے مربوط کرنے کے لئے دوسرا شعبہ تنظیم قائم کیا، اس شعبہ کے ذریعہ ملت کے افراد کو کلمہ کی بنیاد پر آپس میں متحد رہنے کی دعوت دی جاتی ہے اوراسی اتحاد کو مستحکم رکھنے کے لئے ایک امیر شریعت کی ماتحتی میں زندگی گذارنے کی تلقین کی جاتی ہے۔علامہ اقبال رحمة اللہ نے کہاتھا:
فردقائم ربط ملت سے ہے تنہاکچھ نہیں
موج ہے دریامیں اوربیرون دریا کچھ نہیں
ملت کا ہرباشعور فرد اجتماعت کی قوت اور اتحاد کی اہمیت سے واقف ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں نبی اکرم ﷺ کے واسطے سے اس ملت کو بتایاکہ تمہارے لئے ہمارابڑا انعام یہ ہے کہ ہم نے تمہارے دلوں کو آپس میں جوڑدیا اور تمہارے لئے سب سے بڑی ناکامی یہ ہوگی کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے ٹوٹ جاﺅ اوراختلاف وانتشار کی لعنت میں مبتلاہوجاﺅ اور نبی اکرم ﷺ کی زبان سے باربار اس بات کی تاکید کی گئی کہ یہ امت اس وقت تک سربلند رہے گی جب تک اتحاد واتفاق کی خوشبو سے اس کی زندگی معطر رہے گی،امارت شرعیہ کے اس شعبہ کے ذریعہ ملت کو مربوط رکھنے کایہ عظیم الشان کام انجام پاتاہے، بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ کے لاکھوں مسلمان آج تنظیم امارت شرعیہ کی کڑی سے مربوط ہیں، اورایک امیر شریعت کی ماتحتی میں دینی زندگی گذارنے کی سعادت سے بہرہ ور ہیں،اس شعبہ کے ذریعہ تقریبا آٹھ ہزار گاﺅں اور شہروں میں تنظیم امارت قائم ہے اور تنظیم کے ذمہ دارنقباءونائبین کی تعداد سولہ ہزار تک پہونچتی ہے، تنظیم امارت کا قیام ایک خاص نہج پر ہوتاہے، مبلغین امارت شرعیہ مسلم آبادیوں میں جاکر آبادی کے بااثر افراد،علماءاور ذمہ داروں کو جمع کرکے انہیں وحدت واجتماعیت کی اہمیت سے روشناس کراتے ہیں اورآبادی کی سطح پر ایک ذمہ دار کی ماتحتی میں تنظیمی ڈھانچے کو وجود دیتے ہیں، تنظیم کا جو ذمہ دار منتخب ہوتاہے اس کو نقیب کہاجاتاہے ،جو اپنی آبادی میں امیر شریعت کا نمائندہ کہلاتاہے، اور اس کے علاوہ آبادی کے دیگر افراد بطور ممبر اس تنظیم کا حصہ بنتے ہیں، اس طرح پوری آبادی ایک لڑی میں پرودی جاتی ہے اور آبادی کی سطح پر دینی وحدت واجتماعیت کا بابرکت ڈھانچہ وجود میں آجاتاہے، نقیب اور ممبران قومی محصول کے نام پر سال میں ایک خاص رقم اداکرتے ہیں جو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ان کی تنظیم زندہ اور ان کارشتہ امیراورامارت شرعیہ سے قائم ہے۔نقیب کو حضرت امیر شریعت کی طرف سے کچھ ذمہ داریاں سپردکی جاتی ہیں اورانہیں ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو احساس ذمہ داری کے ساتھ اداکریں، نقیب کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو شریعت کا پابند بنائے اوراس کے بعد اپنی آبادیوں میں نیکی کو فروغ دینے اور برائیوں کو دورکرنے کی فکرکرتا رہے ،تعلیم کے لئے مکاتب اور تعلیمی ادارے قائم کرنے کی کوشش کرے، آبادی کو اختلاف وانتشارر سے محفوظ رکھے اور تعمیر ملت کے ہرکام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتارہے، غرض امارت شرعیہ کے اس نظام کے ذریعہ ملت کو اجتماعیت کی نعمت اور اتحاد کی قوت حاصل ہوتی ہے، جو بلاشبہ اس کی سربلندی کے لئے اولین زینہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
( مضمون نگار امارت شرعیہ کے نائب ناظم ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں