ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
ایک بار پھر دیش شدید ریل حادثہ کے دکھ سے گزررہا ہے۔ پانچ دنوں کے درمیان ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں دو بڑے حادثوں کا رونما ہونا ریلوے کی لا پرواہی کا اشاریہ ہے۔ پوری سے ہریدوار جارہی اتکل ایکسپریس کھتولی کے پاس پٹری سے اتر گئی۔ اس حادثے میں 14 بوگیاں پٹری سے اتر گئیں۔ 23لوگوں کی موت ہو گئی 74 زخمی اور 30 کی حالت نازک ہونے کی خبر ہے۔ ابھی اس حادثے کی بازگشت ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ مشرقی اتر پردیش کے اوریہ کے پاس اچھلدا ریلوے اسٹیشن کے نزدیک اعظم گڑھ جا رہی کیفیات ایکسپریس ڈمپر سے ٹکرا گئی اور دس ڈبے پٹری سے اتر گئے۔ اس میں 60 سے زیادہ لوگوں کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔اس سے پہلے یو پی میں اندور۔پٹنہ ایکسپریس حادثے کا شکار ہوئی تھی جس میں 147لوگ موت کا نوالہ بنے اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھاجب ہریانہ کے سورج کنڈ میں ریلوے کے ذریعہ منعقدہ کیمپ میں خود وزیر اعظم’’ زیروایکسیڈنٹ‘‘ کے ٹارگیٹ پر زوردے رہے تھے۔ ’’زیرو ایکسیڈنٹ پالیسی‘‘ کے باوجود پچھلے تین سالوں میں 23 ریل حادثوں میں 330 لوگ جان گنوا چکے ہیں اور 900 لوگ زخمی۔ اتنا بڑا جانی نقصان ہوگا تو انڈین ریل کی کارکردگی پرسوال اٹھیں گے ہی۔
دنیا کے بڑے ریل نیٹورکوں میں بھارتیہ ریل چوتھے نمبر پر ہے۔ جبکہ روزگار دینے کے معاملے میں اٹھویں۔ ملک کی سبھی ریل گاڑیاں 30 لاکھ کلومیٹر کا روزانہ سفر طے کرتی ہیں۔ یہ فاصلہ زمین سے چاند کے بیچ چار چکر لگانے کے برابر ہے۔ دو کروڑ لوگ روزانہ سفر کرنے کے لئے ریل پر منحصر ہیں۔ سال در سال مسافروں میں اضافہ کی وجہ سے نئی ریل گاڑیاں چلائی جا رہی ہیں۔ بڑھتے ٹریفک نے پٹریوں کو کمزور کر دیا ہے۔ دسمبر 2016 لوک سبھا میں پیش رپورٹ کے مطابق 2003 ۔2016 کے درمیان ہونے والے47 فیصد ریل حادثوں کی بنیادی وجہ ڈی ریلنگ یعنی
پٹری سے ڈبوں کا اترنا رہی ہے۔ دنیا کے بڑے نیٹ ورک کے لئے یہ کافی سنگین مسئلہ ہے۔ بھلے ہی سرکار حادثوں کو لے کر سازش کی بات کرے، سچائی یہی ہے کہ پچھلے سات سالوں میں ہوئے حادثوں میں 86 فیصد واقعات انسانی لاپرواہی کے چلتے ہوئے ہیں۔
مظفر نگرکے پاس کھتولی میں اتکل ایکسپریس کا حادثہ چشم دیدوں کے بیان اور وہاں ملے اوزاروں سے انسانی لا پروائی کی تازہ مثال ہے۔ جہاں ٹرین کو 15۔20 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنا چاہئے تھا وہ 105 کی اسپیڈ سے گزری کیونکہ اسیکاشن کال نہیں دیا گیا تھا۔ بتایا جا رہا ہے کہ
یہاں 200 میٹر کے ٹریک کی مرمت چل رہی تھی، اور اس روٹ کی گاڑیوں کو ہدایت تھی کہ رفتار 15 ۔20 کلو میٹر کی رکھی جائے لیکن شاید اتکل ایکسپریس کے ڈرایور کو اس کی اطلاع نہیں تھی، چونکہ کھتولی میں ٹرین کو رکنا نہیں تھا، اس لئے اس کی رفتار زیادہ تھی۔ حادثے میں دہشت گردانہ
سازش کا شک ظاہر کیا گیا لیکن اس میں کوئی دم نہیں کیونکہ اس حادثے کے ایک گھنٹہ پہلے ہی دہلی۔ سہارنپور ڈیمو ٹرین یہاں سے نکلی تھی۔ اگر ایسا کچھ ہوتا تو وہ اس کی زد میں آتی، دوسرے مقامی لوگوں کی سوجھ بوجھ، بنا ڈرے بیان دینے اور بہت حد تک میڈیا کے سچ کے ساتھ کھڑے
رہنے سے کئی لوگوں کی زندگیاں فرضی جانچ کے نام پر تباہ ہونے سے بچ گئیں۔ فوری مدد کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی جان بچائی جا سکی۔ مقامی لوگوں نے 65 ایمبولینس بلا لیں جو زخمیوں کو فوراََ اسپتال لے گئیں۔ آس پاس کے مستری گیس کٹر لے کر پہنچ گئے جنہوں نے بوگیوں کو کاٹ کر پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالا، بجلی بند ہونے پر جنریٹر کا بھی انتظام کیا۔ کھتولی کے لوگوں نے قومی اتحاد کی مثال قائم کی۔ یہی ملک کا اصل کردار ہے۔ وکی پیڈیا پر ریل حادثوں کی تاریخ دیکھنے پر ایک بھی سال ایسا نہیں ملا جس میں کوئی حادثہ نہ ہوا ہو۔ 2000سے پہلے ریلوے تکنیک کی کمی کے بہانے بچ جاتا تھا۔ آج تمام تکنیکی ترقی کے بعدوہ اتنے شدید حادثے کی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتا۔ مرکزی وزیر ریل سریش پربھو نے ہر بار کی طرح اس حادثے کی بھی جانچ کا حکم جاری کیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس واقعہ کی جی آر پی نے نا معلوم لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے اس میں ان معلوم وی آئی پی ملزمان کا نام شامل نہیں کیا گیا جنہیں اس حادثے کی وجہ سے معطل یا جبراََ چھٹی پر بھیجا گیا ہے۔ حسب سابق اس واقع کی جانچ ہوگی، معاوضہ دیا جائے گا، ریلوے میں بہتری کے لئے سفارشیں آئیں گی جو وزارت کی کسی الماری میں دھول پھانکیں گی۔ لوگ دھیرے دھیرے بھول جائیں گے اور قصوروار پھر اپنی جگہ آجائیں گے۔سفر کے لحاظ سے جو ٹرینیں محفوظ ہیں لوگ ان میں سفر نہیں کرتے۔ ان میں ایل ایچ بی (لنک ہاف مین بش)کوچ لگے ہیں۔ راجدھانی اور شتابدی جیسی ٹرینوں میں ان کوچوں کو لگایا گیا ہے لیکن ان کا کرایہ اتنا مہنگا ہے کہ عام آدمی ان میں سواری کرنے کا سوچ نہیں سکتا۔ وزارت ریل کے ذریعہ راجدھانی اور شتابدی ایکسپریس کے سرج پرائزنگ اعلان نے ان ٹرینوں میں سفر کو اور بھی مہنگا بنادیا۔ یہ پوری طرح اعلیٰ طبقے کی ٹرینیں بن گئی ہیں۔ درمیانی طبقے کیلئے بھی ان میں سفر کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ریلوے نے دعویٰ کیا تھاکہ ریل حادثے کی صورت میں کم سے کم نقصان کیلئے راجدھانی ایکسپریس کی طرح ساری گاڑیوں میں ایل ایچ بی کوچ لگائے جائیں گے۔
اس وقت زیادہ تر ریل گاڑیوں میں آئی سی ایف (انٹگرل کوچ فیکٹری) کوچ لگے ہوئے ہیں۔ یہ کوچ اگر پٹریوں سے نیچے اترتے ہیں تواس میں مرنے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہوتی ہے۔ کیوں کہ پٹریوں سے اترنے کے بعد یہ کوچ کافی دور گرتے ہیں اورایک کوچ کے دوسرے پر گرنے کا امکان ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے بڑانقصان ہونے کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ اتکل ایکسپریس میں اسی پرانی تکنیک کے کوچ لگے تھے۔ کانپور حادثے کے بعد وزیرریل سریش پربھو نے لوک سبھا میں بتایا تھا کہ پرانے کوچوں کو مرحلے وار بدلا جارہاہے۔ اب اس کام میں تیزی لائی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ کوچ بدلنے کی رفتار بہت دھیمی ہے۔ حالانکہ ریلوے نے اس کیلئے ایک مدت مقرر کی ہے۔ 2020تک تمام ریل گاڑیوں میں ایل ایچ بی ڈبے لگانے کا کام پورا کرنا ہے۔ ایل ایچ بی کوچ بھارت میں بنائے جارہے ہیں۔ ان میں لگنے والا اسپرنگ بھی باہر سے منگانے کے بجائے بھارت میں ہی بن رہا ہے۔ پھر بھی پانچ سے چھ ہزار ایل ایچ بی کوچ ہی گاڑیوں میں لگ سکے ہیں۔ جبکہ آئی سی ایف کوچوں کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ ہے۔ اس لئے ڈبوں کو اتنی جلدی بدلا جانا آسان نہیں ہوگا۔ وزارت ریل اس سچائی کو چھپا یاجاتا ہے کہ بھارت میں ریل کوچ فیکٹریوں کی کوچ بنانے کی صلاحیت فی الحال اتنی نہیں ہے کہ وہ اگلے تین سال میں پچاس ہزار آئی سی ایف کوچ کو ایل ایچ بی سے بدل دیں۔ ریلوے کے افسران کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ جانچ کے دوران ریلوے کی کمیاں اجاگر نہ ہوں۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے البتہ ادھر حال میں یہ نئی بات ضرور ہوئی ہے کہ مرکز ی سرکار کسی بھی معاملہ میں سنجیدہ ہونے کے بجائے جارحانہ رخ اختیار کرتی ہے، یا پھر اس کمی کی ذمہ داری پچھلی سرکار کے سر مڑھ کر آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ سرکار نے ریل بجٹ کو عام بجٹ میں شامل کر کے پارلیمنٹ میں ریل پر ہونے والی صحت مند بحث کا راستہ بند کر دیا ہے۔ جبکہ اس سے حفاظت کے پختہ انتظامات کی راہ نکل سکتی تھی۔ وزارت ریل کی دلچسپی ریلوے کا نجی کرن کرنا ہے۔ وہ ریلوے کی اہم جائیدادوں کو نجی زمرے کے حوالے کر کے منافع کا بندوبست کرنا چاہتا ہے۔ پچھلے سوسالوں میں ریلوے نے جتنی ترقی کی ہے اس کے رکھ رکھاؤ میں بھی وزارت ناکام ثابت ہورہی ہے۔اسٹیشنوں کو خوبصورت بنانے کی بات کرکے، انٹرنیٹ کے ذریعہ کھانا پہنچاکر ریلوے اپنی پیٹھ تھپتھپارہاہے۔ ریل کوچوں کے اندر کی گندگی، ان کے رکھ رکھاؤ کی طرف ریلوے کا دھیان نہیں ہے۔ نہ کمزور ہوتی ریل پٹریوں کو مضبوط بنانے پر اورنہ ہی گھستے ہوئے پہیوں پر۔ موجودہ سرکار پچھلے سال سے ہائی اسپیڈ اور بلٹ ٹرین چلانے کی بات کررہی ہے۔ دہلی آگرہ کے بیچ ہائی اسپیڈ ٹرین چلائی گئی۔ دہلی ممبئی کے بیچ اس کا ٹرائل ہوچکا ہے۔ ریلوے انجینئروں کا کہناہے کہ ریل پٹریاں کمزور ہیں، پرانی ہوچکی ہیں اور حادثے کا امکان ہمیشہ بنا رہتا ہے۔ ان
پٹریوں پر ڈیڑھ سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بھی ریل گاڑی چلانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر پٹریاں اتنی رفتار برداشت نہیں کرسکتیں تو پھر ان پر بلٹ ٹرین کیسے چلے گی۔پٹریوں کے خراب ہونے کی وجہ جاننے پر معلوم ہوا کہ اوور لوڈ مال گاڑیوں نے بنیادی ڈھانچے کو
برباد کیا ہے۔ ریلوے بورڈ کا کمائی بڑھانے کیلئے ایک دہائی پہلے مال گاڑیوں کا ایکسل لوڈ بڑھانے کا فیصلہ اب مسافروں کی زندگی پر بھاری پڑرہا ہے۔ اوور لوڈ مال گاڑیوں کے دوڑنے سے ریلوے کا بنیادی ڈھانچہ، ٹریک، ویگن اور پل جرجر ہوتے جارہے ہیں۔ ریلوے ان کی نگرانی، مرمت اور بدلنے کا کام ٹھیک طرح سے نہیں کرپارہا ہے۔ وہیں پہیوں کے گھسنے کو بھی گاڑیوں کے پھسلنے اور پٹریوں کے کمزور ہونے کی وجہ بتائی جاتی ہے۔ لوک لیکھا کمیٹی نے دسمبر2011میں پارلیمنٹ میں پیش اپنی رپورٹ میں صاف کہا تھا کہ ریلوے پیسے اور اسٹاف کی کمی کے باعث ویگنوں کی مرمت اور ان کی دیکھ بھال نہیں کرپا رہا۔ ایک اندازے کے مطابق پورے ملک میں ریلوے میں ڈیڑھ لاکھ آسامیاں خالی ہیں۔ اکیلے نارتھ سینٹرل ریلوے میں 8705 آسامیاں خالی ہیں۔ دیش بھر میں 16000لوکو پایلٹ ہیں پھر بھی 30فیصد اسٹاف کی کمی ہے۔ اس کی وجہ سے انہیں
آٹھ گھنٹے کی جگہ 16گھنٹے کام کرنا پڑ رہاہے۔ ٹریک مین میں 24سے 40فیصد کی کمی ہے۔ اسی طرح اسٹیشن ماسٹر آٹھ کی جگہ بارہ گھنٹہ کام کررہے ہیں۔ ایسی صورت میں ریلوے حفاظت پر کتنی توجہ دے پائے گا، اس کااندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ حادثوں کے مد نظر 1980کے بعد ہوئے واقعات پر ریلوے نے سدھار کو لے کر کچھ ٹھوس قدم اٹھانے کا بھروسہ دلایاتھا۔ 26 نومبر1998کو لدھیانہ کے پاس کھنہ میں فرنٹیر میل اور سیالدہ
ایکسپریس ٹکرائی تھی اس میں 108لوگ مرے تھے۔ کھنہ کے حادثے کے بعد ریلوے نے سابق جج جی سی گرگ کی صدارت میں جانچ کمیشن بنایا تھا۔ اس نے 2004میں سرکار کو اپنی رپورٹ سونپی۔ رپورٹ میں ریلوے کے حفاظتی انتظامات پر سوال اٹھائے گئے تھے ساتھ ہی مشورہ دیا تھا
کہ پٹریوں کی جانچ ہر ماہ کی جائے۔ ساتھ ہی اس جانچ کو الٹراسونک فلاڈیکٹیٹر(یوایس ایف ڈی) کی تکنیک سے کرنے کو کہاگیا تھا۔ٹھنڈ کے موسم میں پٹریوں پر گشت بڑھانے کی ہدایت دی گئی تھی۔ ساتھ ہی گن مینوں کی نگرانی کرنے کو بھی کہا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا سرکار ریلوے میں سدھار
کے لئے بنی کمیٹیوں کی رپورٹوں کو لاگو کرے گی یا پھر وہ سفارشیں یوں ہی دھول پھونکتی رہیں گی۔
ریلوے میں پیسوں کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بھرتی سے لے کر تبادلوں تک میں کرپشن اور پیسے لے کر مفت میں سفر کرانے کے باوجود ریلوے دولاکھ کروڑ روپے کاریونیو اکٹھا کرکے دیتا ہے۔ صرف ٹکٹ کینسی لیشن پر وصول کی گئی فیس سے ریلوے نے 2016۔2017 میں پندرہ ارب، 2015۔2016میں گیارہ ارب اور 2014۔2015 میں نو ارب روپے کی موٹی کمائی کی تھی۔ پھر بھی ریلوے مسافروں کی حفاظت پر دھیان دینے کو تیار نہیں ہے۔ اس سے سرکار کی بے حسی کا اندازہ ہوتا ہے۔ سرکار بلٹ ٹرین چلانے کی تیاری کررہی ہے جس کیلئے پانچ سو کلو میٹر کا ٹریک بنانے میں ایک لاکھ کروڑ روپیہ خرچ ہوگا۔ دہلی کولکتہ اور دہلی مدراس روٹ پر ہائی اسپیڈ کوریڈور بنانے پر غور کیا جا رہا ہے، اس پر کئی لاکھ کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔اس قرض کو چکانا بھارت جیسے دیش کے لئے آسان نہیں ہو گا۔ پھر بھی سرکار ڈولپمنٹ کا جو کام کر سکتی ہو ضرور کرے لیکن عوام کو زیادہ ضرورت وقت پر پہنچانے والی آرام دہ اور محفوظ ریل گاڑی کی ہے۔ کیا کوئی دن ایسا آئے گا جب عوام کیلئے ٹرین کا سفر محفوظ ہوگا اور ریلوے ان کی حفاظت کیلئے ذمہ دار۔