سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ تحلیل و تجزیہ

یاسر ندیم الواجدی
جب سے طلاق ثلاثہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا یے، ایک عام فکرمند مسلمان کی طرح میں بھی مستقل اس سوچ میں ڈوبا ہوا ہوں کہ آخر 25 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ یہ کیسا کھیل کھیلا گیا ہے۔ کبھی اپنے اکابر علماء کے تسلی بھرے بیانات دیکھتا ہوں تو وقتی طور پر دل پرسکون ہوجاتا ہے لیکن پھر سنگھیوں کی معروف ذہنیت کے بارے میں خیال آتا ہے تو یہ کیفیت جاتی رہتی ہے۔ اس وقت شہر رسول مدینہ طیبہ کے لیے عازم سفر ہوں اور اس سفر کا تقاضہ یہ ہے کہ انسان دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجائے لیکن ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں جو کچھ ہوا ہے اس کا تعلق براہ راست دین سے ہے، لہذا 395 صفحات پر مشتمل سپریم کے فیصلے کی کاپی پڑھنے لگا، کہ مدینہ منورہ کی مصروفیات سے پہلے ہی اس ساتھ چل رہے بوجھ سے بھی نمٹ لیں۔ میں پڑھتا گیا اور افسوس کرتا گیا۔ مجھے حیرت ہے کہ کیسے اس فیصلے کا کچھ حلقوں کی طرف سے خیر مقدم کیا جارہا ہے، کچھ حضرات یہ مان رہے ہیں کہ اس فیصلے سے پرسنل لا (طلاق ثلاثہ کو چھوڑ کر) مضبوط ہوا ہے اور کچھ حلقوں کی طرف سے اس فیصلے کو متضاد مانا جارہا ہے۔ ذیل کی سطور کسی ماہر قانون کے قلم سے نہیں ہیں اس لیے اختلاف کی نہ صرف گنجائش ہے بلکہ قانون سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو اختلاف کا حق ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ مجھے غلط ثابت کیا جائے کیونکہ میرا غلط ہونا خود بحیثیت مسلمان کے میرے مفاد میں ہے۔
آئیے اس فیصلے کا جائزہ لیتے ہیں، آپ پڑھتے جائیں گے اور نتائج اخذ کرتے جائیں گے بشرطیکہ آپ آخر تک غور سے پڑھیں۔ یہ آپ سب جانتے ہیں کہ عدالت عالیہ کے پانچ ججوں میں سے دو جج ایک طرف رہے ہیں اور تین ایک طرف۔ سب سے پہلے جسٹس کھیہر اور جسٹس عبد النذیر کے فیصلے کے کچھ اقتباسات ملاحظہ کریں:
(بین القوسین میں دیے گئے نمبرات فیصلہ کی کاپی کے صفحہ نمبر ہیں)
1 – “تعدد ازواج کے حکم میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے”۔ (185)
2- “پرسنل لا بورڈ کے وکیل کے مطابق طلاق ثلاثہ ان امور میں سے ہے جو مذہبی اعتبار سے برے اور قانونی اعتبار سے درست ہوتے ہیں، البتہ ہندوؤں میں ستی، دیوداسی اور تعدد ازواج بھی ایسے ہی تھے مگر ان کو قانون بناکر ختم کیا گیا۔ یہ یاد رہے کہ یہ مسائل عدالت میں لائے بغیر قانوناً کالعدم قرار دیے گئے تھے”. (186-187)
3- “ایسا کسی مذہب میں نہیں ہوتا کہ جو گناہ ہو وہ مذہبی بھی ہو”۔ (187)
4- “یہ تسلیم ہے کہ طلاق ثلاثہ کا رواج صدیوں سے ہے، لیکن اگر کوئی کام پہلے سے ہورہا ہو تو اس کو رواج بھی کہا جاسکتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ وہ مذہبی بھی ہو اور رواج کو خصوصا اگر وہ گناہ ہو عدالت ختم کرسکتی ہے۔ مزید برآں مدعا علیہ (پرسنل لا بورڈ وغیرہ) کے وکلا نے یہ تسلیم بھی کیا ہے کہ طلاق ثلاثہ کی جدید دور میں کوئی گنجائش نہیں ہے”۔ (187-188)
