محمد عمران
روایت کچھ عجیب ہے، جب کوئی نفع بخش تجارت سامنے آتی ہے تو مصلحت و چاپلوسی کے مدنظر کسی مخصوص شخصیت کے سر اس کا سہرا باندھا جاتا ہے ، اور جب کسی نقصان کے سودے کی بات آتی ہے تو ایک بار پھرکسی حدتک خود غرضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرد ِواحد کواس کا ذمہ دار قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اس روایت کوصرف تجارت کے پیشے کے دائرے میں ہی سمیٹنے کی بھول ہرگز بھی نہیں کی جانی چاہئے بلکہ اس کو یوں سمجھنا چاہئے کہ اس تجارت کادائرہ اس حد تک وسیع ہے کہ جس میں اس جہانِ رنگ وبو کی ہر شئے اپنے کامل روپ میں شامل ہوتی ہے،جس میں احساسات وضروریات کے ساتھ حقوق و ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں ،اور جن سے آدمی کا براہِ راست وبلاواسطہ تعلق بھی ہوتاہے،اسی میں اس کی آدمیت بھی آتی ہے اور انسانیت بھی۔ اسی دائرے میں سیاست وحکومت بھی ہے اور معیشت و معاشرت بھی، تعلیم وتعلم کاسلسلہ بھی ہے اور شادی بیاہ کے بندھن بھی،رشتے اور ناطے بھی ہیں اورخواتین و بچوں کی محافظت بھی، غرض حقوق انسانی کا کوئی بھی گوشہ ہو اس سے باہر نہیں ہے۔ پھر بھی پتہ نہیں کیوں مذکورہ روایت ہی کو فروغ ملتاہے،اوراپنی ذات کو ذمہ داریوں کے دائرے میں لانے پرکبھی بھی غوروفکر نہیں کیا جاتاہے۔ جبکہ حقیقت تویہ ہے کہ جب اپنی ذات بھی اس کا ایک حصہ ہے تو پھر کسی بھی نہج پرہونے والے نفع ونقصان کے لئے براہِ راست یابلاواسطہ طور پراپنی ذات بھی اتنی ہی ذمہ دار قرار پاتی ہے۔
اگر ڈیرا سچا سودا میں جھوٹ اور پاپ کی کھیتی ہوتی ہے تو اس کے لئے صرف گرمیت سنگھ اور ہنی پریت کورکوہی قصوروار قراردے کر مکمل انصاف کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ان کے کالے کارناموں کے باوجود ان کو بابا اور بھگوان کے درجہ تک پہنچانے میں عوام کا بھی اتناہی ہاتھ رہا ہے اور کسی حدتک مقامی انتظامیہ کابھی، جس کی ناک کے نیچے ساری خرافات پروان چڑھتی رہی ہے اور وہ آنکھیں موندیں بیٹھی رہی ہے،اب جبکہ ان کے گناہوں کا پٹارہ کھل کر سامنے آنے لگاہے تو یہ بات بھی بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ جن لوگوں نے اندھی عقیدت کا مظاہرہ کیا تھا ،بڑی حد تک انہوں نے ہی ان کو گناہوں کے حوصلے بھی دیئے تھے، اورجو انتظامیہ ان کی گرفتاری سے اپنا دامن بچاتی رہی ہے وہ بھی بڑی حد تک ان کے قصوروں کی ذمہ دار نظر آتی ہے۔غور طلب بات ہے کہ ،پھر ایسا کیوں ہوجاتا ہے کہ اگر بابا اور بھگوان بنتاہے تو صرف وہی ،اور مجرم و قصوروار بھی قرار دیاجاتاہے تو صرف اسی کو۔
یہاں یہ فطری سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا اس طرح کی چشم پوشی سے مظالم اور جرا ئم کا سلسلہ رک جائے گا؟ شاید نہیں۔کیونکہ ایک گرمیت کے بعد پھر کوئی دوسرا گرمیت عوام کی اندھی عقیدت اور انتظامیہ کا فائدہ اٹھاکر نئے انداز میں جرائم کو انجام دے گااور نئے بابا و نئے بھگوان کے عہدے پر فائز ہوجائے گا۔اس لئے یہ سمجھنا چاہئے کہ زمینی سطح پر جرائم کوپنپنے دینے سے روکنے کے لئے مناسب اور بروقت اقدام کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔جس کے لئے یقینی طورپر ہرایک فرد کواپنی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی،اورکسی حادثہ وسانحہ کے انجام پانے سے قبل ہی اس کو ہوشیاربھی رہناہوگا۔ اور بڑی ذمہ داری سے یہ سمجھنا بھی ہوگا کہ ’درگھٹنا سے سترکتا بھلی‘ کا نعرہ صرف ٹریفک کے نظام پر ہی نافذ نہیں ہوتاہے بلکہ وہ زندگی میںہر ڈھب اور ہرنہج کے انفرادی و اجتماعی شعبوں میں بھی نافذالعمل ہوتاہے۔
ماہرین مانتے ہیں کہ گزشتہ کچھ برسوں سے ملک کے حالات کافی ناگفتہ بہ ہیں۔عوام مشکلات کے شکار ہیں۔ ایک غیراعلانیہ ایمرجنسی سے ہرشخص دوچار ہے، مہنگائی کی مارہے،ہرشخص بے قرار ہے لیکن مجبوری وبے بسی کی وجہ سے خاموشی ہی اس کاشعار ہے۔ اور اس کے لئے کسی حد تک وہ خود بھی ذمہ دارہے۔ آج ملک کے جس گوشے پربھی نظر ڈالیئے عجیب وغریب قسم کے حالات نظر آتے ہیں۔تعلیمی ادارے میں بھی خاص نظریات کو فروغ دینے کی کوشش ہوتی ہے ،جے این یو میں ہنگامہ آرائی ہوتی ہے اور بنارس ہندویونیورسٹی میں بیٹیوں کو ظلم وزیادتی کا شکار بنایاجاتاہے،ان کے ساتھ درندوں اور وحشیوں جیسا سلوک کیا جاتاہے۔احتجاج کرنے پرمردانہ پولیس کو طالبات پر وار کرنے اور انہیں گرفتار کرنے کے لئے تیار کیاجاتاہے،ان کی عزت وآبرو کی حفاظت کی مانگیں ہی ان پر حملے کی وجہ بن جاتی ہیں۔یونیورسٹی کاسارا عملہ تماشائی بن کر کھڑا نظر آتاہے۔وائس چانسلر کے بیانات اور ان کے کام کرنے کے انداز بھی بیٹی بچاو ¿ اور بیٹی پڑھاؤ کے نعرے کو جھٹلاتے دکھائی دیتے ہیں۔تمام احتجاج کے بعد ایک افسر کو تبدیل کیاجاتاہے اور وائس چانسلر کوچھٹی پربھیج دیاجاتاہے۔حالات کی سنگینی پھربھی برقرار ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔
بلاشبہ مخصوص نظریات کوفروغ دینا بھی اس کی ایک وجہ ہوسکتی ہے لیکن اس کے لئے اگرصرف افسران کوذمہ دار قرار دیاجائے اور چین کاسانس لے لیاجائے توشاید یہ مناسب نہیں ہوگا، کیونکہ جن کی عادت طالبات کی حرمتوں کی پروا کرنے کی نہیں ہے اور جوافسران کے خوف سے اپنی کھلی آنکھوں کے سامنے جنسی زیادتی کو انجام دینے کاموقع فراہم کرتے ہیں ان کی عادتوں میں پھربھی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔وہ مظالم کواپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے دیکھیں گے اور خاموش ہی رہیں گے۔غور طلب بات ہے کی ذمہ داران اور عہدے داران تویقینی طور پر براہِ راست اس کے لئے جوابدہ ہوتے ہی ہیں لیکن جو دیگر کارکنان اپنی آنکھوں کے سامنے چھیڑخانی کوہوتے دیکھتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں وہ بھی اس کے لئے کچھ کم ذمہ دار اور قصوروار نہیں ہیں۔ اگروہ اس بربریت کے خلاف آواز اٹھائیں گے اور تحفظ دینے کے لئے آگے آئیں گے توشاید ایسے مذموم سانحات کبھی بھی انجام نہیں پاسکیں گے،اور کسی بھی نظریے کو زبردستی کسی پر تھوپنے کے لئے مخصوص قسم کے عہدے داران کو بھی آگے پیچھے بہت کچھ سوچناپڑے گا۔
بلاشبہ جمہوری حکومت کی تشکیل عوام کی فلاح وبہبود اور ملک کو مضبوطی دینے کے لئے ہی ہوتی ہے۔لیکن سابق وزیر خزانہ اور بی جے پی کے اعلیٰ رہنما یشونت سنہا نے جب اپنی ہی پارٹی کی حکومت کی پالیسی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے اور ملک کی معیشت کی تباہ کن حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک اخبار کے لئے اپنامضمون لکھااور وہ شائع ہوا تو ملک میں سیاسی ابال آگیا۔حزب اختلاف کی جماعتوں نے جہاں ان کی تائید کی وہیں اقتدار کے وزراءحکومت کی پالیسیوں کی حمایت میں آگے آئے۔ مضمون میں ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور غربت میں ہونے والے اضافے کے لئے حکومت کو ذمہ دار بتایاگیاہے۔اس سلسلے میںکسی حدتک یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ نوٹ بندی کا فیصلہ ایک خام فیصلہ تھا ،عجلت میں لیاگیاتھا اور یہ بھی معیشت کے نظام کو بدتر کرنے میں معاون ثابت ہوا ہے۔اورعوام کی پریشانیوں کاسبب بناہے۔اس کے ساتھ ہی جی ایس ٹی کے نفاذ پر بھی نکتہ چینی کی گئی ہے اور اس کو براہِ راست ملک کی معیشت کو متاثر کرنے والا بتایاگیاہے۔بحث ومباحثے کے دوران یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ صرف کسان اور تاجر ہی اس سے متاثر نہیں ہیں بلکہ ہروہ فرد متاثر ہے جواپنی محنت اور لگن سے ملک کی معیشت کو بہتر کرنے میں معاون بنتاہے۔یشونت سنہاکی تائید میں شتروگھن سنہا اور دیگر سیاسی رہنمابھی آگے آئے ہیں۔بلاشبہ انہوں نے شدت سے درد کومحسوس کیا ہے تبھی بولنے پربھی آمادہ ہوئے ہیں۔اب اس کاانجام کیا ہوگا،اور حکومت اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائے گی یانہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
حکومت کی معاشی پالیسیوں پر بیرون ملک کے اخبارات میں بھی تبصرے شائع ہوئے ہیں ،اور حکومت کے نقطہ نظر پر کسی حد تک تشویش اور فکرمندی کااظہار کیا گیاہے۔چین میں شائع ہونے والے اخبار گلوبل ٹائمز نے حکومت کی اقتصادی پالیسی پر دوہرا رویہ اپنانے اور اس کے قول وفعل میں تضاد ہونے کاالزام عائد کیا ہے،روزنامہ فارچیون نے لکھا ہے کہ بی جے پی کے دماغ میں کون سی معیشت ہے اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے۔دی اکنامسٹ میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ خود کو بڑا اصلاح کار دکھانے کی کوشش ضرور کی جارہی ہے لیکن اس کا حقیقت سے اتنا گہرا تعلق نہیں ہے۔بلوم برگ کے مطابق بھارت کی کرنسی اور بانڈ مارکیٹ پر پریشانی کے بادل منڈلارہے ہیں،غیرملکی بازار سے اپناپیسہ واپس نکال رہے ہیں اور بھارت کے بازار پر لوگوں کے اعتماد میں کمی آرہی ہے اور اس سے معیشت میں مزید گراوٹ کااندیشہ ہے اور آنے والے وقت میں روپیہ ڈالر کے مقابلے مزید کمزور ہوسکتاہے۔
یاد کیجئے،اس سے قبل اندرون ملک بھی ماہرین نے موجودہ حکومت کی معیشت کی پالیسی پر سخت نکتہ چینی کی تھی اور اس کو ملک میں غربت میں اضافہ کرنے والا قرار دیاتھا۔لیکن تب ان کی باتوں کواتنی سنجیدگی سے قومی میڈیا میں بھی نہیں لیاگیاتھااور حکومت بھی ان کی کسی بات کاجواب دینے کے لئے مجبور نہیں ہوئی تھی۔ آج یشونت سنہا کے میدان میں آجانے سے اس کی کچھ شکل دکھائی دے رہی ہے تو حزب مخالف کے منہ میں بھی زبان آگئی ہے۔ عوام بھی کسی حد تک اپنا غصہ ظاہر کرنے کے لئے آگے آنے لگے ہیں۔
لیکن سوال ابھی بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ جمہوری حکومت میں عوام اور حزب اختلاف کی جماعتیں ہی جب حکومت کی غلط پالیسیوں کی درستگی کے لئے صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں اور حکومت ان کی باتوں کو اہمیت دینے کے لئے مجبور ہوتی ہے۔ تو پھر اب تک حزب اختلاف نے اپنی ان ذمہ داریوں کوکیوں نہیں نبھایا تھا،عوام اپنی پریشانیوں کو لے کر جمہوری طریقے سے سڑکوں پر کیوں نہیں آئے تھے؟ حکومت تشکیل دینا تو عوام کاکام ہوتا ہے توعوام اپنے ووٹ کی قیمت سے اپنی خوشحالی کیوں نہیں خریدتے؟ جذباتی نعروں اور متعصبانہ پالیسیوں کی بنیاد پر اپنے قیمتی ووٹوں کو ان لوگوں کے سپرد کیوں کردیتے ہیں جو ان کو قریب سے غریبی دکھانے پر کمربستہ ہوتے ہیں؟اورجوانہیں مذہب اور ذات کی تفریق کی بنیاد پر تقسیم کرکے کمزور کردیتے ہیں اور ان کی قوت کو اپنی طاقت بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس حوالے سے یہاں ماہرین کی اس بات کو توتسلیم کرنا ہی پڑے گا کہ موجودہ سنگین صورتحال کے لئے ذمہ داران ،عہدے داران اور اہل اقتدار کے ساتھ ہی ہم سب بھی کسی نہ کسی حدتک ذمہ دار ہیں۔
mohd1970imran@gmail.com