گوری لنکیش کا قتل: آزادی صحافت اور قومی شرافت پر سوالیہ نشان

حامد اکمل 

کرناٹک جنوبی ہند میں اتحاد ویک جہتی اور سیکولرزم پر فخر کرنے والے مہذب عوام کا گہوارہ امن و آشتی ہے، یہاں حب الوطنی کے نام نہادٹھیکہ داروں کو خود ساختہ سیکولر سیاستدانوں کی دانستہ حماقتوں سے ماضی قریب میں ایک مرتبہ اقتدار حاصل ہو چکا ہے۔ پانچ برسوں کی معیاد میں بی جے پی کے تین وزرائے اعلیٰ ہوئے ایک وزیر اعلیٰ کو جیل یاترا کرنی پڑی ان کے وزراء میں ایک سے بڑھ کر ایک مجرم خاص طور پر جنسی مجرمین شامل تھے، ایک بار پھر یہ گروہ کرناٹک میں حصول اقتدار کیلئے کوشاں ہے۔ اگلے اسمبلی الیکشن کے لئے ایک سال باقی رہ گیا ہے۔ بی جے پی نے منگلور چلو ایجی ٹیشن کے ذریعے نظم و نسق کامسلہ پیدا کرنے کی کوشش کی 7؍ ستمبر کو بنگلور میں ریاستی سطح کی بڑی ریالی کا منصوبہ بنایا سدرامیا حکومت ریاست میں نقص امن کی اس کوشش سے نمٹنے میں مصروف تھی کہ5؍ستمبر کی رات کنڑا کی مشہور ترقی ہند ادیبہ صحافی اور جہد کار گوری لنکیش کو تین نامعلوم حملہ آوروں نے ان پر قریب سے گولیاں چلاکر قتل کر دیا۔ 6؍ستمبر کی رات اسی جری صحفیہ نگار کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ حکومت کرناٹک اس ا چانک رونما ہونے والے وقوعہ سے لرز کر رہ گئی ایسا نہیں ہے کہ سدرامیا حکومت، فرقہ پرست امن دشمن عناصر کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن گوری لنکیش کے قتل نے حکومت پر سیکولر اذہان کے اعتماد کو متزلزل کر دیا۔
گوری لنکیش مشہور ادیب و صحافی پی لنکیش کی دختر ہیں۔ لنکیش کا لنکیش پتریکے ہفتہ وار اخبار کرناٹک کی صحافتی تاریخ میں اپنی ایک الگ پہچان رکھتا تھا۔ گوری لنکیش نے گوری لنکیش پتریکے کے نام سے اپنا اخبار نکالا وہ اپنے والد کی سچی جانشین تھیں انہوں نے فرقہ پرستی فاشزم اور توہم پرستی پھیلانے والے لیڈروں اور دھارمک باباؤں کے خلاف مسلسل لڑائی کی وہ صحیح معنوں میں اصول پرست تھیں اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا بڑے بڑے سرما یہ والے پبلیکشن ہاؤس کے جریدوں کے مقابلے میں ان کے اخبار گوری لنکیش پتریکے کی مانگ اور اثر پذیری زیادہ تھی۔ وہ ان ادیبوں میں سے تھیں جو عملی طور پر بھی سماجی بھلائی کی سرگرمیوں اور جدو جہد میں شامل ہوتے ہیں انہوں نے بعض نکسلیوں کو خون خرابہ ترک کرکے اصلی سماجی دھارے میں لانے میں کامیابی حاصل کی ، ان کے قتل کے دوسرے لمحے ہی سے شک کی سوئی بجا طور پر انتہا پسند ہندوتوا طاقتوں کی مڑنے لگی، چونکہ پورے دیس میں رکھی ہوئی ہیں ترقی پسند روشن خیال دانشوروں کو فاشسٹ طاقتیں اپنے نشانے پر رکھی ہوئی ہیں۔ تین سال پہلے ترقی پسند دانشور ڈاکٹر ایم ایم کلبرگی کا دھارواڑ میں بالکل اسی انداز میں قتل کر دیا گیا تھا اب تک ان کے قاتلوں کا کوئی سراغ نہیں ملا، ان سے پہلے پونے مہا راشٹرا میں 2013میں ہوئے نریندر دابھولکرکے قتل ،2015میں کولہا پور میں ہوئے گواند پنسارے کے قتل اور اسی سال دھاروڑ میں ڈاکٹر ایم ایم کلبرگی کے قتل کی وارداتوں اور5؍ستمبر کو گوری لنکیش کے قتل میں بیشتر مشابہتیں ہیں۔ تمام مقتول کٹر نظر یاتی دانشور تھے جن کا ایسے ہی کٹر نظریاتی لوگوں سے شدید اختلاف تھا، ان تمام کو ایک ہی انداز سے قتل کیا گیا ہے۔ یہاں مجھے اسی معاملے میں دئیے گئے جاوید اختر کا بیان یاد آرہا ہے کہ مرنے والے ایک ہی نظر ئے کے حامل تھے اس سے یہ اندازہ ہونا چاہئیے کہ قاتل کون تھے۔ ڈاکٹر کلبرگی کے قتل کو دو سال مکمل ہو چکے ہیں۔ مہاراشٹرا میں دھابولکر کے قتل کی تحقیقات سی بی آئی نے کی تو بھی قاتلوں کا پتہ نہیں چل سکا۔ ان تینوں دانشوروں کے قتل کی گتھیاں نہیں سلجھ سکیں اس سے ہمارے پولیس اور خفیہ نظام کی ناکامی کا پتہ چلتا ہے اس کے ساتھ ہی دیاستوں میں بر سر اقتدار جماعتوں کی بھی عدم دلچسپی یا نا کامی ظاہر ہوتی ہے۔