یہاں یہ سوال ہونا فطری ہے کہ اگر جدید دور میں طلاق ثلاثہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے تو پھر اتنی تگ ودو کی کیا ضرورت تھی۔
ان دونوں ججوں کی جس عبارت سے ہم لوگ مطمئن ہورہے ہیں وہ یہ ہے:
5- “دستور کے تحت پرسنل لا کو اسی وقت سے پروٹیکشن حاصل ہے جب سے دستور بنا، لہذا آرٹیکل 25 کے تحت اس میں مداخلت نہیں کی جاسکتی ہے’۔” (227)
مدعیان کی طرف سے جہاں بہت سے دلائل دیے گئے ان میں کچھ احادیث کا حوالے بھی دیے گئے، ہمارے فاضل وکییلوں نے جس طرح ان احادیث کا جواب دیا ہے وہ بھی سمجھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ حدیث جو تفسیر ابن کثیر کے حوالے سے پیش کی گئی تھی اس کے بارے میں کہا گیا کہ ابن کثیر سلفی تھے لہذا وہ معتبر نہیں ہیں، یوسف القرضاوی کی کتاب کے حوالے سے حدیث پیش کی گئی تو قرضاوی کو بھی اہل حدیث سلفی قرار دے کر پیچھا چھڑالیا گیا۔ (197) جب ہماری طرف سے احادیث کا یہ جواب دیا گیا تو ہمارے موقف سے متعلق احادیث کو کیسے تسلیم کیا جاتا۔ دونوں ججوں نے جو ریمارک دیا وہ کچھ یوں ہے:
6- “احادیث قرآن کی طرح قابل اعتماد نہیں ہیں ان کی تدوین بہت بعد میں ہوئی ہے”۔ (192) یہی وجہ ہے کہ عدالت نے صرف اس بات کو بنیاد بنایا کہ طلاق ثلاثہ کا ذکر قرآن میں نہیں ہے اس لیے یہ ناقابل تنفیذ ہے۔
ان دونوں ججوں نے جہاں ایک طرف یہ مانا کہ پرسنل لا میں مداخلت نہیں کی جاسکتی ہے وہیں حکومت کو اس تعلق سے قانون بنانے کا بھی حکم دیدیا۔ یہی وہ حصہ ہے جس کو ہم خوش آئند یا پھر متضاد مان رہے ہیں۔ لیکن یہ ذہن میں رہے کہ ججوں کی تعداد پانچ ہے اور بقیہ تین نے کیا کہا ہے وہ ابھی بہت سوں نے نہیں سنا ہے۔ ان تینوں کے تحریر کردہ فیصلوں کے اہم اقتباسات پر بھی نظر ڈالیے۔
جسٹس کورین جوزف کہتے ہیں کہ:
1- “شریعت ایکٹ 1937 کو مسلم پرسنل لا مانا گیا ہے، لیکن اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ شریعت کیا ہے۔ جو چیز اخلاقی طور پر اچھی ہے وہ شریعت ہے اور جو چیز بری ہے وہ شریعت نہیں ہے”۔ (276)
2- “دستور کا آرٹیکل 25 مذہبی آزادی ضرور دیتا ہے، لیکن وہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ مذہبی آزادی، پبلک آرڈر صحت اخلاقیات مساوات اور دیگر بنیادی حقوق سے متصادم نہ ہو”۔ (297)
ان دونوں اقتباسات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ پرسنل لا میں از سر نو غور وفکر کی دعوت دی جارہی ہے نیز اس پر عمل کو کچھ شروط کے ساتھ مشروط مانا جارہا ہے۔ کل حکومت میراث کے بارے میں بھی یہ کہہ سکتی ہے کہ اسلامی قانون صنفی مساوات کے خلاف ہے۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ جسٹس نریمن اور جسٹس للت نے اپنے فیصلے میں کیا کہا ہے۔
1- ” طلاقِ ثلاثہ دستورِ کے آرٹیکل14 میں دیے گئے بنیادی حقوق کے خلاف ہے”۔ (354)
2- “پرسنل لا بورڈ کے وکیل نے بامبے ہائی کورٹ کے فیصلے کو نظیر بناتے ہوئے کہا کہ پرسنل لا بنیادی حقوق میں آتا ہے اور اور عدالت اس کو ختم نہیں کرسکتی، لہذا خود فاضل وکیل کے مطابق عدالت اپنے ہاتھ کھڑے کرلے، چونکہ اگر طلاق ثلاثہ کو ختم کرنا ہے تو آرٹیکل 25 شق 2 کے تحت ترمیم واصلاح کا حق صرف قانون ساز اسمبلی کو ہے۔ تو پھر عدالت کو تمام پارٹیوں کو وہیں بھیجنا چاہیے”۔ (304).
اگر ہمارے وکیل نے خود ہی عدالت سے استدعا کی ہے کہ اس مسئلہ کو عدالت نہیں بلکہ قانون ساز ادارہ دیکھے تو اب ہمیں عدالت کے اس فیصلے پر کہ حکومت چھ ماہ کے اندر اندر طلاق ثلاثہ پر قانون بنائے کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔
اب آگے چلیے لیکن جسٹس کورین کی عبارت نمبر ایک ذہن میں رکھیے:
3- “شریعت ایکٹ کی دفعہ دو پر ہمیں اعتراض ہے” (318)
واضح رہے کہ دفعہ دو کے تحت مندرجہ ذیل مسائل آتے ہیں۔ نکاح طلاق خلع ظہار ایلا ولایت نفقہ اور خواتین کی جائداد وغیرہ۔
4- “شریعت ایکٹ (جس کو اوپر پرسنل لا مانا گیا ہے) دستور کی تدوین سے پہلے کا ہے اور دستور میں یہ شق موجود ہے کہ پرانے قوانین اسی صورت میں باقی رہیں گے اگر دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق کے خلاف نہ ہوں ورنہ فوری طور پر ان قوانین کو کالعدم قرار دیا جائے گا”۔ (321-322)
5- “دستور کا آرٹیکل 25 مذہبی آزادی ضرور دیتا ہے لیکن اس سے مراد مذہب کے صرف وہ اجزاء ہیں جو فرائض میں آتے ہوں۔ طلاق ثلاثہ کم از کم مکروہ ہے لہذا یہ بنیادی جزو کیسے ہوئی”۔ (332)
عدالتی بنچوں کے فیصلے اکثریتی بنیاد پر ہوتے ہیں، عدالت عالیہ کے اس فیصلے میں جن ججوں نے پرسنل لا میں مداخلت کو دستور کی خلاف ورزی قرار دیا ہے ان کی تعداد دو ہے۔ جب کہ تین ججوں نے شریعت ایکٹ 1938 کو مسلم پرسنل لا قرار دیا ہے پھر اس کی اہم دفعہ 2 پر اعتراض کرکے یہ واضح کردیا ہے کہ دستور سے پہلے کے قانون مطلقا قابل تنفیذ نہیں ہوتے بلکہ دستور میں دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی صورت میں کالعدم قرار دیے جاسکتے ہیں۔ اس طرح ان تین ججوں نے حکومت کو پرسنل لا میں مداخلت کی کھلی چھوٹ دے دی ہے۔ اب ہمیں بتایا جائے کہ ہم اس فیصلے کا کپل سبل کی طرح خیر مقدم کریں یا پھر آنے والے برے حالات کے لیے کسی مضبوط اور جامع لائحہ عمل کی توقع کریں۔