نظامِ مؤاخاۃ کی ضرورت

شمع فروزاں  
مولاناخالدسیف اللہ رحمانی
یوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیات طیبہ حرف حرف روشن ہے، سیرت کے جس صفحہ کو پڑھئے اور جس واقعہ کو دیکھئے عبرت و موعظت کا ایک نور پھوٹتا ہوا نظرآئے گا اور زندگی کے تمام مسائل اور ہرطرح کے حالات کے لئے رہنمائی حاصل ہوگی؛ لیکن بعض واقعات وہ ہیں، جومنفرد نوعیت کے حامل ہیں اور مشکلات کے حل کے لئے اکسیر کا درجہ رکھتے ہیں۔
ایسے ہی واقعات میں مؤاخاۃ ( آپسی بھائی چارہ کا قیام ) ہے، جب آپ ﷺ کی نبوت کا آفتاب طلوع ہوا تو تین سال آپ نے خاموشی کے ساتھ دعوت دین کا فریضہ انجام دیا، پھراللہ تعالیٰ کے حکم سے صفا کی پہاڑی پر چڑھ کر اپنے نبی ہونے کا اعلان فرمایا اور ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی، اہل مکہ کو توخوش ہونا چاہئے تھاکہ جوشرف و اعزاز اب تک بنواسرائیل کے حصہ میں تھا، اب وہ بنواسماعیل کے نصیب میں آیا ہے؛ لیکن انہوں نے نبوت کی اس روشنی سے اپنے دل و نگاہ کے اندھیاروں کو روشن کرنے کے بجائے اپنی آنکھوں پر بغض و عناد کی سیاہ پٹی باندھ لی، اس وقت بہت کم لوگ تھے، جن کی سلیم فطرت نے ان کی یاوری کی اور وہ ایمان سے مشرف ہوئے۔
اگرچہ ان ایمان لانے والے خوش نصیبوں کی متعین تعداد بتانی دشوار ہے؛ لیکن بہر حال ان کی تعداد سینکڑوں میں تھی، ان میں دولت مند بھی تھے، غریب بھی، وہ لوگ بھی تھے جن کے پاؤں میں غلامی کی زنجیریں تھیں یا صاحب خیر مسلمانوں کی مدد سے غلامی سے آزاد ہوچکے تھے؛ لیکن پھر بھی ان کوعرب کے معاشرہ میں نہایت حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا، مسلمانوں پر دباؤ ڈالنے کے لئے تمام حربے استعمال کئے گئے اور کوئی ایسی تکلیف نہیں تھی جو انہیں پہونچائی نہیں گئی ہو، صبر و استقامت اور توکل علی اللہ ، ہی وہ ہتھیار تھے، جن کے ذریعہ انہوں نے اپنا ایمان بچا رکھا تھا، جب اذیت رسانی بہت بڑھ گئی تو آپ ﷺ نے مسلمانوں کو حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی، جہاں ایک رحم دل عیسائی بادشاہ کی حکومت قائم تھی، تقریباََ۸۰؍افراد نے وہاں ہجرت کی۔
مگر مسلمانوں کی بڑی تعداد اب بھی چھپتی چھپاتی مکہ میں ہی قیام پذیر تھی، وہ کھلے عام نماز نہیں پڑھ سکتے تھے، قرآن کی تلاوت نہیں کرسکتے تھے، زیادہ تر افرادنے اپنے قبول اسلام کو چھپا رکھا تھا، سینہ بسینہ ایک دوسرے تک اپنی بات پہونچاتے تھے، اور باہم رابطہ رکھتے تھے، اکٹھا ہونا ہوتا تو کسی خفیہ جگہ کا انتخاب کرتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار حضرت ارقم کا مکان صفا کی پہاڑی پر تھا، یہ جگہ مکہ کی عام آبادی سے بالکل الگ تھی، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تشریف فرما ہوتے ، نماز ادا کی جاتی اور تعلیم و تعلم کا فریضہ انجام دیا جاتا۔
بالآخر اللہ تعالیٰ نے ا ہل مدینہ کے دلوں کو ایمان کے شجرہ طوبیٰ کے لئے منتخب فرمالیا، انہوں نے تین سالوں میں حج کی مناسبت سے الگ الگ تعداد میں خفیہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا، اور وعدہ بھی کیاکہ اگر مسلمان مکہ سے مدینہ ہجرت کرجائیں تووہ ان کو پناہ دیں گے، اور پوری طاقت کے ساتھ ان کا تحفظ کریں گے؛ حالانکہ اہل مدینہ زیادہ تر غریب اور زراعت پیشہ تھے، مکہ کے تاجروں کے مقابلہ ان کا معاشی معیار کم تھا، اور وہ سود خوار یہودیوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے، جسمانی طور پر بھی وہ مکہ کے سورماؤں کے مقابلہ کمزور سمجھے جاتے تھے اور اہل مکہ کو اسلام اور مسلمانوں سے جیسی سخت عداوت تھی، اس کے تحت اس بات کا پورا پورا اندیشہ موجود تھاکہ مسلمانوں کو پناہ دینے پر اہل مکہ ان کو اپنا نشانہ بناسکتے ہیں، اور ان کی چھوٹی سی آبادی کو صفحۂ ہستی سے مٹایا جاسکتا ہے؛ لیکن ان تمام خطرات و اندیشوں کے باوجود انہوں نے مسلمانوں کو مدینہ آنے کی دعوت دی اور ادنیٰ سی بھی تنگ دلی اور بُزدلی ان کے قریب بھی پھٹک نہ سکی۔
اس معاہدہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں موجود مسلمانوں کو مدینہ منورہ ہجرت کرنے کا حکم دیا، غیرمحسوس طور پر آہستہ آہستہ صحابہ مدینہ منتقل ہوتے گئے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بھی ہجرت کا حکم فرمایا گیا، اور ہجرت کے لئے آپ نے دو اہم رفقاء کا انتخاب کیا، ایک :حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ جو آپ کے رفیق سفر ہوئے، دوسرے : حضرت علی رضی اللہ عنہ ، جن کو آپ نے اہل مکہ کی امانتیں سپرد فرمائیں، دونوں جاں نثاروں نے جان کے خطرہ کو قبول کرکے ان ذمہ داریوں کو لبیک کہا؛ چنانچہ ۲۷؍صفر۱۳نبوی روز جمعرات کو آپ اپنی قیام گاہ سے نکلے اور تین دین کوہ ثور میں روپوش ہوتے ہوئے عام راستہ سے ہٹ کر مدینہ کے لئے روانہ ہوئے، اور ۸؍ربیع الاول ۱۳نبوی کو قباء پہونچے، یہاں آپ نے چودہ دن قیام فرمایا، پہلی نماز جمعہ بھی یہیں ادا کی، پھر اس کے بعد مدینہ منورہ تشریف لے آئے، اور عارضی طور پر حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے یہاں قیام فرمایا۔
انصار نے مکہ کے اس لٹے پِٹے ، بے آسرا و بے سہارا قافلہ کا اتنی محبت اور گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیاکہ شاید ہی آسمان کی آنکھوں نے اس کی کوئی مثال دیکھی ہو، اس موقع پر آپ نے جو پہلا مختصر خطاب فرمایا، اس میں دو چیزوں کی فضیلت بیان فرمائی، سلام کو عام کرنے کی اور کھانا کھلانے کی، یہ گویا اس بھائی چارہ کی تمہید تھی،جوآپ مہاجرین و انصار کے درمیان قائم کرنا چاہتے تھے، عرب اپنی شناخت اپنے قبیلہ کے نام سے ظاہر کیا کرتے تھے، آپ اہل مکہ کو قریش اور ان کے مختلف قبائل کا نام دے سکتے تھے، اور اہل مدینہ کو ان کے مشہور اوس و خزرج کے خاندانوں کے نام سے موسوم فرماسکتے تھے؛ لیکن آپ نے ان دونوں قسم کے مسلمانوں کے لئے ایسے ناموں کا انتخاب فرمایا، جو اسلام کے لئے ان کی خدمت اور جذبۂ قربانی کا عنوان تھا، مکہ سے آنے والوں کو ’’مہاجرین‘‘ کا نام دیا گیا، یعنی وہ لوگ جنہوں نے دین کے لئے اپنے محبوب وطن کو خیرآباد کہہ دیا، اور اہل مدینہ کے لئے’’ انصار‘‘ کا لقب استعمال کیا گیا، یعنی وہ لوگ جنہوں نے بے آسرا مسلمانوں کو اپنی سرزمین میں بساکر اسلام کی نصرت اور مدد کی، آپ نے ان کے لئے نام ہی ایسا اختیار کیا جو دین کے لئے جذبۂ قربانی کی آگ ان کے دلوں میں بھردے، وہ آگ جو جاہلیت کی عصبیتوں کو جلاکر راکھ کردے، اور وہ آگ جو اسلامی رشتہ کے علاوہ تمام رشتوں کو بے وقعت بناکر رکھ دے، یہ ایسی آگ تھی جسے کوئی بجھا نہیں سکتا تھا، یہود اور منافقین نے ہزار کوشش کی کہ اخوت ایمانی کی اس حرارت کو ٹھنڈی کردیں؛ لیکن انہیں منہ کی کھانی پڑی اور انصار نے ان کی ساری سازشوں کو ناکام و نامراد کرکے رکھ دیا۔
ہجرت کے بعد آپﷺ نے شروع میں جو کام انجام دیا، ان میں ایک اہم کام مؤاخاۃ و اسلامی بھائی چارہ ہے، آپ ﷺنے دو دو افراد کو ایک دوسرے کا اسلامی بھائی قراردیا، عموماََ اس رشتۂ اخوت میں ایک بھائی مہاجر ہوتے اور ایک انصاری، یہ صرف نام کا بھائی چارہ نہیں تھا؛ بلکہ سگے بھائی سے بھی بڑھ کر اسلامی بھائی کو اہمیت دی گئی ،جس انصاری کے ساتھ اس کا مہاجر بھائی مقرر کیا جاتا، وہ انصاری اپنا مکان ،اپنی زمین، اپنے کھیت اور باغات نیز کاروبار کے دو حصے کردیتا، ایک حصہ خود رکھتا اور ایک حصہ اپنے مہاجر بھائی کو دے دیتا، مکہ کے لوگ عام طور پر تجارت پیشہ تھے، وہ زراعت کے فن سے واقف نہیں تھے؛ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے خواہش کی کہ وہ اپنے حصہ کی زمین میں بھی کھیتی کریں اور اپنے مہاجر بھائی کی زمین میں بھی،اپنے حصہ کی پیداوار خود رکھیں اور مہاجرین بھائی کے حصہ کی پیداوار ان کو دے دیں، انصارنے اس کو بسروچشم قبول کیا، پھر ایک مرحلہ ایساآیاجب آپ کے پاس ڈھیر سارا مالِ غنیمت آیا تو آپ نے انصار سے فرمایا: اگر چاہو تو میں یہ مہاجرین میں تقسیم کردوں، اور وہ تمہاری زمینیں، باغات وغیرہ واپس کردیں، یا وہ ان کے قبضہ میں رہیں اور میں یہ مالِ غنیمت تم سبھوں میں تقسیم کردوں، انصار مدینہ نے کہاکہ مالِ غنیمت مہاجرین میں تقسیم کردیا جائے اور انصار کی جو زمین مہاجرین کو دی گئی تھیں وہ بھی ان ہی کے پاس رہنے دی جائیں، واقعہ ہے کہ روئے زمین پر آج تک کوئی ایسی قوم نہیں گزری جو ایثار و قربانی میں انصارِ مدینہ کی مثال پیش کرسکے۔
مؤاخاۃ کے اس عمل نے مہاجرین و انصار کے درمیان ایک ایسا مضبوط برادرانہ رشتہ قائم کردیا کہ نسل و رنگ اور علاقہ و زبان کے تمام رشتے اس کے مقابلہ میں غیر اہم ہوگئے، مہاجرین مدینہ میں تارکین وطن اور بدیشی نہیں سمجھے گئے؛ بلکہ انہوں نے جس لمحہ مدینہ میں قدم رکھا،وہ اسی وقت سے مدینہ کے باشندے شمارکئے گئے، اور انہیں اس طرح گلے لگایا گیا جیسے کوئی محبت کرنے والا بھائی اپنے پچھڑے ہوئے بھائیوں کو گلے لگاتا ہے۔
اہل مغرب اور اعداء اسلام نے ہمیشہ اس بات کی کوشش کی کہ مسلمانوں کی صفوں میں بکھراؤ پیدا کردیا جائے، اس کے لئے انہوں نے قومیت کا تصور پیش کیا، اور نسل و رنگ، زبان اورعلاقہ و وطن کو قومیت کی بنیاد بنایا، انگریز ایک قوم قرارپائے،جرمن دوسری قوم، فرنچ تیسری قوم، ان قوموں کے درمیان شدید نفرتیں رہی ہیں، یہاں تک کہ جنگ عظیم اول و دوم میں ان لوگوں نے ایک دوسرے کے مدمقابل رہ کر بڑی خون ریزیاں کی ہیں؛ اگرچہ مسلمانوں کی عداوت کے ایجنڈہ نے ایک حد تک ان کو متحد کردیا ہے؛ لیکن یہ صرف ظاہری اتحاد ہے، حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ان کی باہمی کدورتیں حسبِ سابق موجود ہیں، تحسبھم جمیعا وقلوبھم شتیٰ (الحشر:14)
اسلام نے عقیدہ ومذہب کی بنیاد پر وحدت کی جوروح پھونکی ہے ،مغرب نے اس کودرہم برہم کرنے کے لئے اسی وطنی ونسلی قومیت کا سہارا لیا، اور مسلمان عرب، ترک، مصری، شامی اور مختلف خانوں میں بٹ گئے، اس نے اسلامی اخوت کے جذبہ کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا، آج صورت حال یہ ہے کہ پوری دنیامیں لاکھوں مسلمان پناہ گزیں کی حیثیت سے مقیم ہیں، فلسطین، شام، عراق، یمن، برما اور افریقی ممالک کے کتنے ہی پناہ گزیں ہے، جو در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں، خود مسلم ممالک انہیں اپنے لئے ایک بوجھ سمجھ رہے ہیں، ان کی کشتیاں ڈبو دی جاتی ہیں، انہیں ان کے قاتل اور خون خوار دشمنوں کے حوالہ کردیا جاتا ہے؛ تاکہ وہ ان کے لئے نوالۂ تر بن جائیں، اور اگر پناہ گزیں کی حیثیت سے انہیں قبول بھی کرلیا جاتا ہے تو انہیں ذلیل وحقیر گداگروں کی طرح رہنے کی اجازت دی جاتی ہے، جن کوصرف جینے اور سانس لینے کی اجازت ہوتی ہے اور کھانے کے چند لقمے مل جاتے ہیں، انہیں مقامی سماج سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے اور انہیں مسلسل یہ احساس دلایاجاتاہے کہ وہ اس ملک کے شہری نہیں ہیں، اور انہیں برابری کے ساتھ جینے کاحق نہیں ہے، افسوس کہ مغربی ملکوں میں جتنی توقیر کے ساتھ پناہ گزینوں کو رہنے کی اجازت دی جاتی ہے ،مشرقی ملکوں اور خود مسلمان ملکوں میں اس کا تصور نہیں ہے۔
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم ممالک مؤاخاۃ کے اصول پرباہمی معاہدہ کریں، کوئی بھی مسلمان جب بھی اپنے جان و مال اورعزت وآبروکی حفاظت کے لئے دوسرے مسلمان ملک کے دروازہ پر دستک دے تو ان کا استقبال کیا جائے،ان کو امن فراہم کیا جائے، ان کو زندگی کی بنیادی ضروریات، خاص کر تعلیم اورعلاج کی سہولت دی جائے،انہیں تجارت وکاروبارکی اجازت دی جائے؛ البتہ ان پریہ شرط لگائی جاسکتی ہے کہ ایک ملک میں رہتے ہوئے دوسرے ملک کے خلاف کوئی تحریک نہ چلائیں، جس سے خودان ملکوں کے آپسی تعلقات متأثر ہوں، نیزان مظلوموں کے سلسلہ میں متحدہ طور پر ظالم حکومتوں اور قوموں کوجواب دہ بنایا جائے، اور پناہ حاصل کرنے والے لوگوں کے اخراجات کا بوجھ کسی ایک ملک پرنہ رکھا جائے؛ بلکہ تمام مسلمان حکومتیں مل کر مطلوبہ اخراجات مہیا کریں۔
اس وقت روہنگیا مسلمانوں کی صورت حال ہمیں خاص طور پر نظام مؤاخاۃ کی طرف متوجہ کرتی ہے، بنگلہ دیش کی سرحدیں برما سے ملی ہوئی ہیں، ملیشیا، انڈونیشیا اور برونائی ایسی متمول مسلم ریاستیں ہیں، جو سمندر کے ذریعہ برماسے مربوط ہیں؛ لیکن بے چارے روہنگیا مسلمان سمندرکی بے رحم موجوں کے سہارے اِدھر سے اُدھر بھٹکتے رہتے ہیں؛ لیکن کوئی ملک انہیں پناہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، اور روتے بلکتے بچے، بوڑھے، عورتیں اور جوان سمندر کی نذر ہوجاتے ہیں؛ اس لئے موجودہ حالات میں جب کہ اسلاموفوبیا کو قصداََ بڑھاوا دیا جارہا ہے ،مسلمانوں کے خلاف نفرت پیداکی جارہی ہے،ضروری ہے کہ مسلم ممالک آفاقی تصورکے ساتھ مسلمانوں کے مسائل کوحل کریں، ہرتیرجوکسی مسلمان کے سینہ میں چبھے،پوری دنیاکے مسلمان اس کی کسک اپنے دل میں محسوس کریں۔
ہندوستان کے حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں ،یہاں بھی اس نظام مؤاخاۃ کو وجود میں لانے کی ضرورت ہے، بغیرکسی قصور کے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جمشیدپور، بھاگلپور، گجرات اور مظفرنگر کے تجربات نے یہ بات واضح کردی ہے کہ فرقہ پرست مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی آبادیوں کو نشانہ بناتے ہیں؛ اس لئے ضروری ہے کہ مسلمان ایسی آبادیاں بسائیں، جہاں یکجا طور پران کی بڑی آبادیاں ہوں اور وہ خود اپنا تحفظ کرسکیں، اس کے لئے شہرکے متمول مسلمان فراخ دلی کا مظاہرہ کریں، انہیں کم قیمت پر زمین و مکان فراہم کریں، ان کے لئے تعلیم وعلاج کی سہولتیں مہیا کریں، اور اس کام کو تاجرانہ سوچ کے ساتھ نہیں؛ بلکہ دینی جذبہ کے ساتھ انجام دیں، اس کے بغیر دیہات و قصبات اور شہر کے چھوٹے چھوٹے محلوں میں آباد مسلمانوں کی جان و مال اورعزت و آبرو کا تحفظ نہیں کیا جاسکتا، اور بالآخریہ محرومی پورے پورے گروہ کو فتنۂ ارتداد سے دوچار کرسکتی ہے۔
اس نظام مؤاخاۃ سے جہاں اُجڑے ہوئے مسلمانوں کو ٹھکانہ ملے گااورمسلمانوں کے درمیان باہمی اخوت کا جذبہ پروان چڑھے گا، وہیں اُن نومسلم بھائیوں کے بھی مسائل حل کرنے میں آسانی ہوگی، جو اسلام قبول کرنے کے بعد دشوار کُن حالات سے دوچار ہوتے ہیں، یہ اپنے سابق سماج سے بھی کٹ جاتے ہیں اور مسلم سماج کے اندر بھی ایک اجنبی گروہ کی طرح زندگی گزارتے ہیں، ان کے لئے خاص کر بال بچوں کی شادی بیاہ کامسئلہ بہت پریشان کُن ہوتا ہے، وہ جس سماج سے باہر آئے ہیں، اس میں ان کے لئے سخت نفرت کے جذبات ہوتے ہیں،وہ نہ صرف انہیں روزگار کے مواقع سے دور رکھتے ہیں؛ بلکہ پہلے سے بھی جو روزگار حاصل تھا، اسے بھی ان سے چھین لیاجاتا ہے، نظام مؤاخاۃ کو تقویت پہونچاکر ان کے مسائل کو حل کیا جاسکتا ہے، اور برادران وطن میں دعوتِ اسلام کے کام کو آسان بنایا جاسکتا ہے۔
کاش! ہم عبادات کی طرح ملی اور اجتماعی مسائل میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارکہ کو اپنے لئے نمونہ بنائیں ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں