مولانا عبد الحمید نعمانی
سپریم کورٹ نے تین طلاق کے متعلق اکثریت سے جو فیصلہ دیا ہے، اس کے آنے والے دنوں میں کیا اثرات مرتب ہوںگے، ان کے متعلق فی الحال زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن فیصلے میں بہت سے سوالات کے جوابات اور جوابات میں مسائل کے حل کی تلاش کرنے کی بہرحال ضرورت ہے۔ فیصلے کو ہر کوئی اپنے زاویہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کررہاہے اور کمال کی بات تو یہ ہے کہ مقدمے کے سب فریق اس میں اپنی خوشی اور کامیابی دیکھ رہے ہیں، ایسی حالت میں شیعہ سنی، اہل حدیث ، غیر اہل حدیث اور دیگر کے لیے الگ الگ رونے اور خوشی کے اظہار کے لیے زیادہ کچھ نہیں ہے، اس سلسلے میں جو لوگ مسلک کے حوالے کے بات کررہے ہیں انہوں نے غالباً اصل مسئلے کو سمجھا نہیں ہے، ہوسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سمجھ جائیں۔ ویسے بھی آج کی تاریخ میں ملت کے مجموعی مفاد میں مسلک کے حوالے سے بحث وگفتگو راست رویہ نہیں ہے، یہاں مسئلہ مسلک کے تناظر میں کامیابی اور ناکامی کا نہیں ہے، بلکہ اصل شریعت کے مثبت ومنفی ، اثبات ونہی پرمبنی احکام کے مؤثر اور بے اثر بنانے کے سلسلے میں جاری سرگرمیوں کا ہے، زبردست تشہیری عمل سے تمام ہی طبقات کے افراد متاثر ہوتے ہیں۔ عدالت اور اس کے شعبہ جات کو بھی پوری طرح اس سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، تاہم ملک اور عالمی نظام عدالت کی موجودگی میں کھلے عام ایسا کچھ کرنا کرانا اتنا آسان نہیں ہوتا ہے کہ لگے کہ انصاف کے تقاضوں کو پوری طرح نظرانداز کردیا گیا ہے، حالیہ فیصلے کے متعلق بھی یہی کچھ صورتحال ہے، اس لیے بہت زیادہ گھبرانے کی ضرورت بھی نہیں ہے، تاہم فیصلے کے کئی پہلو ایسے ہیں ، جن پر غور وفکر کرتے ہوئے مسئلے کے حل تک رسائی، حالات کا اہم تقاضا ہے۔ غلط کام کو جاری رکھنا اور اس کے اثر اور وجود سے انکار دونوں الگ الگ معاملے ہیں۔ قانون کے تحت جرم کی سزا اور اس پر روک لگانے کا اقدام اور جرم کو قانون کاحصہ قرار دے کر فیصلے اور کارروائی مسئلے کے پائیدار حل میں رکاوٹ ہے۔ مذہب اور جاری روایات سے وابستہ تصورات ومسلمات کے برعکس فیصلے اور اقدامات سے بہتر تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے، کسی جرم کے وجود سے انکار اور اسے کالعدم قرار دے کر انصاف کی فراہمی اور برابری کی راہ ہموار کیسے کی جاسکتی ہے، اس کا ہر معاملے میں لحاظ کیا جاتا ہے، لیکن ازدواجی رشتے کے تناظر میں طلاق کے سلسلے میں پوری طرح نظرانداز کیا جاتا رہاہے، اس صورتحال کا سامنا ومقابلہ، صبروتحمل اور فہم وبصیرت سے کام لے کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ دو ججوں نے ایک ساتھ تین طلاق کو غلط مانتے ہوئے بھی غیرقانونی قرار نہیں دیا ہے، ایسی صورت میں طلاق کے بعد مرد عورت کے فطری تعلق کے سلسلے میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہتا ہے، اور حرام وحلال کے رشتے کا سوال سامنے نہیں آتا ہے، اسلامی شریعت کی رو سے مرد عورت کا رشتہ صرف قانونی ، غیرقانونی نہیںہوتاہے، جیسا کہ ہندو سمیت دیگر کمیونٹیز میں ہے، بلکہ حلال وحرام کا مسئلہ بھی سامنے آتا ہے ، کسی عمل کو جرم قرار دے کر اس کے مرتکب کے خلاف کارروائی نہ کرنے اور اس کے عمل کو غیرقانونی قرار دے کر کالعدم بنا دینے کی کوشش کے پس پشت ایک خاص طرح کا ذہن کام کررہاہے۔اس کے تحت ظہور پذیر عمل بہ ظاہر برائی کے خاتمے اور انصاف ومساوات پر مبنی نظر آتا ہے، لیکن یہ اپنے آپ میں کچھ تضادات بھی رکھتا ہے، اور قانون کے نام پر قانون کو ہی اپنا کام کرنے سے روک دیتا ہے۔ ایک ساتھ تین طلاق کو غیرقانونی قرار دے کر طلاق دینے کے عمل کو بے اثر کردینے کا سیدھا مطلب ہے اس کو جرم کے زمرے سے باہر رکھنے کا غیرمنطقی عمل ، جو قطعی ناقابل فہم ہے۔ موجودہ فیصلے کی رو سے طلاق دینے کے باوجود بھی مرد عورت شوہر بیوی کے طور پر ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں، جب کہ شریعت کی رو سے طلاق دینے کے بعد ازدواجی رشتہ کمزور یا پوری طرح ختم ہوجاتا ہے، یہ تین طلاق کو ایک ماننے اور تین طلاق کو تین ماننے، دونوں شکل میں ہوتا ہے۔کالعدم قرار دینے کی کوئی نظیر اور تعبیر وتشریح مسلمہ مسلک کی سطح پر نہیں ہے، ایسی حالت میں مذہبی اور دیگر حوالے کوئی زیادہ منعیٰ نہیں رکھتے ہیں، ہاں غیرقانونی قرار دینے کی صورت میں اس کیتحت آنے والی برائیوں سے بچ کر آگے بڑھاجاسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب تکلیف دہ ازدواجی رشتے سے نجات کے لیے بہتر متبادل موجود ہے تو غلط اور مجرمانہ طریقے کو اپنانے کی ضرورت کیا ہے؟ جب ضرورت کے وقت احسن اور حسن طریقے ہیں تو ایسے مکروہ اور غلط طریقہ کو کیوں اختیار کیا جائے جس کے بسااوقات بعد میں ندامت وشرمندگی اٹھانا پڑے۔ اس تناظر میں سپریم کورٹ کی اکثریت کے فیصلے کو دیکھا جائے تو وہ صرف ایک برائی اور جرم کے ارتکاب سے روکنے والا نظر آتا ہے، اس میں ان لوگوں کے لیے بہت زیادہ خوش ہونے اور جشن منانے کا سامان نہیں ہے، جو انصاف اور برابری کے نام پر اسلامی شریعت کے احکام کو بالکل بے اثر کرکے اپنے مقاصد واغراض کی تکمیل چاہتے ہیں، ایک ساتھ تین طلاق کو پوری طرح غیرقانونی قرار دینے سے اس وقت یقینا شرعی ومذہبی لحاظ سے مسئلہ پیدا ہوتا ، جب مذہبی آزادی کے تحت شریعت پر عمل کا سرے سے کوئی راستہ اور متبادل نہ ہوتا، جب کہ صرف ایک ساتھ تین طلاق کو غیرقانونی قرار دینے سے متعلق فیصلے کے بعد ایسا کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ یہ عدلیہ کی تاریخ میں ایک عجیب وغریب فیصلہ ہے، اس سے نہ تو عرض گزار مدعی کو کوئی فائدہ اور انصاف مل رہاہے اور نہ مدعی علیہ کو ظلم وانصافی پرکوئی سزا مل رہی ہے۔ اور نہ یہ پتا چل رہا ہے کہ دونوں میں قصوروار اور مجرم کون ہے؟ ہاں آئندہ کے ہونے والے جرم اور ایک مکروہ عمل پہ روک لگانے کا کام ضرور ہوا ہے۔ہمیں شدت کے ساتھ یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر مسئلے کو صحیح تناظر میں بہتر تعبیرات وتشریحات کے ساتھ سامنے رکھا جاتا تو فیصلہ کچھ مختلف شکل میں آتا۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں ہے کہ کچھ غلط فہمیاں اور مسئلے، معاملے کو صحیح طریقے سے پیش نہ کرنے کی وجہ سے بھی پیدا ہوئے ہیں۔ جو کام جرم گناہ اور حرام ہے، وہ جائز کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ کہنا قطعی غلط فہمی پیدا کرنے والا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق دینا تو گناہ اور ناپسندیدہ تو ہے لیکن جائز ہے، یہ بالکل متضاد بات ہے، اس کے بجائے اگر اس پر زور دیا جاتا کہ بغیر کسی صحیح سبب کے ایک ساتھ تین طلاق دینا رشتوں کو ختم کرنے والا تباہ کن ایک مجرمانہ گناہ کا عمل ہے۔ اس پر روک لگانے کے لیے مؤثر اقدام کیا جانا چاہیے۔ ملک میں کسی مسلم شخص اور ادارے کے پاس کوئی قوت نافذہ نہیں ہے کہ مجرم کو جرم کے ارتکاب سے روک سکے۔ لہٰذا عدالت برسراقتدار سرکار کو ہدایت د ے کہ وہ شریعت کی روشنی میں قاضی ایکٹ کی شکل میں ایسا قانون بنائے جس سے خواتین کے حقوق واختیارات کا تحفظ بھی ہوسکے اور متعلقہ دیگر معاشرتی مسائل کا بہتر طورسے پائیدار حل کی راہ بھی ہموار ہوجائے اور انصاف کی فراہمی اور آئین کے مطابق مذہبی آزادی کا تحفظ بھی یقینی ہوجائے۔ایسی صورت میں زیادہ امید یہی ہے کہ طلاق کے فیصلے کی تصویر کا رنگ بہت کچھ مختلف ہوتا۔ فیصلے کا ایک امید افزا اور روشن پہلو یہ ہے کہ اس میں مسلم پرسنل لاء کو تحفظ مل گیا ہے، یہ کم بڑی بات نہیں ہے کہ اسے آئین ہند کی دفعہ 25کے دائرے میں رکھتے ہوئے واضح کردیا گیا ہے کہ بنیادی حقوق کے نام پر اسے ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا کہ ملک میں ایک ایسی طاقتور لابی ہے، جو اکثریت پرستی کو فروغ دینے کے ساتھ دیگر کمیونیٹز کے پرسنل لاء کو ختم کردینے یااس کی اصل شکل کو بگاڑ کر بدہیئت بنادینے کی سرگرمیوں میں مستعدی سے لگی ہوئی ہے، اس کے پیش نظر یہ ضروری ہوجاتا ہے، ہمارے متعلقہ ادارے اس کی ہر طرح کی سرگرمی اورمہم پر نظر رکھے اور اس کے متعلق معلومات وتفصیلات کی روشنی میں، وقت رہتے ہوئے ضروری قدم اٹھائیں اور غلط پروپیگنڈہ کا توڑ بھی کریں، یہ وقت کا تقاضا بھی ہے۔
موبائل: 9811657503 ،
noumani.aum@gmail.com : ای میل