دن دھاڑے ہونے والے ان قتل معاملات میں بعض سی سی ٹی وی فوٹیچ کی مدد سے بھی قاتلوں کی سمت پولیس سسٹم کی ہلکی سی بھی پیش قدمی نہ ہونا، بد بختی نہیں تو کیا ہے؟ بڑے بڑے دعوے کرنے والی پولیس اور اس کی خفیہ ایجنسیاں ان معاملات میں پسپا ہو جاتی ہیں تو متعدد سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ قاتل پولیس تنظیم سے زیادہ ذہین اور چالاک ہیں۔ یا کسی انجان طاقت نے پولیس کے ہاتھ باندھ دئیے ہیں کہ وہ قاتلوں ؍ خاطیوں تک نہ پہنچیں۔ کیا یہ کوئی سیاسی فائدہ اٹھانے کی سازش ہے؟
گوری لنکیش میں حق بات کہنے اور لکھنے کی جرأ ت تھی، انگریزی صحافت سے اپنا کیرئر شروع کرنے والی گور ی لنکیش اپنے والد پی لنکیش کی موت کے بعدکنڑا صحافت سے وابستہ ہوئیں۔ اور اپنے والد کی قائم کر دہ بے خوفی اور حق گوئی کی روایات کو آگے بڑھایا۔ ملک کی چنندہ خاتون صحافیوں میں سے ایک گوری کی صلاحتیوں عزائم اور بے خوفی کو ان کے والد سے ورثے میں ملی خصوصیات قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان ہی کی وجہہ سے انہوں نے بھی والد کی طرح دوست کم دشمن زیادہ بنائے تھے۔ ہندوستانی معاشرے کا سب سے بڑا رونا یہی ہے کہ یہاں حق گوئی کو زیادہ پسند نہیں کیا جاتا ہے۔
دروغ مصلحت آمیز کی یہ بستی ہے
یہاں زبان نہ کھولونہ لب کشادہ کرو
بیشتر لوگوں کا یہی و طیرہ ہے ۔ اس میں شبہ نہیں کہ آج صحافت کے پیشے میں مصلحت پسندوں اور نقار چیوں کی کثرت ہے،پہلے ایسی بات نہیں تھی، جوٹی وی چینلس اور اخبارات حکومت وقت کی ہمنوائی کر تے ہیں اس کی سوگنا قیمت بھی وصول کرتے ہیں دینے والے منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہیں۔ لیکن ایسے کئی لوگ ہیں جو ایسی پیشکش پر تھوکتے ہیں۔ گوری لنکیش نے نکسلائٹس کو بنیادی دھارے میں لانے کا کام کیا۔ قومی اتحاد و یک جہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی برقراری کے سرگرم فورم کی وہ رکن تھیں ۔ ان کے قتل سے سیکولر عومی صحافت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے ۔اور کرناٹک میں فاشزم کے فروغ کی آہٹ سنائی دے رہی ہے جو اس ریاست کے سیکولر جمہوری تانے بانے کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
دانشور وں کے قتل کی جو دودار داتیں کرناٹک میں رونما ہوئی ہیں۔ نظریاتی مخالفت اس کی بنیاد سمجھی جاتی ہے اور فطری طور پر مخالف کیمپ کی طرف انگشت نمائی کی جارہی ہے۔
لیکن ان نظریات کی حامل جماعتیں بی جے پی اور سنگھ پریوار کے قائدین یہ کہہ رہے ہیں کہ قاتلوں کی گرفتار ی سے پہلے ہی ان پر االزامات عائد کرنا غلط ہے۔ اس بات کو اصولی طور پر تسلیم بھی کیا جائے تو اس بات کا کیا جواز ہے کہ گوری کے قتل پر بی جے پی اور سنگھ پریوار اظہار مسرت کرے۔ مٹھائی تقسیم کرے اور گوری کو ’’کتیا‘ ‘قرار دے کر سوشیل میڈیاپر یہ پوسٹ کرے کہ ایک کتیا کا کیا قتل ہو اکہ سارے پلے چیخ اٹھے۔ یہ پوسٹ کرنے والے کو وزیر اعظم مودی اپنا قریبی دوست مان کر اسے فالو بھی کرتے ہیں۔ اس سے کیا ثابت ہو تاہے؟ مہاراشٹر ا کے دو اور کرناٹک کے دو ترقی پسند دانشوروں کے قتل سے بہر حال یہ ظاہر ہے کہ ان کے قاتل اور ان کے نظریات کے مخالف تھے ۔ ان کے انداز قتل میں یکسانیت اور تین قاتلوں کا اب تک نہ پکڑا جانا بھی ہمارے سسٹم کی کاہلی یا دانستہ نظر اندازی کا ثبوت ہے، یاس بات کی علامت ہے کہ ظلم اور جرم قانون سے زیادہ طاقتور ہیں۔ یوں بھی اس ملک میں نظر یاتی جدو جہد یا تصادم نئی بات نہیں ہے لیکن سچ بولنے یا لکھنے والوں کو خوف زدہ کرنے کی روایت نئی ہے۔
