سماجی بدلاﺅ میں ہاتھ بٹاتے بچے

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
موقع ملے تو سماجی اصلاح میں بچے اہم رول اداکرسکتے ہیں۔ اس کا اندازہ تمل ناڈو کے سیلم ضلع میں بچوں سے مل کر ہوا۔ ریاست کے جن اضلاع میں نابالغ لڑکیوں کی شادی کا چلن ہے، سیلم اور دھرمپوری ان میں شامل ہیں۔ یہا ں اس طرح کی شادیاں چھتریوں اور دلتوں کے درمیان تنازعہ کی وجہ بھی بنی ہیں۔ 2011 کی مردم شماری رپورٹ میں 18 لاکھ کمسن لڑکیوں کی شادی ریکارڈ کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق سیلم ضلع میں پندرہ سال سے کم عمر کی 3.8 لاکھ لڑکیاں تھیں جن میں سے 2014نابالغ لڑکیوں کی شادی درج ہوئی۔ جنوری سے اکتوبر 2016 تک تمل ناڈو ریاست میں 1113نابالغوں کی شادیوں کا اندراج ہوا۔ ان میں113 دھرمپوری اور 107 سیلم ضلع کی ہیں۔
کم عمر ی میں شادی کا سیدھا تعلق غربت، ناخواندگی اور رسم ورواج سے ہے۔ کئی طبقات میں یہ مانا جاتا ہے کہ لڑکی کی پندرہ سولہ سال میں شادی کردینی چاہئے۔ اس سے زیادہ عمر ہونے پر لڑکی کو گھر میں رکھنا جوکھم بھرا ہوسکتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ لڑکیوں کو اقتصادی بوجھ سمجھنا اور ماحول کا غیر محفوظ ہونا ہے۔ اس کی وجہ سے ہی لڑکیوں کے استحصال، چھیڑ چھاڑ، عصمت دری اور زبردستی کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اس سے بچنے کےلئے والدین بیٹی کی شادی کرکے اپنی ذمہ داری اس کے شوہر کے ذمہ کردیتے ہیں۔ یونیسیف کی رپورٹ 2016 کا کہنا ہے کہ 18 سال سے کم عمر میں ہونے والی شادیوں میں 47 فیصد معاملے بھارت کے ہیں جبکہ 15 سال کی عمر میں ہونے والی شادیوں کی تعداد 18 فیصد ہے۔ یہ اعدادوشمار ریاست وار علاقہ کے لحاظ سے الگ ہیں۔بہار میں یہ تعداد69 فیصد ہے تو راجستھان میں 65 فیصد۔
تمل ناڈو سرکار نے چائلڈ میرج کوروکنے کےلئے چائلڈ میرج رول2009کے تحت ضلع کے سوشل ویلفیئر افسر کو چائلڈ میرج روکنے کا ذمہ دار بنایا ہے۔ خبر ملنے پر وہ اس کے خلاف کارروائی کرے گا اور شادی کو روکنے کےلئے قدم اٹھائے گا۔ چائلڈ میرج کی خبر دینے کےلئے 1098پر مفت فون کرنے کی سروس شروع کی گئی ہے۔ اس سروس میں خبر دینے والے کا نام پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔ یونیسیف انڈیا نے سرکار کے ساتھ مل کر چائلڈ میرج روکنے کےلئے کارواں مہم ستمبر2016 سے شروع کی ہے۔ اس کے تحت ” اپنی مدد آپ“ کے اصول پر نوعمروں کے گروپ بناکر 13 ضلعوں میں کام کیا جارہا ہے۔ گروپ میں 9 سے 18 سال تک کے بچے شامل ہیں۔ سیلم اور دھرمپوری میں ایسے بچوں کے 400 گروپ کام کررہے ہیں۔ ڈسٹرکٹ چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کے رضاکار ان کی نگرانی کرتے ہیں۔ ان رضاکاروں کا چودہ ہزار ماہانا تنخواہ پر تقرر کیا گیا ہے۔ اس پروگرام کو نیشنل چائلڈ لیبر پروجیکٹ کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ سیلم میں 60 اور دھرمپوری میں 340گروپ کام کررہے ہیں۔
سیلم ضلع میں تارا منگلم بلاک کے گاﺅں کراکل واڑی میں اے پی جے عبدالکلام گروپ کے بچوں سے ملنے کا موقع ملا۔ اس گروپ کا صدر 18 سال کا پربھو دیوا ہے۔ اس نے بتایا کہ گروپ میں 11 سے 18 سال کے 21 ممبر ہیں۔ وہ گاﺅں کی رضاکار سومتی کی صلاح سے بچوں اور گاﺅں کی بھلائی کےلئے کام کرتے ہیں۔ پربھو کو اس کےلئے ہفتہ بھر کی تربیت دی گئی ہے۔ ان کے گروپ کی مہینہ میں دو بار میٹنگ ہوتی ہے۔ یہ سبھی بچے اسکول جاتے ہیں۔ ان کے گاﺅں میں لائبریری نہیں تھی۔ بچے پڑھنے کےلئے کتابیں چاہتے تھے۔ پربھو دیوا کی کوشش سے بچوں کے پڑھنے کےلئے تین سو کتابیں آگئیں۔ یہ گروپ تین نابالغوں کی شادیاں رکواچکا ہے۔ پربھو نے بتایا کہ ایک 13 سال کی لڑکی کی 38 سال کے مرد کے ساتھ شادی کی خبر ملی ہم نے 1098 پر فون کر کے اس کی اطلاع دی۔ پولس نے آکر اس شادی کو رکوا دیا۔ اس لڑکی اور اس کے گھروالوں کی کونسلنگ کی گئی۔ اب وہ دسویں جماعت میں پڑھ رہی ہے۔ پربھو دیوا نے بتایا کہ پہلے والدین اپنے بچوں کو گروپ میں آنے سے روکتے تھے لیکن جب وہ مجھ سے ملے اور ہمارے کاموں کو دیکھا تو اپنے بچوں کو یہاں بھیجنے لگے۔ ہم بچوں کی پڑھائی لکھائی، کھیل کود کے ساتھ گاﺅں کی بھلائی اور انہیں استحصال سے بچانے کےلئے کام کرتے ہیں۔ گروپ میں کام کرنے سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ کس کام کےلئے کس سے بات کرنی چاہئے۔ گاﺅں میں پانی کی دقت تھی ۔ہم درخواست لکھ کر ڈی ایم صاحب سے ملے تو ہماری یہ پریشانی دور ہوگئی۔ گاﺅں کی والنٹیر سومتی نے بتایا کہ پہلے والدین سے بات کرتے تھے لیکن بعد میں بچوں کو تیار کرنے کا خیال آیا۔ بچے بڑوں کے مقابلے زیادہ بہتر طریقے سے کام کررہے ہیں۔ وہ چائلڈ میرج رکوانے کے ساتھ ہی بچہ مزدوری، بچوں کے استحصال اور ڈراپ آﺅٹ کو روکنے کا کام کرتے ہیں۔ بچوں نے کمیونٹی ٹوائلٹ کی بات بھی اٹھائی ہے۔ وہ گروپ میں ساری باتیں کھل کر کرتے ہیں۔ سومتی پر17پنچائتوں کی ذمہ داری ہے۔ انہوںنے بتایاکہ سال میں ایک مرتبہ ضلع کے سارے گروپ کارنیوال میںاکٹھا ہوتے ہیں، جہاں ایک دوسرے سے ملنے اور گاﺅں کے حالات جاننے کا موقع ملتا ہے۔ اس میں طرح طرح کے مقابلے ہوتے ہیںاور بچوںکو انعام دےئے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر بلاک اور ہر گاﺅں میں میری طرح والنٹیر موجود ہیں۔ اے پی جے عبدالکلام گروپ کے ایس پروین کمار کلاس11، مورو گیشن کلاس نو، کوکیلا کلاس10،روزا کلاس8،تلسی کلاس6 سے ملاقات ہوئی، سبھی بچوں نے گروپ کے ساتھ جڑکر کام کرنے کو اچھا تجربہ بتایا۔
بچوںکو لے کر سیلم ضلع کی پولس انتظامیہ بھی سنجیدہ ہے۔ یونیسیف کے چائلڈ پروٹیکشن کنسلٹنٹ ورون انویلو نے ان خاتون پولس تھانوں کو دکھایا جہاں”اودھیم“ پروجیکٹ کے تحت چائلڈ فرینڈلی کمرہ بنایا گیا ہے۔ اس کا مقصد بچوں کے اندر سے پولس کا خوف نکالنا بتایا گیا تاکہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی کسی بھی قسم کی زیادتی کو بلا جھجھک پولس کے ساتھ شیئر کرسکیں۔ وہ خاتون پولس تھانہ کا منفرد چہرہ نظرآیا۔ کمرے کو خوبصورت پینٹنگ سے سجایا گیا ہے۔ یہاں بچوں کے کھیلنے کے سامان سے لے کر کتابیں تک مہیا کرائی گئی ہیں۔ تھانہ کی ایک اہلکار رمنا نے بتایا کہ یہاں دو قسم کے بچے آتے ہیں۔ ایک وہ جو نامساعد حالات کے سبب براہ راست کسی جرم میں ملوث ہوجاتے ہیں اور وہ خود کسی اپنے یا باہر والے کی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ بچے تھانے پہنچتے ہیں جن کے ماں یا باپ کسی جرم کی وجہ سے پولس تھانے لائے جاتے ہیں۔رمنا نے کہا کہ جو بچے یہاں آتے ہیں ان سے ہم بغیر وردی کے سادہ لباس میں ملتے ہیں تاکہ وہ اپنی بات آسانی سے کہہ سکیں۔ اس موقع پر پولس کمشنر سنجیو کمار سے بھی ملاقات ہوئی۔ انہوںنے بتایا کہ 17پولس اہلکاروں کو بچوں سے ڈیل کرنے کےلئے خصوصی تربیت دی گئی ہے۔ یہ آبادی اور اسکولوں میں جاکر بچوں کو اچھے برے کا فرق سمجھائیںگے۔اس وقت ہر تھانہ میں کم از کم ایک پولس اہلکار ہے جو بچوں کی بہترین کاﺅنسلنگ کرسکتا ہے۔ فی الحال ضلع کے 23 اسکولوں کو منتخب کیا گیا ہے جس میں تقریباً23 ہزار بچے اس منصوبے سے فائدہ اٹھا سکیںگے۔ ان کے مطابق آئندہ سیلم ضلع کے 100 سے زائد اسکولوں کے بچوں تک پہنچنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
دھرمپوری کے پکلی گاﺅں میں بچوں کے دو گروپوں سے ملنے اور بات کرنے کا موقع ملا۔ مدر ٹریسا اور کلپنا چاولا دونوں گروپ کی صدر آرتی لکشمی اور امریتا لڑکیاں ہیں۔ گاﺅں کا آنگن واڑی مرکز ان گروپوں کی سرگرمیوں کا محور ہے۔ امریتا نے اپنی بات چیت میں بتایا کہ اسے اسکول میں ہی رضاکار ساوتری نے گروپ لیڈر بننے کو کہا تھا۔ امریتا کے گھر والے شروع میں اسے ادھر ادھر جانے سے روکتے تھے لیکن اب وہ سمجھ گئے ہیں کہ ان کی بیٹی گاﺅں کی بھلائی کا کام کررہی ہے۔اس کا کہنا تھا کہ ایک ہفتہ کی ٹریننگ میں ہمیں بتایا گیا کہ عمر کے ساتھ کس طرح کی جسم میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ اس کےلئے ہمیں کن کن باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ ٹریننگ میں پڑھائی لکھائی پر دھیان دینے کے علاوہ ڈانس، گانا، اپنے مسئلوں سے آپ کیسے نمٹیں، یہ سب سکھایاگیا۔ موبائل آنے پر جو پرانے کھیل لوگ بھولتے جارہے ہیں وہ بھی ہمیں سکھائے گئے جیسے کبڈی، رسی کودنا، لوڈو، کیرم، گھوڑا کودائی، بیڈمنٹن وغیرہ۔ کلکٹر کے یہاں ہمیں میٹنگ میں بلایا گیا تو ہم نے اپنے اسکول کی چھت ٹپکنے، ٹوائلٹ نہ ہونے کی شکایت کی۔ ہمارے گاﺅں میں کوڑے دان نہیں تھا، ہمارے گروپ کی شکایت پر وہ بھی بن گیا۔ امریتا نے کہاکہ اگر ہم بولڈ ہیں تو چھیڑ چھاڑ کرنے والوںکو سمجھا سکتے ہیں۔ ان دونوں گروپوں نے بھی گاﺅں میں کئی نابالغوں کی شادیاں رکوائی ہیں۔ امریتا کی ماں مارقہ نے بتایاکہ اب گاﺅں میں کمسن بچیوں کی شادی کا چلن کم ہو رہاہے۔ سیلم اور دھرمپوری کے تجربوں کو ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اپنایا جاسکتا ہے۔ اگربچے خود اپنی مدد آپ کے اصول پر کام کرنے میں دلچسپی لیں اور انتظامیہ ان کی مدد و رہنمائی کرے تو اس کے اچھے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ نہ صرف کمسنی کی شادیاں رکیںگی بلکہ اسکولی تعلیم میں ڈراپ آﺅٹ کا مسئلہ بھی حل ہوگا۔ بچوں میں خود اعتمادی آئے گی جو انہیں استحصال اور بچہ مزدوری سے نجات دلائے گی۔ اس طرح ملک کی ترقی میں بچے بھی اپنا روک ادا کرسکتے ہیں۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں