آسام کے ریٹا ئرڈ مسلم فوجی افسر کو شہریت ثابت کرنے کا فرمان جاری کرنا انتہائی افسوسناک: مولانا بدرالدین اجمل

آسام کے مسلمانوں پر غیر ملکی ہونے کا الزام لگا کرہراساں کرنے کی ایک مثال

مرکز المعارف کے روح رواں مولانا بدرالدین اجمل صاحب

نئی دہلی/ گوہاٹی(ملت ٹائمزپریس ریلیز)
آل انڈےا ےونائیٹےڈ ڈےمو کرےٹک فرنٹ کے قومی صدر ، رکن پارلےمنٹ اور جمعیة علماءہند صوبہ آسام کے صدرمولانا بدر الدین اجمل قاسمی نے آسام سرکار کے ذریعہ ہندوستانی فوج مےں ۰۳،سال اپنی خدمات دےنے والے آسام کے ریٹائرڈ مسلم آفیسر اجمل حق کو اپنی شہریت ثابت کرنے کافرمان جاری کئے جانے کو انتہائی افسوسناک اور شرمناک قرار دےا۔ ےہ اےک فوجی کی تیس سالہ خدمات کی توہین اور اس کے وقار کو مجروح کرنے والا فرمان ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔جمعیة علماءہند صوبہ آسام کی لیگل ٹیم اس پورے معاملہ کی تحقیق کے ساتھ ہر طرح کی قانونی امداد مہےا کراکر انہےں انصاف دلانے اور ان کے وقار کی بحالی کی کوشش کرے گی۔ مولانا نے کہا کہ معلوم ہو کہ اس سے پہلے اجمل حق کی اہلیہ کو بھی مشتبہ ووٹروں کی فہرست مےں شامل کرکے اسے اپنی شہریت ثابت کرنے کا حکم دےا گےا تھا اور ۲۱۰۲ مےں تمام دستاوےز کی جانچ کے بعد ان کے خلاف نوٹس کو واپس لےا گےا تھا اور انہےں ہندوستانی شہری قرار دےا گےا تھا۔ مولانا نے کہا کہ ےقینا ریٹائرڈ مسلم آفیسر اجمل حق کے پاس وہ تمام دستاوےز موجود ہوں گے جو ان کی شہریت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہوگی اور انشاءاللہ وہ ثابت بھی ہوجائےگی مگر اس واقعہ سے اس بات کا اندازہ لگاےا جا سکتا ہے کہ جب ہندوستانی فوج مےں اےک طویل مدت تک خدمات انجام دےنے والے اےک مسلم آفیسر کو غےر ملکی قرار دےنے کی کوشش ہوتی ہو تو پھر آسام کے عام مسلمانوں کو غےر ملکی کے نام پر کس قدر ہراساں کےا جاتا ہوگا۔ مولانا نے کہا کہ جمعیة علماءہند کے صدر مولانا قاری عثمان منصور پوری اور جنرل سےکرےٹری مولانا سےدمحمود اسعد مدنی کی ہداےت پر جمعیة علماءہند صوبہ آسام مےری نگرانی مےں آسام کے مسلمانوں کے خلاف ہونے والی اسی طرح کی نا انصافی کے خلاف برسوں سے ڈسٹرکٹ کورٹ، ہائی کورٹ اور سپرےم کورٹ مےں درجنوں مقدمات لڑ رہے ہےں اور بہت سے مقدمات مےں ہمےں کامےابی بھی ملی ہے۔مولانا نے کہا کہ ےہ اےک المیہ ہے کہ اےک طرف ہندوستان کی سرکار قانون لاکر بنگلہ دےش، افغانستان، پاکستان وغےرہ سے کئی لاکھ غےر مسلموںکو ہندوستانی شہریت دےنے کی کوشش مےں لگی ہے اور دوسری طرف ہندوستان کے Genuine شہرےوں کو صرف مسلمان ہونے کی بنےاد پر غےر ملکی قرار دےکر ےہاں سے نکالنے کی سازش کر رہی ہے۔مولانا نے کہا کہ ہمارا موقف ہے کہ کوئی بھی غےر ملکی غےر قانونی طریقہ سے ہندوستان مےں قےام پذیر ہے تو اسے فورا نکالنا چاہئے مگر کسی بھیGenuine شہری کو مسلمان ہونے کی بنےاد پر پرےشان کےا جانا قابل مذمت ہے ۔انہوں نے کہا کہ آسام کے لوگوں کی شہریت کا فےصلہ آسام اکورڈ کے مطابق ۵۲، مارچ ۱۷۹۱ کو بنےاد مان کر کےا جانا چاہئے اور اس تاریخ سے پہلے آنے والوں کو ہندوستانی اور اس کے بعد آنے والوں کو غےر ملکی قرار دےا جائے۔ مولانا نے کہا کہ آسام مےں بی جے پی کی حکومت کے بر سر اقتداآنے کے بعد اےک سازش کے تحت لاکھوں Genuine لوگوں کو نوٹس بھےج کر انہےں اپنی شہریت ثابت کرنے کا فرمان جاری کےا جا رہاہے ان مےں وہ لوگ بھی شامل ہےں جن کوعدالت ےا ٹریبو نل برائے غےر ملکی نے دستاویز کی بنےاد پر غےر ملکی ہونے کے الزام سے بری کر دےا ہے مگر دوبارہ سے ان سب لوگوں کو ہراساں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔مولانا نے کہا کہ جن مسلمانوں کو مشتبہ ووٹر قرار دےا جا رہا ہے ان مےں عورتےں اور بچے بھی شامل ہےں جنہےں راتوں رات گھر سے اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے اور پھر انہےںdetention camp مےں رکھا جاتا ہے ، متا¿ثرین کے گھر والوں کو ان سے ملنے کی اجازت بھی نہےں ہوتی ہے۔

مولانا نے بطور مثال کہا کہ نومبر ۶۱۰۲، مےں آسام کے گوالپارہ کی رہنے والی مرضینہ بےگم کو پولس نے غےر ملکی قرار دےکر گرفتار کر لےا، جمعیة علماءہند صوبہ آسام نے اس کے لئے مقدمہ لڑا جس کے نتیجہ مےں۱۱، جولائی ۷۱۰۲ کو گوہاٹی ہائی کورٹ نے انہےں غےر ملکی ہونے کے الزام سے باعزت بری کر دےا۔ اس طرح کے بہت سے لوگ ہےں جن کے مقدمات کی ہم پےروی کر کے انہےں انصاف دلانے کی کوشش کررہے ہےں۔ آسام کے مسلمانوں کے غےر ملکی قرار دےنے کی سازش کوئی نئی نہےں ہے مگر سپرےم کورٹ کی زےر نگرانی قومی رجسٹر برائے شہریت (NRC )کی تےاری کے ساتھ ہی ان سازشوں کا پر دہ فاش ہونا شروع ہو گےا ہے کےوں کہ لاکھوں مسلمانوں کو غےر ملکی ہونے کا طعنہ دےنے والوں کو معلوم ہونا شروع ہو گےا کہ ان کا دعوی جھوٹ پر مبنی ہے، اس لئے آسام کی موجودہ سرکار مےں آسام کے مسلمانوں کے خلاف نئی نئی سازشےں رچی جا رہی ہےں۔مولانا نے کہا کہ قومی رجسٹر برائے شہریت مےں اندراج کے لئے پنچاےت سرٹیفکٹ کو بھی اس وقت کی آسام سرکار،رجسٹرار جنرل آف انڈےا اور سپرےم کورٹ کے ذریعہ اےک ڈوکومنٹ تسلیم کےا گےا تھا مگر کچھ شرپسندوں نے حقیقت کو توڑ مروڑ کر پےش کےا جس کے نتیجہ مےں۸۲، فروری ۷۰۱۲ کو گوہاٹی ہائی کورٹ نے پنچاےت سرٹیفیکٹ کو Invalid قرار دےا جس نے تقریبا 48 لاکھ لوگوں کی شہریت پر تلوار لٹک گئی ۔بہر حال ہم لوگوں نے سپرےم کورٹ مےں اس کے خلاف پٹیشن داخل کےا اور ملک کے نامور وکلاءکی کی خدمات حاصل کرکے ان 48 لاکھ لوگوں کے حق کے لئے لڑ رہے ہےں اور انشا ءاللہ ہمےں کامےابی ملے گی۔