عظیم اللہ قاسمی
9؍اگست1942ء کو ممبئی میں کانگریس کمیٹی کے اجلاس کے بعد مہاتما گاندھی کے پرجوش اعلان کے ساتھ کوئٹ انڈیا موومنٹ کا آغا ز ہوا ۔اس تحریک کو ا مسال ۷۵؍سال ہورہے ہیں ۔آج سے پون صدی قبل چلنے والی اس تحریک کو گرچہ کچھ حلقوں کی جانب سے ناکام اور بے اثر بتانے کی کوشش کی جارہی ہے ، تاہم یہ سچ ہے کہ اس نے محض پانچ سال بعد ناممکن سی نظر آنے والی آزادی وطن کے لیے راہ ہموار کی ۔۱۸۵۷ء کی ناکامی کے بعد یہ پہلی جد وجہد تھی جس میں قوت بھی تھی اور تمام طبقات کی شرکت بھی ، گرچہ یہ تحریک عدم تشدد کی بنیاد پر شروع ہوئی تاہم اس میں تشدد کی ملاوٹ فطری تھی اور کئی جگہوں پر اس کا مظاہرہ بھی ہوا ۔اس تحریک کو آج ہندستا ن میں ایک اہم اور بنیادی مقام حاصل ہے، تمام تاریخ کی کتابوں میں اس پر تبصرے ہیں، مگر ا س حقیقت پر زیادہ بحث نہیں ہوتی کہ ہندستان میں ہی چند ایسی جماعتیں تھیں جو اس کے خلاف تھیں او رجنھوں نے اسے ناکام بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا، اس میں سر فہرست محمد علی جناح کی مسلم لیگ، ساورکر کی ہندو مہاسبھا اور گولوالکر کی آرایس ایس تھی ۔ محض پچھتر سال بعد آج یہ جماعتیں اپنے اپنے ملکوں میں خود کو قوم پرور کہہ رہی ہیں، لیکن ماضی میں ان کی قوم پر وری کا یہ حشر تھا ۔ہاں ا س تحریک کا بگل سب سے پہلے مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی جمعےۃ علماء ہند اورجواہر لال نہرو کی کانگریس نے بجایا اور ان کے ہی کارکنا ن اس تحریک کے ایندھن بھی بنے اور قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔
کوئٹ انڈیا موومنٹ کا پس منظر
اس تحریک کا سب سے بڑی وجہ جنگ عظیم دوم کا آغاز تھی ، جس میں برطانیہ جرمنی کے خلاف نبرد آزما تھا۔ایڈلف ہٹلر کی قیادت والی جرمنی نے پولینڈ سے جنگ شروع کردی تھی ، برطانیہ نے اس اعلان کے ساتھ پولینڈ کی حمایت کی کہ برطانیہ اقوام کی آزادی کا داعی ہے اور آزادی کی حمایت اس کا حتمی فریضہ ہے ۔ چوں کہ ہندستان مملکت برطانیہ کا غلام اور زیر نگیں تھا ، اس لیے یہاں کے گورنر جنرل لارڈ لنلتھگوبلامشاورت ،ہندستان کو بھی اس جنگ میں بطور ایندھن کے جھونک دینا چاہ رہے تھے اور انھوں نے اس پر عمل بھی کیا۔ گورنر جنرل نے ہندستان کی سیاسی اور تحریکی جماعتوں سے اس سلسلے میں مشورہ لینا بھی ضروری نہ سمجھا ۔حکومت برطانیہ کے اس غرور پر مبنی فیصلے کے خلاف جو کسی قوم کو غلام سمجھنے کی دلیل اور علامت تھی ، قوم پرست جماعتوں بالخصوص آل انڈیا کانگریس کمیٹی اور جمعےۃ علماء ہند نے مخالفت کی ۔۳؍ستمبر ۱۹۳۹ء کو جنگ کا باضابطہ آغاز ہو چکا تھا ۔اس کے محض تیرہ یوم بعد ۱۶؍ستمبر ۳۹ء کوجمعےۃ علماء ہند نے میرٹھ میں مجلس عاملہ کا اجلاس طلب کیا ، جس میں مسلم لیگ او رمجلس احرار کے نمائندوں کو بھی دعوت دی گئی تھی ، مسلم لیگ کے نمائندے شریک نہیں ہوئے ، لیکن مجلس احرار کے ذمہ حضرات شریک ہوئے ۔ اجلاس کے بعد جمعےۃ علما ء ہند نے اپنے بیان میں صاف کیا کہ’’ موجودہ جنگ میں برطانوی امپیرلزم کی امداد کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے ، نیز اس کے نزدیک یہ لازمی اور ضروری ہے کہ موقع پر اہمیت اور نزاکت کو ملحوظ رکھتے ہوئے تمام مسلمان بلکہ تمام ہندستان مل کر ہندستان کی طرف سے اپنی خود داری اور وقار کے لحاظ سے ایک فیصلہ کریں اور سب مل کر ایک ہی راستہ اختیار کریں کہ یہ ان کی نجات اور آزادی کا حقیقی مدار ہے ۔‘‘ ( جمعےۃ علماء کیا ہے ص ۲۰۶، مطبوعہ الجمعےۃ بکڈپو بلی مارا ن دہلی)
جمعےۃ علماء ہند اور مجلس احرار نے اپنے بیان میں برطانیہ سے عدم تعاون کا اظہار کردیا تھا ، اس کے تقریبا ۱۵؍یوم بعد ۱۰؍اکتوبر ۱۹۳۹ء کو کانگریس ورکنگ کمیٹی نے بھی اپنی تجویز میں صاف کردیا کہ وہ انگریزوں کے ساتھ جنگ میں شریک نہیں ہوسکتی ، کیوں کہ ان سے پہلے مشورہ نہیں کیا گیا۔ کانگریس نے اپنی تجویز میں ایک بہت چبھتی ہوئی بات بھی کہی کہ گر برطانیہ آزادی اور جمہوریت کی بنیاد پر یہ جنگ لڑرہی ہے ، تو اسے جہاں سامراج ہے ، اس کو ختم کر نا ہو گا ۔ ۱۷؍اکتوبر۳۹ء کو برٹش سامراج نے اس کے جواب میں ایک لالچ دی کہ جنگ کے بعد وہ ایکٹ 1935 میں ہندستانیو ں کی مرضی کے مطابق ترمیم کرے گی ۔گاندھی جی نے جواب دیا کہ ’’تقسیم کرو اور راج کرو‘‘ کی پالیسی ہے، ہندستانی کو روٹی چاہیے اور برطانیہ ہمیں پتھر دینے کا وعدہ کررہی ہے ۔
کوئٹ انڈیا موومنٹ کی دوسری وجہ کرپس مشن کی ناکامی بھی رہی ، ۲۲؍مارچ ۱۹۴۲ء کو برٹش سرکار نے ہندستان کی ذمہ دار جماعتوں اور اپنے درمیان تعطل کو ختم کرنے کے لیے سر اسٹیفورڈ کرپس کو دہلی ارسال کیا ، انھوں نے بھی جنگ میں حمایت طلب کی اور اس کے بدلے وعدہ فردا کیا کہ وہ ہندستان کو جنگ کے خاتمے کے بعد کنسٹی ٹیونٹ اسمبلی ، ڈومینین حکومت وغیرہ مہیا کرائیں گے۔ہمیشہ کی طرح انگریزوں کا وعدہ پر فریب تھا۔ مہاتما گاندھی نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ یہ وعدے ایسے ہی ہیں جیسے کسی شخص کو گزری ہوئی تاریخ کابینک چیک دیا جائے ۔اتفاق سے جس دن اسٹیفورڈ صاحب دہلی آئے اسی دن جمعےۃ علماء ہند کا سترہواں اجلاس عام لاہور میں زیر صدارت حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ منعقد ہو رہا تھا ، جمعےۃ نے اپنی تجویز میں صاف کیا کہ اس کا نصب العین آزادی کامل ہے ، وہ کسی ایسے آئین کو ہرگز قبول نہیں کریں گے جس کی بنیاد ایسی آزادی کامل پر نہ رکھی گئی ہو ( جمعےۃ علماء کیا ہے ، ص ۲۳۱)۔ جمعےۃ نے اسی اجلا س میں کرپس مشن کو بھی وقت کے بعد کی راگنی قرار دیا ۔ا س کے بعد جولائی ۱۹۴۲ء میں کانگریس پارٹی نے بھی فوری آزادی کا مطالبہ دوہرایا، جس کی وجہ سے کانگریس کے کئی موقر اراکین پارٹی سے الگ بھی ہوئے ۔
کویٹ انڈیا موومنٹ کا باضابطہ آغاز
کرپس مشن کی ناکامی کے بعد ملک میں حریت پسندو ں کی سرگرمی بڑھ گئی تھی۔ جون ۴۲ ء میں مسلم رہنما حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کو ان کی بچھرایوں کی تقریر کی بنیاد پر گرفتار کرلیا گیا ، جس کو لے کر مسلمانو ں میں کافی بے چینی تھی ۔ادھر مہاتما گاندھی نے ۹؍اگست ۴۲ء کو ممبئی میں ’’انگریزو ، بھارت چھوڑو ‘‘ کا نعرہ دے دیا ۔حالاں کہ اس سے چار یوم قبل ۵؍اگست ۱۹۴۲ء کو جمعیۃ علماء ہندکی مجلس عاملہ کے ۴ مقتدر ارکان مفتی اعظم مولانا محمد کفایت اللہ، مجاہد ملّت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، سحبان الہند مولانا احمد سعید، مولانا عبدالحلیم صدیقی لکھنوی کے دستخطوں سے ایک اخباری بیان جاری ہو چکا تھا ، جس میں موجودہ حالات میں صاف لفظوں میں کہا گیا تھا کہ انگریز ہندستان چھوڑ دے‘‘۔ ۹ ؍اگست کو تحریک کے آغاز کے بعد ہی جواہرلال نہرو، مہاتما گاندھی سمیت کانگریس کے ہزاروں کارکن گرفتار ہوئے ، ادھر جمعےۃ علماء کے بھی ہزاروں کارکنان نذر زنداں کردیے گئے،تقریبا ایک لاکھ افراد قید ہوئے ، سینکروں کو قتل کردیا گیا۔
امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد، مجاہد ملّت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا سیّد محمد میاں دیوبندی، مولانا نورالدین بہاری، وغیرہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں، جو فوری طور سے گرفتار ہوئے، شیخ الاسلام مولانا سیّد حسین احمد مدنی پہلے ہی گرفتار کیے جاچکے تھے۔ ان گرفتاریو ں کے خلاف جمعےۃ علماء ہند نے ۱۸،۱۷؍اگست ۱۹۴۲ء کو اپنے اجلاس میں ایک تجویز منظور کی ، جس میں اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا گیا ۔ڈیرھ سال بعد ۲۶؍اکتوبر۱۹۴۳ء کو جب جمعےۃ علماء ہند کااجلا س ہو رہا تھا ، تو اس کے نصف درجن اراکین جیل میں بند تھے ۔ ۱۹۴۴ء میں ان علماء اورکانگریس کے وطن پروروں کو رہا گیا ۔حضرت مدنی ؒ سو ا دوسال جیل میں بند رہے ۔
کوئٹ انڈیا موومنٹ کے مخالفین
ان محب وطن جماعتوں کے علاوہ چند ایسی جماعتیں اور تحریکیں بھی تھیں جو اس عظیم تاریخی تحریک کے خلاف تھیں، ان میں سر فہرست نام مسلم لیگ، ہندو مہاسبھا اور آرایس ایس اور کمیونسٹ پارٹی کا لیا جاسکتا ہے ۔یہ جماعتیں موجودہ عہد میں اپنے اپنے ملک میں قوم پرور اور دوسروں کو قوم دشمنی کا طعنہ دیتی ہیں، لیکن اس دور میں ا ن کا کرداد انتہائی مکروہ او رتکلیف دہ تھا ۔مسلم لیگ کو تو علیحدہ ملک کی بیماری لاحق تھی ، اس لیے انگریزوں کی سرپرستی میں ہی اس کا فیصلہ چاہ رہی تھے ، چنانچہ مسلم لیگ نے ہندو مہاسبھا کے اتحاد سے بنگال ، سند ھ وغیرہ میں اپنی حکومت قائم کرلی اور اس تحریک کو غلط قراردیتے ہوئے خود الگ کرلیا ۔ بنگال میں شیاما پرساد مکھرجی مسلم لیگ کے ساتھ حکومت چلارہے تھے ۔ انھوں نے انگریزوں کو خط لکھ کر اپنی حمایت ظاہر کی اور یقین دلایا کہ بنگال میں ا س تحریک کو ناکام کردیا جائے گا ( شیاماپرساد کی ڈایری، آکسفورڈ یونیورسٹی، ہسٹری آف مارڈن بنگال مصنفہ آرسی مجمدار) آرایس ایس کے اس وقت کے سربراہ ایم ایس گولوالکر نے اس تحریک سے خود کو وابستہ ہونے سے منع کردیا ، ممبئی سرکار نے آرایس ایس کے ا س قدم کی خوب تعریف کی ( کمیونلزم مصنفہ بپن چندرا)
آج جب کہ کویٹ موومنٹ کے پچھتر سال ہورہے ہیں، ملک میں کہیں بھی اس سے سلسلے کا کوئی پروگرام اور جشن نہیں ہے ، ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ موجود ہ اقتدار اس جذبہ حریت سے خالی ہے ، جس کا بگل مہاتما اور مدنی نے مل کر بجا یا تھا ، حالاں کہ وزیر اعظم مودی نے اس موقع پر جشن منانے کا اعلان کیا تھا مگر اس پر عمل نہیں ہورہا ہے ، کانگریس پارٹی جس کی تاریخ اور روایت رہی ہے ،اس کی صدر نے پارلیامنٹ میں اس موضوع پر بڑی بہترین تقریر کی اور سرکار اور اس کے ہنمواؤں کو جم کر سنایا ۔ آج کی قوم پرور جماعتیں بالکل خاموش ہیں، وہ شاید تاریخ سے اپنا منہ نہیں چھپا سکتیں، مگر کوئٹ انڈیا موومنٹ کے اثرا ت کو کوئی بھی کم نہیں کرسکتا ، ہندستانیوں کے دل میں یہ تحریک اس دن بھی تھی اور آج بھی ہے۔