ہندوستان میں جی ایس ٹی نافذ کئے جانے کے بعد معیشت کی صورت حال مزید بدتر ،غریبوں کے بجائے انڈسٹری کو ہورہاہے فائدہ

آئی او ایس کے زیر اہتمام ”جی ایس ٹی چیلنجز اور اثرات “کے موضوع پر منعقدہ لیکچر میں ڈاکٹر امیر اللہ خان و دیگر دانشوران کا اظہا رخیال

بائیں سے پروفیسر میتھو،ڈاکٹر امیر اللہ خان،پرفیسر نوشاد علی آزاد ،ڈاکٹر آفتاب عالم

نئی دہلی(ملت ٹائمزمحمد شہنواز ناظمی)
انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز کے زیر اہتمام جی ایس ٹی پر آج ایک خاص لیکچر کا اہتمام کیا گیا جس میں ڈاکٹر امیر اللہ خان (ڈائریکٹر ایکوئیٹا س ریسرچ، وزیٹنگ پروفیسر آئی ایس بی حیدرآباد نے )جی ایس ٹی اوراس کے مشکلات واثرات پر تفصیلی بحث کی ،لیکچر کے دوران ڈاکٹر امیر اللہ خان نے بتایاکہ حکومت کو اپنے کاموں کیلئے روپے کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے ٹیکس عائد کیا جاتاہے ا س کے علاوہ کبھی ٹیکس کسی ناپسندیدہ اشیاءکو روکنے کیلئے بھی کیا جاتاہے ،انہوں نے بتایاکہ جب کوئی چیز پسند نہیں ہوتی ہے یا اس کی اہمیت کوختم کرنا مقصد ہوتاہے تو کبھی براہ راست پابندی لگادی جاتی ہے او ر کبھی اس پر ٹیکس لگادیا جاتاہے تاکہ لوگ گرانی کی وجہ سے خریدناکم کردیں ،انہوں نے بتایاکہ ہندوستان میں دو طرح سے ٹیکس لیا جاتاہے ایک بالواسطہ اور ایک بلاوسطہ زیادہ تر لوگ ہندوستان میں بالواسطہ ٹیکس دیتے ہیں،ہر ملک کی جی ڈی پی میں ٹیکس کااہم رول ہوتاہے زیادہ تر ترقی یافتہ ملکوں کی جی ڈی پی میں تیس سے پچاس فیصد تک ٹیکس کی حصہ داری ہوتی ہے تاہم ہندوستان کی جی ڈی پی میں ٹیکس کی حصہ داری صرف 16 فیصد ہے ۔
جی ایس ٹی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ایک دیش ایک ٹیکس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ پورے ملک میں ایشاءپر یکساں ٹیکس ہو ،پہلے ایسا ہوتاتھاکہ سامان ایک ہے لیکن الگ الگ ریاستوں میں ٹیکس الگ الگ ہیں ،جی ایس ٹی میں ٹیکس وہاں لیا جاتاہے جہاں مصنوعات کی فروخت ہوتی ہے جبکہ پہلے انڈسٹری کے علاقے میں ٹیکس لیا جارہاتھا،جی ایس ٹی میں ٹیکس صرف ایک آدمی سے لیا جاناہے اگر دوسے لیاگیا تو نظام کے مطابق اسے واپس کردیاجائے گا۔
جی ایس ٹی کی تاریخ بتاتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہندوستان میں سب سے پہلے وی پی سنگھ نے جی ایس ٹی کا خاکہ پیش کیاتھا ،اس کے بعد اٹل بہار واجپئی نے اس پر ایک کمیٹی تشکیل دی ،یوپی اے کی سرکا میں اس پر مسلسل کام ہوا، لیکن اس دوران سب سے زیادہ جی ایس ٹی کے مخالفت اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلی نریند رمودی نے ہی کی تھی جو اب جی ایس ٹی کے سب سے بڑے حامی ہیں۔انہوں نے کہاکہ بی جے پی سرکا ر کو انڈسٹر ی نے بہت زیادہ سپورٹ کیا تھا اور یہ وعدہ تھاکہ حکومت بننے کے بعد لینڈ ایکوائر بل ختم کردیاجائے گا چناں چہ مودی سر کار نے 2014 میں سب سے پہلا ریزولیشن یہی پیش کیا لیکن اس سے خود بی جے پی ایم بھی ناراض ہوئے اس کے بعد جی ایس ٹی کو لانے کی کوشش کی گئی تاکہ انڈسٹری کو فائدہ پہونچایاجائے ،انہوں نے بتایاکہ مودی سرکار کی ایک پالیسی ہر اسٹیسٹ میں بی جے پی حکومت کی ہے ا س کی وجہ یہ ہے کہ جی ایس ٹی کے نفاذ کیلئے ریاست کی رضامندی ضروری ہے اور اکثر ریاست رضامند نہیں تھی اس لئے بی جے پی سرکاربناکر اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی گئی ۔ انہوں نے بتایاکہ جی ایس ٹی کا مطلب تھا ایک دیش ایک ٹیکس لیکن اس کو کئی حصوں میں تقسیم کردیاگیا ہے کسی سامان پر پانچ فیصد ٹیکس ہے ،کسی پر 15 فیصد ہے اور کسی پر 18 فیصد جبکہ تعمیرات اور پٹرولیم پر کوئی ٹیکس نہیں ہے جوکہ سب سے بڑی انڈسٹری ہے ۔انہوں نے بتایاکہ جی ایس ٹی کے اثرات منفی ثابت ہورہے ہیں ،ٹورزم ،تعمیرات سمیت متعدد محکموں میں ملازمت بالکل ختم ہوگئی ہے ،گذشتہ ایک سال میں صرف سوالاکھ نوکری ملی ہے جبکہ ہندوستان میں ہر ماہ دس لاکھ ملازمت ہونی چاہیئے ،انہوں نے بتایاکہ مجموعی طور پر جی ایس ٹی کے نتائج مثبت سامنے نہیں آئے اور دیگر ملکوں میں جس طرح جی ایس ٹی سے معیشت کی صورت حال بدلی ہے ہندوستان میں اور بد تر ہوتی نظر آرہی ہے ۔
پروفیسرمیتھو نے اس موضوع پر اپنے لیکچر میں نوٹ بندی کا بھی تذکرہ کیا اور کہاکہ نوٹ بندی کرتے وقت کہاگیا تھاکالادھن واپس آئے گا ،دہشت گردی ختم ہوگی ،نکسل وادپر کنٹرول ہوگا لیکن وہ سب دکھاوا تھا اصل مقصد اپوزیشن پارٹیوں کو معاشی طور پر کمزور کرناتھا اور بی جے پی اس میں کامیا ب رہی ۔تقریب کی صدارت پروفیسر نوشا دعلی آزاد (سابق ڈین سوشل سائنس ، جامعہ ملیہ اسلامیہ )نے کی اور خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ جی ایس ٹی بہت اچھی چیز ہے ،اس سے ملک کی معیشت کو نئی رفتار ملے گی ،ابھی ہمیں کچھ انتظار کرنا چاہیے ،فی الحال اس کے نتائج منفی سامنے آرہے ہیں لیکن آگے چل کر بد لیں گے ۔آئی او ایس کے چیرمین ڈاکٹر منظو ر عالم نے اس موقع پر حصہ لیتے ہوئے کہاکہ جی ایس ٹی کے سیاسی اور سماجی اثرات کو بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے ،پٹرولیم کو جی ایس ٹی سے آزادکرکے ایک خاص شخص کو فائدہ پہونچانے کی کوشش کی گئی ہے ،جی ایس ٹی کے بعد ایشا ءکی گرانی کی وجہ سے غریبوں پر بہت برا اثر پڑرہاہے جس پر ہمیں سوچنے ، غور کرنے اور کوئی لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے ۔
لیکچر میں مختلف شخصیات نے شرکت کی جس میں آئی او ایس کے جنرل سکریٹری زیڈایم خان، پروفیسر افضل وانی ، پروفیسر ضیاءالحق ،صفی اختر ،بسمل عارفی ،محمد وسیم،مولانا شاہ اجمل فاروق ندوی ،فصیح احمد ،سہیل عابدین ،نازیہ حسین وغیرہ کے اسماءسرفہرست ہیں، قبل ازیں مولانا اجمل فاروق ندوی کی تلاو ت سے لیکچر کا آغاز ہوا اور ڈاکٹر آفتاب عالم نے نظامت کا فریضہ انجام دیا ۔