یقیناًیہ نظریاتی دہشت گردی ہے جس کا سامنا آج ہر ایماندار صحافی کر رہا ہے ۔ یہ دہشت منظم انداز میں پھیلائی جارہی ہے۔ اس کے پس پشت کون ہیں؟ کیا اس کی تحقیقات کی ضرورت ہے؟ اس صورتحال سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے اس کا پتہ چلانے کی ضرورت ہے۔ جہاں تک کرناٹک کا معاملہ ہے ۔ یہاں نظم و نسق اور برقراری امن کے مسائل پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ڈاکٹر کلبرگی کے قاتلوں کی گرفتاری میں ناکامی کیلئے سدرامیا ہی ذمہ دار ہیں۔ گوری لنکیش کے قاتلوں کا بچ جانا یا بچایا جانا سب سے بڑی بد بختی ہوگی۔ گوری کے بھائی اندر جیت لنکیش نے پہلے تو گوری کے قتل کے پس پشت نکسلیوں کا ہاتھ ہونے کا شبہ ظاہر کیا ۔ پھر اس سے وہ پلٹ گیا ۔ وہ چاہتا ہے کہ گوری قتل کی تحقیقات سی بی آئی کے سپرد کی جائیں ۔ اس کے پس پردہ مقصدکیا قاتلوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے؟
کیونکہ سی بی آئی مرکزی بی جے پی حکومت کے کنڑول میں ہے اب اس نے پرانے دہشت گردی کے مقدمات پھنسے ہندوتوا نتہا پسندوں کو بچانے کا کام شروع کر کے اپنی تحقیقات اور موقف پر خود ہی پانی پھیر دیا ہے۔ سی بی آئی کے ذریعے تحقیقات کر وانے کے گوری کے بھائی کے مطالبہ پر ہمیں اعتراض کرنے کا خیال محض اس لئے آیا کہ دو ماہ قْبل برادر مذکورنے صحافت اور فلمی دنیا سے سکبدوش ہو کر سیاست میں داخل ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی اور اپنی پسندیدہ پارٹی کی حیثیت سے بی جے پی کا نام لیا تھا اور یڈی یورپا اور اننت کمار سے اپنے مراسم کا بھی ذکر کیا تھا۔
گوری لنکیش کے قاتلوں کے بارے میں جو عام رائے ہے وہ اپنی جگہ مگر گوری کے بھائی اندر جیت لنکیش سے بھی پولیس اور ایس آئی ٹی کو اچھی خاصی پوچھ گچھ کرنی چاہئیے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ خاندانی جائیداد کے بارے میں اس کے گوری لنکیش کے ساتھ تنازعات تھے۔ گوری کے قتل کے بعد سے اندراجیت لنکیش ایک خاموش پر سکون کردار کی حیثیت سے ٹی وی، سکرین پر پیش ہورہا ہے سنگھ پریوار کے نقارچی ٹی وی چینلوں میں گوری کے ساتھ ساتھ عام سیکولر آزاد خیال صحافیوں کو طنز و تعریض کا نشانہ بنا کر انہیں برانڈ ڈ تماشہ باز قرار دیا جارہا ہے اس پربھی ہمیں کوئی افسوس نہیں کیونکہ یہ لوگ حق نمک ادا کر رہے ہیں۔ لیکن سوشیل میڈیا واٹس آیپ اور ٹوئیٹر پر انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ پولیس اور سائبر کرائم برانچ ان عناصر کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے قاصر ہیں اس پر یقیناًہمیں افسو س ہے ہمیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ مرکزی حکومت ان صحافیوں کو سیکوریٹی فراہم کر ے گی یا نہیں جنہیں اس کے نادان دوست جان لینے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
( مضمون نگار روزنامہ ایقان ایکسپریس گلبرگہ ۔ کرناٹک کے ایڈیٹر ہیں )