شمع فروزاں : مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
رسول اللہ اللہ کی جانب سے مصطفی اور مجتبیٰ یعنی چنے ہوئے تھے ، اللہ نے نبوت کے لئے آپ کا انتخاب فرمایا تھا ، جیسے اللہ نے آپ کو نبوت جیسی عظیم ذمہ داری کے لئے منتخب فرمایا ، اسی طرح آپؐ کی رفاقت اور صحبت کے لئے بھی انسانیت کے منتخب اور برگزیدہ اشخاص کا انتخاب ہوا ، اسی لئے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے صحابہ کے بارے میں فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ان کو آپ کی صحابیت کے لئے منتخب فرمایا ہے ، ’’ اختارھم اللہ لصحبۃ نبیہ ‘‘ اسی طرح اللہ کی جانب سے آپ اکے اہل بیت اور پاک بیویاں بھی سرد و گرم کی رفاقت اور اُمت کے لئے خانگی اور نجی زندگی کا نمونہ پیش کرنے کے لئے اللہ کی جانب سے منتخب تھے ، ان ہی اہل بیت میں آپ اکی صاحبزادیاں تھی اور ان صاحبزادیوں میں آپ کی چہیتی اور چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہراء ہیں ، جن کو رسول اللہ نے خواتین جنت کی سردار قرار دیا اور جن کے بارے میں اُم المومنین حضرت عائشہؓ کی گواہی ہے کہ آپؐ کو لوگوں میں سب سے زیادہ محبت حضرت فاطمہ سے تھی ، حضرت فاطمہؓ اپنے اُٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں حضور سے بہت زیادہ مشابہ تھیں اور آپ پر حیاء کا اس قدر غلبہ تھا کہ عہدِ صحابہ میں بھی شاید ہی اس کی کوئی مثال مل سکے ۔
حضرت فاطمہ کے شوہر چوتھے خلیفہ راشد سیدنا حضرت علیؓ تھے ، جو حضورؐ سے نسبی اعتبار سے قریب ترین تعلق رکھنے کے علاوہ اسلام میں سبقت سے مشرف تھے اور حضورؐ کی نگاہ میں ان کے مقام و مرتبہ کا حال یہ تھا کہ آپ انے فرمایا کہ میں جس کا دوست ہوں ، علی اس کے دوست ہیں ، گویا حضرت علیؓ سے تعلق اور محبت کو آپ نے اپنی محبت کا معیار بنایا ، اہل سنت و الجماعت کے معتبر علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے عہد میں کچھ یہودیوں کی سازش سے جو فتنہ اُٹھ کھڑا ہوا ، اس میں حضرت علیؓ حق پر تھے ؛ چنانچہ حضرت علیؓ کے مخالفین کو حدیث میں ’’ فئۃ باغیۃ ‘‘ (باغی گروہ) قرار دیا گیا ، حضرت فاطمہؓ کے بطن سے دو صاحبزادے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ پیدا ہوئے ، جو باحیات رہے اور ان ہی دونوں حضرات سے رسول اللہ ا کی مبارک نسل کا سلسلہ آگے بڑھا ۔
حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو رسول اللہ انے نوجوانانِ جنت کا سردار قرار دیا ، یہ روایت اہل سنت کے یہاں کثرت سے منقول ہے رسول اللہ ان دونوں کو پکڑتے اور کہتے : اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں ، آپ بھی ان دونوں سے محبت کیجئے (بخاری ، حدیث نمبر : ۳۷۴۷) ایک موقع پر آپ انے ارشاد فرمایا جس کو مجھ سے محبت ہوگی، وہ ان دونوں سے محبت رکھے گا ، (مجمع الزوائد ، عن ابی ہریرۃ ؓ: ۹ ؍ ۱۸۰) عجیب بات ہے کہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو جسمانی طور سے بھی رسول پاک اسے بڑی مماثلت تھی ؛ چنانچہ جب حضرت حسینؓ کی شہادت ہوئی تو صحابہ اور صالحین کو ناقابل بیان صدمہ پہنچا ، حضرت اُم سلمہؓ کو جب اس روح فرسا حادثہ کی اطلاع پہنچی ، تو اہل عراق پر لعنت بھیجی اور ان کے لئے ہلاکت کی دُعاء فرمائی ، ( جمع الزوائد : ۹ ؍ ۱۹۴) امام ابراہیم نخعیؒ نے خوب فرمایا کہ اگر خدانخواستہ میں قاتلان حسین میں سے ہوتا اور میری مغفرت کر دی جاتی ، نیز میں جنت میں داخل کیا جاتا تب بھی مجھے حضورؐ کا سامنا کرنے سے شرم محسوس ہوتی ۔ ( حوالہ سابق : ۹ ؍۱۹۵)
حقیقت یہ ہے کہ اہل بیت سے محبت کے بغیر کوئی ایسا شخص رہ ہی نہیں سکتا ، جو واقعی مسلمان ہو اور جس کو رسول اللہ اسے محبت کا کوئی درجہ حاصل ہو ، صحابہ چوں کہ سب سے زیادہ حضور اسے محبت رکھنے والے اور آپ کی نسبت پر وارفتہ تھے ، اس لئے اہل بیت سے ان کو خاص تعلق تھا ، بنی اُمیہ کا حکمراں مروان ایک بار حضرت ابو ہریرہؓ سے کہنے لگا کہ جب سے ہمیں آپ کی رفاقت حاصل ہوئی ہے ، مجھے آپ کی کسی بات سے ناگواری نہیں ، سوائے اس سے کہ آپ حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتے ہیں، حضرت ابو ہریرہؓ سمٹ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ ہم لوگ حضور ا کے ساتھ ایک سفر میں نکلے ، ایک جگہ حضورؐ نے حضرات حسنین رضی اللہ عنہما کے رونے کی آواز سنی ، حضرت فاطمہؓ بھی ساتھ تھیں ، آپ تیز تیز چل کر وہاں پہنچے اور فرمایا کہ ہمارے بیٹوں کو کیا ہوا ہے ؟ حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا کہ یہ پیاسے ہیں ، آپ ا نے اپنے مشکیزے میں دیکھا تو پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا ، پھر آپ انے اپنے رفقاء سفر سے پانی کے بارے میں فرمایا تمام ہی لوگ پانی کے برتن کی طرف لپکے ؛ لیکن اتفاق کہ کسی کے پاس پانی موجود نہیں ، تو آپ انے باری باری حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو اپنی زبان مبارک کو چسایا ، جب انھیں سکون ہوا ، تو آپ اکو اطمینان ہوا ، حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ اسی لئے میں ان دونوں سے محبت رکھتا ہوں ، ( طبرانی بسند صحیح ، مجمع الزوائد : ۹ ؍۱۸۰) اس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ صحابہ گلشن محمدیؐ کے ان غنچہ ہائے سدا بہار اور گل ہائے مشک بار سے کیسی محبت رکھتے تھے کہ ظالم حکمرانوں کا خوف بھی اس کے اظہار میں مانع نہ ہوتا تھا ۔
لیکن کیا حضرات حسنینؓ سے اُمت کی یہ محبت اور دربار رسالت مآب میں ان کا یہ درجۂ و مقام صرف اسی وجہ سے تھا کہ یہ حضور کے نواسے تھے ؟ — یقینا یہ نسبت بھی اس محبت میں کار فرما ہے ؛ لیکن اس سے بڑھ کر حضرات حسنینؓ کا اُسوہ اور ان کا کردار ہے ، جو قیامت تک کے لئے نقشِ لافانی ہے ، حضرت ابوبکرؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ منبر اقدس پر تھے اور آپ کے پہلو میں حضرت حسنؓ تھے ، آپ ایک دفعہ لوگوں کی طرف دیکھتے اور ایک دفعہ حضرت حسنؓ کی طرف اور ارشاد فرماتے : میرا یہ بیٹا سید ( سردارِ اُمت) ہے ، اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کرائیں گے ۔ ( بخاری ، حدیث نمبر : ۳۷۴۶)
رسول اللہ اکی یہ پیشین گوئی اس وقت ظہور پذیر ہوئی جب خلیفۂ راشد سیدنا حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد اہل شام حضرت معاویہ ص کی کمان میں آگے بڑھے اور ادھر اہل حجاز اور اہل عراق حضرت حسن بن علیؓ کی قیادت میں ، عام طور پر صحابہ اور اکابر تابعین حضرت حسنؓ کے ساتھ اور ان کے موقف کے مؤید تھے اور بقول حضرت عمر و بن العاصؓ پہاڑوں کی طرح لشکرِ جرار حضرت حسنؓ کی رکاب میں تھا اور یہ ایسے جان نثار لوگ تھے ، کہ بہ ظاہر ان کا پشت دکھا کر بھاگنا ہر گز متوقع نہیں تھا ، بہ ظاہر حضرت حسنؓ کے غالب آنے کی توقع زیادہ تھی ؛ لیکن جب حضرت معاویہؓ کی طرف سے صلح کی پیشکش ہوئی ، تو حضرت حسنؓ نے اپنے بہت سے رفقاء کی مخالفت ؛ بلکہ ایک گونہ طعن و تشنیع کے باوجود اس پر لبیک کہا اور اپنا ہاتھ امیر معاویہؓ کے ہاتھ میں دیا ؛ تاکہ مسلمانوں کی خونریزی نہ ہو اور اسلامی دنیا ایک جھنڈے کے نیچے آجائے ، اس طرح وہ پیشین گوئی شرمندۂ تعبیر ہوئی جسے رسول اللہ نے آپ کے سلسلہ میں فرمائی تھی ، یہ کچھ معمولی قربانی نہیں تھی اور اس قربانی نے اسلام کی تاریخ میں حضرت حسنؓ کو ایسی عظمت عطاء کی، کہ اگر وہ پورے عالم اسلام کے متفق علیہ تاج ور بن جاتے ، تب بھی شاید ان کو یہ مقام حاصل نہ ہوا ہوتا اور لوگوں کے قلوب پر ان کی حکمرانی قائم نہ ہوئی ہوتی ۔
چنانچہ ایک بار پھر پورا عالم اسلام ایک جھنڈے کے نیچے آگیا اور ایشیا ، افریقہ اوریورپ کے مختلف علاقوں میں مسلمان فاتحانہ پیش قدمی کرنے لگے ، اس سے کوئی حقیقت پسند انکار نہیں کر سکتا ، کہ اس میں بنو امیہ کے تدبر سے زیادہ حضرت حسنؓ کے ایثار کا حصہ ہے !
حضرت حسینؓ کا یزید بن معاویہ کے مقابلہ کھڑا ہونا اس لئے نہیں تھا کہ آپ حکومت کی حرص و طمع رکھتے تھے ، حضرت حسن کو خانوادۂ نبوی سے نسبت کا جو شرف حاصل تھا ، اس پر ہزار حکومتیں قربان اور نچھاور تھیں ؛ بلکہ اصل یہ ہے کہ اسلام جس دور میں آیا ، وہ ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کا دور تھا ، اس وقت کی معلوم دنیا میں جہاں بھی چھوٹی بڑی حکومت تھی ، ان کی اساس خاندانی بادشاہت پر تھی ، اسلام نے جہاں زندگی کے دوسرے شعبوں کی اصلاح کی ، وہیں نظام سیاست کی بھی اصلاح کی اور خلافت کا تصور دیا ۔
خلافت میں دو باتیں اہمیت کی حامل ہیں ، ایک یہ کہ اس منصب کے لئے ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے ، جو اخلاق و کردار کے اعتبار سے ممتاز حیثیت کا حامل ہو ، دوسرے مسلمانوں کے ارباب ِحل و عقد نے اس کا انتخاب کیا ہو ، اسی اُصول پر حضرت ابوبکرؓ کا انتخاب ہوا ، پھر حضرت ابو بکرؓ نے اکابر صحابہ کے مشورہ سے حضرت عمرؓ کو نامزد فرمایا ، حضرت عمرؓ نے چھ رکنی کمیٹی بنادی اور ان حضرات نے عام مسلمانوں سے مشورہ اور باہمی تبادلۂ خیال کے ذریعہ حضرت عثمانؓ کا انتخاب کیا ، پھر حضرت عثمانؓ کی مظلومانہ شہادت کے بعد اہل مدینہ اور اکابر صحابہ ث نے بہ اصرار حضرت علیؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ، حضرت علیؓ سے جن صحابہ کو اختلاف تھا ، وہ حضرت عثمانؓ کے قصاص کے بارے میں تھا ، ورنہ ان کی لیاقت کے بارے میں کسی کو کلام نہیں تھا اور اس لئے علماء اہل سنت والجماعت کا اجماع ہے کہ حضرت علیؓ کی شہادت تک وہی خلیفۂ برحق تھے ، حضرت حسنؓ نے بھی آپ اپنی خلافت کا اعلان نہیں فرمایا ؛ بلکہ اس عہد کے اکابر صحابہ نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ؛ چنانچہ رسول اللہ نے جس تیس سالہ خلافت راشدہ کی پیشین گوئی فرمائی تھی ، وہ حضرت حسنؓ کے چھ ماہی عہد ِخلافت پر مکمل ہو جاتی ہے ۔
یزید کی حکمرانی سے ایک نئے طریقہ کا آغاز ہوا ، کہ بعض ایسے لوگ جو اس سلسلہ میں اسلام کے مزاج سے پوری طرح واقف نہیں تھے اوران کو براہِ راست رسول اللہ اکی صحبت حاصل نہیں تھی ، انھوں نے حضرت معاویہؓ کو باور کرایا کہ آئندہ کے لئے یزید کو خلیفہ نامزد کر دیا جائے ؛ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور اکابر صحابہؓ جو اس وقت موجود تھے ، ان کو حکمرانی کے اس نئے طریقہ سے اس قدر اختلاف تھا ، جتنا حضرت حسین کو ؛ لیکن بعض صحابہ نے فتنہ کے اندیشہ سے خاموشی اختیار کی اور بعض نے اُمت کو اختلاف سے بچانے کے لئے بہ کراہت خاطر اس تجویز کو قبول کر لیا ، اب اگر تمام صحابہ اس صورت حال پر یہی رویہ اختیار کرتے اور کسی کی طرف سے مزاحمت پیش نہ آتی ، تو آئندہ یہ بات سمجھی جاتی کہ اسلام میں خلافت علی منہاج النبوۃ کے ساتھ ساتھ عہد ِجاہلیت کی مروجہ ملوکیت کی بھی گنجائش ہے ؛ چنانچہ حضرت حسینؓ نے اس کی مزاحمت کو ضروری سمجھا ، یہاں تک کہ اپنے رفقاء اور اہل خاندان کے ساتھ نہایت ہی بے دردی سے شہید کردیئے گئے اور قاتلان حسین نے جہاں آخرت میں اپنے لئے اللہ کے عذاب اور ابدی خسران کو محفوظ کر لیا وہیں دنیا میں بھی قیامت تک کے لئے اہل ایمان کی نگاہ میں ملعون و مغضوب قرار پائے ۔
اس میں شبہ نہیں کہ حضرت حسینؓ کی یہ مہم بہ ظاہر کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی ؛ لیکن حضرت حسینص کو معنوی فتح حاصل ہوئی ؛ چنانچہ اُمت کے علماء و فقہاء اور اربابِ نظر آج اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام جس نظام حکمرانی کا داعی ہے ، وہ خلافت ہے نہ کہ خاندانی بادشاہت ، حالاںکہ مسلمانوں کی تاریخ کا بڑا حصہ اسی بادشاہت کا ہے ؛ لیکن اس کے باوجود آج اسے اسلامی فکر کے خلاف کیوں سمجھا جاتا ہے ؟ اور کیوں اس رویہ کو قبول نہیں کیا گیا ؟ یقیناً اس میں بڑا حصہ حضرت حسینؓ اور آپ کے بعد حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ کی مزاحمت اور اسی راہ میں شہادت کا ہے ، ورنہ بعد کے لوگ سمجھتے کہ اس مدت پر مسلمانوں کا اجماع و اتفاق ہو چکا ہے ۔
پس حضرت حسنؓ کا اُسوہ یہ ہے کہ اُمت کو اختلاف و انتشار سے بچانے کے لئے اپنے اقتدار کی قربانی گوارا کیا جائے اور ایثار سے کام لیا جائے اور حضرت حسینؓ کا اُسوہ یہ ہے کہ جب دین میں کوئی طاقت کمی بیشی کرنا چاہے اور اسلام کی صحیح تصویر کو مسخ کرنے کے درپے ہو تو چاہے اس کے لئے اپنی رگِ گلو کٹانی پڑے ؛ لیکن بہتر قیمت اللہ کے دین اور شریعت کی فکری سرحدوں کی حفاظت کی جائے ، آج کے حالات میں یہ دونوں نمونے اُمت کے لئے مشعلِ راہ ہیں ، اُمت کی وحدت کو برقرار رکھنے کے لئے عہدۂ و جاہ کا ایثار اور دین کی حفاظت و صیانت کے لئے اپنی جان عزیز تک کی قربانی !!
( ملت ٹائمز)