یاسر ندیم صاحب پر عزیز احمد صاحب کا الزام بے بنیاد

ناظم اشرف مصباحی
ملت ٹائمز کے آن لائن ایڈیشن میں محترم یاسر ندیم قاسمی صاحب کا ایک معلوماتی مضمون بعنوان: بھارت بھاگیہ ودھاتا نظر سے گذرا۔ مجموعی طور پر یہ مضمون یقینا ایک معلوماتی اور مفید مضمون ہے جس میں ہندوستانی قومی گیت “جن گن من” کی تاریخی و شرعی حیثیت پر بحث کی گئی ہے۔ اس پر محترم عزیز احمد صاحب نے اپنا اختلاف درج کراتے ہوئے کہا ہے کہ یاسر صاحب کی باتیں مفروضہ ہیں۔ آئیے ہم ذیل میں جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ محترم عزیز احمد صاحب کی بات کس حد تک درست ہے۔ اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یاسر صاحب نے کون کون سی باتیں کہی ہیں۔

یاسر ندیم صاحب کا مضون پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
1: سب سے پہلے یاسر صاحب نے ” جن گن من” کے قومی ترانہ کی حیثیت اختیار کرنے کی تاریخ بیان کی ہے اور مذہبی و غیر مذہبی حلقے میں ایک متنازعہ بحث کہ یہ ترانہ کس کی شان میں کہا گیا تھا؟ موصوف نے (امرتا بازار پتریکا، 28 دسمبر1911) کے حوالے سے اس کی حقیقت بیان کی ہے کہ انگریزی اخبار” اسٹیٹس مین” سمیت دیگر برطانوی اخبارات نے رپورٹنگ کرنے میں دجل وفریب سے کام لیا تھا۔ درحقیقت جو ترانہ جارج پنجم کی آمد کے موقع پر پڑھا گیا تھا اسے رامبوج چودھری نے لکھا تھا،جس کے پہلے شعر کا آغاز “وہ بادشاہ ہمارا” سے ہوتا ہے۔
یاسر صاحب نے حوالوں کے ساتھ ان تاریخی باتوں کو پیش کیا ہے اگر عزیز احمد صاحب کو لگتا ہے کہ یہ باتیں مفروضہ ہیں تو ان کو تاریخی کتابوں کی روشنی میں اصل حقائق سے پردہ اٹھانا چاہیے۔ اس کے برعکس انہوں نے محض الزام لگایا ہے جو کہ ایک غیر علمی طریقہ ہے۔

2: یاسر صاحب کی دوسری بات:
ٹیگور کے عقائد کیا تھے؟ اس پر یاسر صاحب نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ٹیگور بت پرست نہیں تھے، بلکہ صوفیہ کے عقیدہ وحدت الوجود سے متاثر تھے،
یاسر صاحب کی اس بات سے بالکلیہ اتفاق تو نہیں کیا جاسکتا لیکن عزیز احمد صاحب کا اسے مفروضہ قرار دینے کو بھی قابل غور ہے۔ یاسر صاحب نے اپنی بات کو پروفیسر جان واٹسن اور خود ٹیگور کی تحریروں کی روشنی میں کہی ہے۔
ایسی صورت میں بلادلیل اسے رد کرنا جذباتیت تو ہوسکتی ہے علمی طریقہ کار نہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ یاسر صاحب کے عقیدے پر حملہ کیا گیا جو تو شرعی اعتبار سے بھی قابل گرفت ہے۔ نیز یہ کہ عزیز احمد صاحب کا یہ کہنا کہ: “کسی کا اسلام کو نہ ماننا ہی بذات خود پریشانی کی بات ہے، اب وہ چاہے جتنا خود کو ملحد یا کمیونسٹ یا بت پرستی سے دور قرار دے، اگر کئی خداؤں کی عبادت کرے تب بھی غلط، کسی کی نہ کرے تب بھی غلط،” مذہبی علوم میں ناقص معلومات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

یہاں کلک کرے عزیر صاحب کا تبصرہ پڑھیں
عزیز صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایمان دل کے عقیدے کا نام ہے اور اسلام اس کے اعلان کرنے کا نام۔ اگر کوئی اللہ رب العزت پر ایمان رکھے یعنی صرف دل سے تسلیم کرے تو اس کے مشرک ہونے کا فتوی دینے کا حق کسی کو نہیں ہے جب تک کہ شرکیہ اعمال اس سے صادر نہ ہوں، ہاں اسلام یعنی اللہ کو ماننے کا اعلان نہ کرنے سے زیادہ سے زیادہ اس پر مسلمانوں کے احکام لاگو نہیں ہوں گے یعنی اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی، اسے مسلمانوں کی قبرستان میں دفن نہیں کیا جائے گا، لیکن اس کے جنتی و جہنمی ہونے کا فیصلہ کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔ حدیث میں ایمان کے ستر اور اس سے زائد درجات بتائے گئے ہیں جن میں سب سے اعلی لاالہ الا اللہ کی شہادت اور ادنی درجہ راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا ہے۔(صحیح مسلم) اگر کسی کے بارے میں ضعیف سے ضعیف روایت بھی مل جائے کہ وہ ایک اللہ پر ایمان رکھتا ہے۔ تو ہمیں مومن ماننا پڑے گا یہ اور بات ہے کہ جب تک شہادت نہ دے تب تک “مسلم” نہیں کہا جائے گا۔
ٹیگور کے تعلق سے جو بات کہی گئی ہے اسے بلاوجہ رد نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ شرک سے متعلق پختہ ثبوت نہ مل جائے۔ ٹیگور اور ان جیسے بڑے مفکرین کے تعلق سے یہ کوئی بعید بھی نہیں ہے جو جان واٹسن کے حوالے سے یاسر صاحب نے کہا ہے۔ اس طرح کے مفکرین عام طور پر یاتو ملحد ہوتے ہیں یا کسی طاقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ نہ مشرکوں کی طرح شرک میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ مسلمانوں کی طرح اسلامی تشخص اور مراسم پر عامل ہوتے ہیں۔
قارئین پر واضح رہے کہ ٹیگور کے عقیدے کو زیربحث لانے سے یاسر صاحب کا مقصد یہ ہے کہ جب صاحب نظم کا مشرک نہ ہونا ثابت ہوجائے گا تو یہ پتہ چل جائے گا کہ ان کی نظم میں استعمال ہونے والا لفظ” بھارت بھاگیہ ودھاتا(بھارک کی تقدیر بنانے والا) ” کا مطلب واضح ہوجائے گا کہ یہ لفظ نہ تو بطور Deity کے استعمال ہوا ہے نہ کسی بادشاہ کے لیے بلکہ چوں کہ ٹیگور ایک خدا پر ایمان رکھنے والا آزاد فکر انسان تھا اس لیے یہ لفظ اس نے خدائے لم یزل کے لیے استعمال کیا ہے۔ جس کے پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
لیکن اگر ٹیگور کو ٹھیٹ مشرک بھی تسلیم کرلیا جائے اور بھارت کو بطور Deity مان لیا جائے تب بھی ایک مسلمان کو اسے پڑھنے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔ درس نظامی میں علم بلاغت میں پڑھائی جانے والی مشہور کتاب: “البلاغت الواضحہ” میں حقیقت ومجاز کی بحث میں پڑھایا جاتا ہے کہ “انبت الربیع البقل (موسم بہار نے سبزہ اگایا)” یہ جملہ اگر کوئی مشرک کہے تو یقینا اسے شرکیہ جملہ کہا جائے گا یعنی وہ اپنا عقیدہ بیان کر رہا ہے کہ سبزہ اگانے والا موسم ربیع ہے۔ حالاں کہ حقیقت میں سبزہ اگانے والا تو اللہ تعالی کی ذات ہے اس نے موسم ربیع کو اللہ کے ساتھ شریک کرکے شرک کیا ہے۔ جب کہ یہی جملہ اگر کوئی مومن موحد کہے تو اس کا مومن و موحد ہونا اس بات کا قرینہ ہے کہ وہ موسم ربیع کو سبزہ اگانے والا نہیں کہہ سکتا۔ بلکہ وہ موسم ربیع کو مجازا سبزہ اگانے والا سمجھ رہا ہے یعنی اسے سبزہ اگنے کی وجہ اور سبب قرار دے رہا یے۔ اگر دنیا سے حقیقت ومجاز کا اعتبار اٹھ جائے تو یقین جانیں یہاں صرف مشرک ہی مشرک نظر آئیں گے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ نہر فلاں وزیر نے کھدوائی ہے، یا یہ عمارت فلاں وزیر نے بنوائی ہے۔ تاج محل شاہ جہاں نے تعمیر کیا ہے۔ اگر حقیقت و مجاز کا پردہ ہٹا دیا جائے تو یہ سارے جملے شرکیہ قرار پائیں گے۔ پھر نہ تو 1963 میں منعقدہ
“آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس‘‘ کے کارکنان جامعہ سلفیہ بنارس کے موسس قرار پائیں گے نہ مولانا قاسم نانوتوی کو بانی دارالعلوم دیوبند، مولانا احمد رضا کو بانی دارالعلوم منظر اسلام، مولانا عبد العزیز مبارک پوری کو بانی جامعہ اشرفیہ اور داعی اسلام شیخ ابوسعید کو بانی جامعہ عارفیہ الہ آباد کہا جاسکتا ہے، کیوں کہ یہ سارے جملے شرکیہ قرار پائیں گے۔اور نہ علامہ اقبال کے اس شعر کو درست قرار دیا جاسکتا ہے کہ:ع
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
جس میں انہوں نے مسجد کے بنانے کی نسبت “جذباتی مسلمانوں” کی طرف کرکے جھوٹ اور شرک کا ارتکاب کیا ہے۔ کیوں کہ مسجد مسلمانوں نے نہیں بلکہ مزدوروں نے بنائی تھی، اگر بانی مسلمانوں کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو حقیقت میں بنانے اور بگاڑنے والا تو اللہ کی ذات ہے؟
خلاصہ یہ ٹیگور نے خواہ جس مقصد کے تحت یہ نظم کہی ہو اگر اسے کوئی مسلمان گائے گا تو یقینا وہ کفریہ و شرکیہ معنی ہرگز مراد نہیں لےگا۔ اس لیے اسے ہرگز شرکیہ نہیں کہا جاسکتا۔ اس وقت مسلمانوں کو کوئی بھی بات سوچ سمجھ کر کرنی چاہیے۔ جذبات میں آکر یا کم علمی کی بنیاد پر فتوے ٹھونکنے کی بجائے اسلامی تعلیمات کو ٹھوس علمی، معقولی دلائل کی روشنی میں سمجھنے اور سممجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جناب عزیز احمد صاحب کی تحریر کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے ذاتیات پر حملہ کیے بغیر سلیقے سے اپنی بات رکھی ہے، تاہم کسی کے عقیدے پر شک کرنا الزام ہے، ویسے بھی یہ تحریر محض جذباتیت کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے اگر یاسر صاحب شرک کے فتوے دینے والوں میں سے جامعہ سلفیہ کی صراحت نہ کرتے تو شاید جناب عزیز صاحب کو زحمت نہیں کرنی پڑتی۔ اگر عزیز صاحب کو اب بھی لگتا ہے کہ ان کی تحریر بے بنیاد نہیں ہے تو وہ اپنی بات کو دلائل کے ساتھ رکھیں ورنہ تو علمی حلقوں میں اسے بے بنیاد ہی سمجھا جائے گا